نئے مرکز احمدیت اسلام آباد میں ‘‘مسجد مبارک ’’ کا نہایت بابرکت افتتاح
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں
سجدۂ شکر کی بجا آوری اورمسجد مبارک میں پہلا خطبہ جمعہ
(مرکزِ احمدیت اسلام آباد ٹلفورڈ، 17؍ مئی 2019ء، جمعۃ المبارک۔ نمائندگان الفضل انٹرنیشنل)اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ جماعت احمدیہ عالمگیر روز افزوں ترقیات کی منازل طے کر رہی ہے۔ آج کا دن تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ 15؍اپریل 2019ء کو امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزباقاعدہ طور پر نئے مرکز احمدیت اسلام آباد، ٹلفورڈ، Surrey منتقل ہو گئے تھے۔ اور اُس دن سے ہی مسجدمبارک میں نمازوں اور دوسرے پروگراموں کا اہتمام ہو رہا ہے۔ لیکن مسجد کے باقاعدہ افتتاح کا دن آج جمعۃ المبارک 11؍رمضان 1440ھ بمطابق17ہجرت1398ہجری شمسی قرارپایا۔یاد رہے کہ خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں پہلی مرتبہ رمضان کے بابرکت مہینے میں کسی مسجد کا افتتاح ہوا ہے۔فالحمد للہ علیٰ ذالک۔؎ یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اس مسجد کا نام قادیان میں قائم مسجد مبارک کی نسبت سے ‘مسجد مبارک’ رکھا گیا ہے جس کی نسبت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے
‘‘مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔’’(تذکرہ صفحہ 83 ایڈیشن چہارم)
حضورعلیہ السلام نے اُس وقت مسجد مبارک قادیان کو تعمیر کروایا جب متعدد آسمانی مصلحتوں کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھاری بشارتوں کے ساتھ ایک مسجد کے قیام کی تحریک ہوئی۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 218)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نئے مرکز احمدیت کی‘‘مسجد مبارک ’’بھی آسمانی مصلحتوں اور خدائی افضال کی عکاسی کرتی ہےجس کا ذکر حضورِ انور نے آج کے خطبہ جمعہ میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
چند روز قبل حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ حضور یہ جمعہ مسجد مبارک میں پڑھائیں گے۔ چنانچہ امیر صاحب یو کے نے حضورِ انور کی ہدایات کے مطابق مخصوص افرادِ جماعت کو اس مبارک موقع پر شامل ہونے کی دعوت دی۔ آج صبح ہی سے اس بابرکت جمعہ میں شمولیت کے لیے برطانیہ بھر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا ایک مرتبہ پھر یہاں چھوٹے پیمانے پر جلسہ سالانہ کا انتظام ہور ہا ہے۔
مسجد مبارک
مسجد مبارک کے جنوبی، شمالی اور مغربی جانب کل 3 داخلی دروازے ہیں۔ مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی مغربی جانب موجود دروازے کے جنوبی جانب بیرونی دیوار پر نصب ہے۔ تمام دروازوں کے دائیں جانب خوبصورت لکھائی میں بزبانِ اردو ‘‘مسجد مبارک’’ جبکہ بائیں جانب بزبانِ انگریزی Mubarak Mosque ککھا گیا ہے۔ نیز سب دروازوں کے اوپر کلمہ طیبہ ‘‘لا الٰہ اِلَّااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ’’ بھی خوبصورت خط میں آویزاں کیا گیا ہے۔ تمام داخلی دروازے بیرونی اور اندرونی دو دروازوں پر مشتمل ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے درمیان جوتوں کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے۔اندرونی دروازوں کے اوپر مسجد میں داخل ہونےکی مسنون دعا تحریر ہے۔
مسجد کے اندر اللہ تعالیٰ کے ایک سو ایک اسماء نہایت خوبصورت انداز میں خطاطی کر کے لگائے گئے ہیں۔ ان کا ذکر حضورِ انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا۔ خدائے بزرگ و برتر کے ذاتی نام ‘‘اللہ’’ کی شیلڈ محراب کے اندر اونچی جگہ پر لگائی گئی ہے۔ محراب کی بیرونی دیوار پر شمالی اور جنوبی جانب ‘‘لا رادّ لِفضلہ’’ اور اوپر لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے دروازوں کے اندر کی جانب مسجد سے باہر جانے کی مسنون دعا تحریر کی گئی ہے۔
