مسائل رمضان المبارک از ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
رؤیت ھلال کا طریق
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
‘‘اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازا غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہیے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقّتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا۔ مثلاً روزہ رکھنے کے لئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنّیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا۔ تب تک رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو۔ (یعنی جو قواعد سائنسدانوں کی طرف سے اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ جو فلکیات کا یا ستاروں کا علم رکھتے ہیں انہوں نے جو قواعد بنائے ہیں ضروری نہیں کہ ان قواعد کی پابندی کی جائے اور اگر ان کے اندازے یہ کہتے ہیں کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا تو اس کے مطابق عمل کرو اور چاند کو دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو یہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ نہیں ہو تا رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو) اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ (بلاوجہ اسی بات پہ عمل کرنا کہ کیونکہ ہمیں اندازے یہ بتا رہے ہیں اس لئے اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کریں گے یہ بلا وجہ کی ایک تکلیف ہے۔) فرمایا کہ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ سو یہ بڑی سیدھی بات (ہے) اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں (یعنی صرف ستاروں اور اجرام فلکی کا علم رکھنے والوں کے محتاج نہ رہیں) اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ (چاند کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر دیکھنے کی کوشش کی جائے اور نظر نہ آئے تو پھر جو حساب کتاب ہے اس پہ بھی انحصار کیا جا سکتا ہے اور اس بات پہ بھی انحصار ہو کہ تیس دن سے زیادہ اوپر نہ جائیں۔ اور فرمایا کہ) اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقت میں عند العقل رؤیت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ (عقل بھی یہ کہتی ہے کہ جو آنکھوں سے دیکھنا ہے اس کو صرف حسابی اندازے جو ہیں ان اندازوں پر بہرحال فوقیت ہے۔) فرمایا کہ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رؤیت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجاد کئے۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 192-193) جو یورپ کے پڑھے لکھے لوگ ہیں، عقلمند لوگ ہیں، سائنسدان ہیں انہوں نے اس بات کو معتبر سمجھتے ہوئے کہ دیکھنا جو ہے وہ بہرحال زیادہ اعلیٰ چیز ہے، اس خیال کی وجہ سے اپنے آلات بنائے ہیں۔ دُوربینیں بنائی ہیں جن کے ذریعہ سے وہ اجرام فلکی کو دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض دفعہ حساب میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا اور اگر غلطی ہو جائے مثلاً اگر چاند ایک دن پہلے نظر آنا ثابت ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے کیونکہ اس کا مطلب ہے ایک روزہ چھوٹ گیا۔ ہم نے ایک دن بعد شروع کیا اور چاند اس سے پہلے نظر آ گیا اور ثابت بھی ہو گیا کہ نظر آگیا تھا۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا۔ سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہو چکا تھا۔ عام طور پر اس علاقے میں ہر جگہ اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اس نے پوچھا کہ روزہ تو بدھ کو رکھا جانا چاہیے تھا۔ ہمارے ہاں پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اب کیا کرنا چاہیے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا چاہیے۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 437۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ جو روزہ چھوٹ گیا وہ رمضان کے بعد پورا کرو۔’’
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔صفحہ 5-6)
نماز تروایح کی حقیقت اور اسکی رکعات
اسی طرح تراویح کے بارے میں بعض سوال ہیں۔ اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموماً محنتی مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجا لانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائے تو کیا جائز ہو گا؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ‘کچھ حرج نہیں۔ پڑھ لیں۔ ’
(ملفوظات جلد 9 صفحہ 65۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے۔ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہیں اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ (مناسب تو یہی ہے کہ تہجد کے وقت اٹھ کے آٹھ رکعت پڑھا جائے لیکن اگر پہلی رات پڑھ لو تو پھر بھی جائز ہے۔) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اول حصہ میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔’’
(ملفوظات جلد 10 صفحہ113۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ جو بیس رکعات یا زیادہ رکعات والی باتیں ہیں یہ تو بعد کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ رکعت تہجد ہے۔ ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے۔ فرمایا ‘سفر میں دوگانہ سنت ہے۔ تراویح بھی سنت ہے۔ پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے۔ کوئی نئی نماز نہیں ہے۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو۔ ’
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 22۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔صفحہ 9)
مسافر اور مریض
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
