رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ 2018ء (03 نومبر)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

… … … … … … … … …
03؍نومبر2018ءبروزہفتہ
… … … … … … … … …

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے مسجد بیت الرحمٰن میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔

پروگرام کے مطابق گیارہ بج کر پینتیس منٹ پر حضورِانور اپنے دفتر تشریف لائے۔ صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوایس اے مکرم عدیل احمد صاحب نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی اور حضورِانور سے ہدایات اور رہنمائی حاصل کی۔ موصوف اِمسال مجلس خدام الاحمدیہ یوایس اے کے نئے صدر مقرر ہوئے تھے۔ یہ ملاقات بارہ بجے تک جاری رہی۔ بعدازاں حضورِانور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجد مسرور ورجینیا کا افتتاح

آج پروگرام کے مطابق سائوتھ ورجینیا (South Virginia) میں ‘‘مسجد مسرور’’کے افتتاح کا پروگرام تھا۔

بارہ بج کر پچیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور دعا کروائی۔ بعدازاں سائوتھ ورجینیا کے لیے روانگی ہوئی۔ مسجد بیت الرحمٰن سے سائوتھ ورجینیا کا فاصلہ 52 میل ہے۔

آج کا دن جماعت سائوتھ ورجینیا کے لیے بڑا ہی مبارک اور برکتوں والا ایک تاریخی دن تھا۔ ہر چھوٹا بڑا، مردوزن، جوان بوڑھا خوشی ومسرت سے معمور تھا۔ آج ان کے مسکن میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک قدم پہلی بار پڑ رہے تھے۔ یہ لوگ صبح سے ہی ‘‘مسجد مسرور’’پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔

سائوتھ ورجینیا کی مقامی جماعت کے علاوہ Silicon Valley، Bay Point، لاس اینجلیز، کیلیفورنیا، سیاٹل، Kansas، سینٹ لوئیس، ہیوسٹن، Austin، Dallas، Miami، نیویارک، نیوجرسی، Oshkosh اور ڈیٹرائٹ کی جماعتوں سے احباب جماعت بڑے لمبے اور طویل سفر طے کرکے ‘‘مسجد مسرور’’کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔

لاس اینجلیز، Silicon Vally، Bay Pointاور سیاٹل سے آنے والے احباب قریباً چھ گھنٹے جہاز کا سفر طے کرکے پہنچے تھے۔

علاوہ ازیں کینیڈا کی جماعتوں ٹورانٹو، مسس ساگا، آٹوا، کیلگری، وینکوور اور بیری سے بھی احباب جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد اس مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے کے لیے پہنچی تھی۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد سے قبل جماعت سائوتھ ورجینیا کے مرکز ‘‘مسجد مسرور’’کا بیرونی احاطہ احباب جماعت سے بھر چکا تھا۔ مردوخواتین کی مجموعی تعداد تین ہزار تین صد کے لگ بھگ تھی۔ جن میں سے دو ہزار تین صد افراد امریکہ کی مختلف جماعتوں سے آئے تھے جبکہ ایک ہزار کے لگ بھگ کینیڈا سے آئے تھے۔

قریباً دو بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہاں تشریف آوری ہوئی تو ساری فضاءنعروں سے گونج اُٹھی، بچیوں کے گروپس نے خیرمقدمی گیت اور ترانے پیش کیے۔ جونہی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو صدر جماعت سائوتھ ورجینیا مکرم کریم اللہ کلیم صاحب اور ریجنل مبلغ سلسلہ فاران احمد ربانی صاحب نے حضورِانور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں لگی تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

مسجد مسرور ورجینیا

اس کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مسرور اور جماعت کے اس سینٹر کا معائنہ فرمایا۔

اس سینٹر کی یہ عمارت نومبر 2017ء میں خریدی گئی۔ یہ ایک چرچ کی بلڈنگ تھی۔ خریدنے کے بعد اس میں تھوڑی renovation کی گئی۔ اس عمارت کی خرید پر پانچ ملین ڈالرز خرچ ہوئے اور اس کی renovation پر قریباً 75 ہزار ڈالر خرچ ہوئے۔

