تحریکِ آزادیٔ ہند کا فتح نصیب جرنیل
’’وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا‘‘
مشہور دیوبندی مولوی جناب ابوالحسن ندوی صاحب نے حضرت سید احمدؒ شہید بالاکوٹ کی سوانح عمری پر قلم اُٹھایااور تمہیدی کلمہ …’’ بدقسمتی سے ہندوستان میں اسلام ایران و افغانستان کا چکر کاٹ کر پہنچا اور راستے میں اپنی بہت سی تازگی اور زندگی کھو کر ،یہاں کا اسلام سیکنڈ ہینڈ تھا‘‘… کی ادائیگی کے بعد دو باتیں اَور خاص طور پر تحریر کیں۔ پہلی تو یہ کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں اللہ تعالیٰ دو شخصوں کو پیدا نہ کرتا اور ان سے اپنے دین کی دستگیری نہ فرماتا تو تیرھویں صدی تک یا تو اسلام ہندوستان سے بالکل فنا ہو جاتا یا اتنا بگڑ جاتا جتنا ہندو مذہب۔ یہ دو بزرگ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ہیں۔ اور دوسری بات ان کا امت سے یہ گلہ تھاکہ قوم نے حضرت شاہ ولی اللہ کے جانشین اور آزادیٔ ہند کے ہیرو حضرت سید احمد شہیدؒکی قدر نہیں کی، ان کا رتبہ نہیں پہچانا اور انہیں تاریخ کا مظلوم ترین ہیرو قرار دیا۔ (سیرت سید احمد شہید مصنفہ سید ابوالحسن ندوی از مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو خلاصہ 24 تا 74)
تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناطے خاکسار کے خیال میں مصنف کتاب ہذا کا تمہیدی کلمہ اور گزارشات اگر تاریخ آزادیٔ برصغیر کے ہیروز سے نا انصافی نہیں تو تاریخ کا نامکمل ایڈیشن ضرور ہیں۔ چودھویں صدی میں کھڑے ہو کر تیرھویں صدی کے اسلامی ہیروز کاذکر کرتے ہوئے چودھویں صدی کے اسلام اور مسلمانوں کی مدافعت کے ’’فتح نصیب جرنیل‘‘ اور ان کے خلفاء کو تحریک آزادی کی صف سے منہا کرنے کی کوشش کرنا ایک مؤرخ کے شایان شان نہیں ۔ تاریخ کو نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی چھپایا جا سکتا ہے۔
بزرگانِ اہلحدیث بھی آپ سے ایسی ہی کسی وجہ سے ناراض نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جناب الشیخ عبد المحسن العباد صاحب سابق وائس چانسلر جامعۃ الاسلامیہ مدینہ منورہ نے ’’علمائے نجد پر رفاعی کے اعتراضات کی دینی و شرعی حیثیت‘‘ بیان کرتے ہوئے کچھ گل فشانی کی تھی! بہر کیف تاریخ کا مطالعہ ہر گروہ اور ہر جماعت کے کردار اور افکار کو سامنے لے آتا ہے۔ اور اتنا تبصرہ کافی و شافی معلوم ہوتا ہے۔
تاریخ سے بے خبر کچھ لوگ آج بھی آنحضور ﷺ کے عاشق صادق، امام الزمان، مہدی دوراں مسیح پاک علیہ السلام انکے خلفائے عظام اور جماعت احمدیہ پر اس قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ
’’قادیانیوں نے تقسیم بھارت کے خلاف ہر لمحہ انگریزوں اور کانگریس کے موقف کی ترجمانی کی‘‘۔
(’’قادیانیت ہماری نظر میں‘‘ محمد متین خالد سکالر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت روزنامہ شمال 13اپریل94ء قسط85 ایبٹ اباد )
’’مرزائی تقسیم کے مخالف تھے وہ انگریزوںکا جانشین بننا چاہتے تھے جب پاکستان کا دھندلا سا خواب مستقبل میں حقیقت کا روپ دھارتا نظر آیا تو وہ گو مگو کی پالیسی میں تھے۔‘‘
(ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں صفحہ8 مصنفہ مولوی منظور احمد چنیوٹی)
’’قادیانی جماعت روز اول سے ہی تحریک آزادی اور آخر میں تحریک پاکستان کی شدید مخالف رہی‘‘۔
(محمد فاروق سکالر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت روزنامہ اوصاف 15مارچ 1987ء)
’’تحریک آزادی کو روکنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی نے پچاسوں کتابیں لکھیں‘‘
(اداریہ ہفت روزہ ختم نبوت7تا13اگست98ء)
