سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 8)
رسول کریم ﷺ کی غیرت الٰہی :
رسول کریم ﷺ کی غیرت دینی کے ظاہر کر نے کے لیے اگر چہ پچھلی مثال بالکل کافی تھی لیکن میں اس جگہ ایک واقعہ بھی لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس سے خوب روشن ہوجاتا ہے کہ رسول کریمﷺ نہ صرف دشمنوں کے مقابلہ میں غیرت دینی کا اظہارفرماتے تھے بلکہ دوستوں سے بھی اورکوئی حرکت ایسی ہو تی جس سے احکام الہٰیہ کی ہتک ہو تی ہو تو آپ ؐ اس پر اظہار غیرت سے باز نہ رہتے اور اس خیال سے خاموش نہ رہتے کہ یہ ہمارے دوستوں کی غلطی ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے۔
حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ…… وَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذٰلِكَ مِنْهُ۔
(بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک)
ترجمہ : حضرت کعب بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم ﷺ سے کسی لڑا ئی میں پیچھے نہیں رہا۔سوائے غزوۂ تبوک کے۔ہاں جنگ بدر میں پیچھے رہا تھا اور اس کی یہ وجہ تھی کہ آنحضرتﷺ قریش کے قافلہ کو مدنظر رکھ کر گئے تھے(کسی بڑی جنگ کی امید نہ تھی)مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں سے بغیر قبل از وقت تعیّن وقت و مقام کرنے کے لڑو ا دیا۔ہاں میں لیلہ عقبہ میں موجود تھا۔جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور مجھے جنگ بدر اس رات سے بڑھ کر محبوب نہیں کہ میں لوگوں میں ذکر کروں کہ میں بھی جنگ بدر میں شریک تھا گو کہ عوام میں جنگ بدرلیلہ عقبہ سے زیادہ ہی سمجھی جاتی ہے۔خیر تبوک کے واقعہ کے وقت میرا یہ حال تھا کہ میں نسبتًا زیا دہ مضبوط اور سامان والا تھا اور کسی جنگ کے وقت میرے پاس دو سواری کی اونٹنیاں اکٹھی نہیں ہو ئیں مگر اس وقت میرے پا س دواونٹنیاں موجود تھیں۔رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب جنگ کو جاتے تو اپنی منزل مقصود کو ظاہر نہ کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ گرمی سخت تھی اور سفر دور کا تھا اور راستہ میں غیر آباد جنگل تھے اور بہت سے دشمنوں سے پا لا پڑنا تھا س لیے آپؐ نے مسلمانوں کو خوب کھول کر بتادیا تا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہو جا ئیں اور وہ طرف بھی بتا دی جس طرف جا نے کا ارادہ تھا۔اس وقت مسلمان بہت ہو چکے تھے اور ان کا رجسٹر کو ئی نہ تھا اس لیے جو لوگ اس لڑا ئی میں غیر حاضر رہنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک رسول کریم ؐ کو وحی نہ ہو ان کا غیر حاضر رہنا مخفی ہی رہے گا اور موسم کا یہ حال تھا کہ وہ میوہ پک چکا تھا اور سایہ بھلا معلوم ہو تا تھا۔غرض کہ رسول کریم ﷺ نے اور مسلمانوں نے جنگ کی تیاری شروع کی اور میں بھی ہر صبح جنگ کی تیاری کے مکمل کرنے کے لیے نکلتا میں بھی ان کے ساتھ تیار ہو جاؤں مگر پھر لوٹ آتا اور کچھ کام نہ کر تا اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت سے سامان سفر تیار کر لیا یہاں تک کہ رسول کریم ؐ اور مسلمان ایک صبح روانہ بھی ہوگئے اور ابھی میں نا تیار تھا پھر میں نےکہا کہ اب میں ایک دو دن میں تیاری کرکے آپ سے جاملوں گا۔ان کے جانے کے بعد دوسرے دن بھی میں گیا مگر بغیر تیاری کے واپس آگیا اور اسی طرح تیسرے دن بھی میرا یہی حال رہا اور ادھر لشکر جلدی جلدی آگے نکل گیا۔میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ جاؤں اور ان سے مل جاؤں اور کاش میں ایسا ہی کر تا مگر مجھ سے ایسا نہ ہو سکا۔پھر جب رسول کریمؐ کے جانے کے بعد میں باہر نکلتا اور لوگوں میں پھر تا تو مجھے یہ بات دیکھ کر سخت صدمہ ہو تا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے یا تو وہ تھے جو منافق سمجھے جاتے تھے یا وہ ضُعَفَا ء جن کو خد انے معذور رکھا تھا ۔ رسول کریم ﷺنے اس وقت تک مجھے یاد نہیں کیا جب تک کہ تبوک نہ پہنچ گئے۔وہاں آپؐ نے پو چھا کہ کعب بن مالک کہاں ہے؟سلمہ کے ایک آدمی (عبداللہ بن انیس)نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ اپنے حسن وجمال (یا لباس کی خوبی) پر اترا کر رہ گیا(آپ کے سا تھ نہیں آیا)یہ سن کر معاذبن جبل ؓنے کہا تونے بری بات کہی خدا کی قسم یارسول اللہ!ہم تو اس کو سچاآدمی (سچامسلمان) سمجھتےہیں۔آنحضرتﷺخاموش ہورہے۔ کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ آنحضرت ﷺ تبوک سے لوٹے آرہے ہیں تو میرا غم تازہ ہو گیا۔جھوٹے جھوٹے خیال دل میں آنے لگے(یہ عذر کروں وہ عذرکروں)مجھ کو یہ فکر ہو ئی کعب اب کل آپؐ کے غصے سے تو کیونکر بچے گا میں نے اپنے عزیزوں میںسے جو جو عقل والے تھے ان سے بھی مشورہ لیا۔جب یہ خبر آئی کہ آپؐ مدینہ کے قریب آن پہنچے اس وقت سارے جھوٹے خیالات میرے دل سے مٹ گئے او رمیں نے یہ سمجھ لیا کہ جھوٹی با تیں بنا کر میں آپؐ کے غصے سے بچنے والا نہیں۔اب میں نے یہ ٹھان لیا(جو ہو نا ہو وہ ہو)میں تو سچ سچ کہہ دوں گا خیر صبح کے وقت آپؐ مدینہ میں داخل ہو ئے آپؐ کی عادت تھی جب سفر سے تشریف لا تے تو پہلے مسجد میں جا تے وہاں ایک دو گانہ ادا فرماتے(آپ نے مسجد میں دو گانہ ادا فرمایا)پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھے۔ اب جو جو (منافق) لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور لگے اپنے اپنے عذر بیان کر نے اور قَسمیں کھانے۔ایسے لوگ اسی(80) سے کچھ اوپر تھے آپؐ نے ظاہر میں ان کا عذر مان لیا ان سے بیعت لی ، ان کے واسطے دعا کی ان کے دلوں کے بھید کو خدا پر رکھا۔کعب کہتے ہیں میں بھی آیا میں نے جب آپؐ کو سلام کیا تو آپؐ مسکرائے مگر جیسے غصےمیں کو ئی آدمی مسکراتا ہے پھر فرمایا آؤ ۔میں گیا۔آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا آپؐ نے پوچھا کعب تو کیوں پیچھے رہ گیا ؟تو نے تو سواری بھی خریدلی تھی ۔میںنے عرض کیا بے شک اگر کسی دنیا دار شخص کے سامنے میں اس وقت بیٹھا ہو تا تو با تیں بنا کر اس کے غصے سے بچ جا تا۔ میں خوش تقریر بھی ہوں مگر خدا کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپؐ کو خوش کرلوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر)پھر آپ کو مجھ پر غصے کر دے گا ( اس سے فائدہ ہی کیا ہے) میں سچ ہی کیوںنہ بولوں گو آپؐ اس وقت سچ بولنے کی وجہ سے مجھ پر غصہ کریں گے مگر آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھ کو امید تو رہے گی۔خدا کی قسم!(میں سراسرقصور وار ہوں) زور،طاقت، قوت،دولت سب میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور میں یہ سب چیزیں ہو تے ہو ئے پیچھے رہ گیا یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فر مایا۔