خوشگوارعائلی زندگی کے اصول
اسلام جس اعلیٰ تہذیب و تمدن کا داعی ہے وہ اسی وقت وجود میں آ سکتا ہے جب ہم ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ آپ خاندانی نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب بنالیں۔ خاندانی زندگی کا آغاز شوہر اور بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلق سے ہوتا ہے اور اس تعلق کی خوشگواری اسی وقت ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی ازدواجی زندگی کے اصولوں اور آداب و فرائض سے بخوبی واقف ہوں اور ان کو بجا لانے کے لیے پوری دل سوزی ، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ سرگرم کار بھی رہیں ۔
میاں بیوی کا رشتہ جس قدر گہرا ہوتا ہے اسی قدر کمزور بھی ہوتا ہے لیکن شریعت نے اس کے کمزور پہلو کو مضبوط تر بنانے کے لیے بہت سے رہنما اصول فراہم کیے ہیں ۔ نکاح کے بعد جو پیار اور محبت میاں بیوی کے درمیان اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے پیدا فرما دیتا ہے وہ پیار و خلوص اگر ساری دنیا مل کر بھی پیدا کرنا چاہتی تو نہ کر سکتی ۔ بعض اوقات لڑکی بھی اجنبی ہوتی ہے اور لڑکا بھی ، بعض دفعہ ملک ،برادری ،زبان ،رسم و رواج ،تہذیب و ثقافت سب کچھ مختلف ہوتا ہے لیکن رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں اس لیے قرآن کریم انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے ۔
ذیل میں خاکسار پہلے مختصراً ان اصولوں کا ذکر کرے گی جن کا تعلق شوہر سے ہے اور پھر مختصراً ان آداب و فرائض کا ذکر ہو گا جن کا تعلق بیوی سے ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔ترجمہ: ’’اوران سےنیک سلوک کے ساتھ ز ندگی بسر کرو۔ ‘‘ (سورۃ النساء 20:4)
چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کی زندگی گزاری جائے ۔ اس کے حقوق کشادہ دلی کے ساتھ ادا کے جائیں اور ہر معاملے میں احسان اور ایثار کی روش ہو ۔
٭جہاں تک ہو سکے بیوی سے خوش گمان رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے میں تحمل و برد باری اور اعلیٰ ظرفی کی روش اختیار کرنی چاہیے ۔اگر اس میں شکل و صورت یا عادت و اخلاق یا سلیقہ اور ہنر کے اعتبار سے کو ئی کمزوری بھی ہو تو صبر کے ساتھ اس کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے فیاضی، درگزر ،ایثار اور مصلحت سے کام لینا خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب ہوگا ۔
خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے :فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا اور اگر تم انہیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ (سورۃ النساء 20:4)
حقیقت یہ ہے کہ انسان کمزور ہے اورہر خاتون میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کمزوری ضرورہو گی اور اگر شوہر کسی عیب کو دیکھتے ہی اس کی طرف دل برا کر لے تو پھر کسی خاندان میں گھریلو خوشگواری مل ہی نہ سکے گی ۔ حکمت کی روش یہی ہے کہ آدمی در گزر سے کام لےا ور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے عورت کے ساتھ خوشدلی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے ،ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کے واسطہ سے مرد کو کچھ بھلائیوں سے نوازے جن تک مرد کی نظر نہ پہنچ رہی ہو۔ مثلاً عورت میں دین و ایمان اور سیرت و اخلاق کی کچھ ایسی خوبیاں ہوں جن کے باعث وہ پورے خاندان کے لیے رحمت ثابت ہو یا اس کی ذات سے کوئی ایسی روح وجود میں آئے جو ایک عالم کو فائدہ پہنچائے اور رہتی زندگی تک کے لیے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنے یا عورت مرد کی اصلاح حال کا ذریعہ بنے اور اسے جنت سے قریب کرنے میں مدد گار ثابت ہو یا پھر اس کی برکت سے دنیا میں خدا اس مرد کو وسعت اور خوشحالی سے نوازے۔ بہر حال عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے ساتھ ازدواجی تعلق کو برباد نہ کرنا چاہیے بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے دھیرے دھیرے گھر کی فضا کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔
