حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صنفِ نازک پر احسانات
تاریخ عالم کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام وہ مذہب کامل ہے جس کی تعلیمات زندگی کے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں کیونکہ کوئی بھی مذہب اپنے نبی کی سیرت اور عملی زندگی کے بغیر ناکام ہے۔ ہر مذہب و ملت کو ایسے رہنما کی ضرورت رہی ہےجو اپنے عملی نمونے سے ایک عالم کی کایا پلٹ دے، جس کی تعلیم و ہدایت کا ہاتھ تھام کے انسان بے خطر منزل مقصود کا پتہ پا لے ۔یہ راہنما نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں خود قرآن نے گواہی دی :
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22) یعنی ‘‘یقیناًتمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ۔’’
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ‘‘انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں ۔حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد انکے آگے ہوتا ہے …میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی ۔یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے ؟بلکہ دکھانا چاہتا ہوں۔ اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں ۔’’
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 8-9ایڈیشن 2003)
کسی بھی انسان کی سیرت کو تحریر میں سمونا ایک مشکل امر ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اپنے اہل سے حسن سلوک اور صنف نازک کی تربیت سے متعلق آقا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور غلامِ کامل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت مبارکہ سے چندواقعات پیش کریں گے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق نے اپنے آقا ومطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوہ کو نہ صرف کھول کر ہمارے سامنے رکھا بلکہ عملی اظہار میں آپ علیہ السلام دنیا کے تمام عاشقوں میں سب سے ممتاز تھے ۔
مجال ہم نشین در من اثرکرد
وگرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم
( براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خرائن جلد اول صفحہ 445-446حاشیہ نمبر 11)
سادہ گھریلو زندگی
دونوں جہانوں کے بادشاہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوراک و لباس اتنے سادہ تھے کہ اسراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھےکہ ‘‘میں تو عام مزدور سا آدمی ہوں ۔ عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں ۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی بھی اس پر گواہ تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے خود دھو لیتے تھے ،گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے ،خود اونٹ کو باندھتے تھے ،اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے ،بکری خود دوھتے ،اپنے ذاتی کام خود کر لیتے تھے ۔ خادم کے ساتھ اس کی مدد بھی کرتے ،اُس کے ساتھ مِل کر آٹا بھی گوندھ لیتے ، بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے ۔’’
خوش مزاجی شخصیت کا خاصہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے ۔(شرح المواھب الدینہ زرقانی جلد 4ص 253بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’صفحہ811ایڈیشن 2004ء)
گھریلوزندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنیے۔ آپ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پرسوت کات رہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میں محو حیرت ہو کر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ گہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حالت بھانپ کر فر مایا عائشہ ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران و ششدر کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا ابھی جو آپ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابو کبیرھندلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھ لیتا تواسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا! ابو کبیر کے وہ شعر تو سناؤ۔ میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا۔
فَاِذَا نَظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ العَارِضِ الْمُتَھَلِّلِ
‘‘کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک با دل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو ۔’’
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوش محبت اور فر ط مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہ اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ شاید تم نے مجھے اس حال میں دیکھ کراتنا لطف نہیں اُٹھایا ہو گا جتنا مزا مجھے آپ سے یہ شعرسن کر آیا ہے۔
(الخصائر الکبری جلد 1صفحہ116 بحوالہ‘‘اسوۂ انسان کامل’’صفحہ 56 ایڈیشن 2011)
انداز ِالفت و مودت
حضرت عا ئشہ ؓ کے تو آپ بہت ہی نا ز ا ٹھا تے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فر ما نے لگے کہ عا ئشہ ؓ میں تمہا ری نا را ضگی اور خوشی کو خو ب پہچا نتا ہو ں ۔حضرت عا ئشہ نے عر ض کیا وہ کیسے؟فر ما یا جب تم مجھے سے خو ش ہو تی ہو تو اپنی گفتگو میں رَبّ ِمحمد صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کہہ کر قسم کھا تی ہو اور جب نا را ض ہو تی ہو تو ربِّ ا برا ہیم علیہ السلام کہہ کر با ت کر تی ہو ۔ حضرت عا ئشہ ؓکہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ توٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبا ن سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وا ٰلہ وسلم کا نام چھو ڑتی ہوں (دل سے تو آپ صلی اللہ علیہ وا ٰلہ وسلم کی محبت جا نہیں سکتی)۔ (بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء وجدھن بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ651- 652)