اس سینٹر کا کل رقبہ 17.6 ایکڑ ہے۔ مسجد کا کل مسقف حصہ 22,403 مربع فٹ پر مشتمل ہے۔
مسجد کے ساتھ ایک structure ہے جو 64 فٹ اونچا ہے اور آئندہ آگے چل کر اُسے باقاعدہ مینار میں تبدیل کیا جا سکے گا۔

مسجد کے دو حصے ہیں۔ ایک اوپر کا حصہ ہے اور ایک نیچے کا حصہ ہے۔ مسجد کے اوپر کے حصہ میں مردوں کا ہال ہے۔ جس کے ایک حصہ میں باقاعدہ stage بنا ہوا ہے اور اسی کے ساتھ ایک بڑی tv screenبھی آویزاں ہے۔ ایک back stage آڈیو وڈیو روم بھی ہے۔ ایک چھوٹا کچن بھی موجود ہے۔

اس سینٹر میں مردوں اور عورتوں کے نماز پڑھنے کے علیحدہ علیحدہ ہال ہیں۔ مردوں کے نماز کے ہال میں 500 کے لگ بھگ لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ایک lobby بھی ہے جو مردوں کے لیے over flow کے علاوہ ضیافت کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔

ایک اعلیٰ پائے کا آڈیو ویڈیو سسٹم بھی مسجد میں نصب کیا گیا ہے۔ مسجد میں تین stair well کے علاوہ ایک elevator بھی موجود ہے۔

نچلی منزل پر عورتوں کے لیے نماز کا ایک ہال ہے جس میں 150 سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔ نیز مسجد کے اس حصہ میں کل گیارہ کمرے ہیں جہاں بچوں کی کلاسز کے علاوہ مختلف شعبہ جات کے دفاتر اور کانفرنس روم بھی موجود ہے۔

ایک ریجنل لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔ اس حصہ میں ایک جماعتی کچن بھی بنایاگیا ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے ایک نرسری بھی ہے۔

مسجد کی عمارت سے ہٹ کر کچھ فاصلہ پر لنگرخانہ بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک باسکٹ بال کورٹ نیز کرکٹ کے لیے ایک ہارڈبال پچ بھی تیار کی گئی ہے۔ نیز یہاں 226 گاڑیوں کی پارکنگ بھی موجود ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کا معائنہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ محراب کی شکل اندر ہونی چاہیے نیز حضورِانور نے آواز، سائونڈسسٹم کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ آواز کی گونج وغیرہ تو نہیں ہے۔

حضورِانور نے لجنہ ہال کا بھی معائنہ فرمایا۔ نیز مختلف دفاتر بھی دیکھے اور مرکزی کچن میں بھی تشریف لے گئے اور انتظامیہ سے مہمانوں کے لیے کھانے کے انتظامات کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

مسجد مسرور ورجینیا کا افتتاح

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لیے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

دو بج کر بیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد میں تشریف لا کر نمازِظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ اور اس کے ساتھ ‘‘مسجدمسرور’’کا افتتاح عمل میں آیا۔

مسجد کے بیرونی احاطہ میں خواتین کے لیے دو بڑی مارکیز لگائی گئی تھیں۔نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ ان دونوں مارکیز میں تشریف لے گئے جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔

اس کے بعد مسجد کے بیرونی احاطہ میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پودا لگایا۔ بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے چار بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے لجنہ ہال میں تشریف لائے جہاں ممبران مجلس جماعت سائوتھ ورجینیا، مجلس عاملہ انصاراللہ اور مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گروپ فوٹوز بنوانے کا شرف پایا۔

پریس کانفرنس

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کانفرنس روم میں تشریف لے آئے جہاں پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے درج ذیل جرنلسٹ اور نمائندگان شامل تھے۔
WTOP واشنگٹن DC کی ایک بہت اہم نیوزسروس ہے، اس کے جرنلسٹ شامل ہوئے۔

VOA (وائس آف امریکہ) وائس آف امریکہ کا آغاز 1942ء میں ہوا۔ یہ غیرفوجی اور بیرون ازامریکہ براڈکاسٹنگ کے لیے امریکی فیڈرل حکومت کا ایک آفیشل ادارہ ہے۔ یہ ادارہ یو ایس اے کے بارہ میں امریکہ سے باہر رائے عامہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے تین جرنلسٹ آج کی پریس کانفرنس میں شامل ہوئے۔

