سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط دوم آخری)

(مرزا طلحہ بشیر احمد۔ ربوہ)

آپ علیہ السلام نے اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کے حقوق اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کیے۔ والدین کا بہت زیادہ ادب کرتے تھے۔ والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تو سر جھکا کر سامنے زمین پر ہی بیٹھ جایا کرتے۔ والدین کے فرمانبردار بیٹے تھے۔فرمانبرداری کا یہ عالم تھا کہ دنیاوی کاموں سے سخت بیزاری کے با وجود آپؑ نے اپنے والد صاحب کی مرضی کے مطابق پرانے خاندانی مقدمات کی پیشیوں میں حاضری لگائی ہے اور لمبا عرصہ باوجود نا پسندیدگی کے سیالکوٹ میں ملازمت کی ہے۔

آپؑ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت نصرت جہاں صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت اماں جان)سے بھی کیا خوب محبت کا تعلق قائم فرمایا۔آپؓ کے جذبات کا مکمل خیال رکھا کرتے تھے اور ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ آپؓ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا پانی لینے کے لیےحضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی حویلی میں جایا کرتی تھیں جہاں ایک کنواں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ اس کنویں سے رات 9بجے کے قریب گرمیوں کے موسم میں پانی لینے گئیں ۔آپ کے ساتھ بیگم حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ اس دوران باتوں باتوں میں حضرت اماں جان کسی بات پر ہنسیں ۔حضرت مرزا سلطان احمد کی اہلیہ نے جب آپ کے ہنسنے کی آواز سنی تو ان کو یہ بات پسند نہ آئی اور کہنے لگیں کہ اگر ایسی بات ہے تو گھر میں کنواں کیوں نہیں لگا لیتیں؟ یہ بات سن کر حضرت اماں جان نہایت غمگین ہو کرگھر واپس آگئیں۔ جب حضرت صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ علیہ اسلام نے اسی وقت حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر (جن کا مکان قریب ہی تھا) فرمایا کہ ابھی مرزا محمد اسمٰعیل صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ دو چار کھودنے والوں کو بلا یا جائے۔ چنانچہ رات کے دس بجے پار کھودنے والے آگئے اور صبح تک آٹھ سے نو فٹ تک کنواں کھود دیا گیا۔ بعد میں ایک آدمی بٹالہ سے اینٹیں لینے بھی بھیجا گیااور جلد سے جلد کام کروا کر یہ کنواں 15دن کے اندر اندر تیار کر دیا گیا (الحکم 28 اپریل 1935 صفحہ 4)۔

الغرض حضور علیہ السلام حضرت اماں جان کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھا کرتے تھے اور ہر تکلیف کو فوری دور کرنے کی کوشش کرتے ۔ اسی طرح بیماری میں انتہائی شفقت اور محبت سے آپ کی تیمار داری فرمایا کرتے ۔ایک مرتبہ حضرت اماں جان بیمار تھیں اور حضرت اقدس تیمارداری فرماتے کھڑے دوائی پلا رہے تھے اور حالت اضطراب میں حضرت اماں جان کہہ رہی تھیں ہائے میں تو مرجاؤں گی آپ کا کیا ہے بس اب میں مر چلی ہوں تو حضرت نے آہستہ سے فرمایا ‘‘تو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے ؟’’(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، مؤلف حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی، صفحہ 394)۔

آپؓ کی بات کو بڑی عزت دیا کرتے تھے یہاں تک کہ جو خادمائیں آپ کے گھر کام کرنے آیا کرتی تھیں وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ‘‘مرجا بیوی دی گل بڑی مندا ہے’’(سیرت حضرت مسیح موعود، مؤلف حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ، صفحہ400)۔ بیوی سے سختی کو نا پسند فرمایا کرتے تھے اور گھر میں بھی یہ ہی معمول تھا کہ کبھی سختی نہیں کی۔

بچوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے اور ان کی ساری جائز خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ بچوں کی تربیت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے جس کے سبب بعض مرتبہ سختی بھی کی ہے مگر بدنی سزا کے سخت مخالف تھے۔ اگر کسی استاد کو ایسا کرتے دیکھتے تو یہ اس کی ناکامی سمجھتے ۔ ان کو سمجھانے کے لیے آپ علیہ السلام کا اپنا طریق ہمیشہ پیار اور شفقت والا ہوا کرتا تھا۔ بعض مرتبہ بچوں کو کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے مگر اس میں بھی ان کی تربیت کو مد نظر رکھتے۔ بچوں کے بچپنے سے کبھی تنگ نہ آتے بلکہ اکثر اوقات بچے آپ کے ارد گرد جمع ہو جایا کرتے اور کھیلتے یا آپ کو کہانیاں سناتے اور آپ بغیر تنگ آئے گھنٹوں ان کی یہ باتیں سنتے۔بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے تھے ۔ کبھی کسی بچہ کا پہنچہ پکڑ لیا اور کوئی بات نہ کی خامو ش ہورہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے۔پس ایسا تھاہمارا پیارا مسیح جس کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں پوری دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا مگران تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر عائد کیں ،آپ بچوں کی خوشیوں میں بھی برابر کے شریک ہو جایا کرتے تھے۔

غرض یہ کہ آپ علیہ السلام ہر لحاظ سے ایک انتہائی شفیق باپ تھے اور یہ سب اپنے خدا کی رضا پانے کے لیے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اولاد کی نعمت سے نوازا تواس فضل پر خدا کے حضور ہمیشہ شکرگزار رہے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اولاد کی وفات کے غم سے آزمایا توتب بھی آپ نے انتہائی صبر و شکر سے اپنے رب کی اس مرضی کے آگے اپنا سر جھکا دیا۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:‘‘آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے تھے۔ کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرےکہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی۔ اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں۔ مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے۔ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور خدا کے لیے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے۔آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی۔ آپؑ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتےکہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے۔ اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مرگئی ۔آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویاکوئی چیز تھی ہی نہیں ۔ اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی’’۔(سیرت حضرت مسیح موعود ، مؤلف حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ، صفحہ نمبر 364)

رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے تمام دوستوں اور ماننے والوں کابھی بہت خیال رکھا کرتے تھے اور آپ کی ذات تمام لوگوں کے لیے ایک پُر شفقت سایہ تھی۔ آپ ہر ایک سے پیار کرتے ۔ ہر ایک کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا بے حد عزت دیا کرتے تھے۔ آپ ہر ایک سے اتنی خوشی سے ملتے اورسب کے ساتھ اتنا اچھا رویہ ہوتا کہ تمام صحابہ یہی سمجھا کرتے تھے کہ آپ علیہ السلام سب سے زیادہ ان سے محبت کرتے ہیں ۔ آپ ان تمام لوگوں کی ،جن سے آپ کا تعلق تھا اور تمام لوگ جو قادیان آپ کے پاس آیا کرتے تھے، پسند نا پسند کا خیال رکھا کرتے تھے۔ کھانا آپ سادہ کھایا کرتے تھے مگر جو بھی مہمان آتا آپ اس کی پسند اور عادت کے مطابق کھا نا تیار کرواتے ۔ جب کوئی مہمان آتا تو موسم کے مطابق اسے ٹھنڈا گرم پوچھا کرتے تھے۔ مہمانوں کی بہت ہی عزت کیا کرتے۔بعض مرتبہ مہمانوں کی عادات کے مطابق قادیان سے باہر سے بھی چیزیں منگوا کر پیش کی ہیں۔تمام مہمانوں کا بے حد احترام کیا کرتے تھے اور ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ کسی بھی مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور عبد الرحیم خان صاحب پسر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھا رہے تھے جو حضرت کے گھر سے آیا تھا۔ نا گاہ میری نظر کھانے میں ایک مکھی پر پڑی ۔ چونکہ مجھے مکھی سے طبعاً نفرت ہے، میں نے کھانا ترک کردیا ۔ اس پر حضرت کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اٹھا کر واپس لے گئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضرت اقدس اندرون خانہ کھانا تناول فرمارہے تھے ۔ خادمہ حضرت کے پاس سے گزری تو اس نے حضرت سے یہ ماجرا عرض کر دیا۔ حضرت نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اٹھا کر اس خادمہ کے حوالہ کر دیا کہ یہ لے جاؤ اور اپنے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن میں ہی چھوڑ دیا ۔ وہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھانا لائی اور کہا کہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دے دیا ہے۔ اس وقت مسجد میں سید عبد الجبار صاحب بھی جو گزشتہ ایام میں کچھ عرصہ بادشاہ سوات بھی رہے ہیں موجود تھے ، چنانچہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے(سیرت المہدی حصہ دوم ، صفحہ 309)۔ پس حضور علیہ السلام اس حد تک مہمانوں کےاحساسات و جذبات کا خیال رکھا کرتے تھے کہ جب کسی مہمان کو ضرورت پڑی تو آپ علیہ السلام نے یہ بھی پسند نہ فرمایا کہ اپنا بنایا ہوا نوالہ ہی تناول فرمالیا جائے بلکہ فوراً مہمان کے لیے وہ کھانا بھجوا دیا۔
اسی طرح آپ تمام صحابہ کی تربیت کا بھی خیال رکھا کرتے تھے۔ جہاں آپ نے اپنے دلائل کے ذریعے ان لوگوں کو قائل کیا وہاں اپنے اخلاق کے ذریعے اپنے تمام صحابہ کے دل بھی جیت لیے۔ ان کی تربیت کے لیے ہمیشہ پیار کا طریق اپنایا اور اپنے نمونہ سے اور پیار سے ان کو بہترین اخلاق کی تعلیم پیش کی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے صحابہ کی غیرت بھی بہت تھی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبدالحکیم خان مرتد نے آپ کی جماعت پر کچھ اعتراضات کیے تو آپ نے اس کے جواب میں یوں تحریر فرمایا:‘‘۔۔۔میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دیں گے۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں۔ اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے ہیں۔ میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں ۔ اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں’’۔(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 150)

