خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ فروری 2019ء
فرمودہ مورخہ15؍فروری 2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،یوکے
(اس خطبہ جمعہ کا خلاصہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا جس میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چند بدری اصحابؓرسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور نے حضرت خالد بن قَیْسؓکے تذکرہ سے اپنے خطبہ جمعہ کا آغاز فرمایا۔ آپؓستر انصار صحابہ کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے۔ نیز غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت حارث بن خَزَمَہؓ انصاری کے بارہ میں بیان کیا کہ آپؓغزوۂ بدر،احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ ایک تاریخی موقع پر آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی تلاش کر کے لائے تھے۔ آپ کی وفات 40 ہجری میں حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں 67 سال کی عمر میں مدینہ میں ہوئی۔ اگلے صحابی جن کا ذکر حضورِ انور نے فرمایا حضرت خُنَیْس بن حُذَافہؓ تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں جانے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ آپؓان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے دوسری دفعہ حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ حضرت خنیس کا شمار اولین مہاجرین میں ہوتا ہے۔ آپؓغزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ ام المومنین حضرت حفصہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت خنیسؓ کے عقد میں تھیں۔ نیز حضورِ انور نے سیرت خاتم النبیین کے حوالہ سے حضرت حفصہؓ کے نبی اکرمﷺ کے نکاح میں آنے کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت حارثہ بن نعمانؓ انصاری کی سیرتِ مبارکہ بیان فرمائی۔ آپؓغزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ آپؓکا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضورِ انور نے حضرت حارثہ کے بارہ میں ابن عباسؓکی ایک روایت سے ایک ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا جس کے مطابق ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت جبرئیل کا دیدار کروایا تھا اور جبرئیل نے ان کے بارہ میں نبی اکرمﷺ سے فرمایا تھا کہ یہ ان اسّی آدمیوں میں سے ہیں جو غزوۂ حنین میں آپؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا رزق اور ان کی اولاد کا رزق جنت میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ آپؓ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے لیکن پھر بھی نبی اکرمﷺ کے ایک ارشاد کے پیشِ نظر خود مساکین کو کھجوریں پیش کرتے۔ حضورِ انور نے ان کے بارہ میں ایک دلنشین واقعہ بیان فرمایا کہ کس طرح نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حضرت فاطمہؓ کی شادی کے بعد ان کے لئے حضرت حارثہ سے مکان حاصل کرنے کا مشورہ پیش کیا گیا۔ نبی اکرمﷺ نے بعض وجوہات کی بنا پر ان سے ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا تو انہوں نے حضورﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر اپنا مکان پیش کر دیا۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ نے اسے قبول فرمایا اور حضرت فاطمہؓ کے وہاں رہنے کا انتظام فرمادیا۔آپؓکی وفات حضرت امیر معاویہ کے دور میں ہوئی۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت بشیر بن سعدؓ کی سیرت کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓزمانہ جاہلیت میں لکھنا جانتے تھےنیز بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی دستوں کے ساتھ مختلف محاذ پر بھجوایا جہاں آپؓ نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جوانمردی اور جرأت کی داستانیں رقم فرمائیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ کارروائیاں مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ایسے دشمنانِ اسلام کے خلاف کی جاتی تھیں جو جنگ اور نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ ان کا مقصد مال لوٹنا یا قتل کرنا نہیں تھا۔ نیز فرمایا کہ گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک غلط حملے پر جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا صحابہ سے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔حضورِ انور نے آپؓکے بارہ میں ایک روایت بیان فرمائی جس کے مطابق آپؓاپنے ایک بیٹے حضرت نعمان بن بشیرؓکو ایک غلام یا بعض روایات کے مطابق ایک خاص رقم ہبہ کرنا چاہتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اس طریق کو ناپسند فرمایا اور اظہار فرمایا کہ اپنی تمام اولاد سے انصاف کا سلوک کرنا چاہئے۔
حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓکے بعض ارشادات سے اس مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ یہ حکم ان چیزوں سے متعلق ہے جس میں ایک دوسرے سے بغض پیدا ہونے کا امکان ہو۔ معمولی چیزوں کے متعلق نہیں ہے۔ حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓ کے ایک اَور ارشاد کی روشنی میں مثالوں کے ساتھ ورثہ کی تقسیم کے قرآنی اصول کی حکمت بیان فرمائی۔ حضورِ انور نے یہ بھی فرمایا کہ وصیت اور ہبہ جو کہ اپنی اولاد کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دین کے لئے ہوتا ہے جائز ہے۔
حضورِ انور نے حضرت بشیر بن سعدؓ کی سیرت کے تذکرہ میں غزوۂ خندق کے موقع پر نبی اکرمﷺ کے بابرکت ہاتھوں سے وقوع پذیر ہونے والے ایک معجزہ کا بھی ذکر فرمایا جس میں تھوڑی سی کھجوریں تمام خندق کھودنے والوں کے لئے کافی ہو گئی تھیں۔ حضرت بشیر بن سعدؓ کی شہادت عین التمر کے معرکہ میں ہوئی جو 12ہجری میں ہوا تھا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ قضاء کے لئے ذو القعدہ 7ہجری میں روانہ ہوئے تو آپؐ نے ہتھیار آگے بھیج دیے اور ان پر حضرت بشیر بن سعدؓ کو نگران مقرر فرمایا۔ اس کے بعد حضورِ انور نے عمرہ قضاء کی تفصیل بیان فرمائی کہ صلح حدیبیہ کے اگلے سال نبی اکرمﷺ عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐکو چونکہ مکہ والوں پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے اس لئے آپؓنے جنگ کی پوری تیاری کر کے ہتھیار آگے بھجوا دیے۔ پھر حضرت ابوذر غفاریؓکو مدینہ کا حاکم مقرر فرمایا اور خود دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی جانب عازمِ عمرہ ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام یاجج میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور بشیر بن سعدؓ کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا۔ آپؐ نے اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرامؓ کے مجمع کے ساتھ لبیک پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے۔ حضورِ انور نے طوافِ کعبہ کے دوران ’رمل‘کی سنت کے اجراء کی وجہ بیان فرمائی۔ پھر نبی اکرمﷺ کی طرف سے کئے جانے والے عمروں کی تعداد کا تذکرہ فرمایاکہ بعض لوگ چارجبکہ بعض لوگ دو گنتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت بشیر بن سعد انصار کے پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر سقیفہ بنو ساعدہ کے دن بیعت کی تھی۔ حضورِانور نے سقیفہ بنو ساعدہ (بنو خزرج کے بیٹھنے کی جگہ)کی تفصیل اور نبی اکرمﷺ کے وصال کے بعد یہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کا تفصیلی واقعہ بیان فرمایا۔
حضورِ انور نے حضرت ابومسعود انصاریؓ سے مروی ایک روایت بیان فرمائی جس کے مطابق حضرت بشیر بن سعدؓ قرآنی حکم کی روشنی میں نبی کریمﷺ سے آپؐ پر درود بھیجنے کے طریق کے متعلق رہنمائی کے خواستگار ہوئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ فِی الْعَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اور سلام اس طرح جیسا کہ تم جانتے ہو۔ اس کے بعد حضورِ انور نے ان الفاظ میں نبی اکرمﷺ پر درود بھیجا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
بعد ازاں حضورِ انور نے بنگلہ دیش میں مخالفین کی جانب سے جلسہ سالانہ کے انعقاد پر روکیں ڈالنے اور بلوائیوں کے حملہ کرنے کے افسوسناک واقعہ کا ذکر فرمایا اور تمام عالم میں بسنے والے احمدیوں کو بنگلہ دیش کی جماعت کے لئے دعا کی تحریک فرمائی۔
بعد ازاں محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ دنیا پور پاکستان کی وفات پر اُن کا ذکرِ خیر فرمایا۔ آپ لئیق احمد مشتاق صاحب مبلغ انچارج سورینام جنوبی امریکہ اور محمد ولید احمد صاحب مربی سلسلہ پاکستان کی والدہ نیز مکرم مظفر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ پاکستان کی خوشدامن تھیں۔ حضورِ انور نے نمازِ جمعہ و عصر کی ادائیگی کے بعد ان کی نمازِ جنازہ غائب پڑھائی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