خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے مراکز
کسی بھی جماعت یا تنظیم کو اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک مضبوط مرکز کی ضرورت ہوتی ہے جو ان میں مرکزیت اور وحدانیت قائم رکھتا ہے۔ الہٰی جماعتوں میں اصل مرکز ِتوجہ تو وہی بابرکت وجود ہوتا ہے جس کو خدا نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے چنا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بابرکت وجود کے ماحول کو بھی برکت بخش دیتا ہے۔ پھر جس بستی یا جگہ پر اس کی رہائش ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس جگہ کو بھی مرکز کا درجہ دے دیتا ہے۔
حقیقی مرکز اسلام: اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے اوّل مرکز مکہ میں مقرر فرمایا جیسا کہ فرمایا: اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (آل عمران: 97)یعنی یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو بکہ (بکہ۔ مکہ کاقدیم ترین نام ) میں ہے وہ مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا ہے تمام جہانوں کے لیے۔ یعنی بیت اللہ ۔ بنیادی طور پر یہی ایک مرکز خدا کی طرف سے قائم ہوا باقی تمام مراکز اسی مرکز کے ظل کے طور پر خدا کی منشاکے مطابق اپنے اپنے وقت پر تیار ہوتے رہے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بنیادی مقاصد کو آگے بڑھاتے رہے۔ہر مرکز کے قیام کے وقت یہی بات سامنے رہی کہ اصل مرکز یہی ہے جس کی طرف ہر مسلمان کی توجہ رہنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی حکم دیا ہے کہ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ (البقرۃ:145)یعنی: پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی کی طرف اپنا منہ پھیر لو۔ اس سے مراد یہی ہے کہ تم جہاں کہیں بھی مرکز اسلام قائم کرو تمہاری ساری توجہ اپنے حقیقی مرکز مسجد الحرام کی طرف ہونی چاہیے اور خلافتِ حقہ اسلامیہ کا اصل مرکز بھی وہی ہے جو مرکز اسلام ہے۔
اس مضمون میں خاکسار خلافتِ حقہ اسلامیہ کے مراکز کا مختصر ذکر کر رہا ہے ۔ جنہوں نے خانہ کعبہ کی ظلیّت میں عالم اسلام کو مجتمع رکھا ۔ یہ ایک نہایت وسیع مضمون ہے اور ہر ایک مرکز پر علیحدہ کئی مقالہ جات تحریر کیے جا سکتے ہیں۔
مدینہ منورہ : اسلام کا آغاز اسی بستی جس کو ام القریٰ بھی کہا گیا ہے ، سے ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کو سنتِ انبیاء کے مطابق یہاں سے ہجرت کرنا پڑی اور آپ ﷺ نے الٰہی منشاء اور گذشتہ صحائف میں مذکور پیش گوئیوں کے مطابق مدینہ منورہ کو ایک نیا مرکز اسلام بنایاجہاں دیگر مذاہب بالخصوص یہود آپ کی آمد کے انتظار میں پہلے سے آکر آباد ہو چکے تھے۔
(بحوالہ سیرۃ النبی ﷺ لابن ہشام)
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد پہلے تین خلفائے راشدین نے اسی بستی کو جسے رسول اللہ ﷺ نےمکہ کی طرح حرم قرار دیااپنا دارالخلافہ بنائے رکھا۔ اس بستی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان تین خلفائے راشدین کی قیادت میں اسلام عرب سے باہر نکل کر قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتوں کو اپنے زیر نگیں کر کےایشیا، یورپ اور افریقہ کے بعض علاقوں تک وسیع ہو گیا۔
اس مرکز کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ قرآن کریم کا نزول جس کا آغاز مکہ سے ہوا تھا اس کی تکمیل اس بستی میں ہوئی۔ پھر اس کی جمع و تدوین اور اشاعت کاکام خلفائے راشدین کے زمانے میں تدریجاً مکمل ہوا اور اس کی اشاعت مدینے سے نکل کر جہاں تک اسلام کا پیغام پہنچا وہاں تک ہوئی۔
فلاحی ریاست جس کو آج کل کے دور میں ویلفیئر سٹیٹ کہا جاتا ہے اس کو پہلی مرتبہ متعارف کروانے والا یہی مرکزِ اسلام ہے۔ ایک ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے اس کی بہت سی خوبیوں میں سے درج ذیل نمایاں خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔ مضبوط اقتصادی و معاشی نظام ، قضاء کا نظام، تعلیم و تدریس کا نظام، طبی سہولیات، پارلیمانی یعنی مشاورتی نظام اور ہر طرح کی معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔ اس نظام حکومت کی پوری شکل ہمیں اس مرکز اسلام میں نظر آتی ہے۔ یہ بابرکت شہر تقریباً24سال تک خلافتِ حقہ اسلامیہ کا مرکز رہا۔
