جذباتِ ظفؔر
خدا کی رَہ میں ذلیل ہونا اور اس کی رَہ میں فقیر ہونا
یہی تو عزت ہے عاشقوں کی یہی ہے ان کا امیر ہونا
وزیر بننے کی مجھ کو خواہش نہ چاہتا ہوں سفیر ہونا
مجھے تو بھاتا ہے میرے پیارے ترے ہی در کا فقیر ہونا
مِری فقیری مجھے امیری ، مِری گدائی ہے مجھ کو شاہی
رہے تمہیں منعمو مبارک! امیر ہونا کبیر ہونا
عزیز ہوں گر نگہ میں تیری تو مجھ کو منظور ہے خوشی سے
بچشمِ دنیائے بے حقیقت ذلیل ہونا حقیر ہونا
مَیں دینِ احمدؐ پہ جان و دل سے کروں گا قربان ذرّہ ذرّہ
مگر یہ ہے شرط میرے پیارے کہ تو بھی میرا نصیر ہونا
کبھی بشارت وصال کی دی کبھی مجھے ہجر سے ڈرایا
سمجھ میں آیا ہے اس طرح بھی ترا بشیر و نذیر ہونا
مزا تو جب ہے حضورِ انور کہ دل ہمارا بھی ہو منوّر
اگرچہ ہے ہر طرح مسلّم تِرا سراجِ منیر ہونا
کٹھن ہے عشق و وفا کی منزل تڑپ رہے ہیں ہزار ہا دل
قسم تجھے تیری حُسنِ کامل ذرا مرے دستگیر ہونا
اگر نہیں آتشِ محبت تو خاک ہے زندگی کی لذّت
عجیب نعمت ہے اس جہاں میں ظفرؔ کسی کا اسیر ہونا