Potomac Local اس کا آغاز 2010ء میں کیا گیا۔

Potomac Local پرنس ولیم اور Stafford کائونٹیز اور Manassas اور Manassas Park کے شہروں کی ایک اہم آزاد اور مقامی نیوزایجنسی ہے۔ اس کے بھی صحافی شامل ہوئے۔

«Whats Up Prince William» پرنس ولیم کائونٹی کی لوکل نیوز آئوٹ لیٹ ہے۔ اس کے بھی صحافی شامل ہوئے۔

NRB TV کے جرنلسٹ بھی شامل ہوئے۔

Freelance Journalist بھی پریس کانفرنس میں شامل ہوئے۔

پریس کانفرنس کا آغاز چار بج کر تینتیس منٹ پر ہوا۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ حضورانور گزشتہ مرتبہ پانچ سال قبل امریکہ تشریف لائے تھے۔ اب حضورانور نے تقریباً تین ہفتے یہاں قیام کیاہے؟ کیا حضورانور نے کوئی تبدیلی دیکھی ہے؟ اور آپ کے اس حالیہ دورے کے حوالہ سے کیا تاثرات ہیں؟

اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ جہاں تک ہماری جماعت میں تبدیلی کا تعلق ہے تو ہماری جماعت میں یہاں کافی اضافہ ہواہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران احمدی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یہاں منتقل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری جماعت نے یہاں چند مساجد بھی تعمیرکی ہیں جو مختلف شہروں اور سٹیٹس میں ایک نیا اضافہ ہے۔تو ہماری جماعت ترقی کررہی ہے۔

جہاں تک ملک کے باقی حالات کا تعلق ہے تو میراخیال ہے اس حوالہ سے آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ ان حالات میں تبدیلی تو کافی واضح ہے۔ جب بھی حکومتیں بدلتی ہیں تو تبدیلیاں آتی ہی ہیں۔ بعض سیاسی تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں۔ باقی جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے تو ہماری جماعت امریکہ میں جہاں جہاں بھی قائم ہے وہاں سیاستدانوں کے ساتھ اچھے رابطے ہیں اور ان رابطوں میں مزیدسے مزید اضافہ ہورہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل آپ کے سیاستدان الیکشن میں مصروف ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس کے کیانتائج نکلتے ہیں۔

اس پرصحافی نے پوچھا کہ کیا آپ الیکشن کو follow کررہے ہیں؟ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بہت زیادہ تو نہیں لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ معلومات ہوتی ہیں۔ آج شاید آپ کے پریذیڈنٹ نے اپنی campaign کے حوالہ سے فائنل تقریر کی ہے۔

٭ ایک صحافی نے سوال کیاکہ کیا دنیا بھر میں احمدیوں پر مظالم ہوتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:بالکل مظالم ہوتے ہیں بالخصوص پاکستان میں پرسی کیوشن بہت زیادہ ہورہی ہے۔ پاکستان سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد باہر کے ملکوں میں منتقل ہورہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پرسی کیوشن ہی ہے۔پاکستان میں احمدیوں کے خلاف باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے مطابق ہم اپنے عقائد کا نہ اظہار کرسکتے ہیں، نہ ان پر عمل کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی تبلیغ کرسکتے ہیں ۔پاکستان کےعلاوہ اور بھی بعض مسلمان ممالک ہیں جہاں احمدیوں کو مسائل کا سامناہے۔ لیکن خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کی زندگی کافی مشکل ہے۔

