پسر موعود
بارگاہِ ایزدی میں مہدیٔ آخر زماں
گڑگڑائے عظمت اسلام ہو یا رب عیاں
تھی نِدا غیبی ملے گا تجھ کو رحمت کا نشاں
ایک بیٹا یعنی تقدیسِ حَرم کا پاسباں
گھر میں عیسیٰ کے ہوا پیدا وہی موعود دیکھ!
حاملِ اوصافِ کامِل طفلِ نومولود دیکھ!
جس کی منزل آسمانوں سے پرے مقصود ہے
جس کے بازو میں کوئی پروازِ لامحدود ہے
بُت کدہ جس کی نگاہوں نے کیا نابود ہے
غزنوی محمود سے بڑھ کر مِرا محمود ہے
جس نے ہے یاجوج اور ماجوج کو پسپا کیا
ایستادہ جس کی ہیں تائید میں ارض و سما
اے بشیرالدین ، اے محمود ، اے فضل عمر!
تُو ہے اسمِ با مسمّٰی اے ہمارے راہبر!
ہے مقابل دشمنِ دیں کے تُو مثلِ شیرِ نر!
ہو گئے ایوانِ باطل آج پھر زیر و زبر
بوم کتنی دیر ٹھہرے گا ہُما کے سامنے!
سر تو جھکوا دے گا شیطاں کا خدا کے سامنے
کس قدر حق نے عطا کی ہے تجھے عقلِ سلیم
دم بخود ہیں تیرے آگے آج یونانی حکیم
باغِ ہستی میں ہے تیری موجِ دَم بادِ نسیم
آرزوئے دید ہے تجھ کو سَدا مِثل کلیم
ہے تجلّی نُور کی یہ پیکرِ خاکی تِرا
مظہرِ قدرت ہے تُو انداز اَفلاکی تِرا
سازِ فطرت تُو بجاتا ہے عجب انداز سے!
زیروبم میں نے لئے ہیں تیرے سوز و ساز سے!
ہائے دشمن ہیں کہاں واقف بھلا اِس راز سے!
مُردے زندہ ہو گئے تیرے لَبِ اعجاز سے!
نکتہ چیں کوتہ نظر دیکھے گا کیا پَرواز کو؟
اَہلِ دل ہی جانتے ہیں تیرے دل کے راز کو!