تعلق باللہ
نام کتاب : تعلق باللہ
شائع کردہ : فضل عمر فاؤنڈیشن
تعداد صفحات :92
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی یہ نہایت اہم اور پُرلطف تقریر ہے جو بلاشبہ پیشگوئی مصلح موعود کی صداقت پر بھی گواہ ہے۔ حضورؓ کو خدا تعالیٰ نے تقریرکا خاص ملکہ عطا کیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر بات دل میں اتر جاتی تھی،آپ ؓکی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف کے چشمے پھوٹتے تھے۔ تحقیق کا رنگ بھی نرالا تھا ۔جس مضمون پر بھی قلم اٹھاتے یا تقریر کرتے تو اس کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہتا ۔یہی وجہ تھی کہ آپ ؓ کی تقریر جو کہ کئی کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی ، سامعین مو سمی تغیرات کی پرواہ کیے بغیر اس کو سننے کے لیے بیٹھے رہتے تھےکہ ایسا نہ ہو کہ آپؓ کوئی نکتہ بیان کر یں اور وہ سننے سے محروم رہ جائیں۔
تعلق باللہ وہ تقریر ہے جس میں آپؓ کی آواز کا اتار چڑھائو اور انداز کی بے ساختگی سننے والے کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ آپ کے خطاب کو اول تا آخر مسلسل سنے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے خود اس تعلق اور محبت کو محسوس کررہے ہیں۔ آپؓ نے28 دسمبر 1952ءکو برموقع جلسہ سالانہ ربوہ یہ نہایت ہی پُرمغز اور روح پرور خطاب فرمایا جس کی آڈیو ٹیپ آج ہمارا تاریخی اور قیمتی اثاثہ ہے۔
اس خطاب میں آپؓ نے نہ صرف ’’تعلق باللہ‘‘ کا اصل مفہوم واضح کیا اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ احبابِ جماعت خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اس طور پر مضبوط کریں کہ ان کو اپنی تمام تر دنیاوی اغراض اور تفکرات و مصائب کا حل پانے کے لیے کسی سہارے کی حاجت نہ ہو۔کیونکہ اگر خداتعالیٰ سے سچا تعلق ہو جائے تو سب کچھ اسی میں آجاتا ہے۔
ایک ا ور خصوصیت اس تقریر کی یہ بھی ہے کہ اس میں ’’تعلق باللہ‘‘ کا نہایت گہرا اور فلسفیانہ موضوع نہایت ہی عام فہم اوربے حد خوبصورت انداز میں دلچسپ مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے۔ جیسے ماں اور بچے کا تعلق، پیار، ایثار، اپنائیت کا اظہار،ناراضگی کا اظہار،دکھ اور تکلیف پر اس کی تڑپ وغیرہ، اورپھر تعلق کا مفہوم واضح کرنے کی غرض سے عربی زبان میں جو الفاظ پائے جاتے ہیں ان کا ذکر ہے۔ مضمون کے آخری حصہ میں آپؓ نے خدا تعالیٰ سے تعلق اور محبت قائم کرنے کے ذرائع کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایاکہ لوگ میرے پاس مختلف دنیاوی اغراض کے بارے میں دعا کی درخواست لے کر آتے ہیں، حالانکہ ہماری اوّلین دعا تو یہ ہو نی چاہیے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو کیونکہ یہی ہمارا مقصد ِحیات ہے۔ اگر خدا کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہوجائے تو سب کچھ اسی میں آجاتا ہے جیسے ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘‘۔
پھر حضورؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایاکہ خدا کا ملنا اور اس سے انسان کا تعلق پیدا ہونا ہی سب سے اہم اور ضروری چیز ہے۔ جبکہ لوگ اکثر ادنیٰ اور معمولی چیزوں کے حصول پر خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں حالانکہ ان چیزوں کے حصول کے بعد بھی ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے۔ لیکن خداتعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ ہمیں مل سکتا ہے تو انسان قطعی اوریقینی طور پر کہہ سکتا ہے کہ اب مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ انبیا ءبڑے قیمتی وجود ہیں اور ان کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کسی کو خدا مل جائے اور اسے انبیاء نہ ملیں۔ انبیا ءتو اسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیںا دنیٰ چیزوں کے حصول کی جدوجہد کے بجائے اعلیٰ ترین ذات سے تعلق کے حصول کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔
آپؓ نے مختلف مذاہب میں خدا کے ملنے کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ یہودی مذہب کے مطالعہ سے صاف پتا لگتا ہے کہ خدا مل سکتا ہے۔ اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی اور حضرت یعقوبؑ نے خدا تعالیٰ کو گرالیا۔یہ ایک کشفی نظارہ تھا کوئی بیہودہ یا لغو قصہ نہیں۔ پھر حضرت عیسیٰؑ کا خود کو خدا کا بیٹا کہنا صاف بتاتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق روحانی باپ اور بیٹے کا تھا۔ اسی طرح زرتشتی مذہب ،بد ھ مذہب سب میں خدا کا تصور موجود ہے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ مجھے تو خود کئی بار خدا تعالیٰ کے فضل کو، اس کے پیار کو، اس کی محبت کو جذب کرنے کا موقع ملا ہے اور جوتسکین اور اطمینان اس کی محبت کو پانے سے ملتا ہے وہ بیان سے باہر اور محسوسات سے تعلق رکھتا ہے۔
