عید الفطر کے مسائل
قرآن کریم میں لفظ عیدکا تذکرہ
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيرُ الرَّازِقِينَo قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِيْنَ:
عیىسى ابنِ مرىم نے کہا اے اللہ ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے (نعمتوں کا) دسترخوان اُتار جو ہمارے اوّلىن اور ہمارے آخرىن کے لیے عىد بن جائے اور تىرى طرف سے اىک عظىم نشان کے طور پر ہو اور ہمىں رزق عطا کر اور تُو رزق دىنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔ اللہ نے کہا کہ مىں وہ تم پر ضرور اتاروں گا پس جو کوئى اس کے بعد تم مىں سے ناشکرى کرے تو مىں اسے ضرور اىسا عذاب دوں گا جو تمام جہانوں مىں کسى اورکو نہىں دوں گا (المائدة 116۔115)
عید کی حقیقت
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘رمضان گزر گیا اور وہ دن آگیا جسے عید کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رمضان ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور خدا اپنے بندوں کے لیے عیدیں بھیج دیتا ہے۔ لمبے سے لمبا عرصہ امتحان کا جو خدا نے اپنے بندوں کے لیے رکھا ہے رمضان کا مہینہ ہے۔ تیس دن خدا کے بندے روزے رکھتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، پیاسے رہتے ہیں، شہوانی تقاضوں سے بچتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، تلاوت قرآن کریم زیادہ کرتے ہیں، ذکر الٰہی کرتے ہیں اور بعض تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ غرض یہ تیس دن کا مہینہ دینی لحاظ سے عجیب لطف اور مزے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بندے بھوکے اور پیاسے رہتے اور شہوانی تقاضوں سے اپنے آپ کو مجتنب رکھتے ہیں لیکن یہ ابتلا ایک مہینہ کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور خدا اپنے بندوں کے لیے عید کا دن لے آتا ہے۔ اس طرح مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان کے بعد جلد ہی خوشی اور راحت کا دن آجاتا ہے۔ لیکن بندہ جب خود اپنے لیے کوئی مصیبت پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ وہ مصیبت چلتی جاتی ہے اور بعض دفعہ تو صدیوں تک وہ مصیبت سروں پر مسلط رہتی ہے اور عید آنے میں ہی نہیں آتی بلکہ روزبروز دور ہوتی چلی جاتی ہے۔
(خطبات محمود جلد 1 صفحہ321)
عید کے دن صدقہ و خیرات
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیاہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ایام تھے جبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لیے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی۔ راتوں کو اٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدق اس مہینہ کی برکات میں سے ہے۔ آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔ دوبُک گیہوں کے یا چار جَوکے ہر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے پیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا ہے وہ زیادہ دیویں۔’’
(خطبات نور صفحہ 179)
عید ۔ الٰہی ضیافت کا دن
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘جنہوں نے روزہ رکھا ہے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صدقۃ الفطر دیں۔ یہ حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنَ (بقرہ:185) اور جو لوگ اس فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ طعام مسکین دیں۔ رسول کریم ﷺ نے تین رنگوں میں اس کی تفسیر فرمائی ہے۔
اول یہ کہ انسان عید سے پہلے صدقۃ الفطر دے۔
دوم جو روزہ نہ رکھے وہ بدلے میں طعام مسکین دے۔ دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا یا حاملہ یا مُرضِعَہ(یعنی دودھ پلانے والی عورت۔ناقل)ان سب کے لیے یہ حکم ہے۔
سوم یہ کہ یہ الٰہی ضیافت کا دن ہے۔ پس مومن کو چاہیے کہ کھانے میں توسیع کر دے اور غرباء کی خبر گیری کرے۔
(خطبات نور صفحہ 411)
عید الفطر کے دن تکبیرات
عید الفطر کے دن تکبیرات پڑھنا بھی مسنون ہے ۔ حضرت سالم اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے روز اپنے گھر سے نکلنے سے لے کرعید گاہ پہنچنے تک تکبیرات پڑھا کرتے تھے ۔’’
(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر: 6 )
