احمدیت کے علمبردار دو گروہوں کے صدی کے سفر کا تقابلی جائزہ (قسط نمبر 8)
ویب سائٹس
خدا تعالیٰ کے فضل سے جولائی 1995ء میں جماعت احمدیہ کی مرکزی ویب سائٹ alislam.orgکا قیام عمل میں آیا۔ ’’احمدیہ انٹر نیٹ کمیٹی‘‘ براہ راست خلیفۃ المسیح کی نگرانی میں اس کے انتظام و انصرام پر مامور ہے ۔ مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب A.I.Cکے چیئر مین ہیں۔ ان کے ساتھ رضاکاروں کا ایک بورڈ ہے جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔اس ویب سائٹ کا بنیادی مقصد تمام دنیا کو حقیقی اسلام سے روشناس کروانااور اس کی سچی تصویر پیش کرنا ہے۔ اور جماعت احمدیہ کے ممبران کو تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا ضروری مواد مہیا کرنا ہے۔( الفضل انٹر نیشنل 27اکتوبر2006ء صفحہ 9۔ جلد 13،شمارہ 43)
انتہائی دیدہ زیب مرکزی صفحے کے ساتھ یہ ویب سائٹ معلومات کا ایک خزانہ ہے اور بفضلِ خدا اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جدید ترین سرچ انجن سے لیس یہ ویب سائٹ ہستی باری تعالیٰ، عرفانِ ختم نبوت، صداقت حضرت مسیح موعودؑ، نظام خلافت سمیت بیسیوں مختلف موضوعات پر مفصّل معلومات اپنے دامن میں سمیٹے اسلام احمدیت کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں:’’ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کے ساتھ امریکہ ، کینیڈا، پاکستان ، بھارت ، یوکے اور جرمنی سے رضاکار کام کر رہے ہیں۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ملفو ظات آڈیو کتب کی صورت میں الاسلام اور سائونڈ کلائوڈ Sound Cloud پر دستیاب ہیں۔گذشتہ سال ’’خلیفہ آف اسلام‘‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی انہوں نے بنائی تھی۔اس میں کچھ مختلف پروگرام شامل کیے گئے ہیں ۔قرآن کریم کے اردو اور انگریزی تراجم اور تفاسیر کے علاوہ 47 زبانوں میں تراجم آن لائن موجود ہیں ۔ اس طرح خطباتِ نور مکمل، خطبات محمود 37جلدیں ، خطبات ناصر مکمل ، خطباتِ طاہر کی 15 جلدیں آن لائن دستیاب ہیں۔اور میرے بھی تمام خطبات مختلف 18زبانوں میں آڈیو اور ویڈیو موجود ہیں‘‘۔
( الفضل انٹرنیشنل 20جنوری 2017ء صفحہ 13۔ جلد 24شمارہ 3)
پھر فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ویب سائٹ پر قرآن کریم کے نئے اور جدید سرچ انجن کا اجرا کیا گیا ہے ۔ اس سرچ انجن کے ذریعہ عربی، اردو، انگریزی، جرمن، فرنچ اور سپینش زبانوں میں سرچ کیا جاسکتا ہے۔قرآن کریم کے اڑتالیس تراجم اورتفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نیا ایڈیشن ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا ہے ۔ دوران سال ساٹھ سے زائد اردو اور انگریزی کتب کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اور اٹھارہ کتب کا ’آئی بُکس‘ اور ’کِنڈل‘ پراجراء کیا گیا ہے‘‘۔
( الفضل انٹر نیشنل 14ستمبر 2018ء صفحہ15 ۔جلد 25،شمارہ 35)
دوسری طرف احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی مرکزی ویب سائٹhttp://aaiil.org کا قیام1999ء میں عمل میں آیا۔ اور ان کی ویب سائیٹ ان کی پراگریس کی عکاس ہے۔ حقیقت حال جاننے کے لیے کو ئی بھی ان دونوں ویب سائٹس کو ملاحظہ کر سکتا ہے ۔
صدائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لیے
تالیف و تصنیف، اشاعت
