کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟ (قسط نمبر 5۔ آخری)
حضرت مصلح موعودؓ کا معرکہ آرا لیکچر
(فرمودہ 15فروری 1920ء بمقام بریڈ لا ہال لاہور)
مجھے اس وقت جو مضمون بیان کرنا ہے وہ تو ابھی دور ہی ہے اور بہت وسیع ہے مجھے جس جماعت سے تعلق ہے اس کے سامنے تو میں چھ چھ گھنٹے مسلسل تقریر کرتا ہوں اور وہ بڑے اطمینا ن اور آرام سے سنتے ہیں کیونکہ مذہب ان کے رگ و ریشہ میں داخل ہوچکاہے لیکن آپ لوگوں میں سے چونکہ اکثر ایسے ہیں جنہیں زیادہ عرصہ بیٹھ کر تقریر سننے کی عادت نہیں ہے اس لیے میں بقیہ وقت میں جو صرف پچیس منٹ ہے اپنے مضمون کو بہت مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح ؑنے ہی اس بات کا فیصلہ کردیا ہے کہ دنیا میں حقیقی اور پورا امن و امان اسلام ہی کے ذریعہ قائم ہوگا اور اب میں مسٹر لائڈ جارج کے مقابلہ میں ان ہی کے آقا کی بات پیش کرتا ہوں جس کو سامنے رکھ کر وہ خود ہی فیصلہ کردیں کہ حقیقی امن کون سا مذہب قائم کرسکتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک سند ہے جو ہمارے گھر کی نہیں بلکہ انہی کے گھر کی ہے اور اسی کتاب کی ہے جسے وہ خدا کی کتاب سمجھتے ہیں ۔وہ کہتی ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے والا مذہب اسلام ہی ہے اور وہ اس طرح کہ انجیل میں حضرت مسیحؑ اپنے حواریوں کو کہتے ہیں۔ ‘‘میں تم سے جدا ہونے والا ہوں لیکن میرے جانے سے تم غمگین نہ ہونا۔ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ میرے جانے کے بعد جو آئے گا وہ دنیا کا تسلی دہندہ ہوگا’’(یوحنا 7،16/6)
اس میں ایک خبر دی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایک موعود آئے گا اور وہ تسلی دہندہ ہوگا۔ اب دیکھو کیا اس کادوسرے لفظوں میں یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنے والا ہوگا۔ اضطراب اور بے چینی کو دور کرکے امن قائم کردے گا ۔ اس کے متعلق ہمارے پاس ثبوت موجود ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا گیا ہے۔ چنانچہ توریت میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑکہتے ہیں خدا نے مجھے کہا ہے کہ تیرے بھائیوں سے تیری مانند نبی برپا کروں گا(استثناء18/18) اس کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ ؑکے کون سے بھائی تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے دو بیٹے تھے اسحاق اور اسماعیل۔ حضرت اسحاقؑ کی اولاد سے حضرت موسیٰ ؑتھے اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو حضرت موسیٰؑ کے بھائی ہوئے ۔ پس ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیحؑ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے جانے کے بعد دنیا میں تسلی دہندہ آئے گا وہ اسی کے متعلق کہا ہے جس کی نسبت حضرت موسیٰ ؑکو بتایا گیا تھا کہ تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند نبی مبعوث کیا جائے گا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیحؑ پر نہیں لگ سکتی کیونکہ وہ تو خود کہتے ہیں کہ ‘‘یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں ، صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں’’(متی 10/34)اب عیسائی صاحبان خود فیصلہ کرلیں کہ کون سا نبی دنیا کے لیے امن کاموجب ہوسکتا ہے۔ سچ بات یہی ہے کہ اگر ساری دنیا کے لیے امن کا باعث ہے تو وہی ذات بابرکات جس کا نام محمد ﷺ ہے کیونکہ حضرت مسیحؑ کا تو اپنے متعلق فیصلہ ہے کہ ‘‘میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا’’(متی 15/24) اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو مذہب وہ لائے وہ تو صرف یہودیوں کی اصلاح کے لیے ہی تھا ۔ پس اگر اس سے امن قائم ہو سکتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیحؑ خود کہتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل میں امن قائم کرنے کے لیے آیا ہوں تو پھر مسٹر لائڈ جارج کس طرح کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کا لایا ہوا مذہب ساری دنیا کے لیے امن کا موجب ہوسکتا ہے ۔ اس کے لیے تو وہی مذہب کارآمد ہوسکتا ہے جس کا لانے والا کہتا ہے کہ پہلے انبیاءتو علیحدہ علیحدہ قوموں کے لیے آئے لیکن میں ہی ساری دنیا کے لیے آیا ہوں۔ پس اگر حضرت مسیحؑ کی تعلیم ساری دنیا پر امن قائم کرسکتی تو وہ کہتے کہ میں ساری دنیا کے لیے آیا ہوں مگر انہوں نے کہا تو صرف یہی کہا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے آیا ہوں۔ چنانچہ جب ایک غیر قوم کی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے آکر کہا کہ بد روح کو میری بیٹی میں سے نکال تو حضرت مسیح ؑنے کہا کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں (مرقس7/26-27) تو حضرت مسیحؑ نے کہا کہ میں اپنوں کی روٹی کتوں کے آگے نہیں ڈال سکتا ۔ لیکن کیا محمد رسول اللہ ﷺ نے کسی کو اس طرح کہا؟ ہرگز نہیں۔ تو حضرت مسیحؑ تو ایسی تعلیم لے کر آئے لیکن رسول کریم ﷺ وہ تعلیم لائے جس کی ابتدا ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوتی ہے۔ اسی کی طرف خاص توجہ دلانے کے لیے میں نے اس وقت اسے تین بار پڑھا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام جس خدا کو پیش کرتا ہے وہ کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام دنیا کا ہے اور اس نے سب کے لیے ہدایت بھیجی ہے پس یہی وہ تعلیم ہے جو ساری دنیا کے لیے ہے اور جس سے ساری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
اب میں ایک لطیف بات پر اپنے لیکچر کو ختم کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے مسٹر لائڈ جارج کے پیغام کا پہلے سے جواب دے دیا ہوا ہے اور یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ ہر ایک بات جو آئندہ پیش آنے والی ہواس کا جواب دے دیتا ہے۔ اسی طرح اس بات کا بھی اس نے جواب دیا ہوا ہے اور اس فقرہ کو نقل کرکے دیاہے جو مسٹر لائڈ جارج نے بیان کیا ہے۔ قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ حضرت ابراہیم ؑکا قول ہے مگر ایسی باتوں کو قرآن قصہ کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہی پھر ہونے والی ہوتی ہے ۔فرماتا ہے ۔ وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ(الانعام :82،83)