امام الزہری بیان کرتے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے روز نماز کی جگہ پہنچنے تک اور نماز کی ادائیگی تک تکبیرات کہتے۔ پھر جب آپؐ نماز سے فارغ ہو جاتے تو تکبیرات کہنا ختم کر دیتے ۔ ’’
(مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب صلاۃ العیدین باب فی التکبیر اذا خرج الی العید)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام ممالک میں عید الفطر کی تکبیرات کے بارے میں درج ذیل سرکلر جاری کروایا :۔
‘‘عید الفطر کے موقع پر بھی تکبیرات کہنی چاہئیں کیونکہ یہ امر احادیث سے ثابت ہے اور صحیح ہے کہ عید والے دن صبح سے لے کر نماز عید تک تکبیرات پڑھی جاتی تھیں ۔’’
(ارشاد حضور انور معرفت ایڈیشنل وکیل التبشیرصاحب لندن، حوالہ نمبر:8053/15.12.06 )
قبل از نماز عید صدقۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ضروری ہے:
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے صدقہ فطر ادا کرنا ہرچھوٹے، بڑے ،امیراور غریب مسلمان پر واجب قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
آنحضرت ﷺ نے چھوٹے ،بڑے ،آزاد ، غلام اور ایسے افراد کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا جو کسی کے زیر کفالت ہوں،یعنی جس کے نفقہ کا وہ ذمہ دار ہے۔
(الدارقطنی کتاب زکاۃ الفطر )
عید الفطر کی صبح نماز عید سے قبل کچھ نہ کچھ کھانا ضروری ہے، چندکھجوریں کھانا بھی سنت ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ عید الفطر کے دن نماز کے لیے تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے جب تک کہ چند کھجوریں نہ کھا لیں۔حضرت انسؓ ایک دوسری روایت میں بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ طاق میں کھجوریں کھاتے تھے۔
(بخاری ـ کتاب العیدین ـ باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج)
عبداللہ اپنے والدبُرَیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عید الفطر کے دن عید کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے کچھ نہ کھاتے۔
(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج)
عید گاہ میں مختلف راستوں سے آنا اور جانا
محمد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ عید کے لیے پیدل جایا کرتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے مختلف راستے سے واپس لوٹتے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سنت ہے کہ آپ عید کے لیے پیدل جائیں اور عید کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لیں۔
(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب ماجاء فی المشی یوم العید)
نماز عید سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہ پڑھنا
حضرت سعید بن جُبِیْر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن نکلے اور دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔ اور ان سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں صدقہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔ تو عورتیں اپنے کانوں اور گلے کے زیور صدقہ میں دینے لگیں۔
(بخاری ـ کتاب اللباس ـ باب القلائد و السخاب للنساء یعنی قلادۃ من طیب وسک)
عیدگاہ میں خواتین کا جانا
حضرت اُمِّ عَطِیَّہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کنواری لڑکیوں اور جوان لڑکیوں۔ پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ کے لیے جانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے البتہ حائضہ خواتین نماز پڑھنے والی جگہ پر نہیں جاتی تھیں مگر دعا میں شامل ہوتی تھیں۔ ایک عورت نے عرض کی۔ اگر کسی خاتون کے پاس (پردہ کے لیے) چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاہیے کہ اس کی بہن اس کو عاریتاً چادر دے۔
(ترمذی ـ کتاب العیدین ۔ باب فی خروج النساء فی العیدین)
عید کے خطبہ کے بعد آنحضرت ﷺ کا خواتین میں تشریف لے جانا اور خواتین کا صدقات پیش کرنا
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ایک بار نماز (عید) پڑھائی ۔ آپؐ کھڑے ہوئے اور نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا جب آپؐ فارغ ہو گئے تو آپؐ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی آپؐ اس وقت حضرت بلالؓ کے بازو کا سہارا لیے ہوئے تھے اور حضرت بلالؓ نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں۔
( بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید)
عید الفطر کے دن حضور ﷺ کی مصروفیات
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ میں جا کر سب سے پہلے نماز عید پڑھایا کرتے تھے۔ سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ۔آنحضورﷺ کے خطاب کے دوران لوگ صفوں میں ہی بیٹھے رہتے۔آپؐ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ان کو تاکیدی احکام سے مطلع فرماتے۔ ان کو اپنے ارشادات سے نوازتے۔ اگر کسی گروہ کو کہیں روانہ کرنا ہوتا تو اس کا انتخاب فرما دیتے۔ اور اگر کسی شے کا حکم دینا ہوتا تو حکم دیتے پھر عیدگاہ سے لوٹ آتے۔
(بخاری کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)
قادیان میں عید الفطر
یکم جنوری 1903ء کو قادیان میں عید الفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز ِعید حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ادا کی ۔ اس نماز کے متعلق اخبار ‘‘البدر ’’ میں درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی :۔
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید سے پیشتر احباب کے لیے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول فرمائے۔
گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جری اللہ فی حلل الانبیاء سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کیے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا ۔ جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارکباد دی ۔
اتنے میں حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستور اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ ’’
(بدر نمبر 11جلد 1۔9جنوری 1903ء صفحہ85۔ملفوظات جلد 2صفحہ 627 )
کھیل کود کے دو دنوں کے مقابل عیدین
حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لیے منایا کرتے تھے۔ حضور ؐنے دریافت فرمایا:ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب صلوۃ العیدین)
عید الفطر کے بعد شوال کے چھےروزے
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:
“رمضان ختم ہو گیا ۔آنحضرت ﷺ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینہ میں عید کا دن گزرنے کے بعدچھےروزے رکھتے تھے۔اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب ؑ نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھے دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحبؑ کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لیے دو تین سال بعد آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں وہ ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھے روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔” (خطبات محمود جلد اوّل صفحہ 71)
عید کے دن نغمات گانا
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ اس وقت انصار کی دو لڑکیاں میرے ہاں جنگ بعاث کے متعلق شعر گا رہی تھیں۔ (اور یہ دونوں پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں)۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا : کیا خدا کے رسول کے گھر میں شیطانی بانسریوں کے ساتھ (گانے گائے جارہے ہیں)۔ یہ واقعہ عید کے روز کا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا : اے ابو بکرؓ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔ اور یہ ہماری عید ہے۔
(بخاری ،کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام)
حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ رسول پاک ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے واقعات پر مشتمل نغمے گا رہی تھیں۔ آپ منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ نبی ﷺ کے پاس شیطانی آلات بجائے جا رہے ہیں اس پر حضورؐ حضرت ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان کو کچھ نہ کہو جب حضورؐ کی توجہ ہٹی تو میں نے اشارہ کیا تو وہ دونوں چلی گئیں۔
(بخاری کتاب العیدین ۔ باب الحرب والدرق یوم العید)
عید کے دن مناسب کھیلوں کاانتظام اور ان کو دیکھنا
حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ عید کا دن تھااوراسی روز کچھ حبشی نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے میرے پوچھنے پر یا از خود مجھے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی۔ ہاں۔ اس پر آپؐ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپؐ انہیں کہتے تھے کہ اے بنی اَرفَدَہ اپنا کھیل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپؐ نے فرمایا بس؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا تو جاؤ۔
(بخاری کتاب العیدین ۔ باب الحراب والدرق یوم العید)
پہلی رکعت میں سات زائد تکبیرات
اور دوسری رکعت میں پانچ زائد تکبیرات
کثیر بن عبداللہ اپنے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اپنے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دونوں عیدوں کے موقعوں پر قرأت سے قبل پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔
(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی التکبیر فی العیدین)
عید کی نماز میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ پڑھنا
عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ۔:نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نمازوں میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے۔
(سنن ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا باب ماجاء فی القرائۃ فی صلاۃ العیدین )
عید کے دن حضورﷺ کا خوبصورت لباس
حضرت جعفر اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر عید پر یمنی منقش چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
(کِتَابُ الْاُمّ ـ (لامام شافعی)کتاب صلوۃ العیدین ـ باب الزینۃ للعید)
خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کے لیےہدیہ عید
یکم جنوری 1903ء بروز پنج شنبہ۔حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عید کی مبارک صبح کو جو الہام بطور ہدیہ عید سنایا اور اس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں ۔ وَھُوَ ھٰذَا
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی
وحی الٰہی کی ایک پیشگوئی جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہیے کہ ہر ایک شخص اس کو خوب یاد رکھے۔
اول ایک خفیف خواب جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے۔ پھر وہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی۔ چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔
یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ شَیْئًا ـ اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَـلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ۔: ترجمہ: خدا جو رحمان ہے تیری سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ ظہور میں لائے گا خدا کا امر آرہا ہے تم جلدی نہ کرو یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے۔
صبح پانچ بجے کا وقت تھا ۔ یکم جنوری 1903ء و یکم شوال 1320ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی۔ اس سے پہلے 25دسمبر 1902ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے حکایت تھی اور وہ یہ ہے۔
اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ:ترجمہ :۔ میں صادق ہوں صادق ہوں عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا۔
یہ پیشگوئیاں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا امر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہور میں آئے گی۔ اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہو گا تا دشمنوں کو شرمندہ کرے اور میری وجاہت اور عزت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلا دے۔
نوٹ :۔ چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خداوند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے۔ اس ہدیہ پر ہم شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم عنقریب ان نشانوں کے متعلق بھی ایک اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر 1902ء تک گزشتہ سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں۔
المشتھر
مرزا غلام احمد قادیانی
یکم جنوری 1903ء
(ملفوظات جلد 2صفحہ625تا 627 مطبوعہ ربوہ)
بعض لوگوں کی عید کیوں بور ہوتی ہے؟ اور اس عید میں لذّت پیدا کرنے کے طریق کیاہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12جولائی 1983ء کوعید الفطر کے روز خطبۂ عید میں بیان فرمایا:۔