‘’اگر تم مریض ہو یاسفر میں ہوتو پھران دنوںمیں روزے نہ رکھو۔ اور یہ روزے دوسرے دنوں میں جب سہولت ہو پورے کرلو۔ یہاں یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ اس وقت چونکہ تمام گھروالے روزے رکھ رہے ہیں جیسے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اٹھنے میں آسانی ہے، زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑتا،جیسے تیسے روزے رکھ لیں، بعد میں کون رکھے گا۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ بات وہی ہے کہ اصل بنیاد تقویٰ پرہے، حکم بجالاناہے، حکم یہ ہے کہ تم مریض ہو یا سفر میں ہو، قطع نظر اس کے کہ سفر کتناہے، جو سفر تم سفر کی نیت سے کررہے ہو وہ سفر ہے اور اس میں روزہ نہیں رکھناچاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ دو تین کوس کا سفر بھی سفر ہے اگر سفر کی نیت سے ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں برداشت ہے، ہم برداشت کرسکتے ہیں تو ایسے لوگوں کویہ بات یاد رکھنی چاہیے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ‘‘اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔خداتعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت میں رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھناچاہیے۔ مَیں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابراس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتاہے تویہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے۔ جو حکم وہ دے اُس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیاہے۔(مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)اس میں کوئی قیداور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔مَیں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اورایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور مَیں نے روزہ نہیں رکھا۔ (الحکم جلد ١١ نمبر 4بتاریخ31جنوری1907 ء) پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:‘‘جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام کے روزے رکھتاہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔خداتعالیٰ نے صاف فرما دیاہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفرکے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔خداکے اس حکم پرعمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی شخص نجات حاصل کرسکتا۔خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویابہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے۔ اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا’’ (البدر بتاریخ 17؍اکتوبر1907ء)(الفضل انٹرنیشنل 19تا25دسمبر2003ء۔صفحہ نمبر6-7۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ 424)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :‘‘ایسے لوگ جو اس لئے کہ گھر میں آج کل روزہ رکھنے کی سہولت میسرہے روزہ رکھ لیتے ہیں ان کو اس ارشاد کے مطابق یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی یہی ہے کہ روز ے بعد میں پورے کئے جائیں ۔اور وہ روزے نہیں ہیں جو اس طرح زبردستی رکھے جاتے ہیں۔’’
(الفضل انٹرنیشنل 19تا25دسمبر2003ء۔صفحہ نمبر7۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ 424)
روزے میں سفر نہ کرنے کی کیا حد ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں کہ
‘‘بات وہی ہے کہ اصل بنیاد تقویٰ پرہے، حکم بجا لاناہے، حکم یہ ہے کہ تم مریض ہو یا سفر میں ہو، قطع نظر اس کے کہ سفر کتناہے، جو سفر تم سفر کی نیت سے کررہے ہو وہ سفر ہے اور اس میں روزہ نہیں رکھناچاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ دو تین کوس کا سفر بھی سفر ہے اگر سفر کی نیت سے ہے۔’’ (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اکتوبر 2004ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ742 )
مرکز میں قیام کے دوران روزہ رکھنا جائز ہے
‘‘قیام کے دوران روزوں کے بارے میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہو تو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔(فتاویٰ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر 5 دار الافتاء ربوہ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 208 باب روزہ اور رمضان)کیونکہ قادیان وطن ثانی ہے اس میں تین دن سے کم وقت میں بھی اگر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن باقی جگہوں پر تین دن اگر قیام ہے تو روزے رکھ سکتا ہے۔ ’’(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء)
نیکی زبردستی اپنے آپ کو تکلیف دینے کا نام نہیں
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ سختی اپنے اوپر وارد کرتے ہیں یا وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کا سفر کوئی سفر نہیں ہے اس لئے روزہ رکھنا جائز ہے۔ آپؑ نے یہی وضاحت فرمائی ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ زبردستی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی جائے اور اپنی طرف سے تاویلیں اور تشریحیں نہ بنائی جائیں۔ جو واضح حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔ اور یہ بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافرروزہ نہ رکھے۔ تو برکت اسی میں ہے کہ تعمیل کی جائے نہ کہ زبردستی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک روایت میں آتا ہے: ‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو۔ اس پر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا اَنْتَ اَقْوٰی اَمِ اللّٰہ؟ یعنی تو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ یقینا ًاللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیاہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کوکوئی چیزصدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کو واپس لوٹا دے’’۔(المصنف للحافظ الکبیر ابی ابکرعبدالرزاق بن ھمام الصنعانی الجزء الثانی صفحہ 565 باب الصیام فی السفر)۔تویہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ مل رہا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5اکتوبر 2004 ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ745-746)
‘‘ایسے لوگ جو اس لئے کہ گھر میں آج کل روزہ رکھنے کی سہولت میسرہے روزہ رکھ لیتے ہیں ان کو اس ارشاد کے مطابق یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی یہی ہے کہ روز ے بعد میں پورے کئے جائیں اور وہ روزے نہیں ہیں جو اس طرح زبردستی رکھے جاتے ہیں۔حدیث میں آتاہے۔حضر ت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک سفر پرتھے۔آپؐ نے لوگوں کا ہجوم دیکھااورایک آدمی پر دیکھاکہ سایہ کیا گیاہے۔ آ پؐ نے فرمایا :‘‘کیا ہے؟ ’’۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص روزہ دار ہے۔ آ پ ؐنے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔(بخاری کتاب الصوم باب قول النبی ؐ لمن ظلل علیہ واشتد۔۔۔۔۔۔)
(الفضل انٹرنیشنل 19تا25 دسمبر 2003ء …خطبات مسرور جلد 1صفحہ425-426)
……………………………(باقی آئندہ)