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہزاروں سال سے مدفون روحانی علمی خزائن بانٹنے کے لیے مبعوث ہوئے، اور آپ نے طباعت و اشاعت کے لیے پریس اور چھاپہ خانوں کی ایجاد کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ایک شاخ تالیف وتصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا ۔ اور وہ معارف ودقائق سکھائے گئے جو انسانی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں… دوسری شاخ اس کار خانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الٰہی اتمام حجت کے لیے جاری ہے‘‘۔
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 12،13)
’’ہم کو الہام ہوا اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ کیا ہم نے تیرے ہر امر میں سہولت نہیں کر دی۔ حقیقت میں یہ اشیاء کسی کے لیے ایسی مفید نہیں ہوئیں جیسا کہ ہمارے واسطے ہوئی ہیں ۔ ہمارا مقابلہ دین کاہے اور ان اشیاء سے جو نفع ہم اٹھاتے ہیں وہ دائمی رہنے والا ہے ۔ لوگ بھی چھاپاخانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن ان کے اغراض دنیاوی اور ناپائیدار ہیں۔ برخلاف اس کے ہمارے معاملات دینی ہیں ۔ اس واسطے یہ چھاپہ خانے جو اس زمانے کے عجائبات ہیں دراصل ہمارے ہی خادم ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد 7صفحہ 366۔ایڈیشن 1984ء)
’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍیعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لیے آسانی نہیں کر دی ۔یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لیے میسر نہیں کر دیے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لیے ضروری تھے جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لیے وہ سامان تبلیغ اور اشاعتِ حق کے میسر کر دیے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے ۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں …طے مسافرت کے لیے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں ، اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں، ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں ۔ یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا ‘‘۔
( براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد 21،صفحہ 119، 120)
’’چھٹا نشان کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا ، جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتسے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت سے اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں‘‘۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 206۔ایڈیشن 1984ء)
اس شیخ المسیح کے ایام سعد میں ہی قادیان میں چھاپہ خانے کی سہولت میسر ہوئی ، اور 1895ء میں ضیاء الاسلام پریس قائم ہوا اور ’’ضیا ءالحق‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ایک نئی صبح ضیا بار ہوئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ 518۔ایڈیشن 2007ء مطبوعہ قادیان)
قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں جدید پریس قائم ہوا۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد لندن میں رقیم پریس کا قیام عمل میں آیا، اس پریس نے حقانیت اسلام کے لیے تاریخ ساز لٹریچر پرنٹ کرکے نئی تاریخ رقم کی ، اور خلافت خامسہ کے عظیم الشان دور میں یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ مختلف ممالک میں پرنٹنگ پریس کے قیام سے خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ حقہ کے لیے نئی سہولتیں پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں۔