یادگاری تختی کی نقاب کشائی
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک بجکر چار منٹ پر اپنی رہائش گاہ سے جلوہ افروز ہوئے۔ اور ایک عجیب شان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد کی یادگاری تختی کے پاس تشریف لے گئے۔ حضورِ انور کے چہرے پر مسحور کن نورانیت اور ربودگی کی کیفیت محسوس کی جا سکتی تھی۔ ٹھیک ایک بج کر پانچ منٹ پر حضورِ انور نے تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔ عمومًا نقاب کشائی کے بعد حضور دعا کرواتے ہیں لیکن آج پیارے حضور مسجد تشریف لے گئے۔
سجدۂ شکر
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے شمالی جانب واقع دروازے سے ایک بجکر پانچ منٹ پر مسجد میں رونق افروز ہوئے اور سب کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیااور منبر پر تشریف لے آئے۔ حضورِ انور نےفرمایا کہ مسجد کے باہر افتتاح کی پلیٹ کا پردہ ہٹا کر میں نے مسجد کا افتتاح کر دیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےربوہ کی مسجد مبارک کے افتتاح کے وقت فرمایا تھا کہ افتتاح سے پہلے دو نفل کا انتظام ہونا چاہیے ۔ لیکن اس وقت انتظام نہیں ہو سکتا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم سجدۂ شکر کریں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ عموماً روایت یہ ہے کہ جب میں افتتاح کی پلیٹ کا پردہ ہٹاتا ہوں تو دعا کرتے ہیں۔آج اُسی طریق پر عمل کرتے ہوئے بجائے دعا کے ابھی میں سجدۂ شکر کروں گا۔ آپ میرے ساتھ شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹا سا مرکز ہمیں عطا فرمایا ، یہ مسجد عطا فرمائی ۔ اور اس کے بعد باقاعدہ خطبہ شروع ہو گا۔سجدہ شکر کر لیں۔
اس کے بعد ایک بجکر سات منٹ پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تکبیر یعنی ‘اللہ اکبر’ کہہ کر سجدۂ شکر ادا کیا۔ تمام حاضرین نےاسلام آباد میں جبکہ دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے کروڑوں احمدیوں نے ایم ٹی اے کے توسط سے حضورِ انور کی اقتدا میں سجدۂ شکرادا کیا۔ ایک بجکر نو منٹ پر حضورِ انور نے ایک بار پھر تکبیر کے ساتھ سجدے سے اٹھے اور حاضرین نے بھی اپنا سجدہ مکمل کیا۔
آج کا یہ واقعہ روز روشن کی طرح ظاہر کرتا ہے کہ اصل اور حقیقی مومن ‘‘اللہ اکبر ’’ کی صدا بلند کرنے پر خدا تعالیٰ کے شکر اور حمد و ثنا کے جذبات سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی خوبصورت تکبیر نام نہاد مسلمانوں کےاسلام کے نام پر فتنہ و فساد اور قتل و غارت کی وجہ سے بدنام ہو چکی ہے۔
خوشی سے بھرپوراس پُر سرور موقع پر خدا تعالیٰ کے حضور بجا لانے والے سجدہ کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اور جیساکہ ذکر کیا جا چکا ہے یہ تمام کارروائی ایم ٹی اے کے توسّط سے دنیا بھر میں براہِ راست نشر ہو رہی تھی۔
سجدۂ شکر کے بعد حضورِ انور نے اذان کا ارشاد فرمایا۔
خلاصہ خطبہ جمعہ
اس کے بعد مکرم فیروز عالم صاحب انچارج بنگلہ ڈیسک نے مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ میں ادا کیے جانے والے پہلے جمعہ کی اذان دینے کی سعادت پائی۔ موصوف کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں بھی پہلے جمعہ کی اذان دینے کی سعادت حاصل ہے۔ ایک بجکر 13 منٹ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ کا آغاز فرمایا۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ،سورۃ فاتحہ اورسورۃ الاعراف کی آیات 30تا 32کی تلاوت کے بعد ان کا ترجمہ بیان فرمایا۔ اس کے بعد حضورِانور نے فرمایا: الحمدللہ آج اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام آباد کی اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمارہاہے۔