’’لُجَّۃُ النُّور ‘‘
لجۃ النور ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1900ء میں نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی ۔ آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد فروری 1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد با سعادت میں فارسی ترجمہ کے ساتھ شائع ہوئی ۔ کتاب کے ٹائٹل پیج پر تاریخ اشاعت محرم الحرام 1328 ھجری درج ہے۔
ٹائٹل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دو عربی شعر لکھے ہیں۔
احاط الناس من طغوٰی ظلام علامات بھا عرف الامام
فلا تعجب بما جئنا بنورٍ بدت عین اذا اشتد اوام
سرکشی کی وجہ سے تاریکی نے لوگوں کو گھیر لیا ہے. یہ وہ نشانیاں ہیں جن سے امام وقت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پس تعجب نہ کر اُس نور پر جو ہم لائے ہیں ۔کیونکہ غیب سے ایک چشمہ ظاہر ہوتا رہا ہے جب بھی پیاس شدت اختیار کرتی رہی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام لجۃ النور رکھنے کی وجہ بیان فرمائی کہ اس کے تحریر کرنے والے کی طرح ا س کا نام لجۃ النور ہے ۔ آپ علیہ السلام نے یہ کتاب اسلامی ممالک عرب ، شام ، بغداد ، عراق ، خراسان وغیرہ کے متقی بندوں اور صالح علماء و مشائخ کے لیے تحریر فرمائی ۔
یہ کتاب روحانی خزائن کی جلد نمبر 16میں صفحہ 335تا 476تک موجود ہے ۔
وجہ تالیف :۔اس کتاب کی تالیف کا حقیقی محرک وہ الہام اور رؤیا ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بشارت دی تھی کہ مختلف ممالک کے صلحاء اور نیک بندے آپؑ پر ایمان لائیں گے اور آپؑ کے لیے دعائیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپؑ کو برکت پر برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں
انی رئیت فی مبشرۃ اریتھا جماعۃ من المومنین المخلصین والملوک العادلین الصالحین بعضھم من ھذا الملک و بعضھم من العرب و بعضھم من الفارس و بعضھم من بلاد الشام و بعضھم من ارض الروم و بعضھم من بلاد لاأعرفھا ثم قیل لی من حضرۃ الغیب ان ھٰؤُ لٓا ء یصد قوک برکات حتی یتبرک الملوک بثیابک وادخلھم فی المخلصین ۔۔۔۔۔ ثم بعد ذالک القی فی روعیی ان اؤتف لھم کتبا۔۔۔۔۔ ان ھذا الکتاب من کتبی التی الفتھا لھذا المقصد ۔۔۔۔ الخ
(لجۃ النور خلاصہ صفحہ 339 تا صفحہ 341 )
ترجمہ : میں نے خواب دیکھا جس میں مجھے مخلص مؤمنوں اور صالح و عادل بادشاہوں کی ایک جماعت دکھائی گئی ان میں سے بعض اس ملک کے ہیں اور بعض عرب کے ہیں اور بعض فارس کے ہیں اور بعض بلاد شام کے ہیں بعض سر زمین روم کے ہیں اور بعض ایسے ممالک کے ہیں جنہیں مَیں نہیں پہچانتا ۔پھر وراء الوراء ہستی کی جناب سے مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درو د بھیجیں گے اور تیرے لیےدعا کریں گے اور مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں انہیں مخلصین میںداخل کروں گا ۔۔۔۔۔پھر اس کے بعد میرے دل میں ڈالا گیا کہ میں ان کے لیے چند کتابیں لکھوں۔۔۔۔۔میری یہ کتاب اُن کتب میں سے ہے جو میں نے اس مقصد کے لیے تالیف کی ہیں۔۔۔۔۔الخ
فرمایا : ’’میں اسے سادات و عرب کے لیے بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں اور جو میرے خدائے ذوالجلال و الاکرام نے مجھ پر واجب کیا ہے پہنچاتا ہوں تا سعید لوگ اپنی مراد پالیں اور اعراض کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے‘‘
(روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 341)
خلاصہ مضامین :۔اس کتاب کی ابتدا میں آپؑ نے اپنی کنیت ابو محمود تحریر فرمائی ہے اور اپنے آبائی سوانح سے آغاز فرمایا ہے ۔ اور اپنے خاندان کا تفصیلی تعارف لکھا ہے کہ کس طرح آپؑ کا خاندان ہندوستان پہنچا اور کِن کِن مصائب سے گزرا ۔ پھر آپؑ نے عدل پسند حکومت برطانیہ کا ذکر کیا ہے ۔