کوفہ:حضرت علیؓ کے دور خلافت میں کوفے کو مرکزِ خلافت بننے کی توفیق ملی۔ اس زمانہ میں یہ مرکز اسلام کا علمی گہوارہ بنا۔ حضرت علی ؓنےاسی شہر کی جامع مسجد میں بہت سے پُر معارف اور علمی خطبات و خطابات اور دروس القرآن بیان فرمائے۔ جس کے نتیجے میں کوفہ سے کثیر تعداد میں جیّد علماء اور فقہاء اور ائمہ پیدا ہوئے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ ؒ جن کے مسلک کو عالم اسلام نے سب سے زیادہ اپنایا اسی شہر کوفہ کے رہنے والے تھے۔یہ شہر تقریباً 6سال خلافتِ حقہ اسلامیہ کا مرکز رہا۔
قادیان دارالامان :آ نحضرت ﷺ نے آخری زمانے میں دوبارہ اپنے ظلِ کامل اور بروز کے ذریعہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی پیشگوئی فرمائی۔ الہٰی منشا کے مطابق اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے مرکزِ خلافتِ حقہ اسلامیہ کے طور پر قادیان کو چنا گیا۔ اپنی ابتدا سےہی قادیان جس کانام ہی اسلام پور قاضی تھا اسلامی علوم کا گہوارہ تھا۔ پھر مسیح پاک علیہ السلام کے زمانے سے جب ثریا پر پہنچا ہوا ایمان واپس زمین پر آیا تو اسی سرزمین میں بسنے والے رجال فارسی کے ذریعہ آیا۔
پھر مسیح پاک کے وصال کے بعد 27؍مئی 1908ء کو قدرت ثانیہ کا ظہور اسی بابرکت بستی قادیان دارالامان سے ہوا۔ دَور آخَرین میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے اسی مبارک بستی کو چنا گیا ۔ اور دنیا کی قضاء و قدر کے فیصلے مسیح پاک علیہ السلام اور آپ کے پہلے دو خلفا کو اسی مقدس زمین پر بتائے گئے۔
قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور ِخلافت میں اس پاک بستی سے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال پہلا مشن کھولنے کے لیے لندن ، جو اس وقت دنیا کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا تشریف لے گئے۔ اسی دور خلافت میں قادیان میں تعمیرات کا آغاز ہوا اور کالج اور سکول کی عالیشان عمارتیں بننا شروع ہوئیں۔ دَورِخلافت اولیٰ میں بھی قادیان سے قرآن اور حدیث کے معارف پھوٹتے رہے اور حق کے پیاسے اس مرکز کی طرف آ کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے رہے۔
پھر قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی کا عظیم الشان دور آتا ہے جس دور میں مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، اور دیگر عمارات میں توسیع ہوئی۔ جماعت احمدیہ کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط ہوا۔ انجمنوں، تنظیموں اور مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا۔ اس مرکزِ خلافت کو یہ شرف حاصل ہوا کہ لوائے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پرچم پہلی مرتبہ اسی مقدس بستی میں لہرایا گیا جو آج دنیا کے200 سے زائد ممالک میں لہرا رہا ہے۔ پر معارف دروس القرآن میں قرآن کریم کے مخفی و مدفون خزائن اس دور میں ظاہر ہوتے رہے۔ دنیا کے سیاسی افق پر اٹھنے والی تبدیلیوں پر بھی یہ مرکزِ خلافتِ حقہ اسلامیہ اثر انداز ہوتا رہا۔ اس مرکز سے تربیت پانے والے اور حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے والی شخصیت حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خاں صاحب کے ذریعہ کئی اسلامی ممالک جن میں لیبیا، مصر، فلسطین، الجزائر اور پاکستان جیسے ممالک آزادی کی نعمت سے متمتع ہوئے۔ یہ بستی39 سال تک خلافتِ حقہ اسلامیہ کا مستقل دارالخلافہ رہی اور اسلام کا پیغام اس بستی سے افریقہ، یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔
غیروں نے کئی دعوے کیے کہ ہم اس مرکزخلافت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس مقدس بستی کی بے حرمتی کریں گے مگر اس بستی کو جسے خدا نے دارالامان قرار دیا اس کو کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہاں جنہوں نے دعوے کیے آج ان کا کوئی نام لیوا باقی نہیں اور قادیان دارالامان آج بھی مرجع خاص و عام ہے اور تاقیامت مرجع خاص وعام اور خلافتِ حقہ اسلامیہ کا دائمی مرکز رہے گا۔ انشاء اللہ۔
