نیشنل پیس سمپوزیم 2019ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے معرکہ آرا صدارتی خطاب
9؍ مارچ 2019ء کو جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیرِ اہتمام مسجد بیت الفتوح مورڈن میں ہونے والے سولھویں نیشنل پیس سمپوزیم کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے معرکہ آرا صدارتی خطاب کا اردو ترجمہ
(اس خطاب کا اردو ترجمہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، معزز مہمانان ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہرسال جماعت احمدیہ مسلمہ اس پیس سمپوزیم کا انعقاد کرتی ہےجس میں عصر حاضر کے مسائل اور دنیا کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور میں ان مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس تقریب کےعالمی سطح پر کیا اثرات مترتب ہوتےہیں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس کا مجھے علم نہیں، تاہم قطع نظر اس سے کہ اس کا باقی دنیا پر کیا اثر ہے، ہم امن اور عدل کے قیام اورفروغ کے سلسلہ میں اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گےاور مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی ہماری طرح دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کے قیام کے خواہشمند ہیں۔
یقیناً آپ سب بھی یہ خواہش رکھتے ہوں گے کہ آج کے اس دور میں دنیا کے امن اور سکون کو برباد کر دینے والی جنگوں اور تنازعات کا خاتمہ ہو جائے اور ایک ایسا پُرامن معاشرہ قائم ہو جائے جس میں تمام قومیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے باہم مل جل کر امن کے ساتھ رہ سکیں ۔مگر یہ ایک انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ کجا یہ کہ جنگوں اور تنازعات سے ہاتھ کھینچا جائےہر سال اس کے برعکس ہی دیکھنے میں آ رہا ہے ۔جہاں دشمنیاں شدت اختیار کر رہی ہیں اور جنگ کے نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں وہاں پہلے سے موجود آپس کی عداوتیں بھی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
اگرچہ ہم سب دنیا کے بگڑتے حالات سے واقف ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ بعض ملکوں کےآپس کے تعلقات کس حد تک کشیدہ ہو چکے ہیں اور یہ کہ اس کشیدگی کے کتنے تباہ کن اثرات مترتب ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر Bloomberg Businessweekکے گزشتہ شمارہ میں ایک صحافی Peter Coy لکھتے ہیں:
‘‘باوجود اس کے کہ دنیا میں اس وقت اتنے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جو چند گھنٹوں میں انسانی تہذیب کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے کافی ہیں یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ایٹمی جنگ کے اندیشے کی طرف دنیا کی توجہ بہت کم ہے… اب جبکہ امریکہ اور روس کے درمیان ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے اس جانب خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی ایک نئی دَوڑ جنم لے رہی ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایک عام انسان اس سلسلہ میں کیا کر سکتا ہے تو ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ تو عوامی دباؤ کے نتیجہ میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔یعنی جب ‘انسانیت’ کی آوازکے سامنے اسلحہ کے تاجروں اور جنگ پر ہر وقت آمادہ دنیوی حکمرانوں کی آواز دب جائے۔’’
مضمون نگار نےاپنے اس آرٹیکل میں Middlebury Institute of International Studies سے منسلک Nikolai Sokov کی طرف سے جاری کردہ ایک انتباہ کو بھی شامل کیا ہے:
‘تمام علامات اس بات کی نشان دہی کر رہی ہیں کہ یورپین ممالک خطرناک حد تک ایٹمی ہتھیاروں اور روایتی جنگی سازوسامان کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
اس مضمون کے بقیہ حصہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عالمی سطح پرہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو چکی ہےنیز یہ کہ ایٹمی جنگ کے خطرہ کی نوعیت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان گزشتہ دنوں اچانک پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال دنیا کے سامنے ہے۔ یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں نےمختلف ممالک کے ساتھ ظاہری یا خفیہ اتحادی معاہدے کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے ان کے درمیان ہونے والی کسی بھی جنگ کےممکنہ نتائج بہت وسیع اور تباہ کن ہوں گے۔