نیز حضورعلیہ السلام یہ بھی خیال رکھتے کہ آپ کے صحابہ کی کبھی بھی دل شکنی نہ ہو ۔ جب بھی ایسا ہوتادیکھتے تو صحابہ کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتے ۔ اسی طرح ان کی بیماری میں آپ ان کی تیمارداری کیا کرتے، علاج بھی کیا ہے اورکثرت سے ان کی صحت کے لیے دعا ئیں بھی کرتے تھے۔ صحابہ کے ایمان اوراعلیٰ اخلاق کے لیے بھی بہت دعا کرتے تھے۔ بہت سے صحابہ نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ حضرت صاحب چہرہ دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ کسی شخص کے دل میں کیا ہے اور اگر کوئی خواہش پیدا ہوتی محسوس کرتے تو پھر اس خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی سے روایت ہے کہ کرم دین والے مقدمہ کے دوران حضرت صاحب گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے کہ ایک دن کچہری میں ایک جامن کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر مع خدام تشریف فرما تھے۔ حضور کے لیے دودھ کا ایک گلاس لایا گیا۔ چونکہ حضور کا تبرک پینے کے لیے سب ہی کی کوشش ہوتی تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں ، اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضور کا پس خوردہ مل سکتا ہے۔ اس لیے میں ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ حضور نے جب نصف گلاس نوش فرمالیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو ۔ اسی طرح حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صاحب مسجد مبارک میں مع احباب تشریف رکھتے تھے۔ میں باہر سے آیا اورا لسلام علیکم عرض کیا۔ حضور سے مصافحہ کرنے کی بہت خواہش پیداہوئی لیکن چونکہ مسجد بھری ہوئی تھی اور معزز احباب راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا ۔ ابھی میں کھڑا ہی تھا اور بیٹھنے کا ارادہ کر رہا تھاکہ حضور نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ میاں عبدالعزیز آؤ مصافحہ تو کر لو ۔ چنانچہ دوستوں نے مجھے راستہ دے دیا اور میں نے جاکر مصافحہ کر لیا (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 567)۔پس حضور علیہ السلام اکثر مرتبہ صحابہ کے چہروں سے ان کے دل کی حالت سمجھ جایا کرتے تھے اور پھر اگر ان کو کسی مشکل میں پاتے تو ان کی اس مشکل کو دور کرنے کی کوشش کرتے،ایسے بے شمار واقعات ہیں۔
حضور کی صحبت سے جہاں اپنے مستفیدہوتے وہاں غیروں کے لیے بھی آپ ایک رحمت کا نشان تھے۔ آپ علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد ہر طرف سے آپ کے خلاف ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہوا اور بے شمار دشمن آپ کے خلاف کھڑے ہوگئے مگر آپ نے کبھی کسی سے نفرت نہیں کی بلکہ ان تمام دشمنوں کو ہمیشہ جب بھی موقع ملا فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ دور دور سے لوگ آتے اور آپ کے سامنے آپ کے خلاف بدزبانی کر کے چلے جاتے مگر آپ کبھی کسی ایسی بات کو توجہ نہ دیتے تھے۔ آپ کے خلاف جھوٹے مقدمات بھی قائم کیے گئے مگر ہمیشہ جب بھی ایسے دشمن سے بدلہ لینے کاموقع ہاتھ آتا تو آپ ان کا فیصلہ خدا تعالیٰ پر چھوڑتے ہوئے ان کو معاف کردیا کرتے ۔ آپ علیہ السلام اپنی ذات کے خلاف ہر قسم کے وار سے بے پروا تھے اور اپنے دشمن سے بھی انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو اسی طرح پورا کرتے جس طرح کہ اپنے دوستوں سے۔ ایک مرتبہ ایک مولوی قادیان آیا اور آپ کے منہ پر آپ کو دجال کہہ بیٹھا مگر اس بات کا بھی آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اندر تشریف لے گئے ۔ پھر وہ چلا گیا اور امرتسر جا کر اس نے ایک اشتہار چھپوایا اور اس میں یہ واقعہ بیان کیا کہ میں نے یہ الفاظ کہے لیکن باوجود اس کے جب آپ (علیہ السلام) اندر تشریف لے گئے تو میں نے ایک رقعہ بھیجا کہ میں ضرورت مند ہوں ، کچھ سلوک میرے ساتھ کرنا چاہیے۔ آپ نے فوراً پندرہ روپے بھیج دیے۔ آپ بہت سخی ہیں اورآپ کے منہ پر بھی سخت لفظ کہا جائے تو آپ رنج نہیں کرتے ۔ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ216)۔ اس آدمی کی مدد کے لیے اس کو پندرہ روپے عنایت کرنے کا ذکر حضور نے کسی سے نہ کیا تھا اور یہ بات اس اشتہار کے ذریعہ کھلی۔ یہ وہ اعلیٰ اخلاق تھے جو حضور علیہ السلام نے اس دنیا میں قائم کیے۔

