حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے وارشادات
نام کتاب: ‘‘حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے و ارشادات’’
ناشر: دارالقضاء سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ
سن و مقام اشاعت: 2019ء۔ UK
ضخامت : 592صفحات
تاریخِ مذاہب پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ قضا کا قیام انبیاء کی سنت ہے۔ تمام انبیاء ہی لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس نظام عدل کا اپنے کمال تک پہنچنا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺ کے ذریعہ ہی مقدّر تھا۔ چنانچہ اسلام نے دنیا کا بہترین نظام عدل متعارف کروایا۔ اس نظام کے قیام کے لیے آنحضرتﷺ نہ صرف خود فیصلے فرمایا کرتے تھے بلکہ آپؐ نے اپنے صحابہ کی تربیت کے لیے اپنی نگرانی میں ان سے فیصلے بھی کروائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: فإن القضاء فريضة محکمة وسنة متبعة۔ (دارقطني)۔ یعنی قضاء ایک محکم فریضہ اور ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی جانی ضروری ہے۔
آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کی ایسی عمدہ تربیت کی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپؐ کے خلفائے راشدین بھی سنّتِ نبویﷺ کے موافق لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے۔ اور اسی طرح حضرت امام آخرالزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے عظام نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ جس طرح اسلام کی نشأۃ اولیٰ میں دوسرےخلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ قضائی نظام کی بنیاد رکھی تھی اسی طرح اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفۂ دوم سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ میں دارالقضاء کی بنیاد رکھی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی گریہ وزاری اور عاجزانہ دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ایک فرزند موعود کی بشارت دی تو اس بابرکت وجود کی صفات حسنہ کے ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ ‘‘وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا’’۔ان چند الہامی الفاظ کے بارہ میں اگرچہ بے شمار مضامین تحریر کیے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن امر واقعہ یہ بھی ہے کہ آج جس ضخیم کتاب کا تعارف ہمارے پیش نظر ہے اس کے سینکڑوں اوراق پر محیط اس اولوالعزم موعود اور بابرکت وجود کے ہزاروں ارشادات بھی اس عظیم الشان ‘‘پیشگوئی مصلح موعود’’کے مذکورہ بالا الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں۔
نظام عدل اور دارالقضاء کے حوالے سے حضورؓ کے بیان فرمودہ ارشادات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ انسانی نفسیات کا نہایت گہرا علم رکھنے والے تھے اور افرادِ جماعت کی قوّت عملیہ کا بہترین ادراک بھی رکھتے تھے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہر سماج کے باسی اخوّت اور محبت کے باہمی رشتوں میں منسلک ہونے اور فکری و نظریاتی طور پر ایک ہونے کے باوجود بھی حقوق و فرائض کے معاملے میں جُدا سوچ اور منفرد اندازِ فکر بھی رکھتے ہیں۔ نقطۂ نظر کا یہ اختلاف اگر ایک حد سے بڑھ جائے تو معاشرے کا امن متأثر ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی امن اور سماجی روایات کی بقا، بہبود اور ترقی کے لیے مروّجہ دنیاوی قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے تمام مسائل کا قابلِ قبول حل تلاش کیا جانا ضروری ہوتا ہے جو افراد کے باہمی اختلافات کو حقیقی عدل کے تقاضوں کے تحت حل کرکے پُرامن ماحول کو یقینی بنادے۔ اور امرواقعہ یہ بھی ہے کہ اگر ذاتی اختلافات جماعت احمدیہ جیسی الٰہی جماعت کے افراد میں نظر آئیں جو بنیادی طور پر ایک ہی نصب العین کے لیے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں لانے کا عزم کیے ہوئے ہیں تو پھر اُن افرادِ جماعت کے باہمی اختلافات کو شریعت اسلامیہ اور اخلاقی ضابطۂ حیات کی روشنی میں حل کرنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ نیز الٰہی جماعتوں میں اجتماعی پاکیزگی کے حصول کے لیے انفرادی اختلافات کو بطریق احسن جلد از جلد حل کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مسند خلافت پر متمکّن ہونے کے محض پانچ سال کے اندراندر جماعت احمدیہ میں دارالقضاء کے نظام کا اجرا فرمادیا۔
جیسا کہ ادارہ دارالقضاء کے قیام سے کچھ ہی عرصہ قبل حضور رضی اللہ عنہ نے 1915ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر کیے جانے والے اپنے خطاب میں سورۃالنصر کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ مَیں نے جب ان آیات پر غور کیا تو خداتعالیٰ نے مجھے ایک عجیب بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو اُن میں جو بدیاں اور برائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ (انوارخلافت صفحہ 104)۔ چنانچہ یہ امر ناگزیر تھا کہ دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں اور الٰہی تقدیر کے ماتحت احمدیوں کی تعداد میں ہونے والے غیرمعمولی اضافے کے ساتھ ساتھ، بعض نئی اقوام اور افراد کے قبول احمدیت کے نتیجہ میں اگر جماعت احمدیہ عالمگیر سے وابستہ فدائیانِ خلافت حقّہ اور خصوصاً مرکز احمدیت قادیان دارالامان کے ماحول میں بسنے والے مخلصین جماعت کسی باہمی تنازعہ کا شکار ہوجائیں تو ان تنازعات کو عدل، احسان اور ایتاءِ ذی القربیٰ کی قرآنی تعلیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت احسن انداز میں نبٹادیا جائے تاکہ ان افرادِ جماعت کی ذاتی اور اجتماعی سطحوں پر،ظاہری پاکیزگی اور باطنی طہارت کا عمل متأثر نہ ہو جو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا ایک عظیم مقصد ہے۔
اگرچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ مبارک میں قادیان میں قضا کا نظام عملاً پہلے ہی قائم فرمادیا ہوا تھا تاہم حضورؓ نے جماعت کے انتظامی ڈھانچے کی جب بنیاد رکھی اور یکم جنوری 1919ء سے باقاعدہ طور پر مختلف صیغہ جات قائم فرمائے تو ان میں قضا کے قیام کا بھی ذکر تھا اور اس نہایت اہم ذمہ داری کے لیے تین علمائے کرام یعنی حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ، حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ اور حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کو مقرر فرمایا۔ حضورؓ اس نظام کے قیام کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘شریعت کے بعض حصے ایسے ہیں کہ باوجود ان کے سیاسی نظام کے ساتھ متعلق ہونے کے گورنمنٹ ان میں دخل نہیں دیتی۔ جیسے قادیان میں قضا کا محکمہ ہے حکومت اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے خود اجازت دی ہوئی ہے کہ ایسے تنازعات کا جو قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں آپس میں تصفیہ کر لیا جائے۔ پس اسلامی شریعت کا وہ حصہ جس میں حکومت دخل نہیں دیتی اور جس کے متعلق حکومت نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اس میں جس رنگ میں چاہیں فیصلہ کریں، ہمارا فرض ہے کہ اس حصہ کو عملی رنگ میں اپنی جماعت میں قائم کریں اور اگر ہم شریعت کے کسی حصہ کو قائم کر سکتے ہوں مگر قائم نہ کریں تو یقیناً اس کے ایک ہی معنے ہوں گے اور وہ یہ کہ ہم شریعت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ پس اب اس نہایت ہی اہم اور ضروری مقصد کے لیے ہمیں عملی قدم اُٹھانا چاہیے جو خداتعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور جماعت کے کسی فرد کی کمزوری یا ٹھوکر کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاہیے۔’’
انوارالعلوم جلد15 انقلاب حقیقی۔ صفحہ106)
چنانچہ نہایت پُرحکمت نظام عدل عطا فرمانے کے بعد سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی بے شمار دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس نئے ادارہ کے مقاصد عالیہ کے حصول کے لیے قابل عمل اصولوں کو وضع فرمانے اور پھر عدل کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن اصولوں کو نافذ کرنے میں بہت مشقّت اٹھائی نیز دارالقضاء کے منتظمین اور قاضیوں کی تربیت کے لیے گرانقدر رہنمائی سے نوازتے رہے۔ اور پھر آپؓ کے بعد آنے والے خلفائے عظّام نے بھی اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود لوگوں کے تنازعات کے فیصلوں اور قضائی نظام کی بہتری کے لیے اپنا قیمتی وقت دے کر اس نظام کی بنیادیں مستحکم کیں۔ چنانچہ اس وقت تک احمدیہ دارالقضاء کی شاخیں 18سے زائد ممالک میں قائم ہوچکی ہیں۔
مرکزی دارالقضاء کے علاوہ اس ادارہ کی ذیلی شاخوں کے قیام کا تصوّر بھی سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ہی پیش فرمایا تھا۔ چنانچہ حضورؓنے جلسہ سالانہ 1918ء (جو مارچ 1919ء میں قادیان میں منعقد ہوا تھا) کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا:
‘‘ہماری جماعت کے لوگوں میں اگر کسی جگہ کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو وہ عدالت میں جاتے ہیں جس سے احمدیت کی ذلّت ہوتی ہے۔ ابتداء میں جب ابھی جھگڑے کی بنیاد پڑتی ہے اس وقت تو ہمارے پاس اس لیے نہیں آتے کہ چھوٹی سی بات کے متعلق انہیں کیا تکلیف دیں لیکن جب بات بڑھ جاتی ہے تو پھر اس خیال سے ہمارے سامنے پیش کرنے سے جھجکتے ہیں کہ وہ کہیں گے پہلے کیوں ہمیں نہ بتایا اور کیوں جھگڑے کو اتنا بڑھایا۔ اس طرح بات بڑھتی بڑھتی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر اگر ہم بھی کہیں کہ اس جھگڑے کو چھوڑ دو تو نہیں مانتے اور احمدیت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نقص کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر جگہ محکمہ قضاء مقرر نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو مسائل سکھلا کر مختلف مقامات پر مقرر کردیا جائے تو ایسا نہ ہوتا۔ اب قاضی القضاۃ کا محکمہ تو یہاں مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ موٹے موٹے اور ضروری مسائل کچھ لوگوں کو سکھلا کر مختلف جماعتوں میں انہیں مقرر کردیاجائے تاکہ وہ مقامی جھگڑوں اور فسادوں کا تصفیہ کردیا کریں اور بات زیادہ بڑھ کر خرابی کا موجب نہ ہو۔ ہاں ان کے فیصلہ کی اپیل یہاں کے محکمہ قضاء میں ہوسکے گی۔’’
(عرفان الٰہی۔ انوارالعلوم جلد 4صفحہ403)
دارالقضاء کے ریکارڈ کے مطابق حضورؓنے اپیل پیش ہونے پر جو پہلا فیصلہ فرمایا وہ 10 جون 1919ء کا محررہ ہے اور یہ مقدمہ 12 ستمبر1918ء کو دائر ہوا تھا۔ زیرنظر کتاب میں لین دین کے باب میں یہ کیس پہلے نمبر پر درج ہے۔