میں بارہا اس امر کا اظہار کر چکا ہوں کہ کچھ ایٹمی طاقتوں کے سربراہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے لیےہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اس کے خوفناک نتائج کا ادراک نہیں۔ یہ ہتھیار نہ صرف ان ممالک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی طاقت رکھتے ہیں جن کے خلاف یہ استعمال کیے جائیں بلکہ ان کا استعمال تو تمام دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قومیں اور ان کے لیڈر اپنی توجہ صرف اپنے ملکی مفادات پر مرکوز رکھنے کی بجائے عالمی مفادات کو پیش نظر رکھیں ۔ امن کے فروغ کے لیے دیگر ممالک اور گروہوں سے مذاکرات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہر فریق کو برداشت کی روح کے ساتھ دنیا میں پائیدار امن کے فروغ جیسے مشترکہ مقصد کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
Spiegel Onlineکو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں جرمنی کے سابقہ وزیر خارجہ Sigmar Gabriel نے خبردار کیا ہے کہ دنیا موجودہ جغرافیائی سیاست کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خطرات کو نظرانداز کر رہی ہے ۔انہوں نےدنیا کے موجودہ حالات کا 1945ء اور 1989ء کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے کہا:
‘دنیا کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں……مغرب مختلف گروہوں میں بٹ چکا ہے ……گزشتہ ستر سالوں کے دوران رونما ہونے والی ایک نمایا ں تبدیلی یہ ہے کہ پہلے ہم امریکہ پر بطور ایک رہنما ملک اعتماد کر سکتے تھے۔ لیکن آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جب یورپ کو اپنی خودمختاری کی جنگ درپیش ہے۔ ’
اسی طرح نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں روس کے سابق رہنما Mikhail Gorbachevنے بیان کیا کہ امریکہ اور روس کے درمیان حالیہ I.N.F. Treatyکے خاتمہ کے نتیجہ میں ایٹمی ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘ہتھیاروں کی ایک نئی کشمکش شروع ہو چکی ہے۔ I.N.F. Treatyکا خاتمہ دنیا میں زور پکڑنے والی عسکریت پسندی (militarisation ) کے نتیجہ میں ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل 2002ء میں امریکہ اینٹی بیلسٹک میزائل کے معاہدہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا اور اس سال ایران کے ساتھ کیے جانے والے نیوکلیئر (جوہری)ہتھیاروں کے معاہدہ کا ختم ہونا بھی اسی رجحان کا شاخسانہ ہے۔ عسکری اخراجات آسمانوں کو چھونے لگے ہیں اور روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں۔’
ایٹمی جنگ کے خطرہ سے خبردار کرتے ہوئے گورباچوف لکھتے ہیں:
‘ایسی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہو سکتا جو سب مل کر اپنے ہی خلاف لڑ رہے ہوں۔ بالخصوص اگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہو۔ اس امکان کو ردبھی نہیں کیا جا سکتا۔ اندھادھند ہتھیاروں کی دوڑ، بین الاقوامی تناؤ، بین الاقوامی سطح پر دشمنیاں اور عدم اعتماد کی فضا جلتی پرتیل کا کام کر رہی ہے۔ ’
لہذا ماہر تجزیہ کار اور سیاست دان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایٹمی جنگ اب کوئی بعید از قیاس بات نہیں بلکہ اس کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ہم عصر حاضر کے چیدہ چیدہ مسائل کا سرسری جائزہ بھی لیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال امریکہ نے بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ ایک تاریخی امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہونے والا ہے جبکہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات بھی شدّت پکڑتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ تقریباًایک دہائی سے شام خونریزی کا شکار ہے اور ملک کا شیرازہ بکھرچکا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ خانہ جنگی اب خاتمہ کے قریب ہے، مگر گزشتہ دہائی میں سوائےلاکھوں لوگوں کے مرنے اور اس سے کہیں زیادہ افرادکے بے گھر ہو جانے کے اور کیا حاصل ہوا ہے؟ اس تمام کارروائی کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اوراب بھی مستقبل غیر یقینی اور مخدوش ہے کیونکہ ایسے ممالک جن کے ذاتی مفادات شام کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف روس اور ترکی کا اتحاد ہے تو دوسری طرف امریکہ اور سعودی عرب مل کر ایران پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور اس پر مزید پابندیاں لگانے کی کوشش میں ہیں۔ سیاسی مبصرین اس بات کا کھلے عام اظہار کر رہے ہیں کہ ان ممالک کا مقصد صرف مشرقِ وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔
ایک اَور تشویشناک بات ترکی اور کرد اقوام کے درمیان بگڑتے ہوئے حالات ہیں جہاں کردخودمختاری حاصل کرنا چاہتےہیں۔
پس دنیا ایک ایسے برے دائرے میں الجھ چکی ہے جس میں ایک تنازعہ دوسرے تنازعہ کو جنم دے رہا ہےکیونکہ آپس کی دشمنیاں اور نفرتیں پہلے سے زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ مسائل ہمیں آخر کہاں تک لے جائیں گے اور اس کے کتنے خوفناک نتائج ظاہر ہوں گے۔ یہ سب کچھ تو میں نے نمونۃً بیان کیا ہے، ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے تشویشناک مسائل ہیں جن سے دنیا کے امن اور خوشحالی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہاجارہاہے کہ دہشت گرد گروپ ‘داعش’اب اپنی تباہی کے دہانے پر ہے اور ان کی نام نہاد خلافت بھی دم توڑ چکی ہے۔ لیکن بعض ماہرین ابھی بھی خبردارکررہے ہیں کہ گو کہ ‘داعش’ اپنے علاقائی تسلط کو کھوچکی ہے لیکن اس کے پُر تشددنظریات میں زندگی کی رمق ابھی بھی باقی ہے اور اس کے جو ممبران بچ نکلے ہیں وہ دنیا میں پھیل رہے ہیں اور وہ کسی وقت بھی دوبارہ منظم ہو کر یورپ یا دوسرے مقامات پر حملے کرسکتے ہیں۔ مزید برآں مغربی دنیا کے سر پر ‘قومیت پرستی’ کا بھوت دوبارہ سوار ہو گیا ہے اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدّت پسند گروہ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
ان پارٹیوں کو بے شک سیاسی طور پر واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی لیکن پھربھی جب تک معاشرے کی ہر سطح پر انصاف قائم نہ ہو جائے یہ پارٹیاں مقبولیت حاصل کرتی رہیں گی۔ ان کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہے جس سے لوگوں میں بے چینیاں جنم لےرہی ہیں اور یہ نظریہ جڑ پکڑ رہا ہے کہ ان ممالک کے اصل شہریوں کے وسائل بجائے اُن پر خرچ ہونے کے غیر ملکی پناہ گزینوں کی امداد پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ میں پہلے بھی اس موضوع پر تفصیل سے بات کرچکاہوں اس لیے پرانی باتیں دہرانا نہیں چاہتا۔ اتنا کہہ دیناکافی ہے کہ اگر قیامِ امن کے لیے حقیقی کوششیں کی جائیں اور تمام ملکوں کو ترقی حاصل کرنے میں مدد دی جائے تو لوگوں کی اپنے گھروں سے بھاگ کر باہر کے ملکوں میں منتقل ہونے کی مجبوری اور خواہش خود بخود ماند پڑ جائے گی۔
لوگ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل بن جائیں اور جب اس کے دروازے بھی ان پر بند کیے جائیں گے تو پھر بہترزندگی کے حصول کے لیے یہ لوگ اپنے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ پناہ گزینوں کے مسئلہ کا دیرپا حل یہی ہے کہ جنگ سے متاثرہ ممالک میں امن قائم کیاجائے اور وہاں پر مجبوری کی حالت میں خوف اور تنگ دستی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور عوام کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
مختصرًا یہ کہ مہاجرین یا سیاسی پناہ لینے والے جب اپنے ممالک کی سیاسی یا مذہبی صورتحال کی وجہ سے مغربی ممالک کا رُخ کرتے ہیں توجہاں ان کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک ہونا چاہیے وہاں یہ بھی مدِ نظر رہے کہ انہیں مہیا کی جانے والی امداد اور مراعات سے مقامی شہریوں کی سہولیات متأثر نہ ہوں۔