عید کے متعلق بہت سے احمدی نوجوانوں کو مَیں نے یہ باتیں کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہماری عید تو بہت ہی بور عید ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی عیدوں کے ساتھ جب اس عید کامقابلہ کرتے ہیں تو یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہماری عید تو تھکا دینے والی اور اُکتاہٹ پیدا کر نے والی عید ہوتی ہے۔
اس عید کے موقع پر نہ کہیں میوزیکل ہالز کے اندر جانے کاکوئی پروگرام ہوتا ہے نہ ڈوم میراثی کوئی ناچ دکھاتے ہیں ، نہ کوئی تھیٹرز ہیں، نہ سینما ہیں نہ ناچ گھر ہیں کہ جہاں جا کر دل بہلائے جائیں، نہ دنیا کی شراب بٹتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا فعل نہیں جو دنیا اپنی عیدیں منانے کے لیے کرتی ہو اور ہماری عیدمیں پایا جاتا ہو۔
وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں ایک گھر سے دوسرے گھر میں جا جا کر تھک جاتے ہیں۔ عید کی مبارک بادیں دیتے دیتے دل اُکتا جاتا ہے۔ مختلف گھروں میں پھرتے ہیں روزے رکھنے کی وجہ سے معدہ کوعادت نہیں ہوتی کھا کھا کر اَور بھی بُرا حال ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ بیمار ہو جاتے ہیں۔ کسی کو پیٹ درد کے دورے پڑرہے ہیں کسی کو کوئی اَور مصیبت پڑجاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے پاس جانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اچھی عید ہے۔ اسلام جو سب سے زیادہ شاندار، سب سے کامل سب سے آخری اور نقطۂ عروج پر پہنچاہوا مذہب ہو اس کی اتنی مشہور عید ہو اور وہ بھی بور ہو اس کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں ہے۔ پس آج مَیں نے سوچا کہ مَیں احبابِ جماعت کو بتاؤں کہ بات کیاہے۔ کیوں ان کی عید بور ہوتی ہے۔ اور اس عید میں لذّت پیدا کرنے کاطریق کیا ہے۔
دراصل ہر وہ چیز جو مقصد سے ہٹ کر دیکھی جائے یا کی جائے اس میں بوریت پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ اگر ہاکی کا میچ دیکھنے جائیں اور وہاں ڈوم میراثی ناچ رہے ہوں اَور آپ کو کہا جائے کہ بہت اچھا میچ ہونے والا ہے انتظار کریں اور ابھی یہ ناچ دیکھیں تو ہو سکتا ہے ہاکی کی فیلڈ پر پتھراؤ ہو جائے۔ وہی لوگ جو پہلے شوق سے ناچ دیکھاکرتے تھے ان کواتنا غصہ آئے اور ا تنا ہنگامہ کھڑاہو جائے کہ ہاکی کامیچ منسوخ کرنا پڑے۔ یاہاکی کامیچ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہو اور کرکٹ کھیلنا شروع کردیا جائے تو کرکٹ کے شائقین بھی لعنت ڈالیں گے، وہ کہیں گے جو چیز ہم دیکھنے آئے ہیں وہ تو دکھاؤ۔
پس بوریت کی بہت سی قسموں میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ مقصد کو پُورا نہ کیاجائے۔ اس کی بجائے کچھ اَور بات ہو جائے تو اس سے بوریت پیدا ہوتی ہے۔
آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ بعض قسم کی فلمیں دیکھنے لوگ جاتے ہیں اور اس کے لیے مہنگے ٹکٹ خریدتے ہیں اور فلم کوئی اَور دکھا دی جاتی ہے تو سینما گھروں کو آگ لگا دی جاتی ہے ۔ کرسیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ویسے وہ فلم دیکھنے جاتے تو کبھی بور نہ ہوتے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عید کا مقصد پورا نہیں ہورہا ۔ اگر بوریت پائی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ کچھ اَور عید دکھانا چاہتا ہے۔ آپ کچھ اَور عید دیکھ رہے ہیں اور نہیں سمجھ رہے کہ یہ کیا قصّہ ہے ۔ آپ کی توقعات دوسری سمت میں ہیں اور اللہ نے اَور طرح کی عید مقرر فرمائی ہوئی ہے۔ نتیجۃً آپ عید کو قصور وار نہیں کہہ سکتے، اپنی عقل اور فہم کو قصور وار کہہ سکتے ہیں۔ آپ نہیں سمجھے تھے کہ خُدا کیادکھانا چاہتا ہے آپ کچھ اَور دیکھنے گئے تھے دنیاداروں کی عیدیں دیکھیں اور سمجھے کہ یہ عید محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید بھی ہو گی حالانکہ شَتَّانِ بَیْنَہُمَا ، زمین و آسمان کا فرق ہے دنیا کی عیدوں میں اور اس عید میں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق ہمیں عطا کی ہے۔
اس عید کو سمجھنا ہو تو اس درخت کو سمجھیں جس کا یہ پھل ہے اور وہ درخت شجرِرمضان ہے۔ جیسے درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتا ہے۔ویسے پھل بھی اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔ کبھی پھل مدد کرتاہے درخت کو پہچاننے میں اور کبھی درخت مدد کیا کرتا ہے بتانے میں کہ یہ پھل لگتا تھا۔ تو اگر پھل کی سمجھ نہیں آرہی تو درخت کو جانچو اور سوچو کہ اس پر کس قسم کا پھل لگنا چاہیے تھا۔