اس کتاب میں درج حضورؓ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ نہ صرف اس محکمہ کے منتظمین کی مستقل راہنمائی فرماتے رہے بلکہ بہت سے تنازعات کے خود فیصلے فرماکر قاضیوں کے لیے راہنمائی کا بھی بہت بڑا ذریعہ مہیا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال قبل ہمارے پیارے امام سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص طور پر ناظم دارالقضاء ربوہ کو ارشاد فرمایا کہ
‘‘قضاء کے فیصلوں پر خلفاء کے ارشادات کی تمام فائلیں نکال کر پڑھیں۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات بہت بڑی راہنمائی ہیں۔’’
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ کے مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں وہ کتاب مرتّب ہوئی جو آج ہمارے پیش نظر ہے۔
اس نہایت اہم کتاب کا آغاز دارالقضاء کے تعارف، اس کے قیام کے بعد ترقی کی مختلف منازل اور دیگر متفرق معلومات سے ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اس ضخیم کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں عائلی تنازعات (خلع، طلاق اور حق مہر وغیرہ) کے 68 کیسز سے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشادات پیش کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں لین دین کے 68 کیسز، تیسرے باب میں ترکہ یا وراثت کے 11 کیسز اور چوتھے باب میں 47 کیسز کے بارے میں حضورؓ کے متفرق ارشادات کو یکجا کرکے مدوّن کیا گیا ہے۔ جبکہ کتاب کے پانچویں اور آخری باب میں قضائی امور اور قواعد کی بابت نیز قاضیوں کی ذمہ داریوں کے بارے میںحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی 43 نہایت اہم ہدایات پیش کی گئی ہیں۔
کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات نہایت شان سے ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نہایت ذہین و فہیم تھے اور نہایت پیچیدہ معاملات کی اُلجھی ہوئی گتھیوں کو اس احسن انداز میں سلجھاکر بیان فرماتے تھے کہ محض قانونی موشگافیوں اور بحث و تمحیص سے اُس نتیجہ پر پہنچا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ آپ کے فیصلے پُرشوکت اور عدل و انصاف کی عظیم بلندیوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ آپؓ کے ‘دل کا حلیم’ ہونے کا بھی ثبوت ہیں کیونکہ اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر لوگوں کے ذاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے آپؓ نہایت عرقریزی سے مِسل کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس امر کا اظہار بارہا فرمایا کہ ‘‘مَیں نے مِسل کو بار بار پڑھا…’’۔ اور کئی فیصلوں میں ‘دل کا حلیم’ ہونا اتنا واضح ہے کہ گویا باپ کی سی شفقت نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک تنازعہ میں حضورؓ نے اپیل پر فیصلہ فرماتے ہوئے قضا کے منتظمین کے لیے ایک روشن مثال قائم فرمادی بلکہ رہنمائی کرتے ہوئے اصولی فیصلہ بھی فرمادیا۔ چنانچہ زیرنظر کتاب کے صفحہ 573 پر درج ارشاد نمبر 19 کے تحت درج ہے کہ قضا نے ایک مقدمہ میں مدعاعلیہ کے خلاف کچھ روپوں کی ڈگری دی ہے جس کے متعلق مدعاعلیہ کا بیان ہے کہ اس وقت اس کی مالی حالت سخت خراب ہے۔ کام ملنے اور آمدنی ہونے پر وہ قسط وار ادا کردے گا۔ جب یہ معاملہ حضورؓ کی خدمت میں بغرض راہنمائی پیش ہوا تو حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘قضا کو چاہیے کہ ایسے قرض ادا کرنے کا طریق بھی لکھا کریں۔’’