مسجد فضل کے ساتھ دفاتر وغیرہ میں اب کافی تنگی محسوس کی جانے لگی تھی۔اب اسلام آباد کے تعمیراتی منصوبے کی تکمیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیادہ بہتر اور کھلی گنجائش ہمیں میسر آگئی ہے۔خلیفۂ وقت کی رہائش کے ساتھ مسجد کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ لوگ آرام سے خلیفہ وقت کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی کرسکیں۔اسی طرح خلیفہ وقت دوسرے کام درس وتدریس کےسہولت سے کرسکے۔گوآج رسمی طور پر ہم اس مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں لیکن عملاً میرے یہاں منتقل ہوتے ہی نمازوں اور دوسرے پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ مسجد، مسجد فضل سے چارگنا زیادہ گنجائش رکھتی ہے لیکن وفودکی آمد سے اندازہ ہوا ہے کہ یہ مسجد بھی چھوٹی پڑتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک قبلہ رُخ ملٹی پرپس ہال (multi purpose hall)بنایا گیا ہے۔اس میں گنجائش ہے جہاں زائد لوگ نماز پڑھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ دس پندرہ سال میں مساجد کی تعمیر میں جماعتوں کو خاص توجہ پیداہوئی ہے؛لیکن یہ مسجد جس کا نام میں نے ‘مسجد مبارک’ رکھا ہے، یہ اس اعتبار سے مرکزی مسجد ہے کہ خلیفۃ المسیح کی رہائش بھی یہیں ہے۔ یہاں خدمت کرنے والوں میں سے انتیس ،تیس افراد کے لیےمناسب گھر اور ضروری دفاتر موجود ہیں جن سے مجھے عموماً زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجداس لحاظ سے مسجدمبارک کی مثیل بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی،ہر لحاظ سے مبارک ہو۔
حضورِ انور نے اس مسجد کے نام رکھنے کی تجویز کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے الہام مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کئی نام ذہن میں آرہے تھے ، مشورے بھی ہورہے تھے کہ یہ الہام ایک دم میرے سامنے آگیا جس کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔ اس الہام کا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے یہ ترجمہ فرمایاہے کہ یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہرایک امر مبارک اس میں کیا جائےگا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اسلام کے پھیلنے اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے جو حضرت مسیح موعودؑ کوخواہش اور تڑپ تھی، اور جو آپؑ نے مسجد مبارک قادیان میں دعائیں کیں، وہ اس مسجد کو بھی پہنچتی چلی جائیں۔ یہ مسجد اور یہ مرکز ہمیشہ انگلستان،یورپ اور دنیا کے تمام ممالک تک توحید کے پھیلانے اوراسلام کا پیغام پہنچانے والے بنے رہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک ربوہ کوقادیان کی مسجدمبارک کا قائم مقام اور اس کا ظل اور مثیل قرار دیا تھا، وہاں لمبا عرصہ خلافت رہی اور ابھی بھی مرکزی دفاتر وہاں ہیں ۔لیکن گذشتہ 35برس سے یہاں بھی نئے دفاتر، عمارتوں اور مساجد کی ضرورت تھی۔ملکی قوانین کی وجہ سے خلافتِ احمدیہ کو ربوہ سے ہجرت کرنی پڑی تو اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے کھولے۔دشمن نے اپنے زعم میں جن فضلوں اور برکتوں کو ہم سے چھیننا چاہا اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھ کر اِس مسجد اور اس مرکز سے ترقیات کے نظارے دکھائے۔ حضورِ انور نے بعض پاکستانی سیاست دانوں کے جہالت پر مبنی بیانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعتِ احمدیہ کی ترقی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہے۔نہ دنیا کی کوئی حکومت اس کی ترقی روک سکتی ہےاور نہ جماعتِ احمدیہ کسی حکومت کی مدد کی محتاج ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس نئی بستی اور قرب و جوار میں آباد ہونے والے احمدیوں کو چاہیے کہ اپنی حالتوں کوایسا بنائیں کہ اس علاقے میں احمدیت اوراسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کو نظر آئے۔