مہاجرین کی اس بات پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنے لیے ذریعۂ معاش تلاش کریں بجائے اس کے کہ لمبے عرصہ تک حکومت کی طرف سے احسان کے طور پر ملنے والے الاؤنس اور مراعات پر گزارا کرتے رہیں۔ انہیں خود بھی چاہیے کہ وہ محنت کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں اور معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں ورنہ اگر انہیں مسلسل ٹیکس اداکرنے والوں کے پیسہ سے امداد مہیاکی جاتی رہی تو اس سے لازماً شکوے جنم لیں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشی اوراقتصادی محرومیاں معاشرے میں نفرت اور بے چینی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بعض گروہ اس بے چینی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مہاجرین کو یا کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کو ملزم ٹھہراتے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے لگتے ہیں۔
پس یورپ میں یہ تاثر پیداہوچکاہے کہ ایشیائی، افریقی اور بالخصوص مسلمان تارکینِ وطن معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ امریکہ میں بھی لوگ مسلمانوں اور ہسپانوی لوگوں کےمتعلق جومیکسیکو کے ذریعہ ان کے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں اسی قسم کے خدشات رکھتے ہیں ۔ بہرحال میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اگر بڑی طاقتیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مخلص ہو کر غریب ممالک کے اقتصادی حالات کو بہترکرنے کی کوشش کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی اور عزت و احترام کا سلوک کریں تو اس قسم کے مسائل کبھی پیداہی نہ ہوں۔
یہاں برطانیہ میں Brexitاورمستقبل میں برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے صورتحال بہت زیادہ غیر یقینی ہے۔ 2012ء میں یورپین پارلیمنٹ میں مَیں نے اپنے خطاب میں اس موضوع پر کھل کر اظہارِ خیال کیاتھا اور کہا تھا کہ:
‘آپ لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیےہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔عوام الناس کے خدشات اور پریشانیاں ہر حال میں دور ہونی چاہئیں۔’
میں نے اُس وقت یہ بھی کہاتھاکہ یورپ کی مضبوطی اس کے متحد رہنے میں ہے۔ اس قسم کے اتحاد سے آپ کو نہ صرف یہاں یورپ میں فائدہ ہوگابلکہ عالمی سطح پر بھی یہ اتحاد اس براعظم کی طاقت اور اثرورسوخ کو قائم رکھنے کا ذریعہ بنے گا۔
سات سال قبل میں نے اپنی تقریر میں عوام الناس کے امیگریشن کےمتعلق خدشات دورکرنے کی اہمیت اور یورپی یونین کے اتحاد کے فوائد پر بھی زوردیاتھا۔
تاہم لوگوں کے تحفظات پر پوری طرح توجہ نہیں دی گئی اس وجہ سے یورپ بھر میں لوگ یورپی یونین کی افادیت پر سوالات اُٹھانے لگ گئے۔اس کی بدترین مثال Brexitہے۔ بعض دیگر یورپین ممالک مثلاً اٹلی، سپین اور حتیٰ کہ جرمنی میں بھی قوم پرست پارٹیاں مقبولیت حاصل کررہی ہیں اور سیاسی میدان میں نشستیں بھی جیت رہی ہیں۔ اس وجہ سے وہ یورپی یونین کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کر نے کے ساتھ ساتھ امیگریشن مخالف ا یجنڈے کو فروغ دے رہی ہیں۔
میرا خیال تھا کہ یورپ اپنے اتحاد کو مزید فروغ دے گا لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے یہاں تفرقہ اور پھر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی افراتفری غالب ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس قسم کی بے چینیاں کیوں جنم لے رہی ہیں؟ یہ بے چینیاں کچھ اقتصادی مسائل کی وجہ سے اور کچھ بعض حکومتوں کی عوام کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرنے میں ناکامی اور اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ عالمی سطح پر باہمی تعاون دنیا کے حالات میں بہتری پیدا کرنے اور متحد رہنے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں مَیں نے یہ بھی کہاتھا؛
اسلامی نقظۂ نظر کی رو سے ہمیں تمام دُنیا کو متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کرنسی کے اعتبار سے بھی ساری دنیا کو یکجاہوجانا چاہیے۔ اسی طرح کاروبار اور تجارتی لحاظ سے بھی دنیا کو ایک ہوجانا چاہیے۔ پھر آزادانہ نقل و حرکت اور امیگریشن کے لحاظ سے بھی موزوں اور قابلِ عمل پالیسیاں بننی چاہئیں تاکہ ساری دنیا ایک ہوجائے۔’