٭چاہیے کہ عفو و کرم کی روش اختیار کی جائے اور بیوی کی کوتاہیوں اور سر کشیوں سے چشم پوشی کی جائے ۔ عورت عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور اور نہایت جذباتی ہوتی ہے اس لیے صبر و سکون ،رحمت و شفقت اور دل سوزی کے ساتھ اسے سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور صبر وضبط کے ساتھ کام لیتے ہوئے نباہ کرنا چاہیے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ…’’عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو ۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے یعنی اس میں پسلی کی طرح طبعی ٹیڑھا پن ہے ،… اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اسے توڑ دوگے۔ اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دوگے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہوتا رہے گا ۔ پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو۔‘‘
(بخاری کتاب الانبیاء باب خلق اَدم و ذریۃ ’’حدیقۃ الصالحین ‘‘حدیث 374صفحہ406ایڈیشن2006ء)
٭بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتائو کرنا چاہیے اور پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور تم میں سے خلق کےلحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔‘‘(ترمذی کتاب النکاح باب حق المراۃعلیٰ زوجہ حدیقۃالصالحین حدیث 366، صفحہ400، مطبوعہ 2006ء)
اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہے ۔ گھر والوں سے ہر وقت واسطہ رہتا ہے اور گھر کی بے تکلف زندگی ہی میں مزاج اور اخلاق کا ہر رخ سامنے آتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان میں کامل ہے جو گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی اور مہر بانی کا برتائو رکھے ۔گھر والوں کی دلجوئی کرے اور پیار و محبت سے پیش آئے ۔
٭ پوری فراخ دلی کے ساتھ رفیقہ حیات کی ضروریات پوری کرنی چاہئیں اور خرچ میں کبھی تنگی نہیں کرنی چاہیے۔اپنی محنت کی کمائی گھر والوں پر خرچ کر کے سکون و مسرت حاصل کرنی چاہیے۔ کھانا ،کپڑا بیوی کا حق ہے اور اس حق کوکشادگی سے ادا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا شوہر کا انتہائی خوشگوار فریضہ ہے ۔
٭ بیوی کو دینی احکام اور تہذیب سکھائی جائے ۔ دین کی تعلیم ، اسلامی اخلاق اور تربیت کرنی چاہیے ۔ہر ممکن کوشش ہو کہ وہ ایک اچھی بیوی ،اچھی ماں اور خدا کی نیک بندی بن سکے اور اپنے فرائض منصبی بحسنِ خوبی ادا کر سکے ۔
اللہ تعالیٰ سورۃ التحریم میں فرماتا ہے کہ :اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔ (آیت 7)
پھر ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ :اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ ۔(سورۃ طٰہٰ آیت 133)
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام بیویوں کو ان کے فرائض اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے کن زریں اصولوں پر کاربند رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ترجمہ:اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف تسکین (حاصل کرنے )کے لیے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ (سورۃ الروم آیت 22)
شوہر کی اطاعت اور فرمانبردار ی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین رفیقہ حیات وہ ہے ’’جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو ۔مرد جس کام کے کرنے کے لیے کہے اُسے بجا لائے اور جس بات کو اُس کا خاوندنا پسند کرے اُس سے بچے ‘‘۔
(نسائی بیہقی فی شعب الایمان۔ مشکوٰۃ ’’حدیقۃ الصالحین‘‘ حدیث 354صفحہ390-391 ایڈیشن2006ء)
اس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی ہے ۔آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون و چراں نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے ۔‘‘
( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 30ایڈیشن2003ء)
٭ ہمیشہ اپنے قول و عمل اور انداز و اطوار سے شوہر کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔کامیاب ازدواجی زندگی کا راز بھی یہی ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا راستہ بھی یہی ہے ۔ اپنے شوہر سے محبت اور اس کی رفاقت کی قدر دان رہیے یہ زندگی کا سہارا اور راہ حیات کا عظیم معاون و مدد گار ہے ۔خدا کی اس عظیم نعمت پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اس نعمت کی دل و جان سے قدر کریں ۔ آپ کا سب سے بڑا محسن آپ کا شوہر ہوتا ہے جو اپنے آرام کو قربان کر کے آپ کی ضروریات اور خوشیوں کو پورا کرنے کے لیے آپ کو ہر طرح کا آرام پہنچا کر آرام محسوس کرتا ہے ۔یہاں یہ کہنا ناجائز نہ ہوگا کہ باپ کے بعد اگر عورت کی کوئی ناز برداری کرتا ہے تو وہ اس کا شوہر ہے ۔