اسی طرح ایک دوسرے تنازعہ کا فیصلہ تحریر کرتے ہوئے حضورؓ کی قلبی کیفیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں: ‘‘اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب ان کے پاس روپے ہیں ہی نہیں بلکہ وہ مقروض ہیں تو روپے کس طرح ادا کریں۔ میرے نزدیک گو یہ قرض انہوں نے بے جا غضب کی بِنا پر چڑھایا ہے مگر ان کی موجودہ مالی حالت فی الواقع نازک ہے۔ …… اس لیے مَیں سفارش کرتا ہوں کہ صدرانجمن احمدیہ اُن کے اس قرض کو پورا کرکے حسب سہولت اُن سے واپس لے لے۔ لیکن اگر اس کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو چونکہ یہ قرض فوراً واجب الادا ہے ان کے مکان کو گروی یا فروخت کرکے اس قرضہ کی ادائیگی کی جائے۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کا بہت نقصان ہوگا اس لیے مَیں پھر ایک دفعہ انجمن کے پاس ان کی اعانت کی سفارش کرتا ہوں۔’’
(‘‘حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے قضائی فیصلے و ارشادات’’صفحہ 11)
حضورؓ کی خواہش تھی کہ دارالقضاء کے ذریعے مفت انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنایا جائے لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ قاضی صاحبان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور تنازعہ کی گہرائی میں جاکرخوب سوچ سمجھ کر فریقین کی مدد کے خیال سے کارروائی کو آگے بڑھائیں۔ چنانچہ قضا میں پیش ہونے والے وکلاء کے حوالہ سے جب یہ امر سامنے آیا کہ بعض وکلاء (جو رقم کے عوض قضا میں فریقین کی طرف سے پیش ہوتے ہیں)وہ سادہ واقعات کو بھی اپنے زورِ تقریر و تحریر سے توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں، اُن وکلاء کو قضا میں پیش ہونے کی اجازت دینے کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ‘‘آجکل لوگ ایسے ناواقف ہیں اور قاضی اپنے آپ کو انگریزی عدالت کے قاضی سمجھتے ہیں اس کی وجہ سے وکلاء کے بغیر چارہ نہیں۔ اگر دلیری سے بغیر اعتراض کے ڈر سے ہر فریق کو سمجھاتے جائیں اور اسی طرح جاہل فریق کو نقصان سے بچائیں تو وکلاء کی ضرورت پیش نہ آئے۔’’
(ایضاً صفحہ 569)
اسی طرح ایک بار یہ امر حضورؓ کے سامنے آیا کہ ایک کاغذ جاری کیا گیا تھا جو ایک آنہ میں فروخت ہوتا تھا۔ چنانچہ ادارہ دارالقضاء کے حوالے سے ایک اصول وضع کرتے ہوئے حضورؓ نے ارشاد فرمایا: ‘‘تنازعات کا فیصلہ کرنا تو ہمارا فرض ہے۔ اس کے لیے کسی رقم کے لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی …… سب قاضیوں کو ہدایت کردیں کہ کوئی رقم خواہ کوئی خوشی سےبھی دے، تنازعات کے فیصلہ کے لیے نہ لیا کریں۔’’
(ایضاً صفحہ 560)
پس عدل و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن و سنّت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں جو راہنما اصول وضع فرمائے وہ بلاشبہ دنیا کو ایک بہترین عدالتی نظام مہیا کرنے کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ادارہ دارالقضاء کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لیے حضورؓ نے تمام قاضیوں کو یہ ہدایت بھی خاص طور پر فرمائی کہ ‘‘وہ جھوٹی شہادتوں کی خاص طور پر نگرانی رکھیں اور جو مختار یا وکیل، فریق متعلق کو جھوٹ کی تحریک کرنے والے ہوں ان کے متعلق تعزیری کارروائی کرنے کے لیے میرے پاس رپورٹ کرتے رہا کریں۔’’ (ایضاً صفحہ 570)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں پہلی دفعہ 1938ء میں دارالقضاء کے باقاعدہ قواعد مرتب ہوئے۔ اور حضورؓ نے مجلس مشاورت منعقدہ 1944ء میں ایک تجویز کی منظوری عطا فرماتے ہوئے قاضیوں کا باقاعدہ نصاب تیار کرنے کے لیے کمیٹی مقرر فرمائی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ قاعدہ بھی بنادیا کہ انتظامی ادارے قضا میں دخل نہیں دے سکیں گے اور قضا کا بھی کوئی کام نہیں کہ انتظامی اداروں کے کام میں مداخلت کرے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قضا کو بھی اس امر کا پابند کردیا کہ وہ بھی انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ چنانچہ پہلے قضا کے قواعد صدرانجمن احمدیہ کے قواعد میں شامل تھے لیکن پھر قضا کے قواعد انجمن کے قواعد سے الگ کردیے گئے۔
اسلامی تاریخ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ایک ایمان افروز واقعہ یوں محفوظ ہے کہ آپؓ کے ساتھ جب ایک شخص نے گھوڑے کی خرید پر اختلاف کیا تو اس وقت بھی اس شخص کے کہنے پر آپ قاضی شریح (ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی بار قاضی کے عہدہ پر فائز کیا) کے پاس فیصلہ کے لیے تشریف لے گئے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی عدل و انصاف کا عظیم الشان نمونہ قائم کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں یعنی بطور حضرت مرزا بشیرا لدین محمود احمد صاحب بذریعہ مختار مکرم مولانا ابوالمنیرنور الحق صاحب، قضا میں دعویٰ دائر کیا۔ اس دعویٰ میں ایک معاملہ تو عام احمدی کے خلاف اس کی ذاتی حیثیت میں تھا۔ اس میں تو باقاعدہ فیصلہ ہوا۔ تاہم دوسرا ذاتی لین دین کے حوالہ سے ایک جماعتی ادارے کے خلاف فہمیدحساب کا تھا۔ وہ ادارہ جو براہ ِراست حضور کا اپناقائم کردہ تھا۔ اگر حضورؓ چاہتے تو اس کو حکم بھی کرسکتے تھے اور خلیفہ وقت کا حکم ہر احمدی کے لیے واجب الاطاعت ہوتا ہے تاہم چونکہ ذاتی لین دین میں حساب فہمی کا معاملہ تھا اس لیے حضورؓ نے پسند نہ فرمایا کہ بطور خلیفہ ان کو حکم جاری کریں۔ بلکہ باقاعدہ قضاء میں حساب فہمی کی درخواست دی۔ زیرنظر کتاب ‘‘حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے و ارشادات’’ میں درج حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک فرمان (محررہ یکم اکتوبر1918ء) نظام عدل کا ایک سنہری اصول قرار پاتا ہے۔ حضورؓنے ارشاد فرمایا:
‘‘قاضیوں کا کام فیصلہ کرنا اور قاضی القضاۃ کا اپیل سننا ہے۔ ان کے تمام فیصلوں کی اپیل خلیفۂ وقت کے پاس ہوسکے گی۔ سوائے ان فیصلوں کے کہ جن میں خود خلیفہ ایک یادوسرا فریق ہو۔ ایسے وقت میں قاضی القضاۃ کا فیصلہ آخری اور قطعی ہوگا۔’’
(اخبارالحکم 7جنوری1919ء صفحہ نمبر5)
اسی طرح اس کتاب میں زمین کے ترکہ کی تقسیم کے ایک کیس میں حضورؓ کے پاس اپیل کیے جانے پر حضورؓ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ ‘‘مَیں چونکہ صدر ہی نہیں بلکہ حصہ دار بھی ہوں اس لیے اپیل مَیں خود نہیں سنوں گا اس لیے آخری اپیل کے لیے اَور بڑی عدالت مقرر کردی جائے گی’’۔
(‘‘حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکے قضائی فیصلے و ارشادات’’ ارشاد نمبر 40 صفحہ 589)
پس سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاں عدل و انصاف کی فراہمی کے ساتھ تربیت و اصلاح کا طریق کار بھی ہمہ وقت جاری نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک موقع پر یہ شکایت آئی کہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر قسم کھانے کو کہا گیا ہے۔ اس پر حضورؓ نے ارشاد فرمایا: ‘‘قرآن مجید کو ہاتھ میں دے کر قسم دینا، یہ تو ایک ایسی رسم ہے جو جاہل مسلمانوں میں مروّج ہے۔ تعجب ہے کہ پڑھے لکھے احمدی لوگوں میں بھی اس کا رواج پایا جاتا ہے۔’’
