متفرق شعراء
اے فضلِ عمر
اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ
بتلا ہی نہیں سکتا میرا فکرِ سخندانہ
ہر روز تو تجھ جیسے انسان نہیں لاتی
یہ گردشِ روزانہ یہ گردش دورانہ
ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں پائیں تو کہاں پائیں
سلطانِ بیاں تیرا اندازِ خطیبانہ
دکھ درد کے ماروں کو سینے سے لگاتا تھا
تو سوچتا ہی نہ تھا اپنا ہے یا بیگانہ
قدرت نے جنہیں بخشا اک نورِ یقیں محکم
ہائے وہ تیری آنکھیں وہ نرگسِ مستانہ
ہاں علم و عمل میں تھا اک پیکر عظمت تُو
قرآن کا شیدائی اللہ کا دیوانہ
اسلام کی مشعل کو دنیا میں کیا روشن
اور تُو نے اجاگر کی سرگرمیٔ فرزانہ
ہمدم ہے جواں اب بھی ربوہ کی فضاؤں میں
وہ روحِ بزرگانہ وہ شفقتِ پدرانہ
عابدؔ ہے دعا میری محمود کے مقصد کو
دنیا میں ملے جلدی اک نصرتِ شاہانہ
اے فضلِ عمر تیرے اوصافِ کریمانہ
یاد آکے بناتے ہیں ہر روح کو دیوانہ