پریس کانفرنس بر موقع افتتاح مسجد مسرور ورجینیا

٭ ایک صحافی نے سوال کیاکہ آپ ترقی پذیر ممالک میں رفاہی کاموں کو فروغ دے رہے ہیں۔ آپ کی اپنی جماعت ان ملکوں کی کس طرح مدد کررہی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: افریقہ بالخصوص ویسٹ افریقہ کے کافی ممالک ہیں جہاں ہمارے ہسپتال کام کررہے ہیں اور ہم ان ملکوں میں طبی سہولیات مہیاکررہے ہیں۔ان ملکوں میں ہمارے سکول بھی قائم ہیں اور ہم اُن بچوں کو بھی تعلیم دے رہے ہیں جن کی سکول تک پہنچ نہیں ہوتی۔ہمارے سکول اکثر دوردراز کے علاقوں میں ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی کئی پراجیکٹس چل رہے ہیں جیسے پینے کے صاف پانی کا پراجیکٹ ہے۔ افریقہ میں صاف پینے کا پانی بہت مشکل سے ملتاہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بالٹیاں رکھ کر دو دو، تین تین کلومیٹر پیدل چل کرجاتے ہیں اور تالابوں سے پانی لیکر آتے ہیں اورجو پانی میسر ہوتاہے وہ بھی گندااور آلودہ ہوتا۔ جب ان لوگوں کے گھروں کے باہر پینے کا صاف پانی ملتاہے تو وہ بہت خوشی کا اظہارکرتے ہیں۔یہاں اگر آپ کو مہنگی سے مہنگی چیز ملے تو آپ اس کے ملنے پر بہت خوش ہوں گی اور خوشی سے اچھلنے لگیں گی۔ جب افریقہ کے وہ لوگ جو ان بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں انہیں جب پینے کا صاف پانی بھی ملتاہے تو ان کے چہروں پر خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔اُس وقت ان کے احساسات ناقابلِ بیان ہوتے ہیں۔

٭ ایک صحافی نے سوال کیاکہ احمدیوں اور دوسرے مسلمان فرقوں میں کیافرق ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: رسولِ کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تمام مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخری دور میں ایک شخص ظاہر ہوگا یا ان کی تفسیر کے مطابق دو شخص ظاہر ہوں جن میں سے ایک مسیح اور ایک مہدی ہوگا۔ ہمارایقین ہے کہ بانی ٔ جماعت احمدیہ مسلمہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی شخص تھے۔ اور آپ علیہ السلام نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی کی کہ آپ علیہ السلام وہی شخص ہیں جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس آنے والے شخص کا مقام و مرتبہ ‘نبی’ جیساہوگا۔ توباقی مسلمان فرقے کہتے ہیں کہ وہ شخص ابھی ظاہر نہیں ہوا اور مسیح آسمان سے نازل ہوگا اور مہدی کا ظہور مسلمانوں کے بیچ میں سے ہوگا۔ اور پھر یہ دونوں اکٹھے مل کر اسلام پھیلانے کا کام کریں گے۔

دوسرے مسلمان فرقے کہتے ہیں کہ احمدی اپنی جماعت کے بانی حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام کو نبی سمجھتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہوتاہے کہ ہم نبی سمجھتے ہیں کیونکہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ نے اس آنے والے شخص کو ‘نبی’ کا لقب عطافرمایاہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کو نبی سمجھتے ہیں تو پھر ہم آنحضرتﷺ کی نبوت کی مہر کو توڑرہے ہیں جو کہ خاتم النبیین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدی قرآنی تعلیمات کو نہیں مانتے اور حضرت محمدﷺ کی خاتمیت پر حملہ کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنی جماعت کے بانی کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔اس طرح ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق احمدی مرتد ہیں اورآنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں ، اس لیے یہ ہر قسم کی سزا کے مستحق ہیں۔ جبکہ قرآن کریم میں تو آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے یا ارتداد اختیارکرنے والے کے لیے کوئی سزا نہیں مقرر کی گئی۔پس اسی وجہ سے پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور باقی مسلمان ممالک میں بھی احمدیوں کو پسند نہیں کیاجاتا۔ باقی جہاں تک ہمارے عقائد کا تعلق ہے تو ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ آخری شرعی نبی تھے۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن آخری شرعی کتاب ہے۔ لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ وہ شخص جس نے آخری دنوں میں آنا تھا اُسے آنحضرت ﷺ نے ‘نبی ’کا خطاب دیاہے لیکن وہ نبی صاحبِ شریعت نبی نہیں بلکہ ظلی نبی ہوگا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد ظلی نبی آسکتاہے لیکن کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی۔ ہمارے اور دیگر مسلمان فرقوں کے درمیان آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی تفسیر میں فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ آخری شرعی نبی ہیں لیکن ان کے بعد بروزی نبی آسکتے ہیں لیکن دیگر مسلمان کہتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتاخواہ وہ ظلی ہو یا صاحبِ شریعت نبی ہو۔