بے تکلفی کا اظہار
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں سے بھی بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے ۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کے ایرانی ہمسائے نے دعوت پر بلایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تکلف فرمایا کہ کیا میری اہلیہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ساتھ دعوت ہے؟ اس نے کہا ‘نہیں ’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘پھر میں بھی نہیں آتا۔’’ دو تین دفعہ کے تکرار کے بعد ایرانی نے آخر کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی آجائیں ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش خوش اس کے گھر کی طرف چلے۔ (مسند احمد جلد 3صفحہ 123مطبوعہ بیروت بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ776ایڈیشن 2004)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اتباع رسول کا عملی نمونہ تھے۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیا کرتے تھے۔(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 492)
کسی شخص کی عائلی زندگی کے حوالہ سے اس کے قریبی رشتہ دارہی بہتر گواہی دے سکتے ہیں چنانچہ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘ میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت ام المؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک idealجوڑے کی ہونی چاہیے۔’’
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہان بیگم مرتبہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 231)
آپ ؑ کی حیات طیبہ کا سب سےنمایاں پہلو آپ کا حسن اخلاق اور طرز معاشرت تھا جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور عکاسی کرتا تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضرت اماں جان کی شادی ایک الہامی شادی تھی جو اذن الہٰی کے تابع ہوئی۔ اس بارے میںسیرت حضرت اماں جان میں مذکور ہے ‘‘یہ شادی 1884میں ہوئی ۔یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنے دعویٰ مجدد یت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان ؓ…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہا درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے منشا کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان ؓ کو مخصوص نسبت ہے چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں ‘‘میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے’’ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکرا کر فرماتے تھے ‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے ۔’’(از سیرت و سوانح حضرت اماں جان مصنفہ پروفیسرسیدہ نسیم سعید صاحبہ صفحہ 107)
حضرت اماں جانؓ بیان فرماتی ہیںکہ ‘‘میں پہلے پہل جب دہلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ( مسیح موعودؑ) کو گُڑ والے چاول بہت پسند ہیں ۔میں نے بڑے شوق سے ان کے پکانے کا انتظام کیا ۔تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا ۔وہ بالکل راب بن گئے۔جب دیگچی چولہے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اورصدمہ ہواکہ یہ تو خراب ہوگئے۔ادھرکھانے کا وقت ہوگیا تھا ۔حیران تھی کہ اب کیا کروں ۔اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا ۔آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا: ‘‘کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے ؟’’
پھر فرمایا:
‘‘نہیں یہ تو بہت مزیدار ہیں ۔میری پسند کے مطابق پکے ہیں ۔ ایسے ہی زیادہ گڑ والے تومجھےپسند ہیں ۔یہ تو بہت ہی اچھے ہیں ۔’’
اور پھر بہت خوش ہوکر کھائے ۔حضرت اماں جان ؓ فرماتی تھیں کہ‘حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کو اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا۔’’
(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ ،ص7,6)
ازواج سے حسن و احسان
بیوی کے ساتھ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بطورنصیحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ۔ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتائو کریں ۔’’(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ 18)
حضرت مسیح موعودؑ کے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے حوالے سے مذکور ہے ‘‘شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت سودہؓ نے اپنے بڑھاپے کے باعث محسوس کیا کہ گھر یلو ذمہ داریوں کی ادائیگی ان پر بوجھ ہے۔ اور از دواجی تعلق کی انہیں حاجت نہیں رہی مگر یہ دلی تمنا ضرور تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بابرکت عقدتا دم حیات قائم رہے ۔انہوں نے از خود نبی کریم کی خدمت میں درخواست کی کہ مجھے دیگر ازواج سے مقابلہ کی کوئی تمنا نہیں صرف اتنی خواہش ہے کہ قیامت کے روز آپ کی بیویوں میں میرا حشر ہو۔ آپ ؐ سے علیحدگی نہیں چاہتی تاہم اپنے حقوق ازدواج حضرت عائشہؓ کے حق میں چھوڑتی ہوں۔ بے شک میری باری ان کو دے دی جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی یہ تجویز قبول فرمالی ،مگر ان کے جملہ اخراجات حسب سابق ادا ہوتے رہے۔ (شرح المواہب اللدنیہ از علامہ زرقانی جلد 3صفحہ 922بحوالہ‘‘اسوۂ انسان کامل’’صفحہ 630ایڈیشن 2004)
حضرت مسیح موعود کا اپنی پہلی بیوی سے الگ رہنے کی اجازت لینا
