درّثمین اردوکی دوسری نظم: دعوتِ فکر
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین میں شامل دوسری نظم ’’دعوتِ فک‘‘ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصنیفِ لطیف ’’براہینِ احمدیہ‘‘ حصّہ دوّم، میں درج اشتہار بعنوان ’براہینِ احمدیہ کے مخالفین کی جلدی‘ مطبوعہ 1880ء کے آخر میں درج ہے۔ پانچ اشعار کی اس مختصر نظم کی بحر،مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ہے۔
اشتہار ’براہینِ احمدیہ کے مخالفین کی جلدی‘ میں حضورؑ نے کئی پادریوں اور ہندو پنڈتوں کے اخبار سفیرؔ ہند، نوؔر افشاں اور رسالہ ودّیاؔ پرکاشک میں براہینِ احمدیہ کے ردّ لکھنے کے حوالے سےاعلانات کاذکر فرمایا ہے۔اِن بدطینت افراد نے صریح ہجو آمیز الفاظ اوراوباشانہ تقریروں کے ذریعے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی تاہم حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہم تو ان کی تہ سے واقف ہیں اور ان کے جھوٹے اور ذلیل اور پست خیال ہم پر پوشیدہ نہیں۔ سو اُن سے ہم کیا ڈریں گے اور وہ کیا ڈراویں گے‘‘
منطقی اعتبار سے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ حضرات کتاب کے چھپنےکا انتظار کرتے اور پھررقم کردہ دلائل کےردّ لکھنے کی سعی کرتے۔ لیکن ان پادری و پنڈت صاحبان نے ایمان داری اور راست بازی کو پسِ پشت ڈال کر، تعصب سے کام لیا اور حجّت اور برہان کے قائم ہونے سے پیشتر ہی ردّ نویسی کا دعویٰ کردیا۔ اشتہار کے آخر میں حضورؑ فرماتے ہیں:
’’اب خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقّف نہ کریں افلاؔطون بن جاویں بیکنؔ کا اوتار دھاریں ارسؔطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لیےہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ‘‘
(براہینِ احمدیہ،روحانی خزائن جلد ۱ ،صفحہ 56۔57)
امام الزماں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے طرزِ عمل کا اعجازی پہلو یہ ہےکہ ان پنڈت و پادری حضرات کی تمام تریاوہ گوئی کے باوجود اس نظم کی ابتدا میں ان سب کو ’یارو‘ کے لفظ سے مخاطب فرمایاہے۔فارسی زبان کا یہ لفظ دوست اور پیارے ساتھی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیوانِ غالؔب میں اس کی جمع ’یاران‘ تراکیب میں مستعمل ملتی ہے۔ جیسے ’یارانِ غم گیں‘ اور ’یارانِ نکتہ داں‘ نظم ’دعوتِ فکر‘ کے تمام اشعار ،بلکہ تقریباً تمام مصرعے استفہامیہ یعنی سوالیہ ہیں۔
پہلےشعر میں ’خودی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی، خود پسندی،انانیت، غرور و تکبّر کے ہیں۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) میں حالیؔ کا شعر درج ہے کہ
القصّہ جس کو دیکھیے جاہل ہویا حکیم
آزار میں خودی کے ہے بےچارہ مبتلا
دوسرے شعر میں مَیل کا لفظ ، میلان، رغبت، رجحان اور جھکاؤ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ہے۔ رشید حسن خاں ’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘ میں ’فسانہ عجائب‘ کا جملہ نقل کرتے ہیں۔
’’پیسہ روپیہ ہاتھ کا مَیل ہے؛اِس پر جو مَیل کرتی ہو، کتنےدن کھاؤ گی‘‘
(رشیدحسن خان، کلاسکی ادب کی فرہنگ،زیرِ لفظ میل کھانا،مجلس ترقّی ادب،لاہور،2013)
تیسرے شعر میں ’ضدّ و تعصّب‘ کی ترکیب موجود ہے۔ یہاں لفظ ضدّ اور تعصّب کے درمیان ’و‘ حرفِ عطف ہے۔ اس کی آواز بطور علّت مجہول ادا کی جائے گی۔ جیسے دل وجان یا کون ومکان ۔ان الفاظ میں ’و‘ حرفِ عطف، ضمّہ مجہول کی آوازدیتا ہے۔ ( دلُ جان، کونُ مکان، ضدُّ تعصب)
خودی کو ترک کرنے اور اپنی خُو پاک صاف بنانے کا طریق بیان کرتےہوئےحضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’انسان پاک صاف تو جب جاکر ہوتا ہے کہ اپنے ارداوں کو اور اپنی باتوں کو بالکل ترک کرکے خدا کے ارادوں کو اسی کی رضا کے حصول کے واسطے فنافی اللہ ہوجاوے۔ خودی اور تکبّر اور نخوت سب اس کے اندر سے نکل جاوے۔اس کی آنکھ ادھر دیکھے جدھر خدا کا حکم ہو۔ اس کے کان ادھر لگیں جدھر اس کے آقا کا فرمان ہو۔اس کی زبان حق و حکمت کے بیان کرنے کو کھلے۔اس کے بغیر نہ چلےجب تک اس کے لیے خدا کا اذن نہ ہو۔‘‘
(ملفوظات،جلد سوم، صفحہ 116)
٭…٭…٭