خلاصہ خطبہ جمعہ مورخہ 22 ؍مارچ2019ء
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی ضرورت اور افادیت کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 ؍مارچ2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22؍ مارچ 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں 32؍مارچ (یومِ مسیح موعودؑ)کی مناسبت سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نےفرمایا کہ 32مارچ کادن یوم مسیح موعودؑ کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس دن آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں لانے کے لیے حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے مسیح اور مہدی ہونے کا اعلان کیا،اور بیعت کا آغاز فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت زمانہ اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے دعوے کے حوالے سے، آپ ؑکے زندگی بخش ارشادات پیش فرمائے۔ آپ ؑ کے شعر
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اَور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا
کے حوالے سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ زمانے کی حالت اس بات کی متقاضی تھی کہ کوئی آئے اور اسلام کی ڈوبتی کشتی کو سنبھالے۔ لیکن جب مسیح موعود کی آمد ہوئی تو اکثر مسلمان علما ءنے مخالفت کی راہ لی اور عامۃ المسلمین کو جھوٹی کہانیوںاور باتوں سے آپ ؑ کے خلاف بھڑکایا ،یہاں تک کہ قتل کے فتوے دیے جانے لگے۔آج تک اسلام کے نام پر بعض ممالک میں ظلم وبربریت سے قتل وغارت گری کی ہولناک مثالیں قائم کی جارہی ہیں۔
آیت استخلاف کی روشنی میں امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکااقتباس پیش فرمایا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب جیسے اہل کشوف نے اس صدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا۔بخاری شریف میں آنے والے مسیح کی بڑی علامت یکسر الصلیب ویقتل الخنزیر بیان ہوئی یعنی نزول مسیح کا وقت غلبہ نصاریٰ اور صلیبی پرستش کے زور کا وقت ٹھہرا۔پس اس وقت اسلام پر کینہ وری سے وحشیانہ حملے کیے گئے۔حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؑ پر انگریز وںکا خودکاشتہ پودا ہونے کا اعتراض غیر حقیقی ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں خداتعالیٰ نے اپنے دین اور حضرت محمدﷺ کی تائید میں ایک انسان کو بھیجا تاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔تمام اقوام اسلام کو معدوم کرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ ہے اور اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف و تالیف ہوکرشائع کی گئی ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب تو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذرائع سے یہ کام اور بھی بڑھ چکا ہے۔ اگر انا لہٗ لحٰفظون کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا۔مسلمانوں کو اسلام کی اتنی فکر بھی نہیں جتنی شادی بیاہ کے لیے فکر ہوتی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں میں اکثر پڑھتا ہوں کہ عیسائی عورتوں میں اپنے دین کی خدمت کے لیے ایساجوش ہے کہ شاید ہی کوئی مسلمان رکھتا ہو۔ حضور انور نے فرمایا کہ مسلمانوں کی اکثریت کا آج بھی یہی حال ہے۔ اگر کوئی نام نہادکوشش ہے تو وہ شدت پسندی اور زبردستی اسلام پھیلانے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں اب اگر اسلام دنیا میں پھیلنا ہے تو وہ اس کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ذریعے ہی پھیلنا ہے۔
آنے والے مسیح موعود کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں ان میں ماہ رمضان میں کسوف و خسوف اور ذُوالسّنین ستارے کاظہوربھی تھا،یہ وہی ستارہ ہے جو مسیح ناصری کے ایام میں طلوع ہوا تھا۔حضورِ انور ایّدہ اللہ نے سورۃ التکویر کی آیات 2 تا 11 میں موجود پیشگوئیوں کے حوالہ سے فرمایا کہ یہ سب پوری ہو چکی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ یہ زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے۔
مسیح موعود کے مبعوث ہونے کے مقام کی نسبت صاحب حجج الکرامہ نے لکھا کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان میں ہورہا ہے اوریہ لازم تھا کہ ظہور مسیح اسی جگہ ہو جہاں دجال ہو۔ اس مقام کا نام جہاں مسیح کی بعثت ہونا مقصود ہے ‘کدعہ’ بیان کیا گیا ہے جو فی الحقیقت قادیان کا مخفف ہے۔ اسی طرح ایک لطیف اشارہ حضورؑ کے نام کے اعداد میں بھی پوشیدہ تھا یعنی غلام احمد قادیانی کے عدد بحساب جمل تیرہ سو بنتے ہیں جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اُس نام کا امام چودھویں صدی کے آغاز پر ہوگا۔ پھر مزید نشانات میں حوادث اور آفات بھی ہیں۔ حوادث سماوی قحط،طاعون اور ہیضہ کی صورت میں ظاہر ہوئے جبکہ ارضی حوادث لڑائیاں ہیں۔ اسی طرح لیکھرام کا انجام اور جلسہ مذاہب عالم بھی ایسے نشانات ہیں جن کی مثال ملنا محال ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے ذریعے تکمیل ہدایت کا کام ہوا۔جبکہ تکمیل اشاعت ہدایت کا کام آپ ﷺ کی آمدِ ثانی میں ہوا ،جیسا کہ سورۃ جمعہ میں آخرین منھم سے علم ہوتا ہے کہ یہ آپﷺ کی بروزی اور ظلی بعثت ہے۔جدید ٹیکنالوجی، ڈاکخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کا اجرا یہ سب آنحضرت ﷺ کی ہی ترقیاں ہیں ۔کیوں کہ اس سے کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیل اشاعت ہدایت پورا ہو رہا ہے۔