حضرت اماں جانؓ سے شادی کے وقت آپؑ کی پہلی زوجہ صاحبہ بھی موجود تھیں۔ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں ‘‘والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا،ہوتا رہا۔اب میں نے دوسری شادی کرلی ہے۔اس لیے اب اگر دونوں بیویوں میں برابر ی نہیں رکھوں گامیں گناہ گار ہوں گا ۔اس لیے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو۔میں تم کو خرچ دیے جائوں گا۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ… بس مجھے خرچ ملتا رہے۔میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔’’( سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 394مصنف مکرم شیخ یقوب علی عرفانی صاحبؓ)
مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کاانداز الفت
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کسی سفر میں تھے۔سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی ۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔یہ دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں ۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں ۔حضرت صاحب نے فرمایاجاؤجی میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں ۔ (سیرۃ المہدی جلد اول، حصہ اول صفحہ56)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہاکے ساتھ سلوک اس زمانہ کے دستور اور ماحول کے اس قدر مخالف تھاکہ بقول حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ :
اس بات کو اندرون خانہ کی خدمت گار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں اور فطری سادگی اور انسانی جامہ کے سواکوئی تکلف اورتصنع کی زیرکی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت عمدہ طرح سے محسوس کرتی ہیں۔ وہ تعجب سے دیکھتی ہیں اور زمانہ اور اپنے اور اپنے گردوپیش کی عام عرف اور برتائوکے بالکل
بر خلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں اور میں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ‘‘مرجا بیوی دی گل بڑی مندا ہے’’(یعنی مرزا صاحب اپنی بیوی کی بات بہت مانتے ہیں)(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ 18)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خُلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسار ہی کا نام ہے یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کانام خلق ہے …جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اس وقت انکا نام خُلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہٗ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے‘‘اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ‘‘یعنی تو ایک بزرگ خُلق پر قائم ہے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 332-333)
ازواج مطہرات کا احترام
ہمارے آقا و مولیٰ کی زندگی کا ایک نمایاں خلق یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ بیویوں کے نیک اوصاف کی بہت قدر کرتے تھے چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے ایثار و فدائیت و وفا کی آپ کی زندگی میں بھی پاسداری کی اور انکی وفات کے بعد بھی کئی سال تک آپ نے دوسری شادی نہیں کی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ‘‘مجھے نبی کریم کی کسی دوسرے زندہ بیوی کے ساتھ بھی اس قدر غیرت نہیں ہوئی جس قدر حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پا چکی تھی۔’’
(بخاری کتاب الادب باب حسن العھد من الایمان بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ626ایڈیشن 2004)
فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہ! خدا نے آپ کواس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔
آپؐ فرماتے نہیں نہیں ۔خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سِپربنی جب میں بے یارو مدد گار تھا۔وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 118مطبوعہ بیروت بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ,626,627ایڈیشن 2004)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّی دور میں ہو چکا تھا۔ مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے جس اعلیٰ مقصد کے لیے یہ قدم اٹھایاگیا وہ اس شادی کے بعد بڑی شان سے پورا ہوا۔ احادیث نبویہ کا ایک بڑاذخیرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات پرمبنی ہے۔روحانی و جسمانی طہارت کے اعلیٰ مقام اور ذہانت کی وجہ سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہا بہت عزیز تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے سوائے عائشہ کے کسی بیوی کے لحاف میں وحی نازل نہیں ہوئی۔
(بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ ۱637یڈیشن 2004)
حضرت اُمّ المومنین کے احترام کے متعلق ایک روایت
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہی کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کا اس قدر اکرام و عزاز کرتے تھے آپ کی خاطر داری اس قدر ملحوظ رکھتے تھے کہ عورتوں میں اس بات کا چرچا رہتا تھا ۔جب میں لاہور میں ملازم تھا ۔1897ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے لاہور کا ایک معزز خاندان قادیان آیا۔ان میں سے بعض نے بیعت کی اور سب حسنِ عقیدت کے ساتھ واپس گئے ۔واپسی پر اس خاندان کی ایک بوڑھیا نے ایک مجلس میں یہ ذکر کیا کہ میرزا صاحب اپنی بیوی کی کس قدر خاطر اور خدمت کرتے ہیں ۔اتفاقاً اس مجلس میں ایک پرانے طرز کے صوفی بزرگ بھی بیٹھے تھے ۔وہ فرمانے لگے ہر سالک کا ایک معشوق مجازی بھی ہوتا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میرزا صاحب ؑ کا معشوق ان کی بیوی ہے ۔’’یہ خیال تو ان صوفی بزرگ کا تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ اُمّ المومنین کااحترام ان خوبیوں اور نیکیوں کے سبب سے تھا جو اُن میں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ فضلوں کے باعث تھا جو ہمیشہ ان پر ہوتے رہے۔’’