تحریک آزادیٔ پاکستان کے ابتدائی مراحل سے لے کر یوم آزادی تک جماعت احمدیہ کی زمام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں تھی آپؓ نے جس بہادری، اولوالعزمی اور بیدار مغزی سے پوری قوم کی سیاسی، اخلاقی، افرادی، مالی اور روحانی راہنمائی کی اس کے مخالفین و موافقین یکسر معترفہیں۔ اس موقع پر خاکسار نے صرف تین موقعوں کا انتخاب کیا ہے اور بلا شبہ جو بھی تاریخ کے ان ا ہم ترین سنگ میل پر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ کےسیاسی تدبر کا مطالعہ کرے گا تاریخ کے اس عظیم سپوت کے بارے بے اختیار کہہ اُٹھے گا:
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
کرپس مشن کی ناکامی اور حضرت مصلح موعودؓ کا انگلستان اور ہندوستان میں صلح کرانے کا مشن
1945ء کا سال ہندوستان کے سیاسی مطلع پر ایک نہایت مایوس کُن ماحول میں طلوع ہوا۔ آزادیٔ ہند کے تعلق میں کرپس مشن 1942ء (جسے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کردیا تھا) کی ناکامی کے بعد ہندوستان اور انگلستان کے درمیان زبردست تعطل پیدا ہو چکا تھا۔ لارڈ ویول جو کرپس مشن کی آمد کے وقت ہندوستان کی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے اب وائسرائے کے عہدے پر متمکن ہو چکے تھے۔ یہ صاحب ہندوستانی آزادی کے عموماََ اور تحریک پاکستان کے خصوصاََ بہت مخالف سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے 14 دسمبر 1944ءکو بیان دیا کہ ’’ اگر ہندوستان سیاسی اختلافات کے بخار میں مبتلا رہا تو ہندوستان ایک بہترین موقع کھو دے گا‘‘۔ ( قائد اعظم اور ان کا عہد ص 344 مصنفہ رئیس احمد جعفری) جب حالات اس حد تک مایوسی کے اندھیروں میں چھپتے نظر آ رہے تھے مسلمانوں کے سچے خیر خواہ حضرت مصلح موعودؓ نے 12 جنوری 1945ء کو مسجد اقصیٰ قادیان کے منبر سے تحریک فرمائی کہ انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کرنا چاہیے اور آپس میں صلح کرنی چاہیے۔تاکہ یہ ڈیڈ لاک ختم ہو اور قوم کی گاڑی ایک دفعہ پھر سے آزادی کی منزل کی طرف روانہ ہو سکے۔ آپؓ ایک طرف اس ڈیڈلاک کو ختم کرانے کے لئے دعائوں میں لگ گئے تودوسری طرف لندن میں موجود امام مسجد لندن حضرت مولاناجلال الدین شمس صاحب کو فوری فعال ہونے کی ہدایات فرمادیں۔ چنانچہ امام صاحب نے فوری طور پر اس عظیم تحریک پر مبنی خطبہ کے ضروری اقتباسات کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے لندن سے شائع کردیا اور اگلے چند دنوں میں اسےبرطانیہ کے وزراء اور دارالعوام اور دارالامراء کے 600 ممبران کے علاوہ دیگر عمائدین و اکابرین کو بھی پہنچادیا ۔جس پر سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا۔ارل لسٹوول، پارلیمینٹری انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا ۔ سر جان وارڈ لاملن رکن پارلیمنٹ۔لارڈ لنلتھگو سابق گورنر جنرل و وائسرائے ہند جیسے بہت سے مدبرین نے تحریری شکریہ ادا کیا ۔انگلستان کے علاوہ گورنر مشرقی افریقہ سر فلپ مچل کی تحریک پر چودھری محمد شریف صاحب بی اے نے مشرقی افریقہ کے ریڈیو سے حضور کے اس خطبہ کا خلاصہ نشر کیا۔ ( الفضل 6 ستمبر 1945 ء)
آپؓ کی دعا ئوںسے اللہ نے عجیب شان دکھائی کہ مسبب الاسباب خدا نے غیب سے آپؓ کی اس تحریک کو انگلستان کے معتبر ترین حلقوں تک پہنچانے کا انتظام فرمادیا۔ وہ اس طرح سے کہ حکومت ہند نے احمدیت کے مایہ ناز سپوت حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کو جو اُن دنوں ہندوستان کی فیڈرل کور ٹ کے جج تھے کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستان کے سرکاری وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان بھجوایا۔ 17؍ فروری 1945ء کو چیتھم ہائوس میں کانفرنس کا افتتاح ہوا جس میں آپؓنے خطاب فرمایا۔