خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ01؍مارچ 2019ء
اطاعت اور اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشین تذکرہ
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میںنشرکیا گیا۔ خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چند بدری اصحابؓ رسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔جمعہ کی اذان دینے کی سعادت محترم ضیاء الحق سیٹھی صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نے حضرت خَوْلِیْ بِنْ اَبِیْ خَوْلِیْؓ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت خولیؓ غزوۂ بدر اور احد اور تمام غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ ایک قول کے مطابق غزوۂ بدر میں حضرت خولیؓ اور آپؓ کے دو بھائی حضرت ہلال بن ابی خولیؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن ابی خولیؓ بھی شامل تھے۔ حضرت خولیؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت رَافِع بِن الْمُعَلّٰیؓ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنوحبیب سے تھا۔ آپ کی والدہ کا نام ادام بنت عوف تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر میں شہید ہوئے۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت ذُوالشّمَالَیْنِ عُمَیْر بن عَبْدِ عَمْروؓکی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپ کی کنیت ابو محمدتھی۔ آپؓ کو ذوالشمالینکہا جاتا تھاکیونکہ آپؓ بائیں ہاتھ سے زیادہ کام لیتے تھے۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپؓ اپنے دونوں ہاتھوں سے کام کر لیتے تھے اس لئے آپؓ کو ذُوالْیَدَیْنِبھی کہتے تھے۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو خزاعہ سے تھا۔ آپؓ تیس سال سے زائد عمر میں غزوۂ بدر میں شہید ہوئے۔ آپؓ کو اسامہ جشمینے شہید کیا تھا۔ ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت رافع بن یزیدؓکی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو زعوراء بن عبدالاشہل سے تھا۔ آپؓ کی والدہ عقرب بنت معاذ مشہور صحابی حضرت سعد بن معاذؓ کی بہن تھیں۔ آپؓ غزوۂ بدر و احد میں شریک ہوئےاور غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔
ان کے بعد حضرت ذَکْوَان بِن عَبْد قَیْسؓکی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ ہوا۔ آپؓ کی کنیت ابوالسبع تھی۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زُرَیْق سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں بھی شریک رہے۔ آپؓ کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ آپؓ مدینہ سے ہجرت کر کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ گئے۔ آپؓ کو انصاری مہاجر کہا جاتا تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک تھے اور غزوۂ احد میں شہادت کا رتبہ پایا۔ آپؓ کو ابو حکم بن اخنسنے شہید کیا تھا۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احدکے موقع پر فرمایا کہ جو کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہے جو کل جنت کے سبزے پر چل رہا ہو گا تو اس شخص کی طرف دیکھ لے۔ آپؐ کی مراد حضرت ذکوان ؓ سے تھی ۔ آپ ؓ نے جنگ احد میں شہادت کا رتبہ پایا ۔حضورِ انور نے حضرت ذکوانؓ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان فرمایا۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت خُوَاتُ بْنُ جُبَیْر انصاریکی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔آپؓ کنیت ابو عبداللہ اور ابو صالح بھی تھی۔ حضرت خواتؓ کا تعلق بنو ثعلبہ سے تھا اور حضرت خوات بن جبیر حضرت عبداللّٰہ بن جبیر کے بھائی تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد میں درّے کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کے ساتھ مقرر فرمایا تھا۔ حضرت خواتؓدرمیانے قد کے تھے۔ آپؓ نے چالیس ہجری میں 74برس کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی۔ ایک روایت کے مطابق وفات کے وقت آپؓ کی عمر 94 سال تھی۔ آپ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستے میں ایک پتھر کی نوک لگنے سے زخمی ہو گئے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو واپس مدینہ بھجوا دیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت اور اجر میں شامل فرمایا۔ گویا آپؓ ان لوگوں کی طرح ہی تھے جو غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ آپؓ غزوۂ احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔
حضورِ انور نے ایک واقعہ بھی بیان فرمایا جس میں نبی کریمﷺ کے اسوہ سے اپنے صحابہ کی تربیت کرنے کا نہایت عمدہ اور بے مثال طریق سامنے آتا ہے۔ نیز یہ سمجھ میں آتا ہے کہ امامِ وقت سے کوئی بات نہیں چھپانی چاہیے نیز یہ کہ بلا وجہ لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی باتیں سننا غلط چیز ہے۔
حضرت خواتؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی۔ جب میں شفا یاب ہو گیا تو آپؐ نے فرمایا۔ اے خوات! تمہارا جسم تندرست ہو گیا ہے پس جو تم نے اللہ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کرو۔ میں نے عرض کیا میں نے اللہ سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کوئی بھی مریض ایسا نہیں کہ جب وہ بیمار ہوتا ہے تو کوئی نذر نہیں مانتا یا نیت نہیں کرتا۔ ضرور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تندرست کر دے تو میں یہ کروں گا وہ کروں گا۔ پس اللہ سے کیا ہوا وعدہ وفا کرو جو بھی تم نے بات کہی ہے اسے پورا کرو۔حضورِ انور نے فرمایا پس یہ ایسی بات ہے جو ہم سب کے لئے قابل غور اور قابل توجہ ہے۔
آپؓ غزوۂ خندق کے موقع پر بنو قریظہ کے عہد شکنی کرنے پر ان کی طرف بھجوائے جانے والے ایک وفد کا بھی حصہ تھے۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواتؓ کو اپنے گھوڑے پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور اس گھوڑے کا نام جناح تھا۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت رَبِیْعَہ بن اَکْثَم ؓکی سیرت کا ذکر فرمایا۔ آپؓ کی کنیت ابو یزیدتھی۔ آپؓ چھوٹے قد اور موٹے جسم کے مالک تھے۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تھا۔آپؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد، غزوۂ خندق، صلح حدیبیہ اور غزوۂ خیبر میں بھی شرکت کی اور غزوۂ خیبر میں ہی شہادت کا رتبہ بھی پایا۔ آپ کو حارث نامی یہودی نے نطاہ کے مقام پر شہید کیا۔ نطاہ خیبر میں موجود ایک قلعہ کا نام ہے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی عمر 37 سال تھی۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت رِفَاعَہ بِن عَمْرو الْجُہَنِیؓ، حضرت زَیْد بِن وَدِیْعَہؓ، حضرت رِبْعِی بِن رَافِع اَنْصَاری اورحضرت زَیْد بِن مُزَیْنؓ، کا ذکر فرمایا۔ بعد ازاں حضرت عِیَاض بِن زُہَیْرؓ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ کی کنیت ابو سعد تھی۔ آپؓ کا تعلق فِہر قبیلہ سے تھا۔ آپؓ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شامل ہوئے۔ وہاں سے واپس آ کر مدینہ ہجرت کی ۔ آپؓ نے غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں تیس ہجری میں مدینہ میں آپؓ نے وفات پائی اور ایک روایت میں ہے کہ آپؓ کی وفات شام میں ہوئی۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت رِفَاعَہ بن عَمْرو اَنْصاریؓاورحضرت زِیْاد بِن عَمْروؓ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔
ان کے بعد حضرت سَالِم بِن عُمَیْر بِن ثابتؓ کا ذکر آیا۔آپؓ بیعت عقبہ میں شامل ہوئےنیز غزوۂ بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔حضورِ انور نے فرمایا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جو غریب اصحاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ غزوۂ تبوک کے لئے جانا چاہتے تھے اور سواری نہ ہونے کی وجہ سے روتے تھے، حضرت سالم ؓبھی ان اصحاب میں شامل تھے۔
اس ضمن میں ایک آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ اصحابؓ سواری نہیں، صرف پاؤں میں پہننے کے لیے جوتیوں کے جوڑے طلب کر رہے تھے تا کہ بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جائیں ۔حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کی غربت کا یہ حال تھا لیکن ان کا جذبۂ ایمانی قابلِ دید تھا۔ حضرت سالم بن عمیر ؓحضرت معاویہؓ کے زمانہ تک زندہ رہے۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت سُرَاقَہ بِن کَعْبؓکی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ غزوۂ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔آپؓ حضرت معاویہؓ کے زمانے میں فوت ہوئے اور کلبی کی روایت کے مطابق جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