فرمایا کیا ہم تمہاری اس مشرکانہ تعلیم سے ڈر سکتے ہیں حالانکہ تم نہیں ڈرتے جو خدا کا شریک قرار دے رہے ہو ۔ جب تم نہیں ڈرتے تو پھر ہم کیوں ڈریں۔ ہمارے پاس جو تعلیم ہے وہ تو ایسی ہے کہ اس کی صداقت کے ہمارے پاس دلائل ہیں لیکن تمہارے پاس ایسی تعلیم ہے کہ جس کی صداقت کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اب تم ہی بتاؤ ان دو فریقوں میں سے کون سا فریق امن قائم کرسکتا ہے ۔ آیا وہ جو توحید کا قائل ہے یا وہ جو خدا کے ساتھ شریک مانتا ہے۔ تم علم کے بڑے دعویدار ہو اور علم النفس کے بڑے مدعی ہو۔تم ہی بتاؤ کہ ایک نقطہ پر جمع ہونے والی قوم اتحاد و اتفاق قائم کرسکتی ہے یا وہ جو تین نقطوں پر قائم ہو۔ تم خود ہی بتادو کہ وہ قوم امن قائم کرسکتی ہے جس کو خیال ہو کہ میں تین ہستیوں سے تعلق رکھتی ہوں یا وہ جو ایک ہستی سے تعلق رکھتی ہو۔ تم اپنے علوم و فنون کو لاؤ اور اس امر پر روشنی ڈالو کہ ان دونوں میں سے کونسی قوم ہے جو امن قائم کرسکتی ہے۔ توحید پر قائم ہونے والی یا وہ جو تین خداؤں کو مانتی ہے ۔ یہ تو دلیل بیان کی ہے اور آگے پیشگوئی کی ہے کہ لو ہم خبر دیتے ہیں کہ وہی اور صرف وہی قوم دنیا میں امن قائم کرے گی جو ایک خدا پر ایمان لائے گی اور جس میں شرک کاشائبہ بھی نہ پایا جائے گا۔
فرمایا تم دنیا میںامن قائم کرنا چاہتے ہو مگر اس کے لیے عملی طور پر دیکھ لو کہ تین خداؤں سے تعلق رکھنے والی قوم امن قائم کرسکتی ہے یا ایک سے تعلق رکھنے والی۔ اس کے جواب میں شاید مسیحی صاحبان کہہ دیں کہ ہم علیحدہ علیحدہ تین خدا نہیں مانتے بلکہ ایک ہی ہستی کی تین صفات مانتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر تین صفات مانتے ہو تو پھر خد کی اور بھی بہت سی صفات ہیں ان کو بھی خدا قرار دو۔ اور اگر کہو ان تین صفات میں کوئی اختلاف نہیں دراصل یہ ایک ہی ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تینوں بالکل ایک ہی ہیں تو ان کو الگ الگ ماننا لغو ہے۔ تینوں کاایک جگہ رکھنا فضول ہے۔ مثلاًاگر ایک ہی جیسی تین قلمیں رکھی ہوں تو لکھنے والا ایک ہی سے لکھے گا نہ کہ تینوں سے۔
ایک دفعہ ایک پادری سے جس کی پچیس سال کے قریب سروس تھی میری گفتگو ہوئی۔ اس نے کہا تثلیث کا عقیدہ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے۔ میں نے کہا تینوں اقنوم اپنی اپنی جگہ کامل ہیں یا ناقص؟ کہنے لگا کامل۔ میں نے کہا جب تینوں میں سے ہر ایک کامل ہے اور ہر ایک الگ الگ دنیا کو چلا سکتا ہے تو پھر تین کی کیا ضرورت ہے۔ دیکھو یہ قلم پڑا ہے اس کو اگر تین آدمی مل کر اٹھائیں تو یہ کوئی عقل مندی کی بات ہوگی ؟اسی طرح گفتگو ہوتے ہوتے آخر گھبرا کر کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ ایمان کے ذریعہ سمجھ آتا ہے۔ میں نے کہا ایمان تو جب ہوسکتا ہے جب سمجھ آئے۔ اس پر خاموش ہوگیا۔
تو اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس سے دنیا میںامن قائم ہوسکتا ہے اور اسلام ہی یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ اور اس نے کہا ہے دیکھو مسیحیت کے معنٰی امن قائم کرنا نہیں مگر اسلام کے معنٰی ہی امن دینے والے کے ہیں ۔پس ہمارا مذہب وہ ہے جس کے نام میں ہی یہ حکمت ہے کہ امن قائم کرے گا ۔پھر قرآن میں خدا کی صفت مومن بتائی گئی ہے جو اَور کسی مذہب نے بیان نہیں کی۔ پھر اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے لانے والے فرشتے کا نام روح الامین ہے اور اس میں بھی امن پایا جاتا ہے۔ پھر اس پر بس نہیں اسلام وہ مذہب ہے کہ جس کتاب پر اس کی بنیاد ہے وہ بھی پر امن ہے۔ قرآن کو خداتعالیٰ نے دنیا کے لیے رحمت اور امن پھیلانے والاقرار دے کر بھیجا ہے۔ پھر جس پر کتاب اتری ہے اس کا نام امین ہے پس محل اسلام کی ہر اینٹ پر امن ہی امن لکھا ہوا ہے ۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اسلام کے ماننے والے کو ایک خطاب دیا جاتا ہے جس میں اسے بتایا جاتا ہے کہ تجھے آئندہ کیا کرنا چاہیے اور تیرا کیا مقصد ہونا چاہیے اور وہ خطاب ‘مومن ’ ہے ۔ جس کے دونوں معنوں میں امن پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک معنٰی ہیںیعنی خدا کو مان کر اپنے آپ کوامن میں لے آنا اور دوسرے معنٰی ہیں اَوروں کے لیے امن قائم کرنا ۔
پھر دیکھو اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جس جگہ اترا ہے اس کا نام بھی امین ہے پھر وہ قبلہ و کعبہ جہاں تمام دنیا کے مسلمانوں کو جمع کیا جاتا ہے اس کو اَمْنًا کہا گیا ہے ۔ پس دیکھو اسلام کی بنیاد کس طرح امن ہی امن پر رکھی گئی ہے۔ لیکن کیا کوئی اَور مذہب ہے جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے؟ ہر گز نہیں۔ صرف اسلام ہی ہے جس کے متعلق یہ ثبوت دیا جاسکتا ہے اور ہم نے دے دیا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ فرمایا ہے کہ مسلمان کی موت بھی امن پر ہوتی ہے۔ ایک مومن جب فوت ہوتا ہے تو خداتعالیٰ اسے کہتا ہے امن میں ہوجا یعنی جنت میں چلا جا۔
پس اسلام کی ساری کی ساری بنیاد امن پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک حصہ اس مضمون کا ہے اور دوسرا حصہ جو علمی ہے اسے وقت کی تنگی کی وجہ سے چھوڑتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کس طرح اسلام کے ذریعہ امن قائم ہوسکتا ہے اور پھر ہو ہی نہیں سکتابلکہ ہمیں یقین ہے کہ ضرورضرور ہوگا اور خدا تعالیٰ نے ایسے ذرائع پیدا کردیے ہیں جن سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ آج تک مسیحیت اسلام پر حملہ کرتی رہی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس کا جواب نہیں دیا جاتا رہا۔ مگر اب خدا تعالیٰ نے ایک انسان کو رسول کریم ﷺ کادین پھیلانے کے لیے کھڑا کیا ہے۔ اب اس کے مقابلہ، اس کے مٹانے کے لیے کوئی حکومت کوئی مذہب کوئی قوم کوئی سلطنت کھڑی نہیں ہوسکتی اور جو کھڑی ہوگی وہ خود مٹائی جائے گی کیونکہ اسلام وہ حرف ہے جسے کوئی ربڑ مٹا نہیں سکتی۔ یہ خداتعالیٰ کا لکھا ہوا ہے اور خدانے اپنی قدرت کی سیاہی سے مومنوں کے دلوں پر لکھ دیاہے جہاں کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا ۔وہ دل جو یقین اور اخلاص کی روح اپنے اندر رکھتے ہیں اور وہ دل جو جذب اور اثر کے نور سے بھرے ہوئے ہیں ان دلوں میں خدا نے اسلام کی بنیاد رکھی ہے اور اس زمانہ میں اسلام کی خدمت کے لیے اس موعود کو کھڑا کیا ہے جس کے ساتھ اس کے بڑے بڑے وعدے ہیں اور ہمیں ان وعدوں کے سچا ہونے پر یقین ہی نہیں بلکہ تجربہ ہوچکا ہے کہ جہاں اس کے ماننے والا کوئی جاتا ہے وہاں اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر نہیں سکتا ۔ پس ہم اسلام کی طرف سے گھبراتے نہیں اور میں تو کسی طرح گھبرا ہی نہیں سکتا۔’’
( غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈخلافت لائبریری ربوہ )