اس کتاب میں آپؑ نے اپنے دعویٰ مسیح موعود اورمہدی معہود کی صداقت ثابت کرنےکےلیے ضرورت زمانہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ آپؑ نے عیسائیوں کے فتنوں اور مسلمانوں کے بگڑنے کا تفصیلی بیان لکھا ہے اور بتایا ہے کہ کس حد تک اس زمانہ کے مسلمان انحطاط دینی کا شکار ہیں اسی طرح مسلمانوں کے علماء کے تکبر کا ذکر کیا ہے ۔ آپؑ نے اپنے زمانہ کے حالات کا شرح و بسط سے ذکر فرمایا ہے اور قوموں اور مذاہب میں تفرقہ کا ذکر کرتے ہوئے عالم اسلام کی دینی و دنیوی ابتر حالت کا المناک نقشہ کھینچا ہے ۔ آپؑ کے افتراق و انشقاق ، عقائد فاسدہ اور مسلمان علماءو صوفیاء اور عامۃ المسلمین کی خرابیوں اور الحاد و بے دینی اور اسلام پر حملہ آور دشمنوں کے سامنے مسلمانوں کی بے بسی اور بے کسی کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے ۔ کتاب کے آخر پر آپؑ نے پادریوں کے اسلام پر حملوں کا ذکر کیا ہے اور یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ نے انہیں میرے ہاتھوں سے شکست ِ فاش دی ہے اور وہ میدان سے بھاگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
وانی انا موت الزور ۔ و حرزالمذعور۔ و انا حربۃ المولٰی الرحمٰان۔ و حجۃ اللّٰہ الدیان۔ و انا النھار والشمس والسبیل۔ و فی نفسی تحققت الأقاویل۔ وبی ابطلت الأباطیل۔
(روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 474،473)
میں جھوٹ کے لیے موت اور خوفزدہ کے لیے تعویذ ہوں میں خدائے رحمٰن کا حربہ ہوں اور جزا سزا کے مالک خدا کی حجت ہوں ، میں دن ہوں ، سورج ہوں ، راستہ ہوں ، میری ذات میں تمام نوشتے پورے ہوئے اور میرے ذریعہ ہی سے سب باطل چیزیں باطل ہوئیں ۔
نیز فرمایا :
الیوم یئس الذین کانوا یصولون علی الإسلام
آج وہ لوگ جو اسلام پر حملہ کیا کرتے تھے مایوس ہو گئے ہیں۔ (روحانی خزائن جلد 16صفحہ 475)
تحدیث نعمت کے طور پر آپؑ نے کتاب میں تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی تمام شرائط مجھ میں جمع کر دی ہیں اور ہر قسم کی برکات سے مجھے نوازا ہے ۔ میری ہر آرزو اس نے پوری کی ہے اور ہر قسم کی دینی او ردنیوی نعمتوں سے مجھے مالا مال کیا ہے۔
اسی طرح آپؑ نے اس کتاب میںاس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ نعوذباللہ آپؑ نے اپنی کتب میں صالح علماء کی ہتک کی ہے ۔ آپؑ نے فرمایا:
ونعوذ باللّٰہ من ھتک العلماء الصالحین۔ و قدح الشرفاء المھذبین۔ سواء کانوا من المسلمین اوالمسیحیین اوالآریۃ ۔ بل لا نذکر من سفھاء ھذہ الاقوام الاالذین اشتھروا فی فضول الھذر والاعلان بالسیئۃ۔ والذی کان ھو نقی العرض عفیف اللسان۔ فلا نذکرہ الا بلخیر ونکرمہ ونعزہ ونحبہ کالاخوان۔
(لجۃ النور روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 409)
اور ہم صالح علماء کی ہتک اور مہذب شرفاء کی عیب گیری کرنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں خواہ وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا عیسائیوں یا آریوں میں سے بلکہ ہم ان اقوام کے بیوقوفوں کا بھی ذکر نہیں کرتے سوائے ان لوگوں کے جو بہت زیادہ بیہودگی پھیلانے اور بدی کے اعلان کرنے میں مشہور ہیں جو شخص اچھے کردار والا اور پاک زبان ہو ہم اس کا ذکر صرف اچھائی کے ساتھ کرتے ہیں اور ہم اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور بھائیوں کی طرح اس سے محبت کرتے ہیں ۔
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ آپؑ کی دعوت دنیا کے کناروں تک ضرور پہنچے گی ۔ فرمایا :
و اوحی الی ربی و وعدنی انہ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا وتتموّج بحورالحق حتی یعجب الناس حباب غواربھا
یعنی میرے رب نے مجھے وحی کی ہے اور مجھے وعدہ دیا ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرےگا یہاں تک کہ میرا سلسلہ زمین کے مشارق اور اس کے مغارب میں پھیل جائے گا اور سچائی کے سمندر ٹھاٹھیں ماریں گے یہاں تک کہ ان کی لہروں کی بلندی کی جھاگ لوگوں کو تعجب میں ڈال دے گی ۔ ان شاء اللہ
٭…٭…٭