خلاصہ خطبہ جمعہ 05؍اپریل 2019ء
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسولﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا حسین تذکرہ۔ ملک سلطان ہارون خان صاحب آف اٹک کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5؍ اپریل 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔
خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےچند بدری اصحابؓ رسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج جن بدری صحابہ کا ذکر کروں گا ان میں پہلا نام حضرت خراش ؓبن صمہ انصاری کا ہے۔حضرت خراشؓ خزرج کی شاخ بنوجشم سےتعلق رکھتے تھے۔ آپؓ نے بدر اور احد میں شرکت کی۔ رسول اللہﷺ کے ماہر تیر اندازوں میں شمار ہوتے تھے۔ بدر میں خراشؓ نے نبی کریمﷺ کے داماد ابوالعاص کو اسیربنایاتھا۔
دوسرا ذکر حضرت عبید بن تیھانؓ کا تھا۔عبیدؓ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ اور حضرت مسعود بن ربیع ؓکے مابین مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر میں شامل ہوئے،اور احد میں عکرمہ بن ابو جہل کے ہاتھوں شہادت پائی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ نے جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ حضورِانور نے فرمایا دونوں روایتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ آپؓ شہید ہوئے۔
تیسرےصحابی حضرت ابو حنہ مالک بن عمروؓ تھے۔ آپؓ کے نام کے متعلق اختلاف ہے، مثلاً مالک بن عمروؓ یا عامر اور ثابت بن نعمان وغیرہ۔ واقدی نے آپ کو شرکائے بدر میں شمار کیا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابوحبہ اور ابو حیہ بھی بیان کی جاتی ہے۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عبداللہ بن زید بن ثعلبہ ہے ؓ۔ والد کا نام حضرت زید بن ثعلبہؓ تھا اور یہ بھی صحابی تھے۔ آپؓ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو جشم سے تھا۔ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے۔آپؓ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شامل ہوئے۔فتح مکہ کے موقع پر بنو حارث کا جھنڈا آپؓ کے پاس تھا۔ اسلام لانے سے قبل ہی آپؓ عربی لکھنا جانتے تھے۔حضرت عبداللہ بن زیدؓ وہ صحابی ہیں جنہیں خواب میں اذان کے الفاظ بتائے گئے۔ یہ واقعہ سنہ 1 ہجری، مسجدِنبوی کی تعمیر کے بعد کا ہے۔ حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس واقعے کی تمام تفاصیل بیان فرمائیں،روایت میں مذکور اذان کے الفاظ دہراکر فرمایا ان کا ترجمہ بھی بچوں اور نومسلموں کے فائدے کے لیے پڑھ دیتا ہوں۔ جب آنحضرتﷺ کے ارشاد پر عبداللہ بن زیدؓ کے بتائے ہوئے الفاظ میں حضرت بلالؓ نے اذان دی تو حضرت عمر ؓ بن خطاب جلدی جلدی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے ایک موقع پر اپنا سارا مال صدقہ کردیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کی قربانی قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے تجھ سے تیرا صدقہ قبول کرلیا،البتہ اس کو میراث کے طور پر اپنے والدین کو لوٹادے۔ آنحضرتﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر عبداللہ بن زیدؓ کو اپنے ناخن تبرک کے طور پر عطافرمائے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،اور رسول اللہ ﷺسے گہری محبت کا اظہارکرتے ہوئے عرض کیا کہ جب آپﷺ کا دیگرانبیاء کے ساتھ رفع ہوگا تو میں ڈرتا ہوں کہ آپﷺ کو نہ پاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے اس شخص کو کوئی جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ جبرئیلؑ آیتِ کریمہ ومن یطع اللّٰہ والرسول فاولئک مع الذین۔۔۔الخ کے ساتھ نازل ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آیت کو ہم اس دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آپﷺ کی پیروی سے غیر تشریعی نبوت کا مقام حاصل ہوسکتا ہے۔ اس سے آپﷺ کے مقامِ ختمِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