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اُمّ المومنین کو شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ایک روایت لکھی ہے:حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرون خانہ جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے ، جس کی ایک کھڑکی کوچہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں۔اس کمرے کی لمبائی کے برابر اس کے آگے جنوبی جانب ایک فراخ صحن ہواکرتا تھا ۔گرمی کی راتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اہل و عیال سب اس صحن میں سویا کرتے تھے۔ لیکن برسات میں یہ دقت ہوتی کہ اگر رات کو بارش آجائے تو چارپائیاں یا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں یا نیچے کے کمروں میں ۔اس واسطے حضرت اُمُّ المؤمنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے تاکہ برسات کے واسطے چارپائیاں اس کے اندر کی جا سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم صادر فرمادیا۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا،ہوا نہ آئے گی ،صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ ۔دیگر احباب نے بھی مولوی صاحبؓ کی بات کی تائید کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ مگر آخری بات جو حضورؑ نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے وہ یہ تھی:
‘‘کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کیے ہیں جو شعائراللہ میں سے ہیں ۔اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔’’ یہی روایت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اپنی سیرت اور حضرت عرفانی کبیر نے اپنی سیرت حصہ سوم کے صفحہ 368پر لکھی ہے ۔مگر اس میں کچھ لفظی تغیر ہے ۔جو یوں ہے۔فرمایا:
‘‘خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے ۔اس لیے میں اسے شعائراللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو وہ کہے مان لیتا ہوں۔’’
نفس روایت یا موضوع کی روح میں کوئی فرق نہیں۔ بہر حال یہ ایک واقعہ ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ اس وفد کی پروا کی نہ ان دلائل کو وزنی قرار دیابلکہ ان سب چیزوں کے مقابل میں عملی طور پر حضرت اُمُّ المؤمنین کی بات اور منشا کو ترجیح دی ۔
ایک دفعہ حضرت اُمُّ المؤ منین نے اس سیڑھی کے بدلنے کی ضرورت محسوس کی جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے مکان کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔اسے اس بالا خانہ کے ساتھ رکھنا تھا جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اور نیچے مولوی سیّدمحمد احسن صاحب رہتے تھے ۔مولوی محمداحسن صاحب نے اس سیڑھی کے وہاں رکھنے کی مخالفت کی کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے حکم دیا کہ سیڑھی وہیں رکھی جائے ۔
حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ انتظام کر رہے تھے اور ان کو اس کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑی ۔آخران کے مزاج میں گرمی تھی اور جہیرالصوت تھے۔ انہوں نے زور زورسے بولنا شروع کیا کہ یہ سیڑھی یہاں ہی رہے گی۔ مولوی محمد احسن صاحب بھی اونچی آواز سے انکار اور تکرار کرتے رہے ۔اتنے میں حضرت صاحبؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔اور پوچھا کیا ہے ؟ میر صاحبؓ نے کہا کہ مجھ کو اندر سیّدانی (مراد اُمّ المؤمنین) آرام نہیں لینے دیتی اور باہر سیّد سے پالا پڑ گیا ہے ۔نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہیں میں کیا کروں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:
‘‘مولوی صاحب ! آپ کیوں جھگڑتے ہیں میر صاحبؓ کو جو حکم دیا گیا ہے ان کو کرنے دیجیے۔روشنی کا انتظام کر دیا جائے گا۔آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔’’
اس طرح پر حضرت اُمُّ المؤمنین کی خواہش کو پورا کر دیا گیا۔
الغرض کبھی بھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں حضرت اقدسؑ کی طرف سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی دل شکنی ہوئی ہو ۔
حضرت اماں جان اور حضرت اماں جی اپنے بچوں کو ہمراہ لے کر حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ چند روز کے لیے تبد یلیٔ آب و ہوا کی غرض سے لاہور تشریف لے گئیں۔
جولائی1907ءکویہ قافلہ لاہور کی طرف روانہ ہوا اور 14جولائی 1907ء کو واپس بٹالہ پہنچا۔ حضرت اقدس جوحسن معاشرت کا ایک کامل نمونہ تھے۔اپنے حرم محترم کے استقبال کے لیے چندخدام سمیت عازم بٹالہ ہوئے۔ حضور پالکی میں سوار تھے اور قرآن کھول کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ خدام کا بیان ہے کہ بٹالہ تک حضور سورۃ فاتحہ پر ہی غور وفکر میں مشغول رہے۔ رستہ میں صرف نہر پر اتر کر وضو کیا اور پھر وہی سورۃفاتحہ پڑھنی شروع کردی۔ اللہ اللہ! کیا عشق تھا خدا کے مامور کو خدا کی کتاب کے ساتھ کہ گیارہ میل کے لمبے سفر میں قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہی زیر غور ہی۔ سچ فرمایا آپ نے کہ
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
جب بٹالہ پہنچے تو بٹالہ کے تحصیلدار رائے بسمل خاں صاحب نے اپنے مکان کے متصل اسٹیشن کے قریب ہی آپ کے لیے ایک آرام دہ جگہ کا انتظام کر دیا اور خود بھی حضرت اقدس کی ملا قات سے شرف یاب ہوئے۔ حضرت اقدس نے ان کے اس احسان پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد حضور اپنے حرم محترم کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔ آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آ چکی تھی اور حضرت اماں جان آپ کو تلاش کر رہی تھیں۔ چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لیے تھوڑی دیر تک آپ انہیں نظر نہیں آ سکے۔ پھر جب آپ پر نظر پڑی تو ‘‘محمود کے ابا’’کہہ کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس پر حضرت اقدس آگے …اپنی زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد حضور واپس اپنی فرودگاہ پر تشریف لائے اور دوپہر کا وقت گزارکر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے اور شام کے قریب بخیریت پہنچ گئے۔