کعب نے سچ سچ کہہ دیا کعب اب ایسا کر تو چلا جا جب تک اللہ تعالیٰ تیرے باب میں کو ئی حکم نہ اتارے۔میں چلا۔بنی سلمہ کے کچھ لوگ اٹھ کر میرے پیچھے ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم ہم کو تو معلوم نہیں کہ تو نے اس سے پہلے بھی کو ئی قصور کیاہو۔تو نے اور لوگوں کی طرح جو پیچھے رہ گئے تھےآنحضرت ﷺ سے کو ئی بہانہ کیوں نہ کر دیا ؟ اگر تو بھی کو ئی بہانہ کر تا تو آنحضرت ﷺ کی دعا تیرے قصور کے لیے کا فی ہو جا تی۔وہ برابر مجھ کو لعنت ملامت کرتے رہے ۔قسم خدا کی ان کی با توں سے پھر میرے دل میں آیا کہ آنحضرتؐ کے پاس لوٹ کر چلوں اور اپنی اگلی بات(گناہ کے اقرار)کو جھٹلاکر کو ئی بہا نہ نکالوں۔میں نے ان سے پوچھا۔اچھا اور بھی کوئی ہے جس نے میری طرح قصور کا اقرار کیا ہو۔انہوں نے کہا ہاں دو اور بھی ہیں انہوں نے بھی تیری طرح گناہ کا اقرار کیا ہے ان سے بھی آنحضرت ﷺ نے یہی فرمایا ہے جو تجھ سے فر مایا ہے ۔ میں نے پوچھا وہ دو شخص کون کون ہیں انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہّ واقفی۔انہوں نے ایسے دو نیک شخصوں کا بیان کیا جو بدر کی لڑا ئی میں شریک ہو چکے تھے اور جن کے سا تھ رہنا مجھ کو اچھا معلوم ہوا۔ خیر جب انہوں نے ان دو شخصوں کا نام بھی لیا(تو مجھ کو تسلّی ہو ئی)میں چل دیا۔آنحضرتﷺ نے تمام مسلمانوں کو منع کر دیا خاص کر ہم تینوں آدمیوں سے کو ئی بات نہ کرے اور دوسرے لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے(جنہوں نے جھوٹے بہانے کیےتھے)ان کے لیے یہ حکم نہیں دیا ۔ اب لوگوں نے ہم سے پر ہیز شروع کیا(کوئی بات تک نہ کرتا) بالکل کورے ہوگئے(جیسے کو ئی آشنا ئی ہی نہ تھی)ایسے ہی پچاس را تیں(اسی پر یشان حالی میں) گزریں ۔ میرے دونوں ساتھی(مرارہؓ اور ہلالؓ)تو روتے پیٹتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اورمیں جو ان مضبوط آدمی تھا تو(مصیبت پر صبر کرکے)باہر نکلتا نماز کی جماعت میں شریک ہو تا بازاروں میں گھومتا رہتا مگر کو ئی شخص مجھ سے بات نہ کر تا۔میں آنحضرت ﷺ کے پاس بھی آتا ۔ آپؐ نماز پڑھ کر اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے میں آپؐ کو سلام کر تا پھر مجھے شبہ رہتا۔آپؐ نے (مبارک) ہونٹ ہلا کر مجھ کو سلام کا جواب بھی دیا یا نہیں۔پھر میں آپؐ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہتا اور دزدیدہ نظر سے آپؐ کو دیکھتا آپؐ کیا کرتے جب میں نماز میں ہو تا تو مجھ کو دیکھتے اور جب میںآپؐ کو دیکھتا تو آپؐ منہ پھیرلیتے جب اسی طرح ایک مدت گزری اور لوگوں کی رو گردانی دو بھر ہو گئی تو میں چلااور ابو قتادہ اپنے چچا زاد بھا ئی کے باغ کی دیوار پر چڑھا اس سے مجھ کو بہت محبت تھی میں نے اس کو سلام کیا تو خدا کی قسم اس نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔میں نے کہا ابو قتادہ تجھ کو خدا کی قسم تو مجھ کو اللہ اور اس کے رسول کا ہو اخواہ سمجھتا ہے(یانہیں)جب بھی اس نے جواب نہ دیا میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا لیکن جواب ندارد پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو اس نے یہ کہا کہ اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں ۔ بس اس وقت تو(مجھ سے رہا نہ گیا )میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور پیٹھ موڑ کر دیوار پر چڑھ کر وہاں سےچل دیا۔
میں ایک بار مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا اتنے میں ملک شام کا ایک (نصرانی)کسان ملا جو مدینہ میں اناج بیچنے لا یا تھا وہ کہہ رہا تھا لوگو کعب بن مالک کو بتلاؤلوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اس نے غسان کے بادشاہ کا (جو نصرانی تھا)ایک خط مجھ کو دیا مضمون یہ تھا۔مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے پیغمبر صاحب نے تم پر ستم کیا ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسا ذلیل نہیں بنایا ہے نہ بیکار(تم تو کام کے آدمی ہو)تم ہم لوگوں سے آن کر مل جاؤ ہم تمہاری خاطر مدارت بخوبی کریں گے۔میں نے جب یہ خط پڑھا تو(اپنے دل میں کہنے لگا)یہ ایک دوسری بلا ہو ئی۔میں نے وہ خط لے کر آگ کے تنور میں جھونک دیا۔ابھی پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزری تھیں کہ آنحضرت ﷺ کا پیغام لا نے والا(خزیمہ بن ثابت) میرے پاس آیا کہنے لگا آنحضرت کا یہ حکم ہے تم اپنی جو رو(عمیرہ بنت جبیر)سے بھی الگ رہو۔میں نے پوچھا کیا اس کو طلاق دے دوں یا کیسا کروں ؟ اس نےکہانہیں اس سے الگ رہو ۔صحبت وغیرہ نہ کرو۔میرے دونوں سا تھیوں کو بھی یہی حکم کیا۔آخر میں نے اپنی جورو سےکہہ دیا نیک بخت تو اپنے کنبے والوں میںچلی جا۔وہیں رہ جب تک اللہ میرا کچھ فیصلہ نہ کرے(وہ چلی گئی)کعب نے کہا ہلال ابن امیّہ کی جورو (خولہ بنت عاصم)آنحضرت ؐکے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ہلال ابن امیّہ (میرا خاوند)بوڑھا پھونس ہے اگر میں اس کا کام کرتی رہوں تو کیا آپؐ اس کو برا سمجھتے ہیں آپؐ نے فر مایا۔نہیںکام کاج کرنے میں قباحت نہیں)پر وہ تجھ سے صحبت نہ کرے اس نے کہا خدا کی قسم وہ تو کہیں چلتا پھرتا بھی نہیں ہے جب سے یہ واقعہ ہواہے تب سے برابر رودھو رہا ہے آج تک وہ اسی حال میں ہے ۔ کعب نےکہامجھ سے بھی میرے بعض عزیزوں نے کہا تم بھی اگر اپنی جورو کے بات میں آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگو (کہ وہ تمہاری خدمت کر تی رہے) تو مناسب ہے جیسے آنحضرتؐ نے ہلال بن امیہ کی جورو کو خدمت کی اجازت دی(تم کو بھی اجازت دیں گے)کعب نے کہا میں تو خدا کی قسم کبھی اس بات میںآنحضرت ﷺ سے اجازت نہیں مانگنے کا کیونکہ مجھ کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کیا فرما ئیں (اجازت دیں یا نہ دیں)میں جوان آدمی ہوں(ہلال کی طرح ضعیف اور ناتواں نہیں ہوں)خیر اس کے بعد دس را تیں اور گزریں اب پچاس راتیں پو ری ہو گئیں اس وقت سے جب سے آپؐ نے لوگوں کو ہم سے سلام کلام کی ممانعت فرمادی تھی پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا تو جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا وَضَا قَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ(التوبہ:۱۱۸)میرا دل تنگ ہو رہا تھا اور زمین اتنی کشادہ ہو نے پر بھی مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔اتنے میں میَں نے ایک پکار نے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑی پر چڑھ کر پکار رہا تھا(یہ ابوبکر صدیق ؓتھے) کعب بن مالک ؓخوش ہو جا۔یہ سنتے ہی میںسجدے میں گر پڑا اور مجھ کو یقین ہو گیا۔اب میری مشکل دور ہو ئی اور آنحضرت ﷺنےفجر کی نماز کے بعد لوگوں کو خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کر دیا۔اب لوگ خوشخبری دینے میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں(مرارہ اور ہلال)کے پاس جانے لگے۔ایک شخص (زبیر بن عوامؓ)گھوڑاکداتے ہو ئے میرے پاس آئے او رقبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا پہاڑ پر چڑھ گیا(حمزہ بن عمر واسلمی) اور پہاڑ پر کی آواز گھوڑےسےجلد مجھ کوپہنچ گئی۔خیر جب یہ خوشخبری کی آواز مجھ کو پہنچی میں نے (خوشی میں آن کر)کیا کیا دوکپڑے جو میرے پاس تھے وہ اتار کر اس کو پہنا دیے اس وقت کپڑوں کی قسم سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابو قتادہ ؓسے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت ﷺ کے پاس چلا۔رستے میں فوج در فوج لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے اور مجھ کو مبارکباددیتےجاتےتھےاورکہتےتھے اللہ کی معافی تم کو مبارک ہو۔کعب کہتے ہیں جب میںمسجدمیں پہنچا۔دیکھا تو آنحضرت ﷺ بیٹھے ہیں لوگ آپ کے گرد ہیں طلحہ بن عبید اللہ ؓ مجھ کو دیکھ کر دوڑ کر اٹھے اور مصافحہ کیا۔مبارکباد دی۔خدا کی قسم مہاجرین میں سے اورکسی نے اٹھ کر مجھ کو مبارکباد نہیں دی۔میں طلحہ ؓ کا یہ احسان کبھی بھولنےوالا نہیں۔کعب کہتے ہیں جب میں نے آنحضرت ﷺ کو سلام کیا میں نے دیکھا آپؐ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا آپؐ نے فر مایا کعب وہ دن تجھ کو مبارک ہو جو ان سب دنوں سے بہتر ہے جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ معافی اللہ کی طرف سےہوئی یا آپؐ کی طرف سے۔آپؐ نے فرمایا نہیں اللہ کی طرف سےہوئی(اس نے خود معافی کا حکم اتارا)۔ آنحضرت ﷺ جب خوش ہو تے تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو جا تا ہم لوگ اس کو پہچان لیتے۔
اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ؐ کی فطرت کیسی پاک اور مطہر تھی اور کس طرح آپؐ ہر رنگ میں کامل ہی کامل تھے۔بے شک بعض آدمی ہو تے ہیں جو غیرت دینی رکھتے ہیں مگر اکثر دیکھاگیا ہے کہ بعض تو دشمنوں کے مقابلہ میںاظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دوستوں کے معاملہ میں اظہار غیرت نہیں کر سکتے اور بعض دوستوں پر اظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دشمنوں کے سامنے دب جاتے ہیں۔مگر رسول کریم ﷺ ایسے کامل انسان تھے کہ خواہ دین کی ہتک یا احکام الٰہیہ سے بے پرواہی دوست سے ہو یا دشمن سے برداشت نہ کر سکتے تھےاور فوراً اس کا ازالہ کر نا چاہتے۔ادھر تو طبیعت کی نرمی کا یہ حال تھا کہ گالیوں پر گالیاں ملتی ہیں اور تکلیفیں دی جا تی ہیں مگر آپؐ پرواہ بھی نہیں کر تے اورا دھر خد اکے معاملہ میں غیرت کا یہ حال تھا کہ جب ابو سفیان آپؐ کی ہتک کر تا رہا تو کچھ پرواہ نہ کی۔مگر جب شرک کے کلمات منہ پر لا یا تو فرمایا اسے جواب دو۔یہ تو دشمن کا حال تھا دوستوں کے معاملہ میں بھی ایسے ہی سخت تھے۔منافق جنگ سے پیچھے رہ گئے تو کچھ پروا نہ کی ایک مومن نے جو اس حکم الٰہی کے بجالانے میںسستی کی تو آپ نے کس قدر غیرت سے کا م لیا۔اور باوجود اس کے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان ایام ناراضگی میں بھی کعب بن مالک ؓ کو کنکھیوں سے دیکھتے رہتے۔
(………باقی آئندہ )