آپؓنے حضرت مصلح موعود ؓ کے خطبہ میں بیان کردہ قیمتی نکات کو نہایت عمدگی سے اپنے الفاظمیں انگلستان کے اہم ترین فورم پر حکومت کے سامنے رکھ دیا۔اور ایسے پُر شوکت انداز میں پیش کیا کہ پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔چنانچہ انگلستان کے تمام بڑے اخبارات میں سرکردہ لیڈروں نے اس تقریر کے خلاف یا حق میں مضامین لکھے۔ اس طرح سے تھوڑے ہی دنوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی آواز ہندوستان سے لے کر امریکہ تک گونجنے لگی۔یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ ہندوستان کاسارا مسلم اور غیر مسلم میڈیا خوشی سے جھوم اُٹھا۔ اورتہنیتی پیغامات کی بھر مار کردی۔
چونکہ برطانوی ہند کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ حکومت کے سربر آوردہ نمائندہ نے ہندوستانیوں کے سیاسی اور ملکی جذبات کی ترجمانی کا فرض اس جرأت اور بے باکی سے ادا کیا تھا کہ ملک کے تمام ہندو اور مسلم پریس نے بکثرت تعریفی مضامین شائع کیے۔حضرت چودھری صاحبؓ نے واپس آنے سے قبل برطانیہ کے متعدد فورمز پر اسی تقریر کو دہرایا اور اخبارات میں مضامین بھی لکھے۔آپؓ کی ان تقاریر کا اثر برطانیہ کے عوامی اور صحافتی حلقوں سے بڑھ کر خود برطانوی حکومت پر ہوا اور فوری طور پر حضرت چوہدری صاحب کی نئی تجویز کے پیش نظر لارڈ ویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا کلیہ تجویز کرنے اور ہندوستان کو مصالحت کی پیشکش کرنے کے لئے لندن طلب کر لیا گیا۔
یوں تحریک آزادیٔ ہند کا یہ مشکل مرحلہحضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی روشنی میں آپؓ کی شبانہ روز دعائوں اور فراست سے بھری حکمت عملی سے طے ہوگیا۔ سرد مہری کی برف پگھل گئی اور کرپس مشن کی ناکامی کے بعد سے رکی ہوئی گاڑی ا یک دفعہ پھر سے ٹریک پر چڑ ھ گئی۔ وائسرائے کو انڈیا سے برطانیہ بلا لیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد ملک آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہو گیا۔ آپ کی یہ خدمت برصغیر کی آنے والی نسلوں کو یقیناََ آپ کا احسان مند رکھے گی۔
ویول سکیم ۔شملہ کانفرنس اور حضرت مصلح موعود ؓ کا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش
لارڈ ویول وائسرائے ہند برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچل اور کابینہ کے ارکان سے مشورہ کے لئے تقریباََ 10 ہفتے انگلستان میں رہے۔ اور 5؍جون 1945ءکو واپس ہندوستان پہنچے ۔ آپ نے 14 جون 1945ء کو شام آٹھ بجے آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن سے تقریر کی اور پبلک کے سامنے وہ تجاویز پیش کیں جو انگلستان سے اس تعطل کو دور کرنے کے لئے لے کر آئے تھے۔اور ساتھ ہی 24 جون سے تمام سربرآوردہ لیڈروں کو شملہ میں میٹنگ کے لئے طلب کر لیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے شملہ میں شروع ہونے والی اس کانفرنس سے 2 دن قبل 22؍ جون 1945ء کو قادیان میں خطبہ جمعہ کے ذریعہ اس تعطل کے بعد دوبارہ سے پیدا ہونے والی اس امید کی کرن کی افادیت ،نزاکت ،خطرے اور اس کے بارہ میں حکمت عملی پر مبنی ایک تفصیلی ہدایت بیان فرمائی۔اس پورے خطبہ کو اگلے ہی دن الفضل میں شائع کردیا گیا۔ اور ساتھ ہی اس کا انگریزی ترجمہ کرکے بھی چھاپ دیا گیا۔ اس انگریزی ترجمہ کے ساتھ الفضل کے نمائندہ خصوصی شیخ رحمت اللہ صاحب شملہ پہنچ گئے اور اس پیغام کو مولا نا ابوالکلام آزاد صدر آل انڈیا کانگریس ، جناب محمد علی جناح صدرآل انڈیا مسلم لیگ ۔ مسٹر گاندھی۔ ڈاکٹر خاں صاحب، مسٹر امام حسین،میاں افتخار الدین،پنڈت گوبندولبھ نیت، شری کرشن شہا اور دوسرے بہت سے سیاسی لیڈروں تک پہنچا دیا۔
