حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافتِ احمدیہ کے بابرکت قیام کا تفصیلی تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24؍مئی2019ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے42؍مئی 9102ء کو مسجدمبارک ، اسلام آباد، ٹلفورڈ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔ تشہد،تعوّذ،تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور سورۃ النور کی آیات52تا 58کی تلاوت کے بعد سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آیتِ استخلاف سے پہلے اور اس کے بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت اور حکموں پر عمل کی طرف توجہ دلائی گئی ہےجس کے نتیجے میں خلافت کا انعام دیے جانے کا وعدہ ہے۔
حضورِ انور نے اِن آیاتِ کریمہ کا ترجمہ پیش کرنے کےبعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہربات کھول کر بیان فرمادی ہے کہ جب تک تم ہر امتحان اور آزمائش میں ثابت قدم رہ کر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر شرحِ صدر کے ساتھ عمل نہیں کرو گےتمہیں کامیابی نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے تقویٰ پرقائم ہونا ضروری ہے۔ خلافت کے وعدے کے ساتھ،اِن آیات میں اطاعت کا اتنی بار حکم آیاہے گویا اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ نظامِ خلافت اللہ اوراس کے رسول کے احکامات اور نظام کا حصّہ ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے قائم کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی،اور میری اطاعت کرنے والے نےخداتعالیٰ کی اطاعت کی۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت تو عام امیر کی اطاعت سے بہت بڑھ کر ہے۔
صحابہ کی زندگیوں میں،دلی خوشی کے ساتھ کامل اطاعت کے حوالے سے حضورِ انور نے عہدِ فاروقی میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی مثال دی کہ جب اُنہیں عین جنگ کے درمیان کمان حضرت ابوعبیدہؓ کے حوالے کرنے کا ارشاد موصول ہواتو اُنہوں نے بغیرکسی شکوے کے ،دل میں کسی قسم کا خیال لائے بغیر کامل اطاعت کے ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کو چارج دیا اور ان کی ماتحتی قبول کی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ بعض صدران نے جُون میں ٹرم ختم ہونے سے پہلے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔کیا یہ اس لیے کام کر رہے تھے کہ ہم نے مستقل عہدےدار رہنا ہے۔ یہ دینی کاموں میں خیانت اور باغیانہ سوچ اورخلافت کی اطاعت کےدائرے سے باہر نکلنے والی بات ہے۔ بیعت کے بعد اپنی سوچوں کو درست سمت میں رکھنا اور کامل اطاعت کے نمونے دکھانا ،انتہائی ضروری ہے۔ امامِ زمانہ حضرت مسیح موعودؑنے اپنی بیعت میں آنے والوں کے معیار کے متعلق فرمایا کہ ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستورالعمل قرار دیتا ہے۔ جو شخص تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک ہوسکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بڑی بڑی قسمیں نہ کھاؤ کہ ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔ اگر ایسی اطاعت کرلو جو عرفِ عام میں اطاعت کہلاتی ہےتو ہم سمجھیں گے کہ تم نے حکم مان لیا۔ عام اطاعت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل ہو، اس کی عبادت سنوار کرکی جائے۔فتنے،شر،لڑائی جھگڑے سے بچ کرسچائی پر قائم رہتے ہوئے تمام نیکیاں بجالائی جائیں۔ گذشتہ 111سال سے خلافت کی طرف سے ان ہی باتوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ہم جومعروف فیصلے کی پابندی کا عہد کرتے ہیں تویہ نہ ہو کہ ہرکوئی معروف فیصلے کی خودساختہ تشریح کرنے لگے۔