چنانچہ اسلامی نقظہ نظر یہی ہے کہ اتحاد ہی قیامِ امن کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ متحدہونے کی بجائے ہم لوگ تفرقہ کا شکارہورہے ہیں اور دنیا کے مشترکہ مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میرایقین ہے کہ اس قسم کی پالیسیاں آئندہ آنے والے وقتوں میں بلکہ اس وقت بھی دنیا کے امن و امان کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن کے قیام کاایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ قومیں ایک دوسرے کے ساتھ عدل کا سلوک روا رکھیں۔
اگر بعض ممالک کو مسائل کا سامنا ہوتو دوسری قوموں کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی بے نفس ہوکر مدد کریں اور اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں آتاہے کہ اگر دو فریقوں کے درمیان جنگ یا اختلاف ہے تو دوسری قوموں کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی ایک فریق کی طرفداری کرنے کےثالثی کا کرداراداکریں اور مسائل کا پُرامن حل تلاش کریں۔ہاں، اگر ایک فریق ناانصافی پر قائم رہے اور پُرامن حل پر آمادہ نہ ہو تو پھر دوسری اقوام کوچاہیے کہ وہ ظالم قوم کو ظلم سے بازرکھنے کے لیے متحدہوجائیں۔ جب ظلم کرنے والا فریق اپنی زیادتیوں سے باز آجائے تو پھر ایسی صورت میں اسلام واضح طور پر حکم دیتاہے کہ غیرمنصفانہ پابندیاں لگا کر یا اس قوم کے وسائل کو لوٹ کر اس سے بدلہ ہرگز نہ لیا جائے۔
لیکن بعض ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو جنگ سے متاثرہ قوموں کے علاقوںمیں مداخلت کرتے ہیں یاامن کے نام پر ان پسماندہ ممالک کی امدادکرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مختلف بہانوں سے ان کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ طاقتور قومیں بجائے اپنی دولت اور وسائل پر مطمئن رہنے کے اپنی طاقت کے بل بوتے پر غریب ممالک کو اپنے زیر نگیں کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جیساکہ میں کہہ چکاہوں کہ اس بے چینی اور اس کے نتیجہ میں پیداہونے والے بد اثرات کی بنیادی وجہ، خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، معاشی ناانصافیاں ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں اور ملکوں کے بیچ معاشی تفریق کو کم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں ۔ پھر یہ کہ ہرقسم کی انتہا پسندی اور تعّصب خواہ وہ مذہبی بنیاد پر ہو، یا نسلی یا کسی بھی قسم کا ، اس کے خاتمہ کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔
جن ممالک کے بارہ میں یہ بات واضح ہے کہ وہاں کے لوگ تکلیف میں ہیں اور ان کے رہنما ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کررہے وہاں امن کے قیام کے لیے قائم کی جانے والی عالمی تنظیموں بالخصوص اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امن پسند شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرہ میں امن اور انصاف کے قیام کے لیے جائز اور مناسب دباؤ ڈالیں ۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان ممالک تو خود کئی سال سے اختلافات اور عدمِ استحکام کا شکار ہیں تو پھر اسلام امن کے قیام کے حوالہ سے ہمیں کیا سکھا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان مسلمان ممالک کی یہ افسوسناک حالت اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔
اسلامی طرز حکومت و قیادت کی اصل تصویر دیکھنے اور حقیقت جاننے کے لیے ہمیں بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے عہد مبارک پر نظر ڈالنی ہوگی ۔ مدینہ ہجرت کرنےکے بعد آپؐ نے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق مسلمان اور یہودی شہریوں کے باہم امن کے ساتھ اور آپس میں ہمدردی ، رواداری اور مساوات کی روح کو قائم رکھتے ہوئے مل جل کر رہنے پر زور دیا گیا۔
یہ معاہدہ انسانی حقوق کی حفاظت اور منصفانہ طرز حکومت کاعظیم الشان منشور ثابت ہوا اور اس نے مدینہ میں مقیم مختلف اقوام کے درمیان امن کو یقینی بنایا۔ اس کی شرائط کے مطابق تمام لوگوں پر ، ان کے مذہب اور ان کی قومیت سے قطع نظر ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا فرض تھا ۔مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر اس معاہدہ کی بنیادی اکائی تھی ۔