بے شک اسلام آباد میں ایک عرصے سے ہمارے واقفینِ زندگی اور کارکنان رہتے رہے ہیں ،اور یہاں رہنے والے لوگ احمدیوں سے متعارف ہیں۔2004ء تک ہونے والے جلسوں کی وجہ سےبھی اس علاقے میں احمدیت کا تعارف ہے۔لیکن اب ایک نئی صورت یہاں کی آبادی کو ملی ہے اوریہاں کے لوگوں کو احساس ہونا شروع ہوگیا ہے اور وہ اس بات کا اظہار بھی کرتےہیں کہ جب سے جماعت کے خلیفہ یہاں منتقل ہوئے ہیں افرادِ جماعت کا اچانک یہاں رخ ہوا ہے۔ پس ہمیں اِس وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اپنے نمونے دکھانا ہوں گے۔ اگرہمارے شور یا ٹریفک کی بےقاعدگی سے ہمسائے تکلیف محسوس کریں تواللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی باتیں صرف ہمارے منہ کی باتیں ہوں گی۔ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مسجدوں کے حوالے سے یہی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو اپنے ایمان اور دین کو اُس کے لیے خالص کرو۔ مسجدوں کا جو مقصدہے اُسے پورا کرنا ہوگا تب ہی اللہ تعالیٰ کے انعام ملیں گے۔ دن میں جب پانچ مرتبہ یہ کوشش ہوگی تو تب ہی ہم اللہ کےلیےدین کو خالص کرنے والے ہوں گے۔
پس روح کی صفائی کا انتظام بھی ضروری ہے۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے دین کو خالص نہیں کرتےوہ گمراہی کے گڑھے میں جاپڑتے ہیں۔علمائے سوء جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادے کا انکار کیا ،انہوں نے شیطان کو اپنا دوست بنایا۔ وہ اپنے زعم میں یہی خیال کرتے ہیں کہ اُن سے زیادہ اسلام پرعمل کرنےوالا کوئی نہیں۔ حکومتیں تک اُن سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ آج کل کراچی پاکستان میں ہماری پچاس ساٹھ سال پرانی مساجد کے منارے گرانے کےلیے زورڈالا جارہا ہے۔افرادِ جماعت پر ظلم وتعدّی اور حضرت مسیح موعودؑ کےخلاف دشنام دہی میں یہ لوگ حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں پر گمراہی لازم ہوچکی ہے۔جولوگ ان نام نہاد علما کے پیچھے ہیں اِن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں مساجد بظاہر آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔انہی میں سے فتنے اٹھیں گے اور وہیں لوٹ جائیں گے اور یہ لوگ اسلام کو بدنام کرنے والی بدترین مخلوق ہوں گے۔
پس ایسے میں ہماری زیادہ ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کو خالص کریں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہےکہ اس نے رمضان کے دنوں میں ہمیں یہ مرکزعطافرمایا۔
حضورِانور نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو جس میں افطار کے وقت لوگ ہاتھاپائی اورگالم گلوچ کر رہے تھے؛کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ تزکیہ نفس ہے جو روزوں سے ان کو ہورہا ہے؟ ان باتوں سے آنے والے امام کو ماننے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں ہمیں متوجہ کرتی ہیں کہ ہم اپنےجائزے لیں۔ اپنی اصلاح کریں۔
حضورِ انور نے سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات کی روشنی میں دین کو خالص کرنےکی وضاحت فرمائی۔ اخلاص سے خداتعالیٰ کو یاد کرنا چاہیےاور اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہیے۔ اصولِ عبادت کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ خداکو دیکھ رہا ہےیایہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ اِس زمانے میں خدا کے ساتھ صدق، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکّل کالعدم ہوگئے ہیں جبکہ ریاکاری،خودبینی،نخوت،رعونت جیسے اخلاقِ رزیلہ ترقی کرگئے ہیں۔صفاتِ حسنہ آسمان پر اٹھ گئے ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے ذریعےاُسی کی تخم ریزی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔اب اس تخم ریزی سے پیدا ہونے والے پودوں اور درختوں کی شاخیں ہم نے بننا ہے۔ ہم یہ اُس وقت کرسکتے ہیں جب اپنی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں۔ اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔
قرآن شریف سے علم ہوتا ہے کہ انسان کی طبعی حالتوں کا اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے شدید تعلق ہے۔اسی واسطے قرآن شریف نے جسمانی طہارت اور ظاہری پاکیزگی کو ضروری آداب میں شمار کیا ہے۔ جسمانی اعضا کا روح پر بہت قوی اثر ہے۔ مثلاًہماری آنکھیں اگرتکلّف سے ہی رونا شروع کریں تو فی الفور آنسوؤں کا ایک شعلہ دل پر پڑتا ہے ۔ اسی طرح سجدے سےخشوع و خضوع کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔
ظاہری خوراک کا بھی روحانیت پر اثر پڑتاہےاسی لیے خداتعالیٰ نے فرمایاکہ کھاؤپیولیکن کیفیت یا کمیت میں زیادت نہ کرو۔اس سے بھی توازن خراب ہوتاہے اور اس کا اثر روحانی حالتوں پر بھی پڑتا ہے۔
حضورِانور نے نئے مرکز پر شکرگزاری کا حق ادا کرنےکے حوالے سےفرمایا کہ ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے زاویے اپنے قول و فعل سے ،اپنے عمل سے دکھانےکی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان اصولوں کو مدّنظر رکھ کر زندگیاں گزاریں تو یہی تبلیغ کابہت بڑا ذریعہ بن جائے گا۔ بعض لوگ ہمسایوں اور باہر ملنے والوں کے ساتھ تو بہت اچھے اخلاق دکھاتے ہیں لیکن گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ اُن کے رویے ٹھیک نہیں ہوتے۔ گھروں کی یہ بےسکونی بچوں پر اثرانداز ہوتی ہےاور یہ بچےمستقبل میں جماعت کا بہترین حصّہ بننے کی بجائےجماعت سے دور جانے والے بن جاتے ہیں۔پس یہ ان کا انفرادی فعل نہیں۔خداتعالیٰ کےوجودکودکھانےکےلیےضروری ہے کہ ہمارے قول وفعل ایسے ہوں جو دوسروں کو متاثرکریں۔ توحید سے خالی اور شرک سے بھرےہوئےدنیا کے اس خطّے میں نئے مرکز کے ذریعے خداتعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ نئے عزم کے ساتھ دنیامیں توحید کے پھیلانے کا کام کریں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ احمدیت کی ترقی اور نئے مرکز کے مقصد کو پوراکرنے کے لیے بہت دعاکریں۔ ربوہ جانےکے راستےکھلیں،قادیان جو مسیح کی تخت گاہ ہے،وہاں واپسی کے راستےکھلیں۔ مکّہ اور مدینہ جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ کی بستیاں اور اسلام کے دائمی مرکز ہیں وہاں کے راستے بھی ہمارے لیے کھلیں۔
مسجد اورتمام تعمیراتی منصوبے کے بارےمیں بعض اعداد وشمار،سہولیات اور خدمت کی توفیق پانے والے احباب کا تذکرہ کرتے ہوئےحضورِ انور نے فرمایاکہ اِس مسجد کا ڈیزائن ایسا ہے کہ اس پر تعمیر سستی ہے اور یہ ایسا ڈیزائن ہے کہ جس سےبجلی اور انرجی کی بچت ہوتی ہے۔مسجد میں نمازیوں کی گنجائش کا ایریا تقریباً 314مربع میٹر ہے یعنی 500 کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہال میں ایک جگہ 1200؍اور دوسری جگہ 110کے قریب افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔پھر ہال کے سامنے چھتا ہوا حصہ ہے جہاں 300؍ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔یوں تقریباً دوہزار کے قریب افراد کی گنجائش ہوگئی ہے۔ یہاں دفاتر کےلیے تین بلاکس (blocks)ہیں لیکن پانچ دفاتر بن گئے ہیں۔ ایم ٹی اے کے لیے بھی جگہ موجودہ زمانے کی تمام سہولیات میسر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ باوجود بہت بڑا منصوبہ ہونے کے یہ پہلا منصوبہ ہے کہ جو بغیرکسی علیحدہ تحریک کے تکمیل کو پہنچا۔جبکہ اس دوران قادیان، مالی، تنزانیہ وغیرہ ممالک میں بڑے بڑے منصوبے چل رہے تھے تو مجھے فکر تھی کہ کچھ دیر کےلیےکہیں کوئی منصوبہ روکنا نہ پڑے ۔