٭ اس کے بعد وائس آف امریکہ (بنگلہ سروس) کے صحافی نے سوال کیاکہ آج کل ساری دنیا میں ہی مسلمانوں پر ظلم ہورہے ہیں۔ فلسطین میں ظلم ہورہاہے۔ افریقہ میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے۔حال ہی میں میانمر میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہواہے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو میانمرسےہجرت کرناپڑی ہے اور وہ بنگلہ دیش میں آکر پناہ لے رہے ہیں جہاں وہ کیمپوں میں انتہائی بد ترین حالات میں رہ رہے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟ جماعت احمدیہ اس حوالہ سے کیا سوچ رہی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: صرف مسلمانوں پر ہی ظلم نہیں ہورہے ، غیر ترقی یافتہ ممالک بالخصوص افریقہ کے لوگ بہت زیادہ مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ باقی جہاں تک Rohingyaمسلمانوں کا تعلق ہے تو ان پر واقعی حکومت کی طرف سے یا اُن لوگوں کی طرف سے جنہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے بہت زیادہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ ہم ان مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور ان کی سخت مذمت کرتے ہیں۔اپنی چیریٹی آرگنائزیشن کے ذریعہ ہم ان لوگوں کی بنگلہ دیش کیمپوں میں جس حد تک ممکن ہو سکے امداد بھی کررہے ہیں۔ ہم تو ان تمام لوگوں، حکومتوں اور ملکوں کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں جو کسی بھی صورت میں مظالم ڈھارہے ہیں۔

٭ ایک صحافی نے سوال کیا کہ ایک مکمل اسلامی معاشرہ کس طرح کا ہوتاہے اور ایک اسلامی فیملی کس طرح کی ہوتی ہے؟ اسلامی معاشرہ یا اسلامی فیملی آجکل کے مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تاریخ میں اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت کی نظیر ہمارے سامنے ہے اور یہ اسلامی حکومت اُس وقت قائم ہوئی جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اُس وقت مدینہ میں موجود مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا اور سارے اپنی اپنی شریعتوں کے مطابق وہاں زندگیاں گزارتے تھے اور ساروں نے متفقہ طور پر رسولِ کریم ﷺ کو اس ریاست کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔ تو اسلامی حکومت کی مثال میثاقِ مدینہ کی ہے۔ اُس وقت سارے لوگ بڑے اچھے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہے ماسوائے اُن کے جنہوں نے اس معاہدہ کی پاسداری نہیں کی اور قانون کی خلاف ورزی کی۔ تواسلامی معاشرہ کا وہ ایک ماڈل تھا۔ یہی وہ ماڈل ہے جس کے متعلق عمران خان کہتاہے کہ وہ پاکستان میں قائم کرنا چاہتاہےجس میں وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا۔

جہاں تک خاندانوںاور گھروں کا تعلق ہے تو اس کے متعلق اسلام کہتاہے کہ آپ کو اپنی عورتوں کو عزت دینی چاہیے، آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ عورت کی عزت کرو، آپ ﷺ نے فرمایاکہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔اس کا مطلب ہے کہ بچوں کی پرورش اور تربیت میں عورتوں کا بہت اہم کردارہے۔پھر اسلام نے طلاق کی اجازت تو دی کہ اگر میاں بیوی کے درمیان مفاہمت نہیں ہوتی تو طلاق کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود طلاق کو ناپسندیدہ فعل قراردیاگیاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو پسند نہیں فرمایا۔پس خاندان کے تعلق میں یہ اسلامی تعلیمات ہیں۔ اسی طرح دوسرے معاملات کے متعلق بھی کامل رہنمائی فرمائی۔ مثلاً تجارت ہے۔ اس کے متعلق اسلام کہتاہے کہ ایمانداری کے ساتھ تجارت کریں۔ ایک مرتبہ رسولِ کریم ﷺ بازار تشریف لے گئے اور وہاں گیہوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ ڈھیر کے نیچے دانوں کا معیار او رتھا اور اوپر والے دانوں کا معیار اور تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ تم تو لوگوں کو دھوکا دے رہے ہو جس کی ہرگزاجازت نہیں ہے۔ اس کی تمہیں سزا ملے گی۔ تواسلام نے ہر لحاظ سے لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔ اس لیے اگر اسلامی تعلیمات پر حقیقی طور پر عمل کیاجائے تو تمام لوگ انتہائی امن کے ساتھ زندگیاں گزار سکتے ہیں۔