حضورؓ کے اسی خطبہ کا ذکر کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا تھاکہ
’’اب خلیفہ قادیان کا مسلک بھی سننے کا قابل ہے۔خلیفہ قادیان نےحکومت کی جدید سکیم کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئےخطبہ جمعہ میں ہندوستانیوں کی ذلت کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ پڑھنے اور سننے کے قابل ہے آپؓ نے لیڈروں کو اتفاق کرکے کام کرنے کا مشورہ دیا ہے (اور آگے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ جمعہ سے اقتباس دے کر لکھا۔ناقل)یہ الفاظ کس جرات اور حیرت کا ثبوت دے رہے ہیں …چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا ۔‘‘
(اخبار اہل حدیث امرتسر 6 جولائی 1945 ء)
ان سیاسی لیڈروں کی کانفرنس 24 جون سے 14 جولائی 1945ء تک جاری رہی۔مذاکرات کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح کانگریسی لیڈر مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کرکے کوئی آبرو مندانہ سمجھوتہ کرلیںاور قومی حکومت قائم ہوجائے۔مگر کانگریس اس پرآمادہ نہ ہوئی بلکہ اس نے مسلم لیگ کے ہندوستانی مسلمانوں کے اس مؤقف کو سبو تاژکرنے کے لئے اور ان کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے دہلی میں نیشنلسٹ مسلمانوں کی ایک کانفرنس کا انتظام کیا جس میں جمعیۃ العلماء،مسلم مجلس ،مومن کانفرنس ،آزاد پارٹی ،اور انجمن وطن بلوچستان کے نمائندوںسے ایک قرار داد منظور کروائی کہ مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی نمائندہ نہیں۔
(قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی مصنفہ محمد اشرف خان مدیر معاون زمیندار ص 152)
اُدھر کانگریس نے نیشنلسٹ مسلمانوں کو عبوری حکومت میں لئے جانے پر بہت زور دینا شروع کردیا۔ اور اپنا نکتہ یہ پیش کیے رکھا کہ اگر 5 مسلمان ممبران کونسل ہوں تو ان میں سے 2 غیر لیگی قوم پرست (کانگریسی یا کانگریس نواز ) مسلمان ضرور ہونے چاہئیں۔
کانگریس کے علاوہ خود لارڈویول نے بھی اصرار کیا کہ مسلم لیگ کو پنجاب کے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر ملک خضر حیات کا ایک آدمی ضرور لینا چاہیے۔مگر یہ امرچونکہ مسلم لیگ کی جڑ پر کلہاڑا چلانے اور اسے خود قبر میں اتارنے کے مترادف تھا لہٰذا قائد اعظم نے ایگزیکٹوکونسل کے لئے اپنے امیدواروں کی فہرست وائسرائے کو دینے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ یا تو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے یا ملک میں انتخاب کرواکر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کا فیصلہ کرلیا جائے۔
مجبورًا وائسرائے لارڈویول نے برطانوی حکومت سے مشورہ کے بعد 19؍ ستمبر 1945ء کو مرکزی اور صوبائی مجالس آئین ساز کے انتخابات کا اعلان کردیا۔ جناب محمد علی جناح اس وقت کوئٹہ میں تھے آپ نے فوری پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا ’’ہمارے پیش نظر اہم مسئلہ آئندہ انتخابات کا ہے ہم رائے دہندگان کی اس امر کے بارے میں رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندو راج کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں‘‘ اور پھر کانگریس نواز مسلمانوں کا بڑے دکھ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا’’ مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جارہے ہیں… صرف یہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس کے پاس دولت کے وسیع خزانے ہیں… مگر حق ہمارے ساتھ ہے… اور ہم انشاءاللہ کامیاب ہونگے‘‘ ( اخبار انقلاب لاہور 20 اکتوبر 1945ء) قائد اعظم نے مسلمانان ہند سے انتخابات میں مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کی جو تحریک کوئٹہ میں کی اس کی تائید میں سب سے پہلی پُر زور اور ملک گیر آواز قادیان سے بلند ہوئی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ نے اگلے ہی دن یعنی 21؍ اکتوبر 1945ء کو ’’آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی‘‘ کے عنوان پر ایک مفصّل مضمون لکھا جو الفضل کی 22؍ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہو کر پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔
انہیں دنوں ایک احمدی دوست محمد سرور صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓکو ایک خط لکھا اور انتخابات میں راہنمائی کی درخواست کی۔جواب میں حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ مسلم لیگ کی ہر ممکن طریق سے بھر پور مد دکریں۔ جناب ناظر صاحب امور عامہ قادیان نے یہ خط اور اس کا جواب جناب محمد علی جناح صاحب کی خدمت میں بھجوادیا۔آپ نے اس خط کو اہمیت دیتے ہوئے مسلم لیگی اخبار ڈان میں اشاعت کے لئے بھجوادیاچنانچہ 8؍اکتوبر 1945ء کی اشاعت میں فرنٹ پیج پر بعنوان ’’ جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی حمایت کرے گی‘‘ اس خبر کو دیکھا جا سکتاہے۔
اسی طرح بنگال ، یوپی، بہار، سی پی، اور بمبئی میں جہاں جمعیۃ العلماء کا بہت زور تھا اور ان کی وجہ سے مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے جارہے تھے آپؓ نے ضلع بجنور کے احمدیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جس جس پر اثر ڈال سکتے ہیں ان سے مسلم لیگ کو ووٹ ڈلوائیں۔اپنا ووٹ بھی لیگ کو دیں اور لیگ کی ہر طرح سے مدد کریں ( الفضل 27 فروری 1946ء)
صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی صاحب کے اثر سے مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے والے تھے۔ حضورؓ نے سرحد کے احمدیوں کو خا ص تحریک کی کہ مسلم لیگ کے لئے پورا زور لگائیں ۔ ( الفضل یکم فروری 1946ء)
چنانچہ انتخابات ہوئے۔ مرکزی اسمبلی میں مسلم نشستیں 30 تھیں۔ مسلم لیگ نے ہر نشست کے لئے امیدوار کھڑے کئے تھے جو اللہ کے فضل سے تمام نشستوں پر کامیاب ہو گئے۔ احمدیوں نے حضرت مصلح موعود ؓکے ارشاد کی تعمیل میں آسام ۔سندھ۔ یوپی۔ بہار۔ سی پی۔ مدراس ۔ اُڑیسہ۔ اور بمبئی میں سب مسلم لیگی اُمیدواروں کی حمایت کی اور پنجاب کے 33 حلقوں میں مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ان حلقوں میں 32 امیدوار کامیاب ہوئے۔اسی طرح حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب جب مسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل نہ کر سکے تو بطور آزاد امیدوار الیکشن میں کھڑے ہو گئے اور بھاری ووٹوں سے انتخاب جیت گئے۔اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتے ہی حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد پر مسلم لیگ میں شامل ہو گئےاور یوں حضرت مصلح موعود ؓ کی اولوالعزم راہنمائی نے مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت کے ٹائٹل سے نوازنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
جس وقت جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں مسلم لیگ کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ ثابت کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھی عین اسی وقت بقول جناب محمد علی جناح صاحب صدر آل انڈیا مسلم لیگ ’’ مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جارہے ہیں‘‘ جمعیۃ العلماء ہند، مجلسِ احرار، جماعت اسلامی، خاکسار پارٹی، آل انڈیا شیعہ کانفرنس، آل انڈیا مومنون کانفرنس، مولانا داؤد غزنوی گروپ(اہل حدیث)صحیفہ اہل حدیث گروپ، نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ کانگریس کے آلۂ کار بن کے مسلمانوں کے لئے الگ سے آزاد اور خود مختار ریاست کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ تاریخ آزادی پاکستان کے اس عظیم سپوت کے بارہ میں اسی جمعیۃ العلماء اور احرار سے تعلق رکھنے والے ’مؤرخین‘ پاکستانی بچوں کو بتا رہے ہیں کہ ’’قادیانیوں نے تقسیم بھارت کے خلاف ہر لمحہ انگریزوں اور کانگریس کے موقف کی ترجمانی کی‘‘۔