رمضان المبارک کے کئی اسباق ہیں ان میں سے دو بڑے گہرے سبق ہیں جو دراصل رمضان ہی کا نہیں بلکہ ہر مذہب کا خلاصہ ہیں ان میں سے ایک عبادتِ الٰہی ہے اوردوسرا بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی اورپیار اور خدمتِ خلق اور لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونا ہے۔ یہ دوگہرے سبق ہیں جو رمضان ہمارے لیے لے کر آتا ہے……
عید کا دوسرا پہلو خدمتِ خلق ہے۔ غریب کے دُکھ میں شریک ہونا اس کا دُکھ بانٹنا اور اپنے سُکھ اس کے ساتھ تقسیم کرنا یہ اور اس قسم کے دوسرے نیکی کے کام خدمتِ خلق سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ رمضان سے پہلے مَیں نے احباب جماعت پر بڑی تفصیل سے واضح کیاتھاکہ رمضان میں ایک بڑا گہرا سبق پایا جاتا ہے اور روزہ کے اندر دوسری بہت سی حکمتو ں کے علاوہ ایک بڑی گہری حکمت یہ ہے کہ امراء بھی غریبوں کے دُکھوں کو سمجھنے کے اہل ہو سکیں۔ ان تلخیوں میں سے گزریں جن تلخیوں میں سے اکثر غرباء ہمیشہ گزرتے ہیں۔ اور وہ ایک طرف تو خُدا کا شکرکریں کہ یہ ایک مہینہ جو ہم نے گزارا ہے ہمارے بعض بھائی ایسے ہیں جن کے بارہ مہینے اسی طرح گزرتے ہیں اور پھر اس شکر کے ساتھ ان کے بارہ مہینے کے دُکھ آسان کرنے کی کوشش کریں۔ یہ وہ دوسرا سبق ہے جو رمضان شریف نے ہمیں عطا کیا ہے۔
پس لازماً اس عید میں بھی خدمتِ خلق کا پھل لگنا چاہیے۔ یہ دوسرا میٹھا پھل ہے جو اس عید کو قدرتی طور پر عطا ہونا چاہیے۔ لیکن اگر آپ اس پھل کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنی لذّتیں دوسری جگہ ڈھونڈیں تو آپ یقیناً بور ہوں گے کیونکہ یہ بات اور یہ سوچ انسان کو اپنے مقصد سے ہٹانے والی ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتاہے جو بعض لوگوں کے لیے پید اہو جاتا ہے کہ مزاج خراب ہو رہے ہیں۔ مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ بور ہو رہے ہیں۔انہی گھروں میں اور اپنے رشتہ داروں میں جا جا کر جن کے گھروں میں ہمیشہ جاتے تھے۔
قرآن کریم نے اس فلسفہ کو ایک موقع پر ایک اَور چھوٹی سی آیت میں اس طرح بیان فرمایا کہ دیکھو تمہارے تحائف کا تبادلہ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ ( الحشر:9)نہیں ہونا چاہیے یعنی جو تمہارے تحفے پھرتے ہیں اور جو تمہاری محبت کی راہیں ہیں وہ اپنے رشتہ داروں ، عزیزوں اور ہم پلہ اور ہم کفو لوگوں تک ہی نہیں رہنی چاہئیں۔اگر یہ ہو تو ایک چکر اُمراء کا اوپر چلتا رہتا ہے اور ایک غرباء کا نیچے چلتا رہتا ہے اور انہی دائروں میں نعمتیں گھومتی رہتی ہیں یا نعمتوں کا فُقدان چکر لگاتا رہتا ہے جن دائروں میں اس سے پہلے گھوما کرتی تھی۔
اللہ تعالیٰ ایک اَور محبت کا دائرہ قائم کرنا چاہتا ہے یعنی امارت سے غربت کی طرف اور غربت سے امارت کی طرف۔ اور یہ اسلام کا امتیاز ہے۔ نہایت ہی سائینٹفک طریق پر اور نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر اس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اس لیے وہ لوگ جو اپنے جیسے لوگوں کے گھروں میں جہاں پہلے گھوما کرتے تھے اگر وہیں گھومتے رہیں گے تو چونکہ یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اور اس کی روح کے منافی ہے اس لیے لذت نہیں پائیں گے اس کے برعکس صورت پیدا کریں گے جو اصل اسلام کی عید ہے تو ان کی زندگی میں آج کا دن ایک نہایت ہی مسرت لانے والا دن بن جائے گا۔
اس نقطۂ نگاہ سے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن امراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں اور وہ تحفے جو آپس میں بانٹتے ہیں ان میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شامل کریں۔ آپس میں بھی ضرور کچھ نہ کچھ بانٹیں کیونکہ یہ حق ہے۔ ذی القربیٰ کا بھی حق ہے ۔ دوستوں کا بھی حق ہے، یہ حقوق بھی ادا ہونے چاہئیں۔ لیکن ایک حق جو آپ مار کر بیٹھ گئے ہیں جب تک وہ حق ادا نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نظارہ نہیں دیکھ سکیں گے ۔ اور و ہ حق جس کے متعلق میں نے کہا ہے مارکر بیٹھ گئے ہیں ۔ اس حق سے مراد ہے : فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ۔ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ۔( المعارج: 27,26)کہ جن کو ہم نے بڑی بڑی نعمتیں عطا کی ہیں اور دولتیں بخشی ہیں ان کے اموال میں غرباء کا حق ہے۔
ایک طرح تو ہر مسلمان یہ حق کچھ نہ کچھ ضرور اد اکرتا ہے اور اس عید میں شامل ہو جاتاہے۔ مثلًا جب وہ فطرانہ دیتا ہے جب وہ عید فنڈ دیتا ہے تو یقینًا اس حق کو ادا کر رہا ہو تا ہے اس لیے یہ کہنا جائز نہیں ہو گا کہ مسلمان خواہ احمدی ہو یا غیر از جماعت ہو وہ اس حق سے غافل ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں بھی اس حق کو اس تفصیل کے ساتھ ایک اصول کے مطابق اور ایک تنظیم کے تحت ادا نہیں کیا جاتا جس طرح اسلام میں کیا جاتا ہے مگر جو زائد بات میں آپ کو بتا نا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُونَ کے تابع پھر بھی یہ حق پورا ادا نہیں ہوتا جب تک آپ خود اپنے وقت کو بھی اور دیگر طاقتیں جو خدا نے آپ کو بخشی ہیں ان کو بھی غریب کے لیے قربان نہ کریں۔ پھر آ پ کی پور ی عید ہو گی پھر آپ کو پتہ لگے گا کہ عید میں لذت کیا ہے۔ مثلًاآج عید کی نماز کے بعد ضروری امور سے فارغ ہو کر اگر وہ لوگ جن کو خدا نے نسبتًا زیادہ دولت عطا فرمائی ہے زیادہ تموّ ل کی زندگی بخشی ہے وہ کچھ تحائف لے کر غریبوں کے ہاں جائیں اور غریب بچوں کے لیے کچھ مٹھائیاں لے جائیں جو ان کے گھر میں زائد پڑی تھیں اور جو ان کا پیٹ خراب کرنے کے لیے مقدر تھیں وہ غریب بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ساتھ لے جائیں اور وہ زائد پھل بھی جس نے زائد از ضرورت استعمال کی وجہ سے ان کو ہیضہ کر دینا تھا ۔غریب بچوں کو دیں تا کہ ایک دن تو ایسا ہو کہ ان کو بھی کچھ نصیب ہو۔ تو کچھ وہ پھل پکڑیں کچھ مٹھائیاں گھر سے اُٹھائیں، کچھ بچوں کے لیے جو ٹافیاں یا چاکلیٹ آپ نے رکھے ہوئے تھے وہ آپ لیں اور بچوں سے کہیں آؤ بچو ! آج ہم ایک اور قسم کی عید مناتے ہیں ہمارے ساتھ چلو ، ہم بعض غریبوں کے گھر آج دستک دیں گے، ان کو عید مبارک دیں گے ان کے حالات دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اپنے سُکھ بانٹیں گے۔ اگر منظم طریق پر اس کام کو کیا جا ئے تو اس کا بہترین طریق یہ ہو گا کہ آپ صدر محلہ کے پا س پہنچیں تاکہ لوگ ایک ہی گھر میں بار بار نہ جائیں اور ایسے گھروں میں نہ جائیں جہاں ضرورت نہ ہو۔ صدر محلہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے محلہ میں کون کون سے غریب لوگ رہتے ہیں جو اس حسنِ سلوک کے زیادہ مستحق ہیں۔کون کون سے یتامیٰ ہیں ۔ کون کون سی بیوگان ہیں۔ کون کون سی بوڑھی عورتیں ہیں اور کون سے بیمار اور بوڑھے لوگ ہیں جن کی زندگی میں کوئی رفیق اور کوئی ساتھی نہیں رہا۔ ایسی فہرستیں اوّل تو صدران محلہ کے پاس موجود رہتی ہیں اگر نہیں تو وہ اپنے ذہن میں دہرائی کریں اور جاتے ہی ایسی فہرستیں جلدی سے تیار کرلیں اور پھر وہ محلہ کے امراء کو بتائیں اور امراء سے مراد ضروری نہیں کہ لکھ پتی ہوں کیونکہ امارت اور غربت ایک نسبتی چیز ہے۔ وہ لوگ جو نسبتًا آسودہ حال ہیں جن کو عید کے دن یہ احساس نہیں ہوتا کہ پیسے ہوتے تو ہم بچوں کی خوشیاں کرتے۔ وہ سارے امراء ہیں۔ ایسے لوگ جب تیاری کر لیں تو اپنے اپنے محلّہ کے صدر کے پاس پہنچیں اور ان سے کہیں کہ بتاؤ ہمارے حصہ میں کون سے گھر دیتے ہو۔ اگر تین گھروں میں جانا ہے تو تین گھروں کی فہرست لے لیں۔ اگر چار یا پانچ میں جانا ہے تو ان کی فہرست لے لیں اور لازماً ایک سے زیادہ گھر ڈھونڈنے چاہئیں۔ کیونکہ یہ ایک اقتصادی قانون ہے کہ جتنا زیادہ غریب ملک ہو اتنی ہی غربت زیادہ اور امارت نسبتاًکم ہوتی چلی جاتی ہے اس لیے جو ہمارے ہاں متموّل نہ سہی نسبتا ًآسودہ حال اور سفید پوش ہی کہہ لیجئے ان کی تعداد غرباء کی تعداد کے مقابل پر کم ہو گی۔یہ قدرتی قانون ہے اس لیے کوشش کریں کہ حتی المقدور ایک سے زیادہ گھروں میں تحفے بانٹیں مگر بہر حال یہ کوئی تکلیف ما لا یُطاق نہیں ہے آپ نے عید منانی ہے۔ آپ اپنی توفیق کے مطابق جتنی عید بھی منا سکیں بہتر ہے۔ اس طرح اگر آپ غریب لوگوں کے گھروں میں جائیں گے اور ان کے حالات دیکھیں گے تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی ۔ تو کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے اور اپنے رب سے معافیاں مانگ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ! ان لوگوں سے ناواقفیت رکھ کر اور ان کے حالات سے بے خبری میں رہ کر اور ان کے حالات سے بے خبر ی میں رہ کر ہم نے بڑے نا شکری کے دن کاٹے ہیں، ہم تیرے بڑے ہی ناشکر گزار بندے تھے، نہ ان نعمتوں کی قدر کر سکے جو تُونے ہمیں عطا کر رکھی تھیں نہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال جان سکے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھی تھیں اور واپس آ کر وہ روئیں گے خداکے حضور اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان آنسوؤں میںوہ اتنی لذّت پائیں گے کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہو ں گی۔ ان کو بے انتہاء ابدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائد نہ ہونے والے بے انتہاء سرور ان کو عطا ہوں گے۔
یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید ہے۔ یہ ہے وہ عید جو درحقیقت سچے مذہب کی عید ہے ۔ پہلے بھی یہی عیدیں تھی جو خدا نے عطا کی تھیں۔لیکن بعد میں آنے والوں نے ان عیدوں کے مزاج بدل ڈالے۔ ان کے مضمون کو بھلا دیا۔ اپنی عید کے رنگ بگاڑ دیے تو وہ عیدوں کے مقاصد سے دُور جا پڑے ۔ ان کے لیے وہ عیدیں ، عیدیں نہ رہیں جو خدا اپنے مومن بندوں کو عطا کرنا چاہتا ہے……
پس اُن جگہوں پر جہاں احمدی کم ہیں جہاںکے معاشرہ میں غیر ازجماعت دوست زیادہ ہیں اوراحمدی بہت تھوڑے پائے جاتے ہیں ۔ ا ن کے لیے کوئی مشکل نہیںہے۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدمت خلق کے طور پر غریب کے دکھ بانٹنے کے لیے احمدی کو تلاش کیا جائے اس لیے وہ تمام جماعتیں جہاں احمدی تعداد میں تھوڑے ہیں ان کو ارد گرد غریب محلوںمیں حسب توفیق غریبوں کی مدد کے لیے جانا چاہیے۔ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا کے احمدیوں کو اس قسم کی عید منانی چاہیے۔ تاہم جہاں تک پاکستا ن کا تعلق ہے اکثر جماعتیں آج بھی ہماری ا سلامی عید میں شامل ہو سکتی ہیں۔ اگر مجلس خدا م الاحمدیہ ٹیلیفون کے ذریعہ اطلاعیں کر دے اور جو خدام مثلًا فیصل آباد یا سرگودھا یا لاہور یا قریب کی جماعتوں میں جا رہے ہیں۔ ان کے ذمہ لگا دیں کہ فلاں فلاں جگہ تم نے یہ اطلاع کرنی ہے تو آج سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے جہاںتک ممکن ہو پاکستا ن کی اکثر احمد ی جماعتیں اس عید میں شامل ہو جائیں۔ یعنی عبادت بھی خصوصیت کے ساتھ کریں اور غریب کی ہمدردی بھی بطور خاص کریں۔ یہاں تک کہ اپنے محلوں میں پھیل کر حسبِ حالات اور حسبِ توفیق غریبوں کے گھروں میں جائیں اور ان سے کہیں ہم محمد مصطفیٰ ﷺ کے نام پر تمہیں عید مبارک دینے آئے ہیں۔ ہم اسلام کے نام پر تمہارے ساتھ خوشیاں بانٹنے آئے ہیں ۔ بچوں سے کہیں اے بچو! آؤ ہمارے بچوں کے ساتھ بیٹھ جاؤ، ان کی ٹافیاں کچھ تم بھی کھاؤ، ان کے کھلونوں سے کچھ تم بھی کھیلو، ہمارے کھانوں میں تم بھی شریک ہو جاؤ اور یہ ہم تم پر احسان کے طور پر نہیں کر رہے ، یہ صرف اللہ کی خاطر ہے۔ اور اللہ کے سب سے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خاطر ہے۔ پس اگر تم شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں کہتے ہیں ۔ لَا نُرِیدُ مِنکُم جَزَائً وَّلَا شُکُورًا ۔ہم ہرگز تم سے کسی جزا اور کسی شکریہ کا تقاضا نہیں کرتے،یہ کام محض للہ ہے۔ اس کا پیار ہی ہماری جزاء ہے۔ وہ محبت سے جب ہمیں دیکھ رہا ہے تو یہی سب سے بڑی جزا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک جزا تو آپ کو وہیں مل چکی ہو گی کیونکہ اس نیکی میں اتنی لذت ہے کہ جتنا خدمتِ خلق کا کام آپ نے کیا ہو گا آپ یقین کریں گے کہ اس سے بہت زیادہ آپ کو حاصل ہو گیا۔ پھر یہ کہنا کہ ہماری وہ جزاء اللہ کا پیار ہے ، اسکا کیا مطلب ہے یہ کہ وہ محض فضل ہے۔ قانونِ قدرت نے آپ کو وہ سب کچھ دے دیا جو آپ نے خرچ کیا اس سے زیادہ عطا کر دیا۔ ایک نیکی کا دس گنا بدلہ اس نیکی کے دوران پا جائیں گے۔ باقی سب فضلِ الٰہی ہو گا جو اس کے پیار کی صورت میں آپ پر نازل ہوگا۔ پس جس کو یہ عید نصیب ہو جائے اس کو اَور کیا عید چاہیے۔ اس کی پھر عیدیں ہی عیدیں ہیں اور یہی وہ عید ہے جو اسلام کی عید ہے ۔ جس کے متعلق مَیں آپ کو بتارہا ہوں چاہیں تو کریں چاہیں تو نہ کریں۔
(الفضل26جولائی1983ء صفحہ نمبر 1تا5)
٭…٭…٭