اجرِ روزہ
ہے جذب جس میں نورِ حق وہ روح روزہ دار کی
کیا اجر روزہ دار کا؟ ہاں ہاں رَضا دلدار کی!
مالِک بنے جب اَجر خُود اُس کی بَہا کی بات کیا!
اِس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہو گی روزہ دار کی!
روزے سے کیا کچھ نہ ملا جس کا خدا ہے خود صلہ
اِس سے بڑی جود و سخا بتلا ہے کس سرکار کی؟
جب ہے یہ بدلہ بے بدل کیوں نہ کھلے دل کا کنول
تسکین دل ہے صوم میں کچھ اضطرابِ عشق بھی
کچھ داغ لالہ زار کے خوشبو ہے کچھ گلزار کی
آ دیکھ قسمت جاگتی! ہر ایک روزہ دار کی
ہیں چننے والے چُن رہے بھر بھر کے اپنی جھولیاں
بخشش ذرا آ دیکھ تو! اِس اَبر گوہر بار کی
اِس میں ہے آتی لَیل وہ افضل جو دہ صد ماہ سے
جس میں برستی ہیں سدا ہاں بارشیں انوار کی
مانگو جو تُم نے مانگنا اعلان ہے سرکار کا
گھنٹی ہے بجتی ہر سحر اللہ کے دربار کی
ہر سو ہے منظر پُر فضا ہے کیف سا چھایا ہوا
جنت کے در ہیں کھل گئے دوزخ ہر در بند ہے
شیطان ہے جکڑا گیا اَور اپنے ہی گھر بند ہے
ہاتھوں میں اس کے ہتھکڑی پائوں میں اس کے بیڑیاں
اُس کا گلا گھونٹا گیا اِخراج ہر شر بند ہے
کیوں نہ بدی مفقود ہو جب نورِ حق مشہود ہو
وہ گھر بہ گھر کی رونقیں شام و سحر کی رونقیں
وہ قریہ قریہ روشنی ہر ہر نگر کی رونقیں
وہ صوم کی تیاریاں کاذب سحر کی رونقیں
قرآن کا وہ درس کیا ؟ جذب و اثر کی رونقیں
لب پر دعا کا سلسلہ وہ چشمِ ترکی رونقیں
روزوں میں ہے ایسا سماں گویا ہے اک تازہ جہاں