اتحاد اس معاہدہ کی بنیاد تھا کیونکہ اس کے مطابق مدینہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کا متحد ہو کر مدینہ کا دفاع کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ ہر قوم کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ اپنے اندرونی معاملات کو اپنے اپنے عقائد اور رواج کے مطابق حل کریں ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نبی اکرم ﷺ اس معاہدہ کی ہر شرط پر پوری طرح کاربند رہے۔
مہاجرین کی حیثیت میں مسلمانوں نے اس نئے معاشرہ کی ترقی میں مثبت کردار ادا کیا اور مدینہ کے شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا ۔ چنانچہ یہ معاشرہ مختلف قوموں کے اتحاد اور ثقافتوں کی ہم آہنگی کی نہایت عمدہ مثال بنا۔ میثاق مدینہ دراصل قرآنی تعلیمات کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔مثلاً قرآن کریم میں سورت النحل کی آیت نمبر 91 میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
‘‘ ىقىناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباءپر کى جانے والى عطا کى طرح عطا کا حکم دىتا ہے……’’
پس قرآن کریم افراد اور اقوام کے ساتھ طرز معاشرت اورسلوک کے تین درجے پیش کرتا ہے ۔
پہلا اور سب سے ادنیٰ درجہ عدل و انصاف کا ہے جس کے تحت قرآن کریم اس ضرورت کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف اور رواداری کا سلوک کیا جائے ۔ عدل و انصاف کے اس معیار کا ذکر قرآن کریم کی سورت النساء آیت نمبر136 میں مذکور ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
‘‘اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کى خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطى سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہى دىنى پڑے ىا والدىن اور قرىبى رشتہ داروں کے خلاف خواہ کوئى امىر ہو ىا غرىب دونوں کا اللہ ہى بہترىن نگہبان ہے پس اپنى خواہشات کى پىروى نہ کرو مبادا عدل سے گرىز کرو اور اگر تم نے گول مول بات کى ىا پہلوتہى کرگئے تو ىقىناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔’’
پس قرآن کریم کے مطابق عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ایک آدمی گواہی دینے کو تیار رہے خواہ وہ اس کے اپنے خلاف ہو یا اس کےاقرباء کے خلاف تا کہ سچ کی فتح ہو۔
معاشرت کا دوسرا درجہ جو قرآن نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نہ صرف عادل ہو بلکہ وہ اس سے بڑھ کر دوسروں کے ساتھ شفقت اور احسان کا سلوک روا رکھے۔اس ضمن میں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب تم ایک ظلم کرنے والی قوم کو ظلم سے روکنے میں کامیاب ہو جاؤ تو بدلہ نہ لو اور نہ اس پر مزید پابندیاں نافذ کرو۔
بلکہ تمہیں چاہیے کہ ان کی معیشت کو مضبوط کرنے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ان کی مدد کرو ۔ جہاں یہ چیز انہیں فائدہ دے گی وہاں مستقبل میں تمہیں بھی فائدہ دے گی۔ اگر وہ ممالک جو جنگ یاانتشارکا مرکز رہے ہیں معاشی طور پر مستحکم ہو جائیں تو نہ تو وہ مایوسی اور محرومی کے باعث دیگر ممالک سے نفرت کو اپنے اندر پنپنے دیں گے اور نہ ہی وہاں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے ۔
یہ وہ حکمت ہے جو اس اسلامی تعلیم میں مضمر ہے کہ بنیادی عدل و انصاف فراہم کرنے کے بعدمزید احسان سے کام لیا جائے اور نرمی سے سلوک کیا جائے۔
طرز معاشرت کا تیسرا درجہ جو قرآن نے سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا ہی سلوک کیا جائے جیسا ماں اپنے بچوں سے طبعی محبت رکھنے کی وجہ سے کرتی ہے ۔ یہ بے لوث محبت کسی بھی قسم کے انعام کی امید کے بغیر کی جاتی ہے ۔ دوسروں کے ساتھ ایک ماں کی محبت کی طرح بے لوث ہو کر احسان کی نیت سے سلوک کرنا آسان نہیں مگر یہ معیار ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہیے۔