’’قادیانی جماعت روز اول سے ہی تحریک آزادی اور آخر میں تحریک پاکستان کی شدید مخالف رہی‘‘۔
(حوالہ جات کے لئے دیکھیے اس مضمون کا صفحہ اوّل)
فیض نے کیا خوب کہا ہے:
ہر دور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا
ہر عہد میں دیوار ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر عہد میں ملعون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانی شبیر
پارلیمنٹری مشن کی بد عہدی ،
مسلم لیگ کا بائیکاٹ اور حضرت مصلح موعود ؓ کی کوششوں سے آبرومندانہ طور پر عبوری حکومت میں شمولیت
انتخاب ختم ہوتے ہی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی نے لارڈ پینتھک لارنس (وزیر ہند ) سر سٹیفورڈ کریپس ( لارڈ پریوی سیل ) اور برٹ الیگزینڈر ( وزیر بحر) پر مشتمل وزارتی مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ وفد 25 ؍مارچ 1946ء کو دہلی پہنچا اور مذاکرات شروع کئے۔پارلیمنٹری مشن ،مسلم لیگ اور کانگریس کی با ہمی بحث و تمحیص تقریباً2 ماہ جاری رہی مگر مفاہمت نہ ہو سکی۔جس پر پارلیمنٹری مشن نے وائسرائے سے مشورہ کے بعد 16؍ جون 1946ء کو ملک میںعارضی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔بعد میں یہ پارلیمنٹری بورڈ کانگریس کی طرف داری کرتےہوئے مسلم لیگ کے ساتھ بدعہدی کا مرتکب ہو گیا۔جس پر مسلم لیگ نے بطور احتجاج اپنی قرار داد رضا مندی منسوخ کردی اور عبوری حکومت میں شمولیت کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ وائسرائے ہند نے جو اسی موقعہ کی تاک میں تھے کانگریس سے گٹھ جوڑ کرکے بالآخر صدر آل انڈیا کانگریس پنڈت جواہر لال نہرو کو عبوری حکومت کی تشکیل کی دعوت دے دی جو پنڈت صاحب نے فوری قبول کرلی۔اور ساتھ ہی اعلان پر اعلان شروع کر دیے کہ جو ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا چاہے اُسے مجبور نہیں کیا جائے گااور نہ ہم اُس کا انتظار کر سکتے ہیں۔ اور پھر 2؍ ستمبر 1946ء کو عبوی حکومت کا چارج بھی لے لیا۔
تن تنہاعبوری حکومت ملنے سے کانگریس کی دلی مراد بر آئی۔مسلمانوں کے قومی جسم میں خنجر گھونپ دیا گیا تھا۔ان کے ساتھ بد عہدی اور فریب کیا گیا تھا ۔ مسلم لیگ نے ملک گیر احتجاج کرنے کی کال دے دی۔یکم ستمبر کو یوم سیاہ منایا گیا اور ساتھ ہی کلکتہ،اور پھر بمبئی میں ہولناک فسادات پھوٹ پڑے ۔مسلم لیگ نے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ڈائریکٹ ایکشن کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اور یوں ایک جیتی ہوئی جنگ پلٹہ کھا تے ہوئے نظر آنے لگی۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے اس موقع پر بھی قومی مفاد کےپیش نظر قوم کی رہنمائی کا بیڑا اُٹھایا اور فوری طور پر مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز کو دہلی بھیجا جہاں پر سربراہان مسلم لیگ کا اجلاس ہونے والا تھا ۔ اُنہوں نے لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور حضور انور کی ہدایات اور پیغام اُن کے گوش گزار کیا۔ اس کے علاوہ خواجہ ناظم الدین ۔ سردار عبدالرب نشتر اور نواب اسماعیل خان میرٹھی سے بھی ملاقات کی اور پیغام پہنچایا۔