جلسہ سالانہ برطانیہ 2015ء کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا: ’’رقیم پریس اور افریقن ممالک کے جو مختلف احمدیہ پریس ہیں ان میں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقیم پریس لندن کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعدا د دولاکھ نوّے ہزار سے اوپر ہے ۔ الفضل انٹرنیشنل، چھو ٹے پمفلٹ، لیف لیٹ اور جماعتی دفاتر کی سٹیشنری اس کے علاوہ ہے۔فارنہام (Farnham)میں رقیم پریس کے لیے ایک نئی عمارت خریدی گئی ہے۔ ان شاء اللہ یہ اسلام آباد سے وہاں شفٹ ہو جائے گا۔افریقن ممالک کے پرنٹنگ پریس بھی کام کررہے ہیں جن میں گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، بورکینا فاسو، کینیااور تنزانیہ شامل ہیں۔ اس سال وہاں جو لٹریچر طبع ہوا ہے اس کی تعداد دس لاکھ پچاسی ہزار ہے۔ فضلِ عمر پریس قادیان کے لیے جدید اور تیز رفتار بائنڈنگ اور فولڈنگ مشین خرید کر بھجوائی گئی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اس مشین کے ذریعہ کام ہورہا ہے ۔ گیمبیا میں پہلا جدید کمپیوٹرائزڈ پریس سسٹم لگایا گیا‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل 5فروری 2016ء صفحہ 13۔ جلد 23،شمارہ6)
جلسہ سالانہ 2017ء کے دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں فرمایا:’’رقیم پریس یوکے کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد اس سال چھ لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس ہے ۔الفضل انٹرنیشنل ، جماعتی رسائل اور میگزین ،پمفلٹس، لیف لیٹس،جماعتی دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ اس کے علاوہ ہے۔افریقہ کے نو ممالک میں جماعت کے پریس کام کر رہے ہیں۔ جو کتب شائع ہوتی ہیں انہیں مختلف جماعتوں اور ممالک میں بھجوایا جاتا ہے ، اس سال لندن سے مختلف 52زبانوں میں تین لاکھ پانچ سو سے زائد تعداد میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد مالیت کی کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بجھوائی گئیں۔قادیان سے بیرونی ممالک کو کتب بھجوائی جاتی ہیں ۔ دوران سال قادیان سے بیرونی ممالک کی لائبریریزاور دیگر ضروریات کے لیے اڑتالیس ہزار سے زائد کتب بھجوائی گئیں‘‘۔
( الفضل انٹر نیشنل 14ستمبر 2018ء صفحہ 14۔جلد 25،شمارہ 37)
جماعت احمدیہ قادیان پر ان افضال خدا واندی کو سامنے رکھتے ہوئے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی ایک سو چار سالہ تاریخ دیکھیں تو یہ آج بھی انجمن کے ذاتی پریس کی نعمت سے محروم ہیں ۔ وہ مامور جس کو خدائے قادر و قدیر نے ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ کے مژدہ سے نوازا، اس کی تصانیف کی اشاعت وترویج اور تراجم کی کوشش کی بجائے ’’افکار محمد علی‘‘ کی اشاعت پر زیادہ توجہ ہے۔مگر دعوے داری مرزا غلام احمد قادیانی مجدد صدچہار دہم کے مشن سے ہے۔ ؎
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب مجدد اعظم جلد سوم میں رقم طراز ہیں:’’مسلمانوں کی بد قسمتی پر کس قدر افسوس ہے کہ ناحق کے تعصب اور غلط فہمیوں کی بنا پر مسلمانوں میں سے بہت تھوڑوں نے اس امام وقت کی آواز پر جس کے ماننے کے لیے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر تاکید فرمائی تھی لبیک کہا ، اور مجاہد جماعت میں شامل ہو کر اس اہم فریضہ یعنی اسلامی جہاد بالقرآن کی طرف توجہ کی ، اور ایک بڑا حصہ اس امت کا بجائے مجاہدین کے قائدین بن کر اس ضروری اسلامی خدمت سے محروم رہ گیا ۔ اور یہ بھی نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجاہدین یعنی جماعت احمدیہ کی بڑی بدقسمتی تھی کہ1914ء میں میاں محمود احمد صاحب کے غالیانہ عقائد اور خلافت کی تمنا نے اس جماعت کو پھاڑ کر دو ٹکرے کر دیا۔ اور ایک بڑا حصہ اس جماعت کا جو قادیانی کہلاتا ہے غلو اور دنیا کی سیاست میں مبتلا ہوکر خدمت اسلامی سے محروم ہو گیا۔ اس کا مقصد اپنے غالیانہ عقائد کے ماتحت ایک نئی نبوت اور قادیان میں میاں محمود احمد صاحب کی خلافت اور ریاست قائم کرنا رہ گیا، اور اشاعت و تبلیغ اسلام کی بجائے خود مسلمانوں کو کافر بنانے کا گمراہ کن شعار انہوں نے اختیار کرکے جماعت کے کام کو سخت نقصان پہنچایا ۔ احمدی جماعت کا دوسرا حصہ جو قلیل تعداد میں رہ گیا اور لاہوری فریق کہلاتا ہے بدستور اپنے امام حضرت مرزا غلام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے صحیح عقائد پر قائم ہے ، اور آپ کی ہدایت کے ماتحت خدمت دین کر رہا ہے ، اور نہ صرف غیر مسلموں میں اشاعت و تبلیغ کے دشوار کام میں لگا ہوا ہے بلکہ قادیانی فریق کے غالیانہ عقائد کے ابطال اور تردید کا کام بھی اسے کرنا پڑگیا جس سے بہت سارا وقت اور قوت اس طرف ضائع ہورہی ہے۔ لیکن اس فتنہ کا استیصال اور حضرت مرزا صاحب کی بریت بھی بے حد ضروری کام تھا ، تا ان غلط فہمیوں سے جو دوست دشمن دونوں کی طرف سے پھیلائی جارہی ہیں حضرت مجدد وقت کا دامن پاک ثابت ہو‘‘۔
(مجدد اعظم جلد سوم صفحہ 312،313۔ ایڈیشن مارچ 1944ء)
سو سال کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کی تائید ،تبلیغ اور اشاعت کے لیے کون سی جماعت پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہے اور اس کی کوششوں کے حقیقی نتائج بھی دنیا پر ظاہر ہو رہے ہیں، اور کون سا گروہ ہے جو خود فریبی کا شکار ہے ،اور قلیل سے قلیل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
خدمت خلق
خدمت انسانیت جماعت احمدیہ کا طرۂ امتیاز ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقصود ومطلوب اور تمنا خدمت خلق اور کل بنی نوع انسان کی ہمدردی ہی تھی۔قادیان کے اردگرد کے لوگ اور دیہات کی عورتیں اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس دوائی لینے آتیں۔ایک بار مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کاکام ہے اور اس طرح حضور کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے ۔ اس کے جواب میںحضور نے فرمایا: ’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے ۔ یہ مسکین لوگ ہیںیہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوا ئیں منگوا رکھا کرتا ہوں، جو وقت پر کام آجاتی ہیں ۔ یہ بڑا ثواب کا کام ہے ، مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
( ملفوظات جلد 2صفحہ 3۔ایڈیشن 1984ء)
طبیب اعظم حضرت حکیم مولوی نور دین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرح اپنے اس خداداد علم حکمت سے مخلوق خدا کی مدد کی وہ تاریخ احمدیت میں ہمیشہ ایک نمایا ں باب کے طور پر محفوظ رہے گی۔خلافت ثانیہ میں مورخہ 21جون 1917ء کو نور ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی اور ستمبر 1917ء میں تکمیل ہوئی ۔ اس ہسپتال کو خوب خدمت کی توفیق ملی اور1930ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی ‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد چہارم،صفحہ 194۔ایڈیشن 2007ء)