غصہ آپ علیہ السلام کو بالکل نہ آتا تھا۔ آپ نے خود ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے بعض اوقات غصہ کی حالت تکلف سے بنانی پڑھتی ہے ورنہ خود طبیعت میں بہت کم غصہ پیدا ہوتا ہے (سیرت المہدی جلد اول257) ۔ آپ کے خلاف بہت سے لوگوں نے بد زبانی کی ۔ آپ کے خلاف ہر قسم کی دل دکھانے والی باتیں کی گئیں مگر آپ کبھی ایسی باتوں کی پروا نہ کیا کرتے تھے اور آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے بدلہ نہیں لیا ۔لیکن اگر کبھی آپ کو کسی بات پر غصہ آیا ہے یا کوئی بات ناگوار گزری ہے تو وہ صرف اور صرف خدا اور اس کے رسولؐ کی غیرت میں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آپ ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے اور پھر چاہے سامنے کوئی بھی ہو آپ پروا نہ کیا کرتے تھے۔ آپ نے اسی وجہ سے اپنے بعض رشتہ داروں سے قطع تعلق بھی کیا ہے ، ایک دفعہ بعض صحابہ پر سخت ناراض بھی ہوئے جب وہ ایک ایسی مجلس سے فوراً نہ اٹھ آئے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کی جارہی تھی اور آپ نے اپنے ان دشمنوں کا سلام تک لینا پسند نہیں کیا جو آپ کے آقا(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف بدزبانی کرتے تھے ۔پس یہی وہ عشق تھا جس کی وجہ سے آسمان پر آپ کی عزت کی گئی اور آپ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن گئے۔

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ علیہ السلام کی سیرت کے بارہ میں لکھتے ہیں:
‘‘آپ میں ایک مقنا طیسی جذب تھا ۔ ایک عجیب کشش تھی، رعب تھا، برکت تھی، موانست تھی، بات میں اثر تھا، دعا میں قبولیت تھی، خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے اور دلوں سے زنگ خود بخود دھلتا جاتا تھا…آپ فصیح و بلیغ تھے۔ نہایت عقلمند تھے۔ دور اندیش تھے۔ سچے تارک الدنیا تھے۔ سلطان القلم تھے اور حسب ذیل باتوں میں آپ کو خاص خصوصیت تھی۔ خدا اور اس کے رسول کا عشق ، شجاعت ، محنت، توحید و توکل علی اللہ ، مہمان نوازی، خاکساری ، اور نمایاں پہلو آپ کے اخلاق کا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی نا پسند فرماتے تھے۔ اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے۔ آپ نماز باجماعت کی پابندی کرنے والے ، تہجد گزار ، دعا پر بے حد یقین رکھنے والے ، سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے ، سادہ عادات والے، سخت مشقت برداشت کرنے والے اور ساری عمر جہاد میں گزارنے والے تھے…آپؑ کو کسی نشہ کی عادت نہ تھی۔ کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے، کوئی لغو بات نہ کیا کرتے تھے، خدا کی عزت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پروانہیں کرتے تھے۔ آپؑ نے ایک دفعہ اعلانیہ ذب تہمت بھی کیا۔ ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا۔ تو آپؑ نے اس کی درخواست پر اسے معاف کردیا۔ ایک فریق نے آپؑ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہا مگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا۔ اور اس نے آپؑ کو اختیار دیا کہ آپؑ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیں مگرآپؑ نے درگزر کیا۔ آپؑ کے وکیل نے عدالت میں آپؑ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی۔ مگر آپؑ نے اسے روک دیا۔ غرض یہ کہ آپؑ نے اخلاق کا وہ پہلو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جو معجزانہ تھا۔ سراپا حسن تھے۔ سراسر احسان تھے۔ اور اگر کسی شخص کامثیل آپؑ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم اور بس۔’’(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 825)

غرض کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وجود واقعی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت کا نشان تھا جس نے رحمت کے بیج کو چاروں طرف بکھیرا مگر بڑا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جس پر یہ بیج آکر گرا تو صحیح مگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

(نوٹ: یہ مضمون روزنامہ الفضل میں دو قسطوں کی صورت میں مورخہ 20تا 21دسمبر 2013ء کو شائع ہوا تھا۔ اب اس مضمون میں کچھ اضافہ و تبدیلی کر کے دوبارہ تیار کیاگیا ہے۔ مؤلف)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button