حضورانور نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓکے بعض ارشادات پیش فرمائے کہ حضرت مسیح موعودؑ سے جب کوئی اپنے علاقے میں مخالفت کی شکایت کرتا تو آپؑ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے۔ تمام مذاہب اور اقوام، مولوی اور گدی نشین ، امرا ء اور خواص سب حضرت مسیح موعودؑ کے مخالف تھے پھر بھی آپ ؑ نے مقابلے کو جاری رکھا۔ حضورِ انور نے فرمایا لیکن ہواکیا،آج آپؑ کا نام دنیا کے212 ممالک میں لیا جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓ ایک اور صداقت کا نشان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ؑ کا وجود ہمارے لیے آیات مبینات ہے۔ کرم دین بھیں والے مقدمے میں جب خواجہ کمال الدین صاحب کے ذریعے علم ہواکہ ہندو مجسٹریٹ نے سزا دینے کا پختہ ارادہ کرلیاہے ۔ آپ ؑ نے فرمایا خواجہ صاحب خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے!میں خدا کا شیر ہوںوہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔ یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ دو مجسٹریٹ صاحبان کے سامنے پیش ہوااور ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی۔ ایک ان میں سے معطل ہوا جبکہ دوسرے کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مرگیا اور وہ اسی غم میں نیم پاگل ہوگیا۔
حضور انور نے ،حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالے سے نظام الدین صاحب جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ اورمحمد حسین بٹالوی صاحب کے مشترکہ دوست تھے کا واقعہ بیان کیا کہ جو حضورؑ سے متعلق نیک ظنی رکھتے تھے ۔ وہ اپنی سادگی میں حضور ؑسے یہ وعدہ لے آئے کہ اگر آپؑ کو قرآن سے حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان پر جانے کی دس آیات دکھادی جائیں تو آپؑ حیات مسیح کے قائل ہوجائیں گے۔ جب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو یہ پیغام دیا تو مولوی صاحب جن کی طبیعت میں بڑا غصہ تھا کہنے لگے کمبخت تُو نے میرا سارا کام خراب کر دیا۔ میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تو پھر قرآن کی طرف لے گیا ہے۔ جب مولوی صاحب یہ باتیں کہہ چکے تو مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں بھی ہوں، یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
اس کے بعد حضور انور نے51مارچ کونیوزی لینڈ میں ہونے والے افسوسناک واقعے کا تذکرہ فرمایا۔ حضورانور نے نیوزی لینڈکی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم نیوزی لینڈ کے اعلیٰ اخلاق کو سراہا۔ فرمایا کہ کاش مسلمان حکومتیں بھی اس سے سبق لیں اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ نیوزی لینڈ کی عوام نے بھی حکومت کا پورا ساتھ دیا۔ عیسائی عورتوں نے یکجہتی کے اظہار کے طور پر سکارف اور دوپٹہ لینے کا اعلان کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کو سچائی اور حق کو پہچاننے کی بھی توفیق عطافرمائے، اس دردناک واقعے میں شہید ہونے والے افراد کے لیے بھی حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے۔ اسی طرح وہاں کے مسلمانوں کے صبر اور حوصلے کی بھی تعریف فرمائی۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ بعض شدت پسند گروہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ یہ انتہائی غلط چیز ہے اس طرح تو دشمنیاں چلتی چلی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اسلام کے اندر جو شدت پسند گروہ ہیں ان کا بھی خاتمہ ہو، اور اسلام کی حقیقی اور خوبصور ت تعلیم دنیا میں پھیلے۔
آخر میں حضور انور نے تین نماز ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا ۔ جن میں پہلا جنازہ مولانا خورشید احمد انور صاحب وکیل المال تحریک جدیدقادیان کا تھا۔ 91مارچ کو 37 برس کی عمرمیں آپ کی وفات ہوئی۔
دوسرا جنازہ طاہر حسین منشی صاحب کا تھا۔ آپ نائب امیر جماعت احمدیہ فجی تھے۔ 5مارچ کو 27سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔
تیسرا جنازہ موسیٰ سسکو صاحب کا تھا جو مالی سے تعلق رکھتے تھے اور فوج میں بریگیڈئیر تھے۔ آپ 51؍مارچ کو وفات پاگئے۔
اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے ان کی اولاد کو بھی نیکیوں کی توفیق عطافرمائے۔نمازِ جمعہ اور عصر کے بعد حضورِ انور نے ان مرحومین کی نمازِ جنازہ غائب پڑھائی۔
٭…٭…٭