سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 9)
اخلاص باللہ۔ قیام حدود
آنحضرت ﷺ کی غیرتِ دینی جس وضاحت سے مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہو تی ہے اس پر کچھ اور زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔اب میں آپؐ کے ایک اَور خلق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا معاملہ خدا تعالیٰ سے کیسا پاک تھا اور کس طرح آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال رہتا تھا۔
انسان فطرتاً کسی کی مصیبت کو دیکھ کر رحم کی طرف مائل ہو جا تا ہے۔بہت سے لوگ جب کسی مجرم کو سزا ملتی دیکھتے ہیں تو باوجود اس علم کے کہ اس سے سخت جرائم سرزد ہو ئے ہیں ان کے دل کودکھ پہنچتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس شخص سے جرم تو ہو ہی گیا ہے اور یہ تائب بھی ہے اسے چھوڑ دیا جا ئے تو اچھا ہے لیکن یہ ایک کمزوری ہے اگر اس جذبہ سے متاثر ہو کر مجرموں کو چھوڑ دیا جا ئے تو گناہ اور جرائم بہت ہی بڑھ جا ئیں۔
فطری رحم کے علاوہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم ہو تو لوگ عام طور پر نہیں پسند کر تے کہ اسے سزا ملے اور اس کی بڑائی سے متاثر ہو کر چاہتے ہیں کہ اسے کسی طرح چھوڑ دیا جا ئے بلکہ بڑے دولت مند یا کو ئی دنیاوی وجاہت رکھنے والے آدمی تو روپیہ اور اثر خرچ کرکے ایک ایسی جماعت اپنے ساتھ کر لیتے ہیں کہ جو مشکلات کے وقت ان کا ساتھ دیتی ہے اور باوجود قانون کی خلاف ورزی کے اپنے جتھے کی مدد سے اپنے جرائم کے اثر سے بچ جا تے ہیں۔
آنحضرت ﷺکی غیرتِ دینی
ان قوموں میں جن کے اخلاق گر جا تے ہیں اور جن کے افراد میں طرح طرح کی بدیاں آجا تی ہیں ان میں خصوصًا یہ ر واج عام ہو جا تا ہے کہ بڑے لوگ قانون کے خلاف عمل کر کے بھی بچ جا تے ہیں اور صرف غرباءہی سزاپاتے ہیں۔
رسول کریم ﷺاس بات کے سخت مخالف تھے اور آپؐ کا جو معاملہ خدا کے سا تھ تھا اور جس طرح آپؐ تمام بنی نوع انسان کے سا تھ یکساں سلوک کرنا چاہتے تھے اس کے لحاظ سے آپؐ کبھی پسند نہ کر تے تھے کہ احکام شریعت سے امراءکو مستثنیٰ کرکے غرباء ہی کو اس کا مکلّف سمجھا جا ئے بلکہ آپؐ باوجود ایک رحیم دل اور ہمدرد طبیعت رکھنے کے ہمیشہ احکام شریعت کے جا ری کر نے میں محتاط رہتے او رمجرمین کو سزا سے بچنے نہ دیتے اور جس طرح آپؐ غرباء کو سزا دیتے امراء بھی اسی طرح احکام شریعت کے ماتحت جکڑے جا تے اور اس معاملہ میں آپؐ بڑے غیور تھے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ
اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ بَنِیْ مَخزُوْ مٍ سَرَ قَتْ فَقَالُوْ امَنْ یُّکَلِّمُ فِیْھَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَجْتَرِیْ اَحَدٌ اَنْ یُّکَلِمَہٗ فَکَلَّمَہٗ اُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ فَقَالَ اِنَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ کَانَ اِذَاسَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَاسَرَقَ الضَّعِیْفُ قَطَعُوْہُ لَوْکَانَتْ فَاطِمَۃُ لَقَطَعْتُ یَدَھَا(بخاری کتاب المناقب باب ذکر اسامہ بن زید)
بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اس پر لوگوں نے چاہا کہ کون ہے جو رسول کریمؐ سے اس عورت کے معاملہ میں سفارش کرے لیکن کسی نے اس کی جرأت نہ کی(کیونکہ رسول کریمؐ حدود کے قائم کرنے میں بڑے سخت تھے) آخر اسامہ بن زید ؓ نے رسول کریم ؐ سے ذکر کیا مگر آپؐ نے جواب دیا کہ بنی اسرائیل کی عادت تھی کہ جب ان میں کو ئی شریف چوری کر تا تو اسے چھوڑ دیتے مگر