٭ ایک صحافی نے سوال کیاکہ حضورانور دنیا میں امن کے قیام کے لیےکوششیں کررہے ہیں۔اس وقت دنیا کے حالات کافی خراب ہیں۔شام میں جنگ ہورہی ہے اور اسی طرح دنیا کو اوربھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ چنانچہ ان حالات کے حوالہ سے حضورانور کا کیا نظریہ ہے اور ہم کس طرح امن کا قیام کرسکتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر لوگوں اور دنیا کے رہنماؤں نے اپنے خالق اور اُس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو دنیا میں ایک بہت بڑی تباہی آئے گی جس پر قابو پانا کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔ آجکل ہر کوئی دوسرے کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتاہے کہ فلاں کا قصور ہے یا فلاں کی غلطی ہے لیکن اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہمیں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کرنی چاہیے۔ یہی واحد حل ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اس اصول پر عمل کرنا نہایت مشکل ہوچکاہے۔ ان تعلیمات پر مسلمان ممالک عمل نہیں کررہے اور ہم احمدی مسلمان ان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور ان کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ اگر اِس اُصول پر عمل نہ کیاگیاتو دنیا تیسری جنگِ عظیم ہوتادیکھے گی۔اگر حکومتوں نے اپنی پالیسیاں اور حکمتِ عملیاں نہ بدلیں تو آپ بھی اس کے نتائج جلد ہی دیکھ لیں گے۔ بلکہ کسی حدتک تو یہ جنگ شروع بھی ہو چکی ہے۔ شام کی جنگ کی وجہ سے کئی دوسرے ملک بھی اس کا حصہ بن گئے ہیں۔ لاوا اُبلنا شروع ہوگیاہے اور کسی وقت بھی پھٹ سکتاہے۔

یہ پریس کانفرنس چاربجکر 55 منٹ تک جاری رہی۔

پریس کانفرنس کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لے آئے جہاں ڈاکٹر کاترینہ Dr.Katrina Lantos Swett نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کی۔ موصوفہ ‘‘Tom Lantos Foundation for Human Rights and Justice’’کی پریذیڈنٹ ہیں اور قبل ازیں Capitol Hill یوایس اے کے پروگرام جس میں حضورِانور نے خطاب فرمایا تھا اور پیس کانفرنس لندن میں شامل ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹر کاترینہ خصوصی طور پر اپنے شیڈیول میں تبدیلی کرکے حضورِانور سے ملاقات اور مسجد کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لیے New Hampshire سے آئی تھیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے یاد رکھا اور خصوصی طور پر ملنے کے لیے آئی ہیں۔
موصوفہ نے عرض کیا کہ حضورِانور امریکہ کے لیے روحانی مرہم ہیں اور امریکہ کو اس وقت حضورِانور کی رہنمائی اور قیادت کی اشد ضرورت ہے۔

حضورِانور نے فرمایا: ہم تو امن چاہتے ہیں اور امن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن امن کی طرف قدم بڑھایا نہیں جارہا۔

حضورِانور نے فرمایا: میں نے پریس کو بھی کہا ہے کہ اگر ہم نے امن کے قیام کی طرف توجہ نہ کی تو ہم ایک عالمی جنگ کی طرف جارہے ہیں۔ اور اب تو بعض دوسرے ذمہ دار لوگ بھی اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ اب عالمی جنگ کے خدشات ہیں۔

موصوفہ نے احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے حوالہ سے عرض کیا کہ حضورِانور بے شک ہمت اور صبر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی سٹیٹ پرسی کیوشن کا سامنا کررہی ہے۔ وہاں قوانین کے ذریعہ احمدیوں کے حقوق سلب کیے گئے ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا: اس وقت جو دنیا کے حالات ہیں ہم کمیونٹیز میں نفرت کے بیج بورہے ہیں۔ جو اقدام اُٹھائے جارہے ہیں اس سے امن تو قائم نہیں ہوگا۔ حضورِانور نے فرمایا یہ بڑے ممالک کی ذمہ داری ہے اور لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ دیکھیں کہ کس طرح امن کی طرف قدم اُٹھانا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا ہمیں آپ کی طرح کام کرنے والے مزید لوگ چاہئیں نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا کے اور دوسرے ممالک میں بھی۔