آپؓ نے بیان کیا کہ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا نہیں مل سکتا۔ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خدا تعالیٰ کی کتاب کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو یہی یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مل سکتا ہے۔ لیکن عملی زندگی میں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کرنے والے منکرین کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نہیں مل سکتا۔ مختلف مذاہب کے پیرو کا بیان ہے کہ ان کے نبیوں اور صلحاء کو خدا ملا۔ بلکہ ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ وہ ہم کو بھی ملا ہے اور اس نے ایسے ایسے رنگ میں اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے یہ ملنا اس ملنے سے کسی طور کم نہیں جس طرح کوئی اپنے ماں باپ یا کسی اور عزیز سے ملتا ہے۔ اور ہم نے خدا تعالیٰ کے فضل کے مشاہدات کیے ہیں اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح خداتعالیٰ محبت اور پیار کرتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں میں جو لطف ہے وہ باقی کیفیات میں کہاں ہے۔ پھر آپ ؓ فرماتے ہیں کہ عبادت کی توفیق اس کے فضل اور احکامات پر عمل اس کے احسان سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں بھی خدا مل سکتا ہے۔ لیکن جو مزہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس کا براہِ راست خدا سے تعلق ہو اور اس نے اپنی محبت اور پیار کا اظہار بھی نعمتوں کے علاوہ دیکھا ہو، تو وہ مزہ اس شخص کو کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ان نشانات سے محروم ہو۔ ان دونوں کی تو آپس میں کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔
پھر آپؓ نے تعلق کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے معنی لٹکنے کے ہیں۔ گویا تعلق باللہ کے معنی خدا کے ساتھ اس طور پر لٹک جانا کہ کوئی آپ کو پرے نہ کر سکے ایسا مضبوط تعلق قائم کرنے کے ہیں۔ پھر آپؓ نے مختلف قرآنی آیات و احادیث سے اپنے بیان کی وضاحت فرمائی اور بتایا کہ شوق اور عشق کا لفظ قرآن کریم میں بندے کے خدا سے تعلق اور نہ خدا کا بندے سے تعلق کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ عشق ایسی محبت کے معنی میں آتا ہے جو عقل کو مفلوج کرکے انسان کو بسا اوقات ہلاکت تک پہنچا دے اور خدا کے تعلق میں یہ بات اس کی شان کے خلاف جاتی ہے کیونکہ خدا کی محبت انسان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتی ہے۔ اسی طرح رغبت کے معنی اس کے (خداکے )ملنے کی شدید خواہش انسان کے دل میں پیدا ہونے کے بیان کیے ہیں۔ اور اسی طرح وُد ایسی محبت کا نام ہے جو محب اور محبوب کو اس طور پر جوڑ دے کہ ان میں گہرا تعلق پیدا ہوجائے اور ان کو ایک دوسرے سے وابستہ کر دے۔ محبت اس تعلق کو کہتے ہیںجو نتیجہ خیز ہو اور ایک کھیتی پیدا کردے۔
پھر آپ ؓ نے بتایا کہ محبت کا تعلق بندہ اور خدا دونوں میں دو طرفہ ہوتا ہے۔ خلت اس محبت کو کہتے ہیںجو تمام اختلافات کو دور کر دے اور خیالات اور جذبات میں یکجہتی پیدا ہو جائے۔ گویا خالق کی محبت انسان کے جسم ،روح ،دل اور دماغ پر اس طور سے حاوی ہو جائے کہ غیریت کا کوئی سوال باقی نہ رہے۔ اور خلت کا لفظ خدا اور بندے کے انتہائی تعلق کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ پس بندے کی محبت ،رغبت اور انس سے ترقی کرتے ہوئے وُد کے مقام پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مدغم ہو جاتی ہے اور پھر دونوں محبتیں مل کرخلت کے مقام پر ختم ہوجاتی ہیں اوریہاں خدا اور بندہ ایک دوسرے کے خلیل ہوجاتے ہیں مگر اس مقام پر بھی خدا کی محبت غالب درجہ رکھتی ہے۔
آپؓ خداتعالیٰ کا قانون قدرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ بندہ جب رغبت ،انس ،وُد کے مقام سے ترقی کرکے حب کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو گناہوں کی معافی کم ہوجاتی ہے کیونکہ اس پر اس ذات باری تعالیٰ کے اسرار و رموز کھل چکے ہوتے ہیں پھر اس پر لازم ہے کہ خدا کی محبت اور تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہو۔ اس میں دوام بھی پایا جاتا ہو اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہمارا ہر عمل ہو۔
خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس انسان میں احسان جتانے کا یا تکبر کا یا فخر کا عنصر نہ ہو۔ پھر وہ حد سے گزرنے والا بھی نہ ہو اور اس کی محبت میں کسی قسم کی خیانت کا عنصر نہ پایا جاتا ہو ،اسی طرح وہ گناہ سے دور اور اطاعت گزار ہو ،عارضی لذات پر قانع نہ ہو بلکہ وہ خدا کا شکر بھی ادا کرے اور قدم بقدم آگے بھی بڑھتا چلا جائے۔ پھر وہ مفسد بھی نہ ہو مفسد سے بھی خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا ۔اسی طرح شکرگزار ہویہ خداتعالیٰ کے احسانات کو اور انعامات کو جذب کرنے اورحُبّ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح مسرف کو بھی خدا پسند نہیں کرتا اور ظالم سے بھی محبت نہیں کرتا۔ غرض یہ دس برائیاں جس میں پائی جاتی ہوں وہ خدا سے محبت کے قابل نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ بھی مراد نہیں کہ جن میں یہ برائیاں نہ ہوں وہ ضرور خدا کی محبت کے اہل ہوں گے یا خدا بھی ان سے ضرور محبت کرے گا مگر امکان کی صورت ہوتی ہے کہ وہ خدا سے محبت کر سکیں۔
حضورؓ نے خدا تعالیٰ کی محبت پانے کے ذرائع بھی بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ اول نمبر پر آپؓ نے بیان فرمایا کہ ذکر الٰہی سے یا صفات الہٰی کا ورد کرنے سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے شروع میں انسان کو صفات کی گہرائی محسوس نہ ہو۔ گویا اس کوکچھ بناوٹ کرنا پڑے۔ بناوٹ کبھی کبھی سچ ہوجاتی ہے یا محسوس ہونے لگتی ہے۔
دوسرا ذریعہ صفات الٰہیہ پر غور کرنا ہے جسے صوفیا کی اصطلاح میں فکر کہا جا تا ہے۔ اس میں خدا کی صفات پر غور کرنے سے اسکی محبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ تیسرے مخلوق الٰہی کی خیرخواہی اور خدمت خلق سے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو جا تی ہے۔ مثلاً ریل میں سفر کرتے ہوئے کمرہ میں سخت بھیڑ ہوتی ہے ایک شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ کمبخت یہ ریل ہے یا دڑبہ جو آتا ہے اس ڈبہ میں آجاتا ہے اس وقت اگر تم ایک کیلا نکال کر اس شخص کے بچے کو دیدوتو اسی وقت اس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ تم کو بیٹھنے کا کہے گا اور محبت کی باتیں کرنے لگ جائے گا۔ یعنی مخلوق کی محبت سے انسان خدا کو گویا مجبور کرتا ہے کہ میرے دل میں اپنی محبت ڈال دے۔
چہارم :گناہ پہ ندامت کی عادت ڈالنا اس سے بھی محبت الٰہی پیدا ہوجاتی ہے۔ پنجم: دعا کی عادت اس یقین کے ساتھ ہو کہ میرے کام دعا کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے ۔ ششم: اسی طرح انصاف قائم کرنے سے اور بدی کو خدا کے لیے چھوڑنے سے بھی خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہفتم: خدا کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش سے بھی خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہشتم : پھر فطرت پر غور کرنے سے بھی خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
نہم:قانون قدرت میں ایسے امور تلاش کرنا جو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال آپؓ نے ماں باپ کی بچوںسے محبت کے تعلق سے دی کہ وہ بچوں کو دنیا میں لانے کا موجب ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ وحدت جسمانی ہے ، محبت کی تیسری وجہ اپنائیت ہو تی ہے۔ اس لیے فطرتی طور پر محبت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور یہ تمام صفات خداتعالیٰ کی ذات کا مظہر ہیں اوروہ لازم اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ دوسرا موجب محبت کا احسان ہو تا ہے جس میں بچے کی ماںباپ سے محبت آجاتی ہے۔ اس لیے خدا کے تعلق میں ہم اس کے احسانات کو یاد کرکے اس کی محبت کو پا سکتے ہیں۔ محبت کی تیسری وجہ حسن کے ہیں ،دنیاوی تعلقات میں حسن پہلے نظر آتا ہے اور احسان بعد میں مگر خدا کے تعلق میں یہ بات الٹ جاتی ہے اور احسان پہلے آجاتا ہے اور حسن بعد میں کیونکہ حسن الٰہی احسان الٰہی سے زیادہ مخفی ہے۔ چوتھا ذریعہ اقتضائے حاجات و رفع شہوات کا ہے۔ اس لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہ سب سے زیادہ حاجات روا ہے۔ اسی طرح رفاقت اور مصاحبت کو لیں یا پھر یا پھر محبوب کے محب کو لیں یا طویل تعلق یا وابستگی کے احساس کو لیں، یا محبوب کے وصال سے حاصل ہونے والی سکینت کو لیں، یا تحریک و تحریض کو لیں ہر پہلو ہر جہت سے خدا تعالیٰ کی محبت سب سے اعلیٰ وارفع درجہ کی حامل ہے۔ اس کی وضاحت میں آپؓ نے کئی بے حد خوبصورت مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
Bohat acha mawad mojud hy yahan