رتن باغ لاہور :حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ‘‘داغ ہجرت’’ کے مطابق جماعت احمدیہ مسلمہ کو قادیان دارالامان سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس ہجرت کے بعد عارضی طور پر مرکزِ خلافت نئے مرکز کی تیاری و تلاش کے مراحل طے ہونے تک رتن باغ لاہور میں رہا۔ قادیان سے ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ کے لیے رتن باغ میں قیام فرما ہوئے۔
اس کوٹھی کو کچھ عرصے کے لیے مرکزِ خلافت رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کوٹھی میں حضورؓ کے تمام معمولات اسی طرح چلتے رہے جس طرح قادیان دارالامان میں چل رہے تھے۔ دفتر الفضل۔ نظارت تعلیم و تربیت اور دیگر کئی جماعتی دفاتر اس کوٹھی میں منتقل ہو گئے۔ اس کوٹھی میںحضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ152 خاندانوں کے 801 افراد رہائش پذیر رہے۔ ربوہ کے قیام سے پہلے تک تمام ضروری دفتری معاملات اسی کوٹھی میں دیکھے جاتے رہے۔ یہ مقام خلافتِ حقہ اسلامیہ کا ستمبر 1947ء تا ستمبر 1949ء تک مرکز رہا۔ اس دوران کئی مشنز کا دوبارہ احیاء ہواجن میں اردن اور جرمنی کے مشن وغیرہ بھی شامل ہیں اور کئی مجالس مشاورت اور ذیلی تنظیموں کے دیگر پروگرامز یہاں ہوتے رہے۔
ربوہ: قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد ایک نئے مرکزِ خلافت کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ حضرت مصلح موعود ؓنے اس کے لیے کئی مقامات کا معائنہ کیا۔ پھر ایک رؤیا کے مطابق دریائے چناب کے کنارے ایک بنجر قطعہ اراضی نئے مرکزِ خلافت کے لیے چنا گیا۔ 20 ستمبر 1948ء کو حضرت مصلح موعود ؓنے یہاں تشریف لا کر ابرہیمی دعاؤں اور صدقات کے ساتھ اس مرکز کی بنیاد رکھی۔ اس غیر ذی زرع بستی کی آباد کاری جہاں سبزے کا نام و نشان نہ تھا اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے۔ یہ مبارک بستی جس کو 3 خلفائے حقہ اسلامیہ کا دارالخلافہ رہنے کا شرف حاصل ہے وہیں یہ پیاری بستی اس بات پر بھی نازاں ہے کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس بستی میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں پیدا ہونے والے پہلے لڑکے ہیں۔
اس مرکزِ خلافت کی ابتداخیموں میں رہائش کے ساتھ ہوئی پھر کچے مکانات تعمیر ہوئے اور پھر پختہ تعمیرات کا آغاز ہوا۔ تمام انجمنوں اور ذیلی تنظیموں کے مرکزی دفاتر یہاں تعمیر اور قائم ہوئے۔ 1949ء تا 1983ء تک جلسہ ہائے سالانہ پر ربوہ مرجع خاص وعام رہا اور لاکھوں کی تعداد میں خلافتِ حقہ کے پروانے یہاں علم و عرفان کی روشن مشعل سے اکتساب نور کے لیے آتے رہے۔
یہاں کی مسجد مبارک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ چار خلفا نے یہاں نمازیں پڑھیں اور پڑھائی ہیں جبکہ 2 خلفائے حقہ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا اسی مسجد میں پہنائی۔ ستمبر 1949ء تا اپریل 1984ء تقریباً 35سال تک یہ مقام خلافتِ حقہ اسلامیہ کا مرکز رہا۔ اس دور میں کئی یورپین ممالک میں مشنز کا قیام اور احیاء ہوا۔ جن میں سپین کا مشن قابل ذکر ہےمسلمانوں کو 700 سال کے بعد یہاں مسجد کی تعمیر کا موقع ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد رکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس مسجد کا افتتاح فرمایا ۔
مسجد فضل لندن: اپریل 1984ء میں حکومت پاکستان کے بدنام زمانہ آرڈیننس کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ربوہ سے لندن ہجرت کرنا پڑی اور مسجد فضل لندن کو مرکزِ خلافتِ حقہ اسلامیہ بنایا۔یہ مسجد بھی الہٰی منشاء کے مطابق مرکزِ خلافت بنی۔ اس کے متعلق پہلے سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود کی کئی پیش گوئیاں موجود تھیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا:‘‘میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے ………’’(ازالہ اوہام) چنانچہ آپ کی نمائندگی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اور ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس مسجد کے منبر سے انگریزی میں کئی خطابات فرما چکے ہیں اور کئی انگریزوں کو صداقت کا شکار کر چکے ہیں۔