بیماری میں اہل خانہ کا خیال
بیویوں میں سے کوئی بیمار پڑجاتی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس کی تیمارداری فرماتے۔تیمارداری کا یہ سلوک کس قدر نمایا ں اور ناقابل فراموش ہوتا تھا اس کا اندازہ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت سے ہوتا ہے ۔آپ ؓ فرماتی ہیں کہ واقعہ اِفک میں الزام لگنے کے زمانہ میں ، میں اتفاق سے بیمار پڑگئی ۔تو اس وقت تک مجھے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی کوئی خبر نہ تھی۔البتہ ایک بات مجھے ضرور کھٹکتی تھی کہ ان دنوں میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے محبت اور شفقت بھرا تیمارداری کا وہ کریمانہ سلوک محسوس نہیں کرتی تھی جو اس سے پہلے بیماری میں آپ فرمایا کرتے تھے ۔واقعہ افک کے زمانہ میں تو بس اتنا تھا کہ آپؐ میرے پاس آتے، سلام کرتے اور یہ کہہ کر کہ کیسی ہو واپس تشریف لے جاتے ۔اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ پہلے تو بیماری میں بڑے ناز اٹھاتے تھے اب ان کو کیا ہوگیا ہے؟ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ النبی المتعلق بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ637 ایڈیشن 2004)
حضرت ام ناصر صاحبہؓ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ ‘‘حضرت اماں جان ؓ ایک بار بیمار تھیں اور حضرت اقدسؑ تیمارداری فرمارہے تھے ، کھڑے دوائی پلارہے تھےاور حالت اضطراب میں حضرت اماں جان ؓ کہہ رہی تھیں ہائے میں مرجاؤں گی آپ کا کیا ہے،بس اب میں مرچلی ہوں تو حضرت صاحبؑ نے آہستہ سے فرمایاتو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کرکیا کریں گے؟’’
(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صاحبہ ص 117)
گھریلو کام کاج میں مدد
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپؐ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ مسجد تشریف لے جاتے (بخاری کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اھلہ بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ633 ایڈیشن 2004 )
کسی نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں کیا کیا کرتے تھے ۔فرمانے لگیں آپ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے، بکری خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کر لیا کرتے تھے۔
(مسنداحمدبن حنبل جلد 6 صفحہ 242،397بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ633ایڈیشن 2004)
اسی طرح بیان کیا کہ آپ ؐ اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے، جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مر مت کر لیتے تھے ۔
(مسنداحمدبن حنبل جلد 5 صفحہ 285بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ633ایڈیشن 2004)
رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے۔(مسلم کتاب الشربہ باب اکرام الضیف بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ633ایڈیشن 2004)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھریلو کام کاج میں مدد
اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عکس ہمیں مسیح محمدی کی معاشرت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ سیرت المہدی میں مذکور ہے: ڈا کٹر میر محمد اسمٰعیل صا حب ؓنے مجھ سے بیان کیا کہ حضر ت مسیح مو عود علیہ السلا م کو گھر کا کو ئی کام کر نے سے کبھی عا ر نہ تھی۔چارپائیاں خو د بچھا لیتے تھے۔فر ش کر لیتے تھے۔بستر ا کر لیا کرتے تھے۔ کبھی یکدم با رش آجا تی تو چھو ٹے بچے تو چارپائیوں پر سوتے رہتے۔ حضو ر ایک طرف سے خو د اُن کی چا ر پا ئیاں پکڑتے دوسری طرف سے کوئی اور شخص پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کر وا لیتے۔اگر کو ئی شخص ایسے مو قع پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجھو ڑکر جگا نا چا ہتا تو حضو ر منع کر تے اور فر ما تے کہ اس طرح یکدم ہلا نے اور چیخنے سے بچہ ڈرجا تا ہے ۔آہستہ سے آواز دے کر اُٹھا ؤ۔
(سیرت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ543 ایڈیشن جولائی 2008ء)
سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر ماسٹر صاحب سے مجھ سے بیان کیا کہ ‘‘حضرت صاحب مردوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھےکہ مرد اپنی بیویوں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کریں ثواب کا کام ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر کے کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ لفظ کہتے ‘‘ہمیں تو لکھنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔’’(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1577صفحہ 318ایڈیشن اگست 2008)
ایک اور روایت ہے کہ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب ؓ مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ‘‘ایک دفعہ حضرت ام المؤمنینؓ اور سب نے مل کر آم کھائے۔صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو، تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاںآگئیں۔اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی ۔کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدسؑ نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔’’(سیرت المہدی جلد دوم روایت 1470ص 261)
حسن سلوک کا ارشاد
(آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے) عہد رسالت میں جب بعض مردوں کی یہ شکایت ملی کہ وہ ‘‘ فَا ضْرِ بُوْھُنَّ ’’ (یعنی ان کو مارو) کی قرآنی رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کو ناواجب زدوکوب کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سمجھایا اور فرمایا کہ جو لوگ بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔
(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساءبحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ۴۰۸ایڈیشن 2004)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے، پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔
(سنن ابی داؤدْکتاب الاَدبْباب فی ن قل الحدیث)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب کشتی نوح میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :‘‘جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے حسن سلوک نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔’’
سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں۔ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہیے اور مردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہیے اور میں جب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المؤمنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے ‘‘محمود کی والدہ ’’یا کبھی‘‘محمود کی اماں! یہ بات اس طرح سے ہے’’ اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1576صفحہ 319ایڈیشن اگست 2008)
خواتین کی تربیت کا خیال
عیدین پر تمام خو اتین کی حا ضری رسول کر یم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم نے ضروری قرار دی اور فر ما یا جن عو رتوں نے بو جہ عذرشر عی نماز نہیں پڑھنی وہ مسلما نوں کی د عا میں شر یک ہو جائیں۔ اس مو قع پر حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مردوں میں خطبہ کے بعد عور توں کی طرف بھی تشر یف لے جا تے اور انہیں و عظ فر ما تے تھے ۔
(بخا ری کتاب العیدین بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ 410ایڈیشن 2004)
ایک د فعہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے علم میں یہ با ت آئی کہ بعض لو گ خوا تین کو رات کے وقت نما زبا جما عت کے لیے مسجد آنے سے رو کتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے مردو ں کو نصیحت فر ما ئی کہ اللہ کی لو نڈ یوں کو خدا کے گھروں میں آنے سے مت روکو۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی فروج النساء الیٰ المسجد مسنداحمدبن بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ408,408ایڈیشن 2004 )
اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندارکھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ‘‘میں نے درخواست کی کہ حضرت! مرد آپ کی تقریریں سنتے رہتے ہیں۔ ہم میں بھی کوئی وعظ و نصیحت کریں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ‘‘اچھا ہم تقریر کریں گے۔’’ پھر رات کو سب مستورات کو حضور علیہ السلام نے بلا بھیجا۔ کئی بہنوں کو اس وقت بچے پیدا ہوئے ہوئے تھے اور چلوں میں تھیں۔ جب ان کو معلوم ہوا تو وہ ڈولیوں میں بیٹھ کر آگئیں۔ ساری تقریر تو مجھے یاد نہیں رہی یہ یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘عورتوں میں یہ مرض حد سے بڑھا ہوا ہے کہ شرک کرتی ہیں اور پیر دستگیر کی منتیں مانتی ہیں اورایک دوسری کی شکایت کرنا ان کا رات دن کا کام ہے۔ اور عورتیں یہ دیکھنے آتی ہیں کہ یہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟ روزے رکھتے ہیں یا نہیں؟ ان کو یہ چاہیے کہ یہ خیال کر کے آئیں کہ ہم مسلمان بننے آئے ہیں۔ اور نماز کے متعلق یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ عورتوں پر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کہ ان میں وہ نماز اور روزے نہیں ادا کر سکتیں۔’’ (سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1394صفحہ 232ایڈیشن اگست 2008)
مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں ۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو۔ تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت 849صفحہ 759ایڈیشن اگست 2008)
سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ عوتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ذرا سی بات میں گالیاں اور کوسنوں پر اتر آتی ہیں بجائے اس کے اگر وہ اپنے بچوں کو نرمی سے پیش آئیں اور بجائے گالی کے ‘‘نیک ہو’’ کہہ دیا کریں تو کیا حرج ہے۔ عورتیں ہی اپنے بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بُرے اخلاق پیدا کرتی ہیں۔ اگر یہ چھٹے تو بچوں کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے۔ اگر میاں بیوی میں ناراضگی ہو جاوے تو چاہیے کہ دونوں میں سے ایک خاموش ہو جائے تو لڑائی نہ بڑھے اور نہ بچے ماں باپ کو تُو تُو مَیں مَیں کرتے سنیں۔ بچہ تو وہی کام کرے گا جو اس کے ماں باپ کرتے ہیں اور پھر یہ عادت اس کی چھوٹے گی نہیں۔ بڑا ہو گا ماں باپ کے آگے جواب دے گا پھر رفتہ رفتہ باہر بھی اسی طرح کرے گا اس لیے عورتوں کو اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہیے۔ آپ بیعت کرنے والوں کو ضرور کچھ روز اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1580صفحہ 319ایڈیشن اگست 2008)
مائی کا کو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے۔ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں۔ میں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پربرکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے۔ ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جا سکتی ہے۔ مائی کا کو نے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تا کہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کر سکیں۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت 851صفحہ 761ایڈیشن اگست 2008)