ان کے بعد حضرت سَائِب بِن مَظْعُوْنؓ۔ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ ہوا۔ آپؓ حضرت عثمان بن مظعونؓ کے سگے بھائی تھے۔ آپؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اولین مہاجروں میں سے تھے۔ حضرت سائبؓکو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بواط کے لئے روانگی کے وقت حضرت سائب بن مظعونؓکو اپنے پیچھے امیر مقرر فرمایا۔ آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تجارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ حضرت سائب ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ نے آپؐ کے سامنے میرا ذکر اور تعریف کرنی شروع کر دی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا ۔ صَدَقْتَ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ کُنْتَ شَرِیْکِیْ فَنِعْمَ الشَرِیْکُ۔ کُنْتَ لَا تُدَارِیْ وَلَا تُمَارِیْ۔ کہ میرے ماں باپ آپؐ پر فداہوں! آپؐ نے سچ فرمایا۔ آپؐ تجارت میں میرے شریک تھے اور کیا ہی بہترین شراکت دار تھے۔ آپؐ نہ ہی مخالفت کرتے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت عَاصِم بِن قَیْسؓ اور پھر حضرت طُفَیْل بن مَالِک بن خَنْسَاءؓ۔ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ بعد ازاں حضرت طُفَیْل بن نُعْمَانؓکی سیرت مبارکہ کا ذکر فرمایا۔ آپؓ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ آپؓ نے غزوۂ احد میں بھی شرکت کی اور اس روز آپؓ کو تیرہ زخم آئے تھے۔ آپؓ غزوۂ خندق میں بھی شامل ہوئے اور اسی غزوہ میں شہادت کا رتبہ بھی حاصل کیا۔ وحشی بن حرب نے آپؓ کو شہید کیا تھا۔ بعد میں وحشی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا تھا۔ وحشی کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حمزہؓ کو اور حضرت طفیل بن نعمانؓ کو میرے ہاتھوں سے عزت بخشی لیکن مجھے ان کے ہاتھوں سے ذلیل نہیں کیا یعنی میں کفر کی حالت میں قتل نہیں کیا گیا۔
ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت ضَحَاک بِن عَبْدعَمْروؓاورحضرت ضَحَاک بن حَارثَہؓکی سیرت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔
اگلے صحابی جن کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ حضورِ انور نے فرمایا حضرت خَلَّاد بن سُوَیْد ؓ تھے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر اور احد اور خندق میں شرکت کی۔ غزوۂ بنو قریظہ میں ایک یہودی عورت بُنانہ نے اوپر سے آپؓ پر بھاری پتھر پھینکا جس سے آپؓ کا سر پھٹ گیا اور آپؓ شہید ہو گئے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلّاد کے لئے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میںاس عورت کو بھی بطور قصاص قتل کروا دیا تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگلے صحابی ہیں حضرت اَوْس بن خَوْلِی انصاریؓ۔ ان کی کنیت ابو لیلٰیتھی ۔ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سالم بن غنم بن عوف سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام جمیلہ بنت اُبَیتھا جو عبداللّٰہ بن اُبَی بن سلولکی بہن تھیں۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت اوس بن خولیکا شمار ‘کاملین’ میں ہوتا تھا۔ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں ‘کامل’ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عربی لکھنا جانتا ہو، تیر اندازی کرنا اچھی طرح جانتا ہو اور تیراکی جانتا ہو۔ آپؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں مدینہ میں ہوئی۔
حضورِ انور نے حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت ناجیہ بن اعجمؓ سے مروی آنحضرتﷺ کا ایک ایمان افروز معجزہ بیان فرمایاکہ کس طرح آپؐ کی برکت سے ایک خشک کنواں دیکھتے ہی دیکھتے پانی سے لبریز ہو گیا۔ اس واقعہ سےمومنین کے ایمان میں مزید اضافہ ہوا لیکن منافقین اس عظیم الشان معجزہ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت اوس بن خولیؓ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کہا کہ میں آپؓ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شریک کر لیں چنانچہ حضرت علیؓ نے آپ کو اجازت دی۔
ایک اور روایت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپؐ کو غسل دینے کا ارادہ کیا گیا تو انصار کی خواہش پر ان کے نمائندہ کے طور پر تو حضرت اوس بن خولیؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل اور تدفین میں شریک رہے۔
حضرت اوس بن خولی ؓسے مروی ہے کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا اے اوسؓ! جو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بڑھاتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتا ہے۔حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بہت ضروری سبق ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ان سب بزرگ صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔
٭…٭…٭