تقسیم ہندکے مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ بظاہر شکست میں بدلتی نظر آرہی تھی۔ مسلم لیگ کے باعزت طور پر عبوری حکومت میں داخلے کے راستے مسدود ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان مایوس کن حالات میں خداداد فراست سے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے اسلام کے بطل جلیل حضرت مصلح موعود ؓ ایک بڑے وفدکے ساتھ بنفسِ نفیس دہلی وارد ہوئے اور تین ہفتوں تک قیام فرمایا۔ آپؓ نے دہلی پہنچتے ہی مشہور سیاسی لیڈران سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 24؍ ستمبر کو صدر آل انڈیا مسلم لیگ جناب محمد علی جناح سے، 27؍ ستمبر کو مسٹر گاندھی جی سے اور 3؍ اکتوبر کو مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی۔ ازاں بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چانسلر و چیمبر آف پرنسز سے ہوئی۔ جنہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس سے رابطہ کرنے اور ان کے لیڈران کے درمیان مفاہمت کرانے میں حضور کی بالواسطہ نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔انہی دنوںایک دعوت کے موقع پر خواجہ ناظم الدین آف بنگال اورسردار عبدالرب نشترسے بھی حضور کی ملاقات ہوئی۔ ان ملاقاتوں کے بعد آپ نے دوبارہ سے مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے کے علاوہ سر فیروز خان نون، نواب سراحمد سعیدخان چھتاری (سابق گورنر یوپی) سے اور 10؍ اکتوبر کو پنڈت جواہر لال نہرو سے گفت و شنید کی۔ پریس کے نمائندوں میں سے چیف رپورٹر ڈان۔ ڈائریکٹر اورئینٹ پریس۔اور شری کرشن صاحب نمائندہ اندرا پترا سے بھی ملاقات کی۔ بعض لیڈران سے ملنے کے لئے اپنے نمائندے بھجوائے۔اس موقع پر حضور نے اگرچہ وائسرائے ہند لارڈ ویول سے بالمشافہ گفتگو نہیں کی لیکن خط و کتابت سے مضبوط رابطہ قائم کر لیا۔ آپؓ نے اپنے تیسرے خط میں وائسرائے کی توجہ اس طرف دلائی کہ اگر ہزہائی نس نواب آف بھوپال کی نیک مساعی کانگریس اور مسلم لیگ سے براہ راست سمجھوتہ میں کامیاب نہیں ہو سکیں تو مایوس ہو کر اصلاح احوال کی کوشش ترک نہیں کرنا چاہیےبلکہ حسب سابق اس معاملہ کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ کوشش کا سلسلہ جاری ہو سکے۔
حضرت مصلح موعودؓکی یہ روحانی اور ظاہری تدابیر بالآخر سود مند ثابت ہوئیں۔ وائسرائے ہند نے ایک بارپھر اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ نےعبوری حکومت میں شامل ہونےکا فیصلہ کر لیا اور 13؍ اکتوبر کو اس کی اطلاع وائسرائے کو پہنچا دی گئی۔یہ فیصلہ انتہائی غیرموافق اور غیر متوقع حالات میں ہوا اور اس نے کانگریس کے حلقوںمیں کھلبلی مچادی۔ بعض کانگریسی لیڈروں نےکھلم کھلا یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر لیگ اس طرح کانگریس سے سمجھوتہ کیے بغیر ہی حکومت میں شامل ہو گئی تو ہمارے سب کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ الغرض اللہ کے فضل و کرم سے حضرت مصلح موعودؓ کی مساعی جمیلہ اور دعائوں کی برکت سے مسلم لیگ فاتحانہ شان کے ساتھ عبوری حکومت میں شامل ہو گئی اور یوں حضور 14؍ اکتوبر 1946ء کو دہلی سے روانہ ہو کر قادیان واپس آگئے۔( الفضل 16 اکتوبر 1946 ء)
تحریک پاکستان کے اعتبار سے مسلم لیگ کا کانگریس سے بغیر سمجھوتہ کئے عبوری حکومت میں شامل ہونا 1945/46ء کے انتخابات سے بھی بڑا معرکہ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ نےصرف 4 ماہ کے اندرحصول پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی اور کانگریس کا دیرینہ خواب کہ وہ مسلم لیگ کو نظر انداز کرکے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر تنہا ملک کے نظام حکومت کو چلائے گی۔ہمیشہ کے لئے دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اور برطانوی سرکار کو آخر مطالبہ پاکستان کے دو قومی نظریہ کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑے۔