موصوفہ نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مساجد کے افتتاح پر مبارکباد پیش کی اور بتایا کہ حضورِانور نے یوایس اے ایمبیسڈر اور دیگر کانگرس کے ممبران سے جس طرح مذہبی آزادی کے حوالہ سے بات کی اُس سے انہیں بہت خوشی ہوئی ہے۔

موصوفہ نے حضورِانور سے واپسی پروگرام کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا۔ اس سوموار کو واپس جا رہا ہوں۔

یہ ملاقات پانچ بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوفہ نے تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں ملک گیمبیا (Gambia)کے ایمبیسڈر برائے یوایس اے Hon.Dawda Federa نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف پایا۔ ملاقات میں موصوف کی اہلیہ اور پولیٹیکل کونسلر بھی شامل تھے۔

نئی حکومت کے حوالہ سے بات ہوئی کہ کس طرح کام کررہی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا:اب گیمبیا میں ہم اپنا tv چینل کھول رہے ہیں۔ ہم گیمبین tv کی بھی مدد کررہے ہیں۔ وہاں ان کو ٹیکنیک سکھارہے ہیں اور تعاون پیش کر رہے ہیں۔

ایمبیسڈر موصوف نے عرض کیا کہ جماعت نے جو وہاں سکول اور ہسپتال کھولے ہیں اس کا ملک کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اور ایجوکشن ہی ملک کی ترقی کی بنیاد ہے۔ جماعت کا جو سکول (بانجل)تالنڈنگ کنجانگ میں ہے، وہ ملک میں بہترین سکول ہے۔

حضورِانور نے فرمایا:ہم خدا کی خاطر مدد کرتے ہیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگوں کاانٹرسٹ اور ہوتا ہے۔

گیمبیا کے ایمبیسڈر کی حضورِانور سے یہ ملاقات پانچ بج کر پندرہ منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوف اور ان کی اہلیہ نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

اس کے بعد پروگرام کے مطابق کانگرس مین Gerry Connolly نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔

موصوف کے سوال پر حضورِانور نے فرمایا۔ تین ہفتہ قبل امریکہ میں آئے تھے۔ اس دوران گوئٹے مالا بھی گئے اور وہاں ہم نے ایک ہسپتال تعمیر کیا ہے۔ اس کا افتتاح کیا۔

اس پر موصوف نے عرض کیا کہ گوئٹے مالا بڑا خوبصورت ملک ہے۔ حضورِانور نے فرمایا بڑا خوبصورت ہے۔

موصوف نے عرض کیا کہ اب آئندہ تین دن تک ملک میں الیکشن ہورہا ہے اس پر حضورِانور نے فرمایا میں اس سے ایک دن قبل جارہا ہوں۔

حضورِانور کے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ ان کے حلقہ میں آٹھ لاکھ کے قریب لوگ ہیں اور غالباً ووٹر ٹرن آئوٹ پچاس فیصد رہا۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا اس کا مطلب ہے کہ اگر اب الیکشن کے وقت ووٹر ٹرن آئوٹ میں اضافہ ہوا تو جیتنا آسان ہوگا۔ اگر ووٹر کو گھر سے لے آئیں تو پھر آپ جیت جائیں گے۔

موصوف نے جماعت کے حوالہ سے عرض کیا کہ یہاں امریکہ میں آپ کی کمیونٹی ترقی کررہی ہے۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا: یہاں بھی اور ہر جگہ ترقی کررہی ہے۔ ہرسال پانچ چھ لاکھ لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ بہرحال جماعت ترقی کررہی ہے۔ یہ ملاقات پانچ بج کر بیس منٹ تک جاری رہی۔آخر پر موصوف نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لائبریری میں تشریف لے آئے جہاں آج کی افتتاحی تقریب کے لیے آنے والے بعض حکومتی افراد اور مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

