آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقیت کھلتی ہے (قسط نمبر 3۔ آخری)
(مسٹر ساگر چند بیرسٹرایٹ لاء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نصائح فرمودہ 6؍ دسمبر 1919ء بیت المبارک قادیان)
کیسا ایمان چاہیے
(گزشتہ سے پیوستہ ) ہمیں تو حقیقت میں وہ ایمان پسند ہے جو ایسا پختہ ہو جس کے بعد کوئی تحقیق اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے ۔بعض اوقات رسول کریم ﷺ کوئی بات فرماتے اور پھر فرماتے کہ وَلَا فَخۡرَ
(ترمذی ابواب المناقب باب ما ماء فی فضل النبی ﷺ)
اسی طرح میں بھی مجبوراً مثال کے طور پر نہ کہ کسی فخر کے لیے کہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ کوئی علم اور کوئی تازہ ترین تحقیق قطعاً قطعاً مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔ خواہ کوئی علمی طریق پر اسلام کی صداقت کی جانچ کی جائے میں اس کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہوں اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے ۔ ورنہ ایمان کا اعلیٰ درجہ اس سے بہت بلند ہے پس ایمان کی یہ خصوصیت ہے کہ خدا خود سمجھائے۔ بیسیوں دفعہ نئے سے نئے علوم سامنے آتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیںلیکن مجھے اسی وقت اس کے متعلق خدا تعالیٰ علم دیتا ہے اور اس وسعت سے دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور ایسے ایسے علم دیتا ہے جن کے متعلق پہلے میں نے کبھی کوئی بات نہ پڑھی ہوتی ہے نہ سنی ۔ اور وہ علم جو آتا ہے وہ خدا کی طرف سے کشف کے طور پر آتا ہے ۔ یہاں پر لوگ آتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ نے تو علم خوب پڑھا ہوا ہے حالانکہ میں نے وہ علم نہیں پڑھا ہوتا اور یہ بات ایمان کو اور بھی پختہ کرتی ہے۔ خواہ کوئی سا علم ہو جس کو لوگ کتنا ہی اچنبا خیال کرتے ہوں اس کے سامنے آنے پر فورًا خود بخود اس کی حقیقت کھل جاتی ہے ۔ اگر وہ بات غلط ہو تو اس کی غلطی اور اگر درست ہو تو اس کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔
جس قدر علاقہ مضبوط ہو اسی قدر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے
علاقوں کا تعلق اتنا ہوتا ہے مثلاً آپ کے ساتھ نام کا تعلق ہے یہ لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ کو اسلام سے محبت ہے اس علاقہ کی وجہ سے کتنے ہی لوگ آپ کو آگے ملنے کے لیے گئے اور یہ جو اس قدر یہاں موجود ہیں سب آپ کو دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف نام کا تعلق ہے اور پھر جتنا جتنا تعلق بڑھتا جاتا ہے اسی کے مطابق اس کا اثر بڑھتا جاتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ سے بھی صحابہ کا ایک تعلق تھا ۔ رسول کریم ﷺ کو جنگ احد میں پتھر لگے اور آپ ﷺ بے ہوش ہو گئے ۔ اس وقت ایک صحابی ابو دجانہ ؓ حضور ﷺ کے پاس تھے وہ آپؐ کی طرف منہ اور مخالفوں کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو گئے ۔ ان کی پیٹھ پر بارہ تیر لگے بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو تیر لگنے سے درد نہیں ہوتی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ۔ پھر کہا گیا کہ اس کا اظہار تو نہیں کیا ۔ جواب دیا کہ میں نے اس وقت اُف نہ کی کہ اُف کے ساتھ انسان کا بدن کانپتا ہے ۔ میں جانتا تھا کہ اگر اُف بھی کی تو جسم میں لرزہ پیدا ہو گا اور ممکن ہے اس لرزش میں کوئی حصہ حضور کے جسم کا تیر کی زد میں آجائے اور تیر آلگے اس لیے میں نے اس وقت اُف تک نہیں کی ۔ (سیرت ابن ہشام اردو جلد 2 صفحہ 65مطبع پرنٹنگ پریس لاہور مطبوعہ بار سوم 1975ء) بارہ تیر تھوڑے نہیں ہوتے ۔ آجکل تو کسی شخص کو اگر دو تین تیر لگ جائیں تو وہ گر پڑے۔ تو جتنا جتنا علاقہ مضبوط ہوتا ہے اتنا ہی اس کا اثر بھی بڑھتا جاتا ہے ۔
اصلی ریشنلزم اسلام ہی ہے
اسلام ہی درحقیقت ریشنلزم (Rationalism)ہے لوگ تو بے عقلی کا نام عقل رکھتے ہیں مگر اسلام عقل کو عقل کہتا ہے یہ اسلام ہی ہے جو کہتا ہے کہ جس بات کو مانو دلیل سے مانو ۔ قرآن کریم میں اس کی مثال ہے ۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو رسول ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو سچ ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں(المنٰفقون:2)اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں بے دلیل اور اوپرے دل سے کہتے ہیں اس لیے جھوٹے ہیں۔پس قرآن کریم تو کہتا ہے کہ جو مانو دلیل سے مانو۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ وہ اس آیت پر غور کریں کہ رسول کریم ﷺ کے پاس لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور آپؐ کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ ان کے متعلق کہتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں جو مذہب تلوار سے پھیلایا جاوے اس کی تو یہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ نام ہی اختیار کر لیں ۔ مگر یہاں معاملہ بر عکس ہے ۔لوگ خود آکر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ان کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تم مسلمان نہیں کیونکہ تم بے دلیل اور جھوٹے دل سے کہتے ہو ۔ یہ ایک نہایت لطیف بات ہے یہی سچا ریشنلزم ہے کہ کوئی عقیدہ جو دل سے نہ مانا جائے اور جس کی بنیاد دلائل پر نہ ہو، ماننے کے قابل نہیں ۔ اسی بات کو خدا تعالیٰ نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ لِیَھۡلِکَ مَنۡ ھَلَکَ عَنۡ بَیِّنَۃٍوَّیَحۡیٰ مَنۡ حَیَّ عَنۡ بَیِّنَۃٍ(الانفال :43) اسلام کی بنیاد یہ ہے کہ جس نے مرنا ہے وہ دلیل سے مرے اور جس نے زندہ ہونا ہے وہ دلیل سے زندہ ہو اور عقل یہی چاہتی ہے کہ جس علم کے متعلق دریافت کرنا ہو اس کے حقیقی ماہر کے پاس جاویں مثلاً مریض ہو تو طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جاوے اور ڈاکٹروں میں سے بھی اس کو چنے جو واقع میں اس فن کو جانتا ہو ۔ مگر یہ بے عقلی ہے کہ انسان ایک ڈاکٹر کا انتخاب کر کے پھر اس کو اس کے نسخہ کے متعلق مشورہ دے ۔ عقل کا پہلا کام انتخاب کرناہے اس کو چاہیے کہ ڈاکٹر کے انتخاب کرنے میں محنت کر لے ۔ مگر جب اس نے ڈاکٹر کا انتخاب کر لیا تو پھر اس کا دوسرا کام یہ ہے کہ اس کے بتائے ہوئے نسخہ کو قبول کرے اور خود اس کا استاد نہ بنے کیونکہ ہر ایک شخص اپنے پیشہ کو خوب سمجھتا ہے ۔ اسی طرح مذاہب کا حال ہے ۔ عقل چاہتی ہے کہ جب تک کسی مذہب کی صداقت ثابت نہ ہو اس کو قبول نہ کیا جائے ۔ لیکن یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ سچا مذہب دیکھ کر اور معلوم کر کے پھر اس کے حکموں پر جرح کرے اور اپنے منشاء کے مطابق اس کو بنانا چاہے ۔ خدا تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرح راضی ہو سکتا ہے ، ہم اپنے ایک مہمان کو بغیر اس کے بتائے ہوئے کہ وہ کس طرح راضی ہو سکتا ہے ، راضی نہیں کر سکتے ۔ پھر خدا تعالیٰ کو بغیر اس کے بتائے کے اپنے من گھڑت طریقوں پر قدم مارکر کس طرح راضی کر سکتے ہیں ۔ ہمارا فرض ہے کہ اس سے پوچھیں کہ خدایا تیری رضا مندی کس مذہب میں ہے اور خدا کاکام ہے کہ وہ بتائے کہ کونسا مذہب اس کا پسندیدہ اور منشاء کے مطابق ہے اور کس مذہب پر عمل کر کے ہم اس کی رضامندی حاصل کر سکتے ہیں ۔ پس اسلام نے عقل کی بنیاد کو قائم کیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ڈاکٹر کے انتخاب کے وقت عقل سے کام لیں لیکن جب ہم ایک ڈاکٹر کا انتخاب کر لیں تو یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کریں ۔ پہلی کتابوں کا یہ طریق تھا کہ وہ کہتی تھیں کہ ہم کہتے ہیں کہ تم مان لو لیکن اسلام کی یہ تعلیم نہیں ۔
دیر کی بات ہے کہ ایک پادری مجھے ایک مقام پر ملا وہ تیس سال سے ہندو ، مسلمانوں میں تبلیغ کررہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس سے گفتگو کروں ۔ اس سے ملاقات کی ۔ وہ چونکہ بازار میں ملا تھا اس لیے میں نے اس سے مکان پر ملنے کے لیے وقت مانگا ۔ جب میں دوسرے دن اس سے ملنے کے لیے گیا تو میں نے پوچھا کہ آپ کے مذہب کی بنیاد کس مسئلہ پر ہے۔ اس نے کہا تَوۡحِیۡد فِی التَّثۡلِیثِ اورتَثۡلِیث فِی التَّوۡ حِیۡدِ پر ۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ ذرا مجھے یہ سمجھایئے تو سہی۔ لمبی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ میں نے اس مسئلہ کی اچھی طرح سٹڈی نہیں کی اور میں اس کو اس لیے مانتاہوں کہ بائبل میں لکھا ہے ۔ میں نے کہا کہ اول تو درست نہیں کہ بائبل میں اس کی تعلیم ہے ۔ دوسرے اگر ہو بھی تو ہم کیسے اس کو تسلیم کر سکتے ہیںکیونکہ بائبل کا ماننا تو اس مسئلہ کے ماننے پر موقوف ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ کفارہ کے مسئلہ کی میں نے خوب تیاری کی ہے اس میں گفتگو کر لیں میں نے کہا بہت اچھا ۔ جب اس میں گفتگو شروع ہوئی تو آخر میں اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے ماں باپ کا یہ مذہب تھا اور میں عیسائی ہوں ۔ اس لیے میں اس کو مانتا ہوں ورنہ میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔
تو یہ طریق بہت غلط ہے کہ فلاں بات فلاں کتاب میں لکھی ہے اس لیے اس کو مان لو ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس کتاب کی صداقت کا کیا ثبوت ہے ۔ وہ کتاب پہلے سچی ثابت ہو جاوے تو پھر اس کے تفصیلی حالات ماننے کے قابل ہو سکتے ہیںکیونکہ یہ بات تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے کہ میری کتاب سچی ہے ۔دلائل سے جب تک اس دعویٰ کا فیصلہ نہ ہو کس طرح کسی کتاب کو مانا جا سکتا ہے لیکن جب ثابت ہو جائے کہ فلاں کتاب خدا کی کتاب ہے اور اس وقت بھی واجب العمل ہے تو اس کے متعلق بھی یہ کہنا کہ ہم اس کے ہر ایک حکم کو اپنی عقل کے ماتحت لا کر پھر مانیں گے نادانی ہے کیونکہ تفصیلات میں ہمیشہ ماہر فن کی بات پر اعتبار کیا جاتا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کتاب ساتھ ہی یہ بھی بتا دے کہ کیوں فلاں حکم کو مانو۔ مگر ایک شخص جو ہر قسم کے دلائل کی رو سے مانتا ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے اس کے لیے حق نہیں کہ وہ اس کے احکام پر جرح کرے کہ فلاں بات ماننی چاہیے اور فلاں نہیں بلکہ اس کے پیرو کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اس کے ہر حکم کو مانے یا پھر اس کی صداقت سے انکار کرے ۔ جیسا کہ ایک شخص کا حق ہے کہ وہ بہترین ڈاکٹر کا انتخاب کرے لیکن ڈاکٹر کا انتخاب کر لینے کے بعد اس کا یہ حق نہیں کہ وہ اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کرے کہ اس میں فلاں دوائی کیوں ہے اور فلاں کیوں نہیں۔اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کرے گا تو ڈاکٹر اس کو کہے گا کہ تو اس علم سے جاہل ہے جو میں بتاتا ہوں اس پر عمل کر۔ اسی طرح مثلاًآپ نے قانون پڑھا ہے ۔ اگر کوئی شخص آپ کے پاس مقدمات لائے اور کہے کہ آپ اس طرح اس مقدمہ کو چلائیں جس طرح میں کہوں تو آپ اس کو یہی جواب دیں گے کہ قانون میں نے پڑھا ہے اس لیے مقدمہ کی باریکیوں اور قانونی نکتوں کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں تم اس میں دخل دینے والے کون ہو ؟ پس ہر ایک شخص کا حق ہے کہ وہ ڈاکٹر اور بیرسٹر یا وکیل کا انتخاب کرتے وقت خوب عقل سے کام لے اور اچھی طرح جرح کرے ۔ محض بڑے سائن بورڈ اور دلالوں کے چکموں میں نہ آئے لیکن جب کامل تحقیق و تدقیق سے معلوم کر لے کہ کونسا ڈاکٹر یا بیرسٹر یا وکیل قابل ہے تو پھر اس کے نسخوں اور اس کی تجاویز میں دخل نہ دے اور یہی عقلمندی کا رستہ ہے اسی طرح ہر ایک شخص پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اچھے سے اچھا پروفیسر اور مدرسہ اور کالج تلاش کرے لیکن تلاش کر چکنے کے بعد یہ حق نہیں کہ پروفیسر کو مشورہ دے کہ جس طرح آپ پڑھاتے ہیں یہ طریق ٹھیک نہیں جس طرح میں بتاتا ہوں اس طرح پڑھائیں اور اگر آپ میرے بتائے ہوئے طریق پر پڑھائیں گے تو میں پڑھانے دوں گا ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ سخت ترین غلطی ہو گی کیونکہ جو جس فن کا آدمی ہوتا ہے وہی اس کے متعلق خوب سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں ۔ پس ریشنلزم والوں اور اہل مذاہب دونوں نے غلطی کی اور دونوں افراط و تفریط میں جا پڑے ۔ ریشنلزم والوں کا یہ کہنا کہ جو ہماری عقل میں آئے گا مانیں گے غلطی ہے اور اہل مذاہب کا محض یہ کہنا کہ چونکہ ہمارا مذہب تعلیم دیتا ہے اس لیے اسے ماننا چاہیے غلطی ہے۔ اسلام نے وسطی طریق اختیار کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ پہلے تم خوب غور کرو اور دیکھو کہ سچا مذہب کونسا ہے اور کس میں سچائی کے دلائل اور نشانات اور برکات ہیںجب تم اپنی عقل کے زور سے یہ معلوم کر لو کہ فلاں مذہب اس وقت خدا کی طرف سے ہے ۔ پھر اس کے احکام کے آگے چون وچرا نہ کرو ان کو بجا لائو۔ جس طرح ایک ڈاکٹر کے نسخہ پر بغیر چون و چرا کے عمل کرنا چاہیے یہ ایک درمیانی رستہ ہے ۔ اس کے مطابق تمام باتیں واضح ہو جاتی ہیں اور کھل جاتا ہے کہ کونسا مذہب حق ہے ۔
(الفضل 11دسمبر 1919ء)
٭…٭…٭