حضورِ انور نے اطاعت در معروف کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوؓل کا ایک اقتباس پیش کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کےلیے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل کر رہے ہیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نےحضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد بے چین کرنے والے حالات اور خلافت کے ذریعے سکون عطا ہونے کے تناظر میں، سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے بعض باتیں پیش فرمائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آخری سالوں میں متواتر ایسے الہامات ہوئے کہ جن سے معلوم ہوتا تھا کہ آپؑ کی وفات نزدیک ہے لیکن اس کے باوجود کبھی ایک منٹ کے لیے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ آپؑ فوت ہوجائیں گے۔ حضرت صاحبؑ کی وفات کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نےا س رائے کا اظہار کیا کہ ساری جماعت کو حضرت مولوی نورالدین صاحب،خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت کرلینی چاہیے۔ بیعت کے بعد ،کیوں کہ اطاعتِ خلافت کی سچی روح نہیں تھی اور دل میں کچھ اَور تھا اس لیے اس تدبیر اورفکر میں رہتے کہ کس طرح خلافت پر انجمن کو بالا کیا جائے اور پھر سب اختیار انجمن کے ذریعے سے اپنے قبضے میں لے لیں۔ خلیفہ اولؓ کی بیعت کے پندرہ بیس روز بعد مولوی محمد علی صاحب مجھے (حضرت مصلح موعودؓکو) ملے اور کہنے لگے میاں صاحب آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہمارے سلسلےکا نظام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا کہ اب یہ بات غور کرنے کے قابل نہیں۔ ہم نے ایک شخص کی بیعت کرلی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے کہ کس طرح سلسلے کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کامل اطاعت کے اندر یہ لوگ رہنا نہیں چاہتے تھے۔ خلیفہ اوّلؓ کی بیعت بھی دل سے نہیں کی تھی بلکہ کسی مقصد کے لیے کی تھی۔ اس روحانی نظام کو بھی عام دنیاوی نظاموں کی طرح چلانا چاہتے تھے۔جس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا کہ اب یہ لوگ نام کے رہ گئے ہیں جبکہ خلافت کے زیرِ سایہ جو جماعت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے 212ممالک میں قائم ہوچکی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر دشمن خوش ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا۔ مگرجماعت تعداد، قربانی اور اشاعتِ دین کے لحاظ سے بڑھتی چلی گئی۔ گجرات کے ایک مولوی نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پرکہا کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم لوگ انگریزی دان ہو خلافت کی طرف نہیں جاؤ گے۔ دوسرے دن تار موصول ہوئی کہ ساری جماعت نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی بیعت کرلی ہے۔ پھر خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کی خبر پر وہ کہنے لگا یارو تم بڑے عجیب لوگ ہوتمہارا کوئی پتا نہیں لگتا۔ حضورِ انور نےفرمایاکہ خلافتِ خامسہ کے وقت بھی ایک مولوی سارا نظارہ دیکھنے کے بعد کہنے لگاکہ لگتا تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تم لوگوں کے ساتھ ہے۔حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ اس لیے ہے کیوں کہ ہم آنحضرتﷺ کے حقیقی غلام ہیں۔
حضورِ انور نے دوردراز ملکوں گنی بساؤ،مصر اور کیمرون کی بعض مثالیں پیش فرمائیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کی راہ نمائی فرمارہا ہےاور لوگ ایمان و اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں۔
آخر میں حضورِ انور نے مسجد مبارک کے سنگِ بنیاد کے حوالے سے فرمایاکہ سنگِ بنیاد کےوقت مَیں کینیڈا کے سفر پر تھا۔ اینٹ پر دعا کروا کے لے لی گئی تھی ۔ چنانچہ اس مسجد کی بنیاد 10؍اکتوبر2016ء کو مکرم عثمان چینی صاحب مرحوم نے رکھی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چینی قوم کا بھی اس میں حصّہ ہے۔مکرم عثمان چینی صاحب کو یہ خواہش اور فکر رہتی تھی کہ چین میں کسی طرح احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ جائے۔ پس ہمیں ان کے درجات کی بلندی کے ساتھ، چین میں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے پھیلنے کےلیےبہت دعا کرنی چاہیے۔
٭…٭…٭