احمدیوں کی پاکستان سے وفاداری پر سوال اٹھانے والے ’مؤرخین‘ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ایک طرف جمعیۃ کے ان دیوبندی علماء کے بارے میں جناح صاحب فرما رہےتھےکہ
’’نئی دہلی۔4مارچ1939ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا ہے کہ مسلم لیگ کاکوئی آدمی دہلی میں ہونے والی جمعیۃ العلماء کانفرنس کے ساتھ کسی قسم کا سروکار نہ رکھے کیونکہ اس جمعیۃ کی کارروائیاں مسلم لیگ کے مفاد کے خلاف ہیں بلکہ مسلم لیگ کو تباہ کرنے کی غرض سے اختیار کی جارہی ہیں‘‘۔ (روزنامہ انقلاب4مارچ1939ء صفحہ1)
تو دوسری جانب کانگریسی لیڈرپنڈت جواہر لال نہرو اپنے ان وفاداروںکے لئےقائد اعظم سے جھگڑا فرمارہے تھے۔ ملاحظہ کیجیے:
بمبئی14دسمبر1939ء
’’مائی ڈئیر جناح۔۔۔آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان مسلمانوں سے قطع تعلق کرلیں جو مسلم لیگ کے ممبر تو نہیں لیکن ہمارے دیرینہ اورمخلص رفقاء کار ہیں۔لیگ کے علاوہ مسلمانوں کی اور بھی بہت سی جماعتیں موجود ہیں مثلاً جمعیۃ العلماء اسلام۔آل انڈیا شیعہ کانفرنس۔مجلس احرار اسلام۔آل انڈیا مومن کانفرنس وغیرہ ٹریڈ یونین اور کسان سبھا جیسے اداروں میں بھی بہت سے مسلمان شامل ہیں‘‘۔ آپ کا مخلص جواہر لال نہرو
پنڈت صاحب نے لکھا کہ ان جماعتوں کے وجود سے انکار کرکے کانگریس صرف مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ کیونکر تسلیم کرسکتی ہے‘‘۔
(ہماری قوی جدوجہد صفحہ320 از عاشق حسین بٹالوی1935ء شائع1968ء)
لیکن تاریخ کے پنوں میں کچھ ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جو آزادیٔ پاکستان کے عظیم ہیرو کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے آپؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
مشہور زمانہ مسلم اخبارانقلاب اپنی9جون44ء کی اشاعت کے اداریے میں فخریہ لکھتاہے:
’’سائمن کمیشن(1927ء-1928ء) سے لے کر اب (1944ء) تک انہوں (یعنی امام جماعت احمدیہ) نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور جداگانہ حیثیت کے قیام میں ملت اسلامیہ کے ساتھ جس کامل ہم آہنگی کا ثبوت دیا اس کی ہم تہ دل سے قدر کرتے ہیں‘‘۔(انقلاب اداریہ9جون44ء)
اسی طرح ایک اور مسلم اخبار جماعت احمدیہ کے تحریک آزادی میںکردار اور اسلامی حقوق کے تحفظ کے لیے سرتوڑ کوشش کے حوالے سےیہ پر زوراعلان کررہا ہے۔’’امام جماعت احمدیہ نے سیاست میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں جس اصول عمل کی ابتدا کرکے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ ہر منصف مزاج مسلمان او رحق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کرکے رہتا ہے‘‘۔(سیاست2دسمبر1944ء)
وطن عزیز کی بد قسمتی دیکھیے کہ آج پنڈت جواہر لال نہرو صاحب کے یہ چہیتے کانگریسی اور احراری علماء تحریک آزادی پاکستان کے اس باوقار ہیرو کا ذکر کس بے دردی سے کررہے ہیں:
قادیانی گروہ کی تمام تر سازشوں اور خواہشات کے باوجود جب لازوال قربانیاں دے کر مسلمانان برصغیر نے پاکستان کی اسلامی جمہوریہ مملکت قائم کرلی تو بھی اپنے آپ کو الگ ملت کہلانے اور مسلمانوں کو کافر کہنے والا یہ گروہ نچلا نہیں بیٹھا۔
(ماہنامہ الاحرار لاہور اگست98ء صفحہ11)
تاریخ کے ایسے ہی دوراہے پرکھڑے ہو کر فیض صاحب نے کہا تھا
ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل
عبائے شیخ و قبائے امیر و تاج شہی
ہمیں سے سنتِ منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گل دامنی و کج کلہی
٭…٭…٭