حضرت عائشہ ؓسے مروی یہ واقعہ مختلف کتب تفسیر میں حضرت ثوبانؓ کے متعلق ملتا ہے۔ تاہم تفسیر ینبوع الحیاۃ میں مقاتل بن سلیمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت عبداللہؓ بن زید انصاری تھے۔
عبداللہ بن زید ؓکو جب آنحضرتﷺ کی وفات کی اطلاع ملی تو آپؓ نے کہا کہ اے اللہ تُو میری نظر کو لے جا یہاں تک کہ میں اپنے محبوب محمدﷺ کے بعد کسی کو نہ دیکھ پاؤں۔ اس کے بعد آپؓ کی نظر جاتی رہی اور آپؓ نابینا ہوگئے۔ عبداللہ بن زیدؓ کی وفات کے متعلق اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک آپؓ نےاحد کے بعد وفات پائی جبکہ اکثر نے یہ کہا ہے کہ آپؓ تمام غزوات میں شامل ہوئے اورحضرت عثمانؓ کے دور میں 64 برس کی عمر میں 32ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت معاذ بن عمرو بن جموحؓ ہے۔آپ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ غزوہ بدراور احد میں شامل ہوئے۔ حضورِ انور نے آپؓ کے والدکے قبولِ اسلام کا دلچسپ واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا ۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد تبلیغِ اسلام میں تیزی آگئی تھی۔ تاہم معاذؓ کے والد اپنے شرکیہ دین پر قائم تھے۔ انہوں نے اپنے گھرمیں لکڑی کا بت جسے مناۃ کہا جاتاتھا، بنا رکھاتھا۔ وہ اس بت کی تزئین اور تطہیر کرتے تھے۔معاذؓ ، بنو سلمہ کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر اس بت کو کوڑاخانےمیں اوندھے منہ پھینک آتے۔ یہ سلسلہ متواتر کئی راتیں چلتا رہا۔ معاذ کے والد روز صبح بت کوتلاش کرتے اور یہ حرکت کرنے والوںکو سخت برابھلا کہتے۔ ایک رات معاذؓ کے والد نے بت کے گلے میں تلوار لٹکادی اور کہا اللہ کی قسم ! مجھے یہ تونہیں معلوم کہ تیرے ساتھ ایسا کون کرتا ہے لیکن اگر تجھ میں کوئی طاقت ہے تو اس کو روک لے۔رات میں معاذؓ نےمردہ کتے کے ساتھ اُس بت کو کنویں میں پھینک دیا۔ جب اگلے دن آپؓ کے والد نےبت کو اس حالت میں دیکھا تو ان پر حقیقت کھل گئی۔
حضرت معاذؓ بدر کے دن ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔صحیح بخاری کی روایات میں معاذ نامی دو صحابہ کاذکر آتاہے، ایک جگہ معاذ اور معوذ کے نام آتے ہیں۔ قاتلینِ ابو جہل کے حوالے سےحضورِانور نے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، علامہ بدرالدین عینی اور زرقانی وغیرہ محققین کی تحقیق پیش فرمائی۔
حضرت معاذ ؓکو بدر میں ایک زخم لگا تھا آپ ؓ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے دور تک علیل رہے۔ مدینے میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
حضورِانورنے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مکرم ملک سلطان ہارون خان صاحب کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ آپ 27؍مارچ کو وفات پاگئے تھے۔ آپ کے بڑے بیٹے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے داماد ہیں۔ملک سلطان ہارون صاحب کے والد نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہ خاندان پنجاب کے بڑے خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے دادا ملک سرخرو خان کو برطانوی بادشاہت میں نوابی کی وجہ سےمقام حاصل تھا۔ سلطان صاحب کی شادی صبیحہ حمید صاحبہ سے ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نےنکاح کا اعلان کرتےہوئے ملک صاحب کے نانا حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کا بڑا دلنشیں ذکرِخیر فرمایا تھا۔
مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ غریبوں، مستحقوں کا خیال رکھنے والے، احمدیت کے لیے انتہائی غیرت رکھنے والے، خلافت کے لیے جان قربان کرنے والے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے کِرام کے سچے عاشق تھے۔
آخر میں حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی نیکیوں پر قائم فرمائے اور جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ آمین۔ تمّت