بنگلہ دیش میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے پُر امن اور مثالی شہریوں کی املاک پر شر پسند ملاؤں کا حملہ
متعدد گھروں اور دکانوں کو لوٹ کر نذرِ آتش کر دیا گیا، 21سے زائد افراد زخمی، 2 کی حالت نازک
(بنگلہ دیش، مولانا صالح احمد )12فروری 2019ء کو لاٹھیوں اور دیگر دیسی ہتھیاروں سے لیس شر پسندوں کے جتھوں نے احمدنگر (بنگلہ دیش) میں جامع مسجد اور احمدی گھروں پر حملہ کر دیا۔ شر پسندوں نے سات احمدی گھروں اور چار دکانوں کو لوٹا اور انہیں نذر آتش کر دیا نیز انیس گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔ اس تمام واقعہ میں اکیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ کچھ افراد کو معمولی زخم آئے جنہیں مرہم پٹی کے بعد گھر بھجوا دیا گیا جبکہ پانچ افراد کو ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ ان میں سے دو احباب جناب نذیر احمد صاحب اور خیر العالم صاحب کی حالت تشویشناک ہے۔ انہیں پہلے رنگپور اور پھر ڈھاکہ منتقل کیا گیا ۔
پنچو گڑہ شہر کے قریب دو گاؤں ’احمدنگر‘ اور ’شالشیرهی‘ میں احمدیوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ ان دونوں گاؤں سے تعلق رکھنے والے احمدی گزشتہ ستر سال سے غیر احمدی بھائیوں کے ساتھ صلح اور آشتی کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں ۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے جماعت احمدیہ احمدنگر کے ممبران یہاں اپنی جگہ پر جلسہ کرتے آرہے ہیں۔ اس جلسہ میں بنگلہ دیش بھر سے احمدی شرکت کرتے ہیں نیز مقامی انتظامیہ کے افسران ، مقامی ممبر آف پارلیمنٹ، یونین کونسل کے چیئرمین وغیرہ کے علاوہ مقامی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کرتے ہیں اور اپنی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار بھی کرتے آرہے ہیں ۔
جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کا انعقاد ایک عرصہ سے ڈھاکہ میں ہو رہا تھا ۔ لیکن جگہ چھوٹی پڑ جانے کی وجہ سے امسال حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت احمد نگر میں جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی منظوری عطا فرمائی۔ الحمد للہ۔ اور جلسہ سالانہ کے لئے 22،23 اور 24 فروری کی تاریخیں طے پائیں۔
احمد نگر میں جلسہ کے لئے ایک وسیع قطعہ بھی خرید کیا گیا ہے۔ جبکہ جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کی وسیع عمارت بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔
بنگلہ دیش کی تنظیم تحفظ ختم نبوت کےایک حصہ کے سربراہ مفتی نور حسین نورانی نے ’حفاظت اسلام‘ کے منتظم بابونگری کے ساتھ مل کر پنچو گڑہ میں ہونے والے سالانہ جلسہ کو بند کروانے کا پروگرام بنایا اور ہم نوا ملاؤں سے رابطہ کرکے ’’شوملیتو ختم نبوت سونگروکھن پریشد پنچوگڑہ ‘‘ یعنی ’﴿ جمعیت حفاظت ختم نبوت پنچوگڑہ‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس کے بعد اس نے بڑی تیزی سے پنچوگڑہ اور اس کے ارد گرد کے ضلعوں میں میٹنگز کیں، جلوس نکالے ، پوسٹر زلگائے اور لیف لیٹس تقسیم کیے ۔ ساتھ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ ’ہم کسی قیمت پر قادیانیوں کا اجتماع نہیں ہونے دیں گے اور قادیانیوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔‘ علاوہ ازیں 21 تا 25 فروری کی تاریخوں میں ہمارے جلسہ گاہ کے قریب ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا ۔
صورتحالت کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے جماعت کے ذمہ دار افراد نے حکومتی انتظامیہ سے رابطہ کیا جس پر انتظامیہ نے ملاؤں کو کہا کہ چونکہ احمدیوں نے پہلے سے اجازت لی ہوئی ہے اس لئے آپ لوگ اپنا جلسہ اَور تاریخوں میں کر لیں، احمدیوں کا جلسہ مقررہ تاریخوں پر ہی ہوگا ۔ جماعت احمدیہ کا یہ طریق ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتی۔ چنانچہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے جماعت کے ذمہ دار افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ میں رہےاور ان سے ہر ممکنہ تعاون کیا گیا۔
6؍ فروری کو ڈسٹرکٹ کمشنر نے مقامی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے نمائندگان کی موجودگی میں جماعت احمدیہ کی مرکزی ٹیم کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ جماعت کے نمائندگان نے اپنا موقف بیان کیا کہ ہم اپنا جلسہ ہمیشہ کی طرح امن و امان کے ساتھ منعقد کرنا چاہتے ہیں اور ان سے تعاون کی درخواست کی۔ انتظامیہ کو بعض وزراء کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ احمدی پر امن لوگ ہیں اس لئے ان کے جلسہ کو پرامن طریق پر منعقد کروانے کے لئے تعاون کیا جائے۔