(ایضاً صفحہ571)
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قضائی نظام کے استحکام کے لیے سینکڑوں فیصلے فرمائے۔ آپؓ کے فیصلے پُرشوکت اور عدل و انصاف کی عظیم بلندیوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ ان فیصلہ جات میں جابجا ہمیں راہنمائی ملتی ہے کہ کس طرح انصاف کے فروغ کے لیے کارروائی کی جانی چاہیے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حق خواہ امیر کا ہو یا غریب کا، حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ امیر کا حق اس لیے دبا دیا جائے کہ لوگ اعتراض کریں گے کہ امیر ہے اس لیے اس کے حق میں فیصلہ کردیا۔ قضا کو صرف انصاف کو سامنے رکھنا چاہیے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ عائلی معاملات خاندانوں میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اس لیے ان کے جلد حل کی طرف حضورؓ نے بارہا توجہ دلائی اور ان کے فیصلے کے لیے قضا کا ایک مرحلہ بھی کم کردیا۔ حضورؓ کو معاشرے کے کمزور طبقوں کا اس قدر احساس تھا کہ ایک بیوہ کی طرف سے تاخیر کیے جانے کی شکایت موصول ہونے پر فرمایا کہ جلد مسئلہ حل کیا جائے۔ بیواؤں اور یتیموں کو دکھ دینا لعنتی کام ہے۔
الغرض دارالقضاء کے محکمہ سے تعلق رکھنے والے تمام منتظمین اور قاضیوں کے لیے یہ نہایت قیمتی کتاب ہے جس میں درج ہدایات کی روشنی میں عدل اور احسان کے باہم ملاپ سے ایسے راہنما اصول وضع کیے جاسکتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ فیصلے جنم لیں جو فریقین کو نہ صرف مطمئن کردیں بلکہ اُن (فریقین) میں ایثار اور شفقت علیٰ خلق اللہ کو بھی پروان چڑھائیں۔ حضورؓ کی شفقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک فریق کی شکایت پر حضورؓ نے انتظامیہ سے ارشاد فرمایا:
‘‘ایک فریقِ مقدمہ کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے انہیں مقدمہ کی جوابدہی کے لیے بلوایا لیکن قاضی سماعت کنندہ یہاں موجود نہیں۔ اس سے ان کا روپیہ اور وقت کا حرج ہوا۔ اس لیے مَیں فیصلہ کرتا ہوں کہ انہیں پورا سفر خرچ دے کر میرے پاس رپورٹ کی جائے …… اور آئندہ کے لیے فیصلہ کیا جائے کہ جب کوئی فریق کسی دن قادیان بلایا جائے اور دوسرا فریق حاضر نہ ہو تو دوسرے فریق سے باہر سے آنے والے فریق کو خرچہ دلایا جائے اور اگر قاضی موجود نہ ہو تو قضا باہر سے آنے والوں کا خرچہ ادا کرے۔’’
(ایضاً صفحہ 567-568)
اس کتاب کی دیگر خصوصیات کے علاوہ قاری کی سہولت کی غرض سے اشاریہ انڈیکس اور 136 صفحات پر مشتمل تفصیلی انڈیکس بھی تیار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس گرانقدر کتاب کی تدوین اور پیشکش نہایت درجہ کی احتیاط اور غیرمعمولی عرقریزی کی محتاج تھی جو یقینی طور پر ملحوظ رکھی گئی ہے۔ پس اس کتاب کو تمام مراحل سے گزار کر طبع کروانے والے ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرعظیم سے نوازے۔
اللہ تعالیٰ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ روح پر بے شمار انوار و برکات نازل فرمائے کہ ادارہ دارالقضاء کا قیام اور اس کا استحکام آپؓ کا ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو آپؓ کے ذہین و فہیم ہونے کے علاوہ آپؓ کی شفقت علی ٰخلق اللہ کا بھی آئینہ دار ہے۔