اس مسجد کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے1924ء میں رکھی۔ اس وقت آپ نے جو دعائیہ الفاظ کتبے پر تحریر فرمائے وہ بھی ایک پیشگوئی کارنگ رکھتے تھے جو اب پوری ہوئی حضور نے تحریر فرمایا:
‘‘آج 20 ربیع الاول 1343 ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوںکی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے لیے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہماالصلوٰۃ کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سور ج کا کام دے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔’’
یہ مقام 35 سال تک اپریل 1984ء تا اپریل 2019ء خلافت اسلامیہ حقہ کا مرکز رہا۔ اس بابرکت مقام سے جماعت احمدیہ کو وہ عالم گیریت حاصل ہوئی جس کی نظیر نہیں۔ جماعت احمدیہ 212ممالک میں پھیل چکی ہے۔ ایم۔ ٹی۔ اے انٹرنیشنل کا آغاز بھی اسی مسجد سے ہوا جس کے ذریعہ اسلام کا پیغام ہر گھر تک پہنچ گیا۔ پھر جسمانی اور روحانی مریض اس جگہ سے شفا پاتے رہے۔ہومیوپیتھک کلاسز سے جسمانی علاج جبکہ مجالس علم و عرفان، خطبات جمعہ، دروس القرآن اور ترجمۃ القرآن کلاسز کے ذریعہ حق کے متلاشی سیراب ہوتے رہے۔
اسلام آباد: یہ مرکزِ خلافتِ حقہ اسلامیہ آج کل اسلام کے پھیلانے کا مقام بنا ہوا ہے۔ یہ قطعہ اراضی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے لندن ہجرت کے بعد 1984ء میں خریدی تھی۔ ایک لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ سالانہ اسی مقام پر ہوتا رہا۔ اس مقام کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ 1994ء میں پہلی عالمی بیعت یہاں ہوئی۔
اس مرکزِ خلافت میں ایک خوبصورت مسجد ، دفاتر اور کچھ رہائشیں جن میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائش گاہ بھی موجود ہے جو حال ہی میں تعمیر ہوئے ہیں۔ اس مرکز کی منتقلی کا تفصیلی تذکرہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اپریل 2019ء میں فرمایا ۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مؤرخہ 15 اپریل 2019ء کو مسجد فضل لندن سے اس مرکزِ خلافت میں منتقل ہوگئے اور خلافتِ حقہ اسلامیہ وسع مکانک کے نظارے دیکھتے ہوئے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔
رمضان کے بابرکت مہینہ کے دوسرے جمعہ کے روز 17 مئی 2019 ء کو اس مرکزِ خلافت کی مسجد مبارک سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ارشاد فرما کر اس مرکزِ خلافت میں قائم ہونے والی مسجد مبارک کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ اس افتتاح کے موقع پر تمام عالمگیر جماعت اپنے پیارے امام کی اقتداء میں خدا تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر شکر بجا لائی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مرکزِ خلافت اس جماعت کو عطا فرمایا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس مبارک الہام ‘‘مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔’’ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا کو سامنے رکھتے ہوئے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کانام مسجد مبارک کے ظل کے طور پر مسجد مبارک رکھا۔ اسی تاریخی خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ اس برکتوں اور دعاؤں کی قبولیت والے مہینہ سے استفادہ کرتے ہوئے احمدیت کی ترقی اور دنیا کے اس خطہ میں مرکز کی تعمیر کو پورا کرنے کے لیے دعا کریں اور بہت دعائیں کریں …اسی طرح فرمایا کہ ربوہ جانے کے راستے بھی کھلیں اور قادیان جو مسیح کی تخت گاہ ہے وہاں واپسی کے راستے بھی کھلیں اور مکہ اور مدینہ جانے کے لیئے راستے بھی ہمارے لیئے کھلیں کہ وہ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی بستیاں ہیں۔
اللہ کرے کہ یہ خلافت کا مرکز بھی خلافت کی بے شمار برکات کو سمیٹنے والا بنے۔ خلافتِ حقہ اسلامیہ کے دیگر مراکز کے دروازے بھی خلیفۃ المسیح کے لیے کھولے جائیں اور فاتحانہ شان کے ساتھ خلافتِ حقہ اسلامیہ اپنے دائمی مرکز میں جائے۔ آمین
٭…٭…٭