11؍ فروری کو ڈسٹرکٹ کمیشنرنے دوبارہ ایک میٹنگ بلائی جس میں جماعت احمدیہ اور ملّاں دونوں کی جانب سے پانچ پانچ افراد کو دعوت دی گئی۔ اس میٹنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروںکے اعلیٰ حکام ، پریس کلب کے صدر، یونین کونسل کے چیئرمین اور ممبران نیز سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر ممبران بھی شامل تھے۔ میٹنگ میں مخالفین احمدیت نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کیا کہ انہوں نے یہ سب فتنہ احمدیوں کے جلسہ کو روکنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔ شاملین میٹنگ کے سامنے وہ اپنی بعض باتوں میں جھوٹے بھی ثابت ہوئے ۔ یہاں پر بھی یونین کونسل کے چیئرمین و ممبران اور سول سوسائٹی کے افراد نیز پریس کے نمائندوں نے احمدیوں کے امن پسند ہونے کے بارہ میں بیان دیااور جلسہ کے انعقاد کرنے کے حق میں بات کی۔ چنانچہ ایک لمبی میٹنگ کے بعد حکام نے جماعت کے سامنے شرط رکھی کہ آپ لوگ جلسہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم کریں۔ اس پر جماعت نے اسے تسلیم کیا۔ حکام کے کہنے پر ملاںنے بھی اقرار کیا کہ وہ جلسہ کے انعقاد میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے اور ایک تحریری معاہدہ پر دستخط کیے۔
اس میٹنگ کے ختم ہونے کے فورًا بعد ’پنچوگڑہ جوبو سماج‘ یعنی ﴿ ’نوجوانان پنچوگڑہ‘ ﴾ نامی ایک نام نہاد تنظیم ملاں کی جانب سے معرض وجود میں لائی گئی اور اس نے ایک جلوس نکال کر بیان دیا کہ ہم اس معاہدہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم کسی طور پر جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔ نیز ان شر پسندوں نے ’قادیانیوں کو قتل کرو‘ اور اس قسم کے مختلف اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ اس گروہ نے نفرت پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔ بعد میں ملاؤں کی پارٹی ’عوامی علماء لیگ‘ بھی اس میں شامل ہو گئی۔
12 فروری کو ڈسٹرکٹ کمشنر نے دوپہر کو دوبارہ جماعت کے وفد کو بلایا اور میٹنگ کی۔ اس نے اس وفد کو شام کو واپس آنے کا کہا۔ جماعتی وفد شام کو ڈسٹرکٹ کمشنر کے ہاں پہنچا تو اس میٹنگ میں تحفظ ختم نبوت کے ملّاں، نوجوانان پنچوگڑہ، عوامی علماء لیگ ، تنظیم محافظ ایمان و عقیدہ، کے نمائندگان، یونین کونسل کے چیئرمین اور ممبران اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے ۔
ابھی یہ میٹنگ جاری تھی کہ لاٹھیوں اور دیگر دیسی ہتھیاروں سے لیس شر پسندوں کے جتھے مختلف اطراف سے احمدنگر جامع مسجد اور احمدی گھروں پر حملہ آور ہوگئے۔ شر پسندوں نے سات احمدی گھروں اور چار دکانوں کو لوٹا اور انہیں نذر آتش کر دیا نیز انیس گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔ اس تمام واقعہ میں اکیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ کچھ افراد کو معمولی زخم آئے جنہیں مرہم پٹی کے بعد گھر بھجوا دیا گیا جبکہ پانچ افراد کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ ان میں سے دو احباب جناب نذیر احمد صاحب اور خیر العالم صاحب کی حالت تشویشناک ہے۔ انہیں پہلے رنگپور اور پھر ڈھاکہ منتقل کیا گیا ۔
اگرچہ تھانہ میں بار بار فون کیا گیا اور ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس موجود نمائندگان بھی انتظامیہ کو صورتحال سے آگاہ کرتے رہے اس کے باوجود شدّت پسند دو گھنٹے تک تمام کارروائی کرتے رہے اور پولیس بروقت احمدنگر نہ پہنچ سکی! مخالفین نے درخت کاٹ کر راستہ بھی بند کر دیا تھا۔
اس حملہ میں جامع مسجد کے بعض شیشے اور گیٹ کو نقصان پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ گاہ اور دیگر جماعتی املاک حملہ کے بد اثرات سے محفوظ رہیں۔
اس حملہ میں متاثر ہونے والے افراد میں جناب شہاب الدین منشی، جناب ابو محسن موڑول ، جناب جہانگیر عالم، جناب محی الدین احمد، جناب غازی صلاح الدین، جناب مطالب خان، جناب رقیب حسین، جناب ابو الحسین ماسٹر، مسزسپنا مہتاب، جناب ناصر احمد پٹواری، جناب عثمان علی، جناب مولانا صالح احمد، جناب ہمایوں احمد، جناب جسیم احمد، جناب اکبر بادشاہ، جناب توحید الاسلام ، جناب حفیظ الاسلام ، مسز رحیمہ خاتون شامل ہیں۔
جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کی جانب سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو باقاعدگی کے ساتھ تمام حالات سے آگاہ کیا جاتا رہا اور پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی بڑے نقصان سے بچالیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ اللہ تعالیٰ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ پر سچے دل سے ایمان لانے والی مسیح موعودؑ کی اس جماعت کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر قادیان سے تشریف لانے والے مرکزی نمائندگان کے وفد نے ہر زخمی اور ہر متاثرہ فرد سے ان کے گھروں میں جا کر ملاقات کی اور حضورِ انور کی طرف سے ’السلام علیکم‘ کا تحفہ پہنچایا۔
……………………