عورتیں نماز باجماعت پڑھا سکتی ہیں
ایک د فعہ حضرت ام سلمہ ؓکے گھر میں کچھ عو رتیں جمع تھیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے د یکھا کہ سب اکیلی ا کیلی نما زپڑ ھ ر ہی ہیں ۔اُم سلمہ ؓ کو فر ما یاتم نے ان کو نما ز باجماعت کیوں نہ پڑ ھا دی ؟ا م سلمہ ؓ نے پو چھا کیا یہ جا ئز ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فر ما یا ہاں جب تم ز یا دہ عور تیں ہو تو ایک در میان میں کھڑ ی ہو کر اما مت کر وا لیا کر ے ۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے نما ز با جما عت اور عبا دت ا لٰہی کا شو ق ان میں پیدا کیا۔ ( مجموعہ الفقہ بروایت زید بن علی صفحہ 43بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ645)
قصر نماز
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایک روایت میں قصر نماز کی بابت حضور ؑ کے ارشاد کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: ننگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے۔ اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی ننگل تک ہی گیا ہو اس کے لیے قصر جائز ہو جائے گا یہ مراد نہیں کہ کسی کام کے لیے صرف ننگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہو جاتا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ننگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لیے سفر قرار دیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے ۔ واللہ اعلم
(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ 552,551ایڈیشن 2008)
‘‘قوام ’’اور ‘‘راعی’’ یعنی سر پرست اور نگران ہو نے کے نا طے بیو یوں کی تر بیت کی ذمہ داری بھی ایک اہم اور نا زک مسئلہ ہے اپنی تمام تر دلدا ریوں اور شفقتوں کے ساتھ تر بیت کی ذمہ دا ری ادا کرنے کا حق ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وا ٓلہ ٖوسلم نے خو ب ادا فر ما یا ۔حسب ا رشاد خدا وندی جب بیو یو ں نے آیت تخییر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے پاس رہنا پسند فرمایا تو آپ کا ازواج مطہرات کو یہی درس ہو تا ہے کہ آپ د نیا کی عا م عورتوں کی طر ح نہیں ہیں ۔ اس لیے تقویٰ ا ختیا رکریں۔ اور لوچ دار آواز سے با ت نہ کر یں کہ منا فق کو ئی بد خیال د ل میں لائے اور زیا دہ وقت گھروں میں ہی ٹھہری ر ہا کریں۔ اور جا ہلیت کے طریق کے مطا بق ز ینت و آرائش کے ا ظہا ر سے باز ر ہیں اور نماز قا ئم کریں اور زکوٰۃ ادا کر یں اور خدا اور اس کی اطاعت میں کمر بستہ ر ہیں ۔جب کسی غیر مرد سے با ت کرنی ہو تو برعا یت پر دہ ایسا کر یں اور جب با ہر نکلیں تو اوڑھنیاں اس طرح لیا کریں کہ پہچا نی نہ جا ئیں ۔یہ سب ا حکا م وہ تھے جن پر عمل در آمد کے نتیجہ میں اہل بیت اور ازواج مطہرات نے مدینہ میں ایک پا کیزہ معا شرہ قا ئم کر دیا ۔
(اسوہ انسان کامل صفحہ 644,643ایڈیشن 2004)
مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو ان میں سے بیوہ، جوان اور مالدار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت علیہ السلام کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘جو ان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہیے۔’’ میں نے کہا جن کا دل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ‘‘اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گزار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کر لے۔ ’’(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1392صفحہ 231ایڈیشن اگست 2008)
عورتوں کی تربیت کا ہر پہلو سے خیال رکھنا اسوۂ محمدی کی پیروی میں حضرت اقدس کا وطیرہ تھا چنانچہ روایت ہے :مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت صاحب کی مجلس میں عورتوں کے لباس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرما یا کہ ایسا تنگ پاجامہ جو بالکل بدن کے ساتھ لگا ہوا ہو اچھا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس سے عورت کے بدن کا نقشہ ظاہر ہو جاتا ہےجو ستر کے منافی ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اور اس کے اثرکے ماتحت پنجاب میں بھی عورتوں کا عام لباس شلوار ہے۔ لیکن ہندوستان میں تنگ پاجامہ کا دستور ہے اور ہندوستان کے اثر کے ماتحت پنجاب کے بعض خاندانوں میں بھی تنگ پاجامے کا رواج قائم ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہمارے گھروں میں بھی بوجہ حضرت والدہ صاحبہ کے اثر کے جو دلّی کی ہیں، زیادہ تر تنگ پاجامے کا رواج ہے۔ لیکن شلوار بھی استعمال ہوتی رہتی ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ستر کے نکتہ نگاہ سے تنگ پاجامہ ضرور ایک حد تک قابلِ اعتراض ہے اور شلوار کا مقابلہ نہیں کرتا۔ ہاں زینت کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں بعض بدنوں پر تنگ پاجامہ سجتا ہے اور بعض پر شلوار۔ اندریں حالات اگر بحیثیت مجموعی شلوار کو رواج دیا جاوے تو بہتر ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت نے تو اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی رہنا ہے اور اگر باہر جانا ہے تو عورتوں میں ہی ملنا جلنا ہے تو اس صورت میں تنگ پاجامہ اگر ایک حد تک ستر کے خلاف بھی ہو تو قابلِ اعتراض نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ اول تو اس قسم کا ستر شریعت نے عورتوں کا خود عورتوں سے بھی رکھا ہے اور اپنے بدن کے حسن کو بیجا طور پر بر ملا ظاہر کرنے سے مستورات میں بھی منع فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں گھروں میں علاوہ خاوند کے بعض ایسے مردوں کا بھی آنا جانا ہو تا ہے جس سے مستورات کا پردہ تو نہیں ہوتا لیکن یہ بھی نہایت معیوب بلکہ نا جائز ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے اپنے بدن کے نقشہ اور ساخت کو برملا ظاہر کرے۔ پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایسے تنگ پاجامہ کا جس سے بدن کا نقشہ اور ساخت ظاہر ہو جاوے نا پسند کرنا نہایت حکیمانہ دانشمندی پر مبنی اور عین شریعت اسلامی کے منشاکے مطابق ہے۔ ہاں خاوند کے سامنے عورت بیشک جس قسم کا لباس وہ چاہے یا اس کا خاوند پسند کرے پہنے۔ اس میں حرج نہیں۔ لیکن ایسے موقعوں پر جبکہ گھر کے دوسرے مردوں کے سامنے آناجانا ہو یا غیر عورتوں سے ملنا ہو، شلوار ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک تنگ پاجامہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بدن کے ساتھ بالکل پیوست نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی قدر ڈھیلا رہتا ہے اور اس سے عورت کے بدن کی ساخت پوری ظاہر نہیں ہوتی۔ ایسا تنگ پاجامہ گو شلوار کا مقابلہ نہ کر سکے مگر چنداںقابل اعتراض بھی نہیں اور ہمارے گھروں میں زیادہ تر اسی قسم کے پاجامہ کا رواج ہے۔ قابل اعتراض وہ پاجامہ ہے کہ جو بہت تنگ ہو یا جسے عورت ٹانک کر اپنے بدن کے ساتھ پیوست کرے۔ (سیرت المہدی حصہ دوم روایت 391صفحہ 353,352ایڈیشن اگست 2008)
اہلیہ محترم قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں۔ کوئی شادی تھی۔ ان عورتوں نے ماتھا ٹیکا۔آپ نے فرمایا کہ ‘‘انسان کو سجدہ کرنا منع ہے۔’’ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ‘‘ان کو سمجھا دو اور خوب ذہن نشین کرادو کہ سجدہ صرف خدا کے لیے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہیے۔ ’’(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1377صفحہ 226ایڈیشن اگست 2008)
حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ؓ… وبنتِ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرور سلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب ،اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور اہلیہ پیر منظور محمد صاحب، حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں۔ اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُمّ وسیم سلمہا اللہ رہتی ہیں۔پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امّاں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت امّاں جان نے دریافت کیا کہ ‘‘اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے ؟’’آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں۔ ان سے کہہ دو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں۔’’ (سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1419صفحہ243ایڈیشن اگست 2008)
اہل خانہ کی تر بیت
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ :
ترجمہ…:اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف تسکین ( حاصل کرنے ) کے لیے جائو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ۔ ( سورۃ الروم آیت 22ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)
شوہر کی اطاعت اور فرمانبردار ی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین رفیقہ حیات وہ ہے ‘‘جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو ۔مرد جس کام کے کرنے کے لیے کہے اُسے بجا لائے اور جس بات کو اُس کا خاوندنا پسند کرے اُس سے بچے ۔
(نسائی بیہقی فی شعب الایمان۔مشکوٰۃ ’’حدیقۃ الصالحین‘‘ حدیث 354صفحہ 390-391ایڈیشن2006ء)
اس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی ہے کہ ‘‘عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون و چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے ۔’’( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 30ایڈیشن2003ء)
مریض کا خیال
حضر ت یعلی بن مروہ بیان کر تے ہیں کہ میں رسو ل کر یم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے سا تھ ایک سفر میں تھا ۔راستہ میں ا یک عو ر ت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔اس نے عر ض کیا کہ اللہ کے رسول !اس بچے کو نیند کی حا لت میں نا معلوم کتنی مر تبہ دورہ پڑتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فر مایاکہ بچہ مجھے پکڑا ؤ۔میں نے بچہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اسے اپنے پا لان پر بھٹا یا اور اس کامنہ کھو ل کر اس میں تین پھو نکیں ما ریں اور اسے اپنا لعا ب د ھن د یا اور فر ما یا ’’اللہ کے نام کے سا تھ ا ے اللہ کے بندے اے اللہ کے د شمن دور ہو جا ‘‘پھر حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے وہ بچہ وا پس پکڑادیا اور اس عو رت سے فر ما یا کہ وا پسی سفر میں اسی جگہ آکر ملنا اور بچے کا حا ل بتا نا۔سفر سے وا پسی پر وہ عورت و ہا ں مو جو د تھی۔اس کے سا تھ تین بکر یا ں بھی تھیں ۔رسو ل کر یم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے بچے کا کیا حا ل ہے ؟اس نے کہا خدا کی قسم اس گھڑی تک اُسے کو ئی دورہ نہیں پڑا ۔ پھر اس نے تین بکر یاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خد مت میں بطور تحفہ پیش کیں ۔ نبی کر یم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے مجھے فر ما یا کہ سو ا ری سے نیچے ا تر و اورایک بکری لے کر با قی واپس کر دو۔(مسنداحمدبن حبل جلد4صفحہ 170مطبوعہ بیروت بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ146ایڈیشن 2004)
حضرت ابن عبا سؓ بیان کر تے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور عر ض کیا کہ اسے کھانے کے وقت جنون کا دورہ ہو تا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم نے اس کے سینہ پر ہا تھ پھیرااور دعا کی۔اچانک اسے کھل کر ایک قے ہو ئی اور اس کے پیٹ سے سیا ہ ر نگ کا چھو ٹا سا سانپ نکل کر بھا گ گیا۔
(مسنداحمدبن حبل جلد1صفحہ 254مطبوعہ بیروت بحوالہ‘‘اسوۂ انسانِ کامل’’ صفحہ 147ایڈیشن 2004 )
…………………………………(باقی آئندہ)