وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
فخر سمجھیں جسے لکھنا بھی مرے دست و قلم
کھولتا ہوں میں زباں وصف میں اس کے یارو
جس کے اوصاف حمیدہ نہیں ہوسکتے رقم
جان ہے سارے جہاں کی وہ شہ ِوالا جاہ
منبعِ جودوسخا ہے وہ مرا ابر کرم
فیض پہنچانے کا ہے تو نے اٹھایا بیڑا
لوگ بھولے ہیں ترے وقت میں نامِ حاتم
تاج اقبال کا سر پر ہے مزّین تیرے
نصرت و فتح کا اڑتا ہے ہوا میں پرچم
جس کا جی چاہے مقابل پہ ترے آدیکھے
دیکھنا چاہتا ہے کوئی اگر ملکِ عدم
حیف ہے قوم ترے فعلوں پر اور عقلوں پر
دوست ہیں جو کہ ترے اُن پہ تو کرتی ہے ستم
دیکھ کر تیرے نشانات کو اے مہدیٔ وقت
آج انگشت بدندان ہے سارا عالم
مال کیا چیز ہے اور جاں کی حقیقت کیا ہے
آبرو تجھ پہ فدا کرنے کو تیار ہیں ہم
غرق ہیں بحر ِمعاصی میں ہم اے پیارے مسیح ؑ
پار ہوجائیں اگر تُو کرے کچھ ہم پہ کرم
آج دنیا میں ہر اک سُو ہے شرارت پھیلی
پھنس گئی پنجۂ شیطاں میں ہے نسلِ آدم
اب ہنسی کرتے ہیں احکام الہٰی سے لوگ
نہ تو اللہ ہی کا ڈر ہے نہ عقبیٰ کا غم
کوئی اتنا تو بتائے یہ اکڑتے کیوں ہیں؟
بات کیا ہے کہ یہ پھرتے ہیں نہایت خرّم
بات یہ ہے کہ یہ شیطاں کے فسوں خوردہ ہیں
ان کے دل میں نہیں کچھ خوفِ خدائے عالم
اپنی کم علمی کا بھی علم ہے کامل اُن کو
ڈالتے ہیں انہیں دھوکے میں مگر دام و دِرَم
یاں تو اسلام کی قوموں کا ہے یہ حالِ ضعیف
اور واں کفر کا لہراتا ہے اونچا پرچم
لاکھوں انسان ہوئے دین سے بے دیں ہیہات
آج اسلام کا گھر گھر میں پڑا ہے ماتم
کفر نے کردیا اسلام کو پامال غضب
شرک نے گھیر لی توحید کی جاوائے ستم
ایسی حالت میں بھی نازل نہ ہو گر فضلِ خدا
کفر کے جبکہ ہوں اسلام پہ حملے پیہم
جس طرف دیکھئے دشمن ہی نظر آتے ہیں
کوئی مُونس نہیں دنیا میں نہ کوئی ہمدم
دین ِاسلام کی ہر بات کو جھٹلا ئیں غوی
احمدِ ؐ پاک کے حق میں بھی کریں سبّ و شتم
عاشق احمدؐ و دلدادۂ مولائے کریم
حسرت و یاس سے مرجائیں بہ چشمِ پُر نم
پر وہ غیور خدا کب اسے کرتا ہے پسند
دینِ احمدؐ ہو تباہ اور ہو دشمن خرّم
اپنے وعدے کے مطابق تجھے بھیجا اس نے
امتِ خیرِ رسل پر ہے کیا اُس نے کرم
تیرے ہاتھوں سے ہی دجال کی ٹوٹے گی کمر
شرک کے ہاتھ ترے ہاتھ سے ہی ہووینگے قلم
دَجْل کا نام و نشاں دہر سے مِٹ جائے گا
ظلِ اسلام میں آجائے گا سارا عالم
جو کہ ہیں تابع ِشیطاں نہیں اُن کی پروا
ایک ہی حملے میں مٹ جائیگا سب اُن کا بھرم
تب انہیں ہوگی خبر اور کہیں گے ہَیہات
ہم تو کرتےرہے ہیں اپنی ہی جانوں پہ ستم
تیری سچائی کا دنیا میں بجے گا ڈنکا
بادشاہوں کے ترے سامنے ہونگے سَر خم
التجا ہے میری آخر میں یہ اے پیارے مسیحؑ
حَشر کے روز تو محمؔود کا بنیو ہمدم
(انتخاب از کلامِ محمودؓ ۔اخبار بدر ۔ جلد 5۔ 6ستمبر1906ء)