ملاقات میں درج ذیل مہمان شامل ہوئے۔
1۔ Hala Ayala ممبر آف ورجیناہاؤس آف ڈیلیگیٹس
2۔ Ruth Anderson ممبر آف پرنس ولیم کاؤنٹی بورڈ آف سپروائزرز
3۔ Jeanette Rishell میئر آف Manassas Park
4۔ Maureen Caddigan ، ممبر آف پرنس ولیم کاؤنٹی بورڈ آف سپروائزر
5۔ Corey Stewart چیئرمین آف پرنس ولیم کاؤنٹی بورڈآف سپروائزرز۔
6۔ Martin Nohe ممبر آف پرنس ولیم کاؤنٹی بورڈ آف سپروائزرز
7۔ Jeremy McPike سینیٹر برائے سٹیٹ آف ورجینیا
8۔ Dawda Fadera، ایمبیسڈر آف دی گیمبیا
9۔ Adam Manne۔ یہودی آرگنائزیشن Nershalom Virginia کے وائس پریذیڈنٹ
10۔ Kathleen Smith ممبر آف فیئر فاکس کاؤنٹی بورڈ آف ڈائریکٹرز
11۔ Elizabeth Guzman ممبر آف ورجینیا ہاؤس آف ڈیلیگیٹس
12۔ ڈاکٹر Katrina Lantos Swett پریذیڈنٹ آف Tom Lantos Foundation برائے عدل و انسانی حقوق۔
13۔ عبدالعزیزSachedina چیئر آف اسلامک سٹڈیز، جارج میسن یونیورسٹی
14۔ آنریبل Gerry Connolly یو۔ایس کانگریس مین

٭ ملاقات کے دوران تمام مہمانوں نے اپنا تعارف کروایا۔

٭ پرنس ولیم کاؤنٹی کے چیئر مین بورڈآف سپروائزرز نے کہا کہ میں حضورانور کو اس کاؤنٹی میں خوش آمدید کہتاہوں۔ میں اس سال سینیٹ کی سیٹ کے لیےبھی حصہ لے رہاہوں۔ اور اس کے لیے حضورانور کی خدمت میں دعاکی درخواست کرتاہوں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

٭ Martin Nohe نے کہا کہ میں بھی پرنس ولیم کاؤنٹی بورڈ کا ممبر ہوں۔ مجھے بھی احمدیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میرے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیےکام کرنا باعثِ فخرہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے کہاکہ میری کاؤنٹی میں بھی احمدی موجود ہیں ۔ اتنی زیادہ تعداد تو نہیں ہے لیکن ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ:اس میں مزید اضافہ بھی ہوگا کیونکہ کافی مہاجرین یہاں آرہے ہیں۔
اس پر موصوف نے عرض کیاکہ ہماری کاؤنٹی میں پہلے مختلف مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت کم تھے لیکن اب ہماری کاؤنٹی میں ایسے لوگوں کا بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہواہے جس سے ہماری کاؤنٹی کی diversity میں کافی اضافہ ہواہے ۔

٭ Dawda Fadera گیمبین ایمبیسیڈرمع اہلیہ اس میٹنگ میں شامل ہوئے۔ موصوف نے کہا ہم اپنے ملک گیمبیا میں جماعت احمدیہ کی موجودگی سے ہسپتالوں، سکولوں اور مساجد کے ذریعہ بے پناہ فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ جماعت احمدیہ ہمارے ملک میں لوگوں پر نہایت مثبت اثر چھوڑ رہی ہے۔ گیمبین حکومت اور جماعت احمدیہ کے تعلقات نہایت مضبوط ہیں، اور انہی تعلقات کی بنا پر میں آج یہاں حاضر ہواہوں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موصوف کا شکریہ اداکیا۔

٭ بابرلطیف صاحب چیئرمین آف سکول بورڈ اِن پرنس ولیم کاؤنٹی نے کہا کہ میں حضورانور کو یہاں خوش آمدید کہتاہوں۔ ہمارے سکول سسٹم میں 91 ہزار طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان میں سے کافی احمدی ہیں۔

٭ Adam Manne صاحبsynagogue کے نمائندہ تھے ۔انہوں نے کہا میں یہودی کمیونٹی کی طرف سے دعوت پر آپ کا شکریہ اداکرنا چاہتاہوں۔

٭ ڈاکٹر Katrina Lantos نے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا آپ کی کمیونٹی اس ملک کی ترقی میں بہت اہم کرداراداکررہی ہے۔ اس لیے آپ کی یہاں تشریف آوری پر میں آپکا شکریہ اداکرتی ہوں اور آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے باعثِ فخر ہے۔

مہمانوں کے ساتھ یہ ملاقات پانچ بج کر پینتیس منٹ تک جاری رہی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button