تقسیم ہند کے بعد پنجاب حکومت نے اس پر سرکاری ہسپتال کا بورڈ لگا دیا، اور ایک طویل اور صبر آزماء کوشش کے بعد 2005ء میں یہ تاریخی عمارت ناقابل استعمال حالت میں جماعت کو واپس ملی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1991ء میں قادیان کے وسط میں واقع 50کنال کی اراضی پر نور ہسپتال کی جدید عمارت بنانے کا ارشاد فرمایا ،اور 8نومبر 1998ء کو نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔مورخہ 13جنوری 2006ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے اپنے دست مبارک سے جدید سہولیات سے مزین نور ہسپتال کی تختی کی نقاب کشائی کرکے اس کا افتتاح فرمایا۔اب یہ ادارہ بھی مخلوق خدا کی خدمت پر مأمورہے۔ ( ہفت روزہ بدر قادیان 21دسمبر 2017ء صفحہ 38۔جلد 66شمارہ 51۔52)
قیام پاکستان کے بعد جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ کی بنیاد رکھی تو اس بات کا پورا خیال رکھا کہ خدا کی اس بستی میں انسان کے لیے تمام سہولتیں میسر ہونی چاہیں،چنانچہ دیگر سہولتوں کے ساتھ ساتھ آپ نے مورخہ 20فروری 1956ء کو فضل عمر ہسپتال ربوہ کی بنیاد رکھی۔اور تین سال بعد 21مارچ 1958ء کو اس کا افتتاح فرمایا ۔ساٹھ سال کے اس سفر میں فضل عمر ہسپتال نے بہت سے سنگ میل عبور کیے، اور آج یہ نیک نامی اور شفاء باٹنے کا مشہور ادارہ بن چکا ہے۔مختلف شعبہ جات میں تشخیص اور علاج کی سہولت، جدید سہولیات سے آراستہ آپریشن رومز، خواتین کے لیے تمام بنیاد ی سہولتوں سے مزین چالیس ہزار مربع فٹ پر محیط‘‘ زبیدہ بانی ونگ’’ اور ایک لاکھ بیس ہزار چار سو ستاون مربع فٹ مسقّف حصہ پر پھیلا ہوا عالمی معیار کاچھ منزلہ ‘‘طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ’’ افراد جماعت کے ایثار و قربانی اور جذبۂ خدمت خلق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بفضل خدا یہ ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جانب سے میڈیسن، سرجری، گائنا کالوجی، پیڈیاٹرکس اور کارڈیالوجی کے شعبہ میں ہائوس جاب کے لیے بھی منظور شدہ ہیں۔
(روزنامہ الفضل 20مئی 2006ء صفحہ 3،4،جلد 56۔91شمارہ109 ۔روزنامہ الفضل 28مارچ 2012ء صفحہ1،جلد 62۔97شمارہ 73)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے مورخہ 20فروری 2003ء کو بحیثیت ناظر اعلیٰ زبیدہ بانی ونگ کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا: ’’جماعت کے ہسپتال اور سکول کبھی بھی تجارتی بنیادوں پر نہیں بلکہ خد مت خلق کے جذبے کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ اور خلفاء کی یہی منشا ء اور ہدایت رہی ہے‘‘۔
(روزنامہ الفضل 26فروری 2003 ء صفحہ 1۔جلد 53۔88شمارہ 44)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں: ’’گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو ، اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے ۔ خیر میں بڑا خوش ہوا کہ پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا ، اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا …اس کا نام میں نے نصرت جہاں ریزروفنڈ رکھا ہے … یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لیے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں۔میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ خوف نہیں کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں ، یا آئے گی تو کیسے آئے گی یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے والے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے ، یہ ضرور ملیں گے ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو۔خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘‘۔