الغرض امن کے قیام کے لیے خواہ وہ مسلم ممالک میں ہو یا بین الاقوامی سطح پر، یہ ضروری ہے کہ حکومتوں کی طرف سے کم از کم انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں تا کہ تمام لوگوں کو ان کے حقوق مساوی طور پر میسّر آئیں اورذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عدل اور انصاف کو قائم رکھا جاسکے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی ادارے جیسا کہ اقوام متحدہ ہے ہر ملک سے برابری کا سلوک رکھیں اور ایسا نہ ہو کہ معاملات کو طے کرنےمیں کچھ طاقتوں کے مفادات کی خاطر ایک طرف مائل ہو جائیں۔ یہ امن کے حصول کے لیے ضروری ہے اور اسی پر عمل کر کے ہم دنیا میں امن کا قیام کر سکتے ہیں۔ یہ انسانیت کو خطرناک تباہی سے بچا نے کا واحد راستہ ہے ۔
ان چندالفاظ کے ساتھ ،یہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی امن کو دنیا میں قائم فرمائے اور اللہ کرے کہ جنگ اور لڑائی کے مہیب سائے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں امن اور خوشحالی کی روشنی میں بدل جائیں ۔ میری دعا ہے کہ وہ مایوسیاں اور محرومیاں ختم ہو جائیں جن کے باعث ان گنت لوگ پریشانیوں سے دوچار ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا تباہ کن جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔
میری یہ بھی دعا ہے کہ بجائے دوسروں پر تسلط جمانے اور محض اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے ممالک اور ان کے سربراہان اُن فوائد پر نظر رکھنے والے ہوں جو ایک دوسرےکے حقوق ادا کرنے سے حاصل ہوں گے ۔ بجائے اس کے کہ دنیا کے مسائل کا ذمہ دار ایک مخصوص مذہب یا قوم کو قرار دیا جائے میری دعا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عقائد اور رواج کے بارہ میں تحمل اور برداشت پیدا کریں اور معاشرہ میں موجود مختلف ثقافتوں اور اقدار کے امتزاج کی قدر اور ان کا احترام کریں ۔ میری دعا ہے کہ ہم انسانیت کی بہترین اقدار کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر میں ایک دوسرے کی خوبیوں اور ہنر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے امن کا گہوارا بنانے والے ہوں ۔ ورنہ اس کے برعکس حالات جو پیدا ہو سکتے ہیں ان کا تو تصور بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔
قبل ازیں میں نے بہت سارے ماہرین کی آراءبیان کی ہیں جنہوں نے ایٹمی جنگ اور دنیا میں اسلحہ کی دوڑ کے بارہ میں خبردار کرتے ہوئے اپنے خدشات کااظہار کیا ہے ۔ یہ مضامین اور ان جیسے اَور بہت سارے مضامین اس تجزیہ کو تقویت دیتے ہیں کہ دنیا بہت تیزی سے ایک بہت بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ایسی تباہی جو انسان نے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور جس کو روکنا پھر ناممکن ہو گا۔
ایک اندازہ کے مطابق ایٹمی جنگ کا اثر نوّے فیصد دنیا پر ہو گا۔ اور اگر ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو ہم صرف موجودہ دنیا کی ہی تباہی کے ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کے مستقل اثرات چھوڑیں گے ۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم ٹھہر کر سوچیں اور اپنے فیصلوں اور کاموں کے ممکنہ ہولناک نتائج پر غور کریں۔
ہمیں کسی بھی معاملہ کو ، خواہ وہ کسی ایک ملک سے تعلق رکھتا ہو یا بین الاقوامی نوعیت کاہو ، معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ چاہے ہم معاشی معاملات سے نمٹ رہے ہوں یا پناہ گزینوں کے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہوں یا کوئی اور بحران زیرِغور ہو ہمیں تحمل کے ساتھ کوشش کر کے ان رکاوٹوں کو ختم کرنا چاہیے جو ہمارے درمیان اختلافات پیدا کرتی ہیں ۔ ہمیں اپنی ساری طاقتیں اور قوتیں امن کے قیام میں صرف کرنی چاہئیں۔ہمیں ہر جھگڑے کو پُر امن طریقے سے نمٹانا چاہیے ، آپس میں بیٹھ کربات چیت اور باہمی سمجھوتہ کے ذریعہ مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیےاور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور حفاظت کے ذریعہ امن کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔ ان الفاظ کے ساتھ، میں آپ سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ آج یہاں تشریف لائے۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔
(ترجمہ: ٹیم تراجم ادارہ الفضل انٹرنیشنل)
٭…٭…٭