حضورِ انور نے کیلی گرافی کے ذریعے اسمائے باری تعالیٰ سے مسجد کےمزیّن کیے جانے کےحوالےسے فرمایا کہ ہماری مساجد میں اتنی کیلی گرافی نہیں کی جاتی۔ لیکن چونکہ اس مسجد کا ڈیزائن کچھ ایسا تھا اس لیے میں نے اِن کو کہا کہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں حضورِ انور نے رضوان بیگ صاحب،عامر سفیر صاحب، باسل بٹ صاحب،موسیٰ ستّار صاحب نیز مصور دین صاحب کی محنت کا تذکرہ فرمایا۔ تعمیری منصوبے کی مرکزی کمیٹی،اور ایم ٹی اے کی ٹیم ،والنٹیئرزجو یہاں آکر محنت سے کام کرتے رہے،سب کا حضورِ انور نے پُر خلوص محبت کے ساتھ ذکر فرمایا۔
آخرمیں حضورِ انور نے تنزانیہ میں کثیرالمنزلہ عمارت اور مالی میں تعمیر ہونے والی بڑی مسجد کے حوالے سے فرمایا کہ وہاں لوگ یہ باتیں کرنے لگے ہیں کہ یہ کوئی بہت بڑی امیر جماعت ہے۔ دنیاوی لحاظ سے تو ہم امیر نہیں لیکن ہماری امارت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہے۔اُس نے ہمیں امیر بنایا ہے۔
گذشتہ دنوں وقفِ عارضی پر امریکہ سے ایک ڈاکٹر مالی گئے ۔ایئرپورٹ سے انہوں نے بڑی خوبصورت مسجد دیکھی تو ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ اتنی خوبصورت بڑی مسجد کس کی ہے؟ڈرائیور نے بتایا کہ یہ احمدیوں کی مسجد ہے اور یہیں تو آپ جارہے ہیں۔ غرض ہر دیکھنے والا اس کی تعریف کرتا ہے۔ بہت بڑا منصوبہ تھا جو اللہ کے فضل سے مکمل ہوا۔ اس کی پلاننگ احمدیہ آرکیٹیکٹ انجینئرز ایسو سی ایشن نے کی تھی۔ اللہ ان کو بھی جزا عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی فضل فرماتا رہے اور جو منصوبے چل رہے ہیں وہ بھی تکمیل کو پہنچیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر جماعت کوجو مالی قربانی کی توفیق دی ہے اسی قربانی سے یہ تمام منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں اور آئندہ بھی پہنچیں گے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ تمام افرادِ جماعت کی مالی استطاعت کوبھی بڑھاتا چلاجائے۔ اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ کیونکہ یہ منصوبے کسی خاص تحریک کے بغیر ہیں اس لیے تمام دنیا کی جماعتیں اس میں شامل ہیں اور کوئی تخصیص نہیں کہ کس نے زیادہ دیا اور کس نے کم۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دےان کےاموال و نفوس میں برکت عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین
………………………………
تأثرات
اس بابرکت موقع پر حضورِ انور کی اقتدا میں جن افراد کو یہ جمعہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی وہ آئندہ اس سعادت پر خدا تعالیٰ کی شفقتوں اور عنایات کو یاد کرتے ہوئے یقیناً خدا تعالیٰ کے مشکور ہوں گے۔ اس موقعے پر چند احباب کے تأثرات درج ذیل ہیں:
جامعہ احمدیہ یوکے سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے اپنے جذبات اور تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اُس نے ہمیں یہ نیا مرکز عطا فرمایا ہے۔ خطبہ جمعہ کے دوران میں نے جو سب سے بڑی بات نوٹ کی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگ انتہائی انہماک سے خطبہ جمعہ سُن رہے تھے۔اس میں ایک عجیب کیفیت تھی جو ناقابل بیان ہے۔
جامعہ احمدیہ یوکے میں پڑھنے والے ایک طالبعلم نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ماشاء اللہ، خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے ہمیں یہ مرکز دیا ہے۔ ہمارے لیے آج یہ بہت ہی خاص موقع تھا کہ ہم نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں مسجد مبارک میں پہلا جمعہ پڑھا ہے۔یہ بہت ہی عجیب کیفیت تھی۔
خطبہ سے قبل اور خطبہ کے دوارن ایک خوشی کا ماحول تھا جو دل پر اثر کر رہا تھا۔ اور جو سجدہ ٔشکر حضورِ انور کےپیچھے ہمیں کرنے کی توفیق ملی ہے اس کا ہمارے دل پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔
اسلام آباد میں موجود ایک مرکزی دفتر میں خدمت پر مامور مربی سلسلہ نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ بہت ہی جذباتی موقع تھا۔ خاص طور پر جب ہم نے سجدۂ شکر کیا اس وقت جو شکر اور دعا کی کیفیت تھی وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ خطبہ جمعہ میں حضورِ انور نے ہمیں جو یہاں گرد و نواح میں رہائش پذیر ہیں اور جو یہاں دفتروں میں کام کر رہے ہیں اپنےاچھے نمونے اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ خطبہ کے بعد تمام حاضرین بہت خوش تھے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔
ایک مرکزی دفتر میں خدمت پر مامور سینئر مربی سلسلہ نے اپنے تأثرات کچھ یوں بیان کیے: یہ محض اللہ کا فضل اور ہم پر اس کا احسان ہے کہ اس تاریخی موقع پر ہمیں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔یہ ایک تاریخی اور تاریخ ساز موقع ہے اور نسلاً بعد نسلٍ یہ بات ہمیں یاد رہے گی۔ اللہ کرے کہ حضور کی جو توقعات ہیں جن کا حضور نے خطبہ میں ذکر کیا ہے ہم اُن پر پورا اُترنے کی توفیق پائیں۔اصل میں وہاں عجیب قسم کا سما ںتھا ۔ جب حضور یادگاری تختی کی نقاب کشائی کے بعد مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر سجدۂ شکر سے قبل کچھ فقرات فرمائے تو اُس وقت حضور کے پاک چہرے پر گویا ایک آسمانی جلوہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اور ایک اَور ہی دنیا کی شرافت اور نجابت مَیں نے حضور کے چہرے پہ محسوس کی۔ یہ نظّارہ میرے دل پر بہت گہرا اثر کر رہا تھا۔سجدۂ شکر کی کیفیت تو ناقابل بیان ہے۔
خطبہ کے دوران میں کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: حضورِ انور نے پورا خطبہ ایک خاص کیفیت میں دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور مکہ اور مدینہ کی جب حضور نے بات کی اُس وقت رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے مسکن سے حضور کی محبت صاف ظاہر تھی۔ حضورِ انور کا یہ طریق ہے کہ جب بھی جماعت کی ترقیوں کا ذکر کرتے ہیں تو فوراً ہماری ذمہ داریوں کی طرف ہماری توجہ مبذول فرماتے ہیں۔ جب بھی ایسے موقعے آتے ہیں تو حضور فوراً جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کریں۔ اپنی تربیت کریں اور ان اقدار پر خود قائم رہیں۔اور مثالیں قائم کریں۔اس خطبہ کی کیفیت captivating تھی۔
نماز کے بعد بھی اس روحانی منظر کا اثر تھا جو لوگوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، معانقہ کر رہے تھے ، اُن کی باتوں سے اور چہروں سے بھی اس کا اثر ظاہر ہو رہا تھا کہ ہم ابھی ایک عجیب دنیا سے باہر نکلے ہیں۔
نمازِ جمعہ کا اختتام دو بجکر 27منٹ پر ہوا جس کے بعد حضورِ انور مسجد کے شمالی جانب موجود دروازے سے باہر تشریف لے گئے جہاں ڈائریکٹر پروگرامنگ ایم ٹی اے، امیر صاحب یوکے، ڈائریکٹر پروڈکشن ایم ٹی اے نے حضورِ انور کی خدمت میں کچھ معاملات کی بابت ہدایات حاصل کیں۔ نیز مکرم صدر صاحب خدام الاحمدیہ یو کے نے حضورِ انور کی خدمت میں حاضری کی رپورٹ پیش کی۔
حاضری: اس مبارک موقع پر مسجد کے ہال میں 420؍ افراد، ملٹی پرپس ہال میں 560؍ افراد، اووَر فلو مارکی میں 60؍افراد، 1009 لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے جمعہ پڑھا۔ جبکہ 200 خدام ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اس طرح کل ملا کر 2249؍ افرادِ جماعت مردوزن، بچے اور بوڑھے اس مبارک تقریب کا حصہ بنے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل اس مبارک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور احباب جماعت کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ حضور کے بیان فرمودہ الہام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زیر تاثیر ‘مسجد مبارک’ جماعت احمدیہ عالمگیر اور پورے عالم اسلام کے لیےسراپا برکت کی موجب ہو۔آمین۔
٭…٭…٭