(خطبہ جمعہ 12جون 1970ء۔خطبات ناصر جلد سوم صفحہ 124،125۔ایڈیشن اکتوبر 2008ء قادیان)
جماعت نے اس تحریک پر والہانہ انداز میں لبیک کہا اور بڑے اخلاص کے ساتھ مالی قربانی کی ،اورخدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالی اور آج’’ مجلس نصرت جہاں‘‘ ایک مضبوط اور مستحکم ادارہ ہے۔جلسہ سالانہ برطانیہ 2017ء کے دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے فرمایا: ’’مجلس نصرت جہاں اسکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں 36ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں ہمارے (42) بیالیس مرکزی ڈاکٹر اور 13مقامی ڈاکٹر خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ بارہ ممالک میں ہمارے (684)ہائر سیکنڈری سکول ،جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں ، جن میں ہمارے انیس مرکزی اساتذہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
( الفضل انٹر نیشنل 14ستمبر 2017ء صفحہ 15۔ جلد 25،شمارہ 37)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ 28اگست 1992ء میں فرمایا: ’’ اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اپنی آزاد سوسائٹی بنانی چاہیے،جو جماعت احمدیہ کی مرضی کے تابع خدمت کرے اور تقویٰ اور انصاف کے ساتھ خدمت کرے اور مذہب وملّت اوررنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر خدمت کرے ۔ اس خدمت میں شریف النفس غیروں کو بھی شامل کرے تو جائزہ لینا چاہیے۔جہاں تک میرا تأ ثر ہے عیسائی انجمنوں کو اس بات کی اجازت بھی ہے اور باقاعدہ یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اگر میرا یہ تا ٔثر درست ہے تو جماعت احمدیہ کو پورے زور سے کوشش کرکے اب بین الاقوامی خدمت خلق کا ادارہ قائم کرنا چاہیے ۔ اور اس ادارے کا دائرہ کار تمام بنی نوع انسان تک عام ہوگا‘‘۔
(خطبات طاہر جلد 11،صفحہ 611۔طبع اوّل 2013ء)
چنانچہ 1994ء میں لندن میں ’’ہیومینٹی فرسٹ‘‘ نامی خدمت خلق کی تنظیم کا قیام عمل میںآیا، اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تنظیم اقوام متحدہ سمیت دنیا کے چھ بر اعظموں کے پچاس سے زائد ممالک میں رجسٹرڈ ہے۔ہیومینٹی فرسٹ بنیادی طور پر اپنے کام کو دو حصو ںمیں تقسیم کرتی ہے۔ آفت زدہ لوگوں کی امداد اور طویل مدتی پائیدار منصوبوں کی تکمیل۔خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تنظیم نے مختلف ممالک میں قدرتی آفات کے دوران قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔افریقہ کے مختلف ممالک میں پینے کے صاف پانی اور شمسی توانی سے حاصل شدہ بجلی سے روشن گائوں ،اکتوبر 2018ء میں گوئٹے مالا میں وسیع رقبے پر پھیلے جدید سہولیات سے مزین ہسپتال کا افتتاح اس تنظیم کی شبانہ روز کاوشوں کا عملی نمونہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العز یز فرماتے ہیں:’’ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے ۔اس سال بیس ممالک میں قدرتی آفات اور خانہ جنگی میں ایک لاکھ اکہتر ہزار دو سو پچاس متائثرین کی مدد کی گئی ۔ نیز واٹر فار لائف، نالج فار لائف ، میڈیکل کیمپس، یتامٰی کی کفالت ، قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبر گیری کا کام بالخصوص غریب ممالک میں یہ تنظیم بہت عمدگی سے انجام دے رہی ہے‘‘۔