٭ خواتین کو نا شکر گزاری اور احسان فراموشی سے بچنا چاہیے ،شوہر کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرنی چاہیے جہاں تک ممکن ہو خود تکلیف اٹھا کر شوہر کو آرام سکون پہنچانا چاہیے۔
ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میں کسی کو حکم دے سکتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘( ترمذی کتاب النکاح باب حق الزوج علیٰ مراۃ،حدیقۃ الصالحین حدیث373صفحہ 406,405ایڈیشن2006ء)
٭ چاہیے کہ صفائی ،سلیقہ اورآرائش کا بھی بھر پور اہتمام کرے ۔گھر کو بھی صاف ستھرا رکھے اور قرینے سے سجائے اور گھریلو کاموں میں بھی سلیقہ اور سگھڑ پن اختیار کرے ۔بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیر و برکت سے مالا مال ہوتی ہے بلکہ ایک بیوی کے لیے عاقبت بنانے اور خدا کی خوشنودی کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے اپنے ایک مکتوب میں فرمایا:’’… شوہر کی اطاعت اوراس کی خوشنودی حاصل کرنا تمہارا فرض ہونا چاہیے ۔سوائے ان امور کے جو خلاف شریعت اور رضائے مولا کے خلاف ہوں۔اس کی خوشیوں میں خوشی سے شریک ہو اس کے تفکرات کے اوقات میں اس کی دلجوئی کرو۔اس کی عزت اس کا مال اس کی اولاد یہ سب تمہارے پاس امانت ہوں گی ۔ ان امانتوں کی حفاظت کرنا تاکہ خدا تعالیٰ کے سامنےسر خرو ہو ۔ اُس کے عزیزوں کو اپنے عزیز اس کے والدین کو اپنےوالدین جاننا ۔ ہر فتنہ انگیز بات سے بچنا ۔ شکایت کبھی نہ کرنا ،دعائوں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ طلب کرتی رہنا۔‘‘
(از سیرت و سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ256- 257، ایڈیشن 2007ء)
٭…شادی کے بعد پہلے بیوی میاں کی لونڈی بنتی ہے تو پھر میاں بیوی کا غلام بنتا ہے… (یعنی کتنی حکمت اور عقل کی بات ہے کہ بیوی پہلے میاں کی فرمانبردار اور مطیع بنے گی تو میاں کا دل جیتے گی پھر میاں بیوی سے محبت کرے گا )
٭…میاں بیوی کی پرائیویٹ باتیں کبھی کسی سے نہ کرو۔ عورتیں اپنی سہیلیوں سے اور مرد اپنے دوستوں سے ایسی باتیں کرتے اور اپنی شیخی بگھارتے ہیں جو نہایت بری اور نا مناسب ہیں ۔
٭میاں جب باہر سے آئے تو تیار رہو ۔جب باہر جائے تو بھی تمہاراحلیہ درست ہو تاکہ جب وہ تمہارا تصور کرے تو خوش کن ہو نہ کہ بال پھیلائے ہو ئے ایک بد بو دار عورت کا ۔
٭ غصے کے وقت میاں سے زبان نہ چلاؤ۔بعد میں غصہ ٹھنڈا ہونے پر اس کی زیادتی پر آرام سے شرمندہ کرو اور باہر سے آنے پر کبھی لڑائی نہ کرو خواہ تمہیں کتنا ہی غصہ ہو ۔ہر لحاظ سے آرام پہنچا کر بے شک بھڑاس نکالو ۔
٭ میاں بیوی کے رشتے میں جھوٹی انا نہیں ہونی چاہیے اگر اپنی غلطی ہے تو بیوی ، میاں کو منا لے اس میں کوئی بے عزتی نہیں ۔
٭کوئی کام میاں سے چھُپ کر نہ کرنا ۔جو بات چھپانے کو جی چاہے وہ ہر گز نہ کرنا ۔اگر میاں کو پتہ چل جائے تو ساری عمر کے لیے بے اعتباری ہو جائے گی اور بے عزتی الگ ۔
٭ میکہ کی بات سسرال اور سسرال کی بات میکہ میں نہ کرنا تمہارے دل سے تو وہ بات مِٹ جائے گی لیکن بڑوں کے دل میں گرہ پڑ جائے گی ۔
(از سیرت وسوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ 253تا255، ایڈیشن 2007ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’…جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔…ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔‘‘
(روحانی خزائن جلد 19کشتی نوح صفحہ 19ایڈیشن 2008ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں،نیک سلوک کریں ،ایک دوسرے کو سمجھیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن ِ سلوک کرو گے تو بظاہر نا پسندیدگی ،پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے بھلائی اور خیر پا سکتے ہو ۔کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اور اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے ۔اور سب قدرتوں کا مالک ہے وہ تمہارے لیے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا ۔ ‘‘
(مشعلِ راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ 122,123 ایڈیشن 2007)
آخرمیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتی ہوں جو ہر لحاظ سے ان تمام نصائح اور اصولوں کی جڑ ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو جیسا کہ لباس میں سکون ،آرام ،گرمی سے بچاؤ ، زینت ،قسم ہا قسم کے دکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی ہے ایسا ہی مردوں عورتوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں کہ ’’آپ میں سے ہر وہ عورت جس کے گھر کوئی فتنہ ہو اور اتحاد میں خلل پیدا ہوتا ہے اپنے خدا کے سامنے اس کی ذمہ دار ہے اور اس کے متعلق اپنے رب کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا کیونکہ اس نے اپنے گھر کی پاسبانی نہیں کی ۔‘‘
(مصباح سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نمبر ‘‘حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کا مستورات سے روح پرور خطاب’’ صفحہ85)
دریا کو کوزے میں سمونے کی کوشش کروں تو میاں بیوی کو ہر دن خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔تقویٰ اور قولِ سدید اختیار کیے رکھیں ۔آپس میں نرمی اور حسن ِسلوک ، اعلیٰ اخلاق اور خوفِ خدا دل میں پیدا کیے رکھیں ۔اناؤں کے جال میں کبھی نہ پھنسیں ۔قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے دور نہ ہٹیں ۔میاں بیوی ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں اور احترام کریں اور رشتوں کی مضبوطی کے لیے تہجد اور نمازوں میں دعائیں بھی کرتے رہیں ۔یہی بات ہے جو ہمیں اپنے خدا کی خوشنودی کے حصول میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے اور ہم اپنے گھروں کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے ۔آمین ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں گھروں کی سکینت میں اضافہ کرنے کے لیے اپنے فرائض کی باحسن ادائیگی کی توفیق ملتی رہے ۔آمین
٭…٭…٭
ر شتہ کر تے وقت صرف تقویٰ مدِّ نظر رہے
حضرت اقدس با نی سلسلہ ا حمدیہ فر ما تے ہیں’’ہما ری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی د ینا پسندنہیں کرتے ۔ بلکہ حتی الو سع لینا بھی پسند نہیں کر تے ۔یہ سراسر تکّبر اور نخو ت کا طر یقہ ہے جو احکام شر یعت کے با لکل بر خلا ف ہے۔بنی آدم سب خدا تعا لیٰ کے بندے ہیں ر شتہ نا طہ میں یہ د یکھناچا ہیے کہ جس سے نکا ح کیا جا تا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آ دمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلاتو نہیں جو مو جب فتنہ ہو یا د رکھناچا ہیے کہ اسلام میں قوموںکا کچھ بھی لحا ظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحا ظ ہے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہ اَتْقَا کُمْ (الحجرا ت : 14) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیزگار ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ,49 48ایڈیشن 2003)
نیک نصیب کی دعا
حضرت سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صاحبہ ؓنے خا ندان کی بچیوں کو شروع سے حضرت خلیفہ اول ؓ کی بتا ئی ہو ئی نصیبے کی د عا کر نے کی عا دت ڈلوا دی تھی چنانچہ صا حبزادہ مر زا غلام قادر صاحب کی اہلیہ نصرت صاحبہ اپنے شہید شو ہر کی یا د میں اپنے مضمون میں لکھتی ہیں ’’بچپن میں امی سے سنتے آئے تھے کہ بڑی پھو پھی جان (حضرت نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ ؓ ) فر ما یا کر تی تھیں کہ لڑکی کو چھو ٹی عمر سے اپنے نیک نصیب کے لیے دعا ما نگنی چاہیے۔اس لیے تم لو گ بھی اپنے لیے دعا ما نگا کرو ۔میں نے اپنے نیک نصیب کے لیے د عا ما نگنے کے سا تھ یہ دعا بھی شامل کی کہ یا اللہ میرے ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیا را ہو اس سے میرا نصیب باندھنا، اور جب قادر کی شہا دت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع (ایدہ اللہ تعا لیٰ )نے روتے ہو ئے ،فون پر مجھے یہ فرمایا کہ ’’نچھو اللہ میاں نے اپنے گلشن کاسب سے خو بصو رت پھول چن لیا ہے‘‘ توچند دن بعد میری توجہ حضور کی اس با ت کے ساتھ اپنی اس دعا کی طرف گئی اور میں نے سو چا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دعا کو قبو ل فر ما لیا ،محض اس کی عطا ہے ورنہ ہم کس قا بل ہیں ۔‘‘ (سیرت وسوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ 258,259 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ بھارت)
٭…٭…٭