( الفضل انٹر نیشنل 14ستمبر 2017ء صفحہ 15۔ جلد 25،شمارہ 37)
خدمت خلق کا ایک وسیع منصوبہ ’’طاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ‘‘ کا قیام ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مارچ 2000ء میں اس کے قیام کی منظوری عطا فرمائی تھی۔خلفائے احمدیت کی دعائوں کے زیر سایہ چلنے والے اس ادارے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام مریضوں کا علاج ادویات سمیت بلامعاوضہ کیا جاتا ہے۔تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک کے ایک چھوٹے سے شہر میں قائم طاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیو ٹ دنیا کا واحد ہومیوپیتھک ادارہ ہے جسے یہ فخر اور سعادت حاصل ہے کہ دنیا کے پانچ بر اعظموں سے مریض بغرض علاج آتے ہیں۔
( الفضل انٹرنیشنل 19اکتوبر 2012ء صفحہ 17۔ جلد 19شمارہ 42)
نیزخدا تعالیٰ کے فضل سے نظارت تعلیم پاکستان کے تحت بھی کل 34پرائمری اور ہائی سکول (جس میں سپیشل بچوں کا ادارہ بھی شامل ہے) اور دو کالج قسمت نوع بشر تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔(http://nazarattaleem.com)
اب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے حالات پر غور کریں تو یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ دنیا کی کسی گوشے میں انجمن کا کوئی باقاعدہ ہسپتال نہیں ، کوئی فلاحی مرکز نہیں ۔ عالمی ادارے کے قیام کا ابھی کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا ،یہاں تو ملکی سطح پر کوئی فلاحی تنظیم نہیں ۔ہاں ملمّع سازی اور لفاظی کے منظر ہر سو بکھرے نظر آتے ہیں،ایک نمونہ حاضر ہے:’’قوم نے ایک مرکزی بستی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مسلم ٹائون کے قریب زمین موجود ہے، وہاں پر کوئی ٹائون کمیٹی ہے ، اس نے کہا ہے کہ وہاں کے اخراجات کے لیے تم پانچ چھ لاکھ روپیہ دوگے تو ہم تمہیں قبضہ دے دیں گے ۔ قوم کے اندر دل ہے ہم ضرور وہ رقم پیش کریں گے‘‘۔
( ارشاد حضرت امیر جلسہ سالانہ 26دسمبر 1963ء۔پیغام صلح 8جنوری 1964ء صفحہ 16۔ جلد 52 شمارہ1)
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سینوں کے اندر ایک چنگاری لگا دی جو شعلہ بن گئی ، جس نے ہمارے سینے منور کر دیے اور ہم صحیح منزل کی جانب گامزن ہوئے اور اللہ کے کرم سے برابر بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ ہمارے بزرگ آئے اور یہی کام کرتے چلے گئے ۔ میں سمجھتا ہوں یہی راز ہے جس نے ہمیں دنیاوی منازل طے کرنے میں کامیاب کیا ۔ ہماری جماعت میں منوّر دل پیدا ہوئے ۔ ہماری جماعت مخلص افراد کی جماعت بنی، اور ہماری جماعت نے ایسی ہستیاں پیدا کیںجوتقویٰ اور پرہیزگاری میں چمکتے ہوئے ستارے نکلے … اس مقام پر جہاں آج ہم اکٹھے ہوئے ہیں ہم نے قادیان سے آکر بسیرا کیا۔ لاہور کا شہر ان دنوں چار دیواری کے اندر تھا ، یہ جگہ شہر کے باہر کا حصہ کہلاتی تھی ۔ہم کو یہ بسیر اان دنوں وسیع نظر آتا تھا جو آج چھوٹا دکھلائی دے رہا ہے … نمود صبح نیا پیام لانے لگی ۔ ہمیں بھی نسیم صبح گاہی سے نیا پیام ملا ہے … ہمیں یہ قیاس بھی نہ آسکتا تھا کہ قدرت نے ہما رے لیے بھی کوئی بستی مخصوص کر رکھی ہے …فیروز پور روڈ اور ملتان روڈ کے درمیان لہلہاتی کھیتیاں آباد ہونے لگیں ، ان میں سڑکوں کے جال بچھا دیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں علم ، تہذیب و تمدن کا چشمہ پھوٹنے لگا اور وہ جگہ جو قدرت نے ہمارے لیے محفوظ کر رکھی تھی ہماری منتظر ہونے لگی ۔ ہماری جماعت نے ایک کمیٹی بنائی اور اس جگہ کا ہاتھ تھاما۔ انجمن کو اپنے اقرار کے لیے موزوں مکانوں کی ضروت محسوس ہونے لگی، اچھے اور صاف ستھرے دفاتر تصور میں آنے لگے ۔ اپنے عزیز و محترم احباب کے لیے مہمان خانوں کی طرف نگاہ چلی۔ وسیع تر مسجد ، ہال ،جدید ترین درسگاہوں کو زیر غور لایا گیا جہاں ہمارے بچے بچیاں جہاں سارے پاکستان کے بچے بچیاں اعلیٰ جدید ترین طور طریق پر تعلیم حاصل کرسکیں ، جہاں ہمارا اپنا ماحول ہو ، ہمیں کانفرنس کے لیے مناسب جگہ میسر آسکے ۔ یہاں ہم ہر صبح شام مل کر اکٹھے مل کر منصوبے بنا سکیں کہ ہم نے اسلام کا پیغام اور کہاں کہاں بھجوانا ہے اور کون کون سی خدمت خلق کرنی ہے …132کنال زمین بستی کے لیے خرید لی گئی ہے، جسکی مالیت کم از کم پندرہ لاکھ کے قریب ہے … انشا اللہ ایک خوبصورت بستی بنے گی جس میں ہمارے تصورات کے مطابق ہر شئے ہوگی‘‘۔
( پیغام صلح 31جنوری 1968ء صفحہ 3۔جلد 56شمارہ 4)
اس افسانے اور حقیقت میں بعد المشرقین ہے۔
فَاعۡتَبِرُوایٰٓا أُولِیۡ الۡأَبۡصَارِ
۔سورۃ الحشر:آیت 3
مسلم ٹائون کی اس عظیم الشان بستی میں ’’محمدعلی میموریل ڈسپنسری‘‘ کے نام سے صرف ایک فلاحی مرکز ہے، اور زمینی حقائق کیا ہیں ۔ ’حضرت امیر‘ 23؍ دسمبر 2005ء کوسالانہ دعائیہ کے موقع پر بیان کرتے ہیں:’’ ڈسپنسری کا منصوبہ،یہاں پہ دو گھنٹے ایک ڈاکٹر بیٹھا کرتے تھے ،پانچ لاکھ روپے کے ڈونرز تیار ہوئے جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ سالانہ پانچ لاکھ دیں گے، اور اس کے نتیجہ میں اس وقت ہمارے پاس چار گھنٹے کام کرنے والی لیڈی ڈاکٹر صبح اور چار گھنٹے شام کو ایک ڈاکٹر آج کل بیمار دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم ادویات کے معیار کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ جو میرے پاس صوابدیدی فنڈ آتے ہیں، اس سے میں اپنے عملہ اور اور لوگوں کے علاج کی ضرورت پوری کرتا رہتا ہوں ۔ اس طرح جو ہمارا ڈسپنسری کا منصوبہ ہے اس نے بھی شکل اختیار کر لی ہے‘‘۔
افتتاحی خطاب سالانہ دعائیہ دسمبر 2005ء۔ https://www.youtube.com/watch?v=vCDZr4QK_AU)
2009ء میں اس ڈسپنسری میں الٹراسائونڈ مشین کاافتتاح ہوا۔
(تصویری صفحات ،پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2009۔جلد96،شمارہ 23،24)
تازہ صورتحال ملاحظہ فرمائیں:’’یہ ہمارے خرچے ہوتے ہیں بہت جماعت کے لاکھوں میں چلے جاتے ہیں ، اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک نیک انسان کو توفیق دی فاروقی صاحب کو ان کی بیگم سلیمہ صاحبہ کو ، انہوں نے ایک ٹرسٹ بنایا اور کہا کہ ان کی وفات کے بعد امیر اس کا ٹرسٹی ہوگا اور اس کے ساتھ معتمدین کے کچھ ممبر ایڈوائز ہوں گے ۔ یہ چل رہا ہے اسی میں سے ہم اشاعت کا کام کرتے ہیں ۔ یہ قرآن جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ سو سال میں پہلی دفعہ انگلش اور عربی میں تیار ہوا ہے، اس کا خرچ فاروقی سلیمہ ٹرسٹ نے دیا ہے ۔اشاعت کا سارا خرچ، ڈسپنسری کا سارا خرچہ ،ہر ماہ دو ڈھائی لاکھ کی دوائیاں آتی ہیں، چار ڈاکٹروں کی تنخواہیں ،جو ہمارا تربیتی کورس ہوتا ہے اس کا سارا خرچ اور جلسہ سالانہ کے خرچ کا بڑا حصہ فاروقی سلیمہ ٹرسٹ ادا کر رہا ہے۔ پھر لیزر ہمارا ایک سکول ہے جس میں مبلغین تیار ہوتے ہیں اس کا بھی سارا خرچ فاروقی سلیمہ ٹرسٹ دے رہا ہے‘‘۔
( اختتامی خطاب سالانہ دعائیہ 31دسمبر2017ءhttps://www.youtube.com/watch?v=9nMlIQ9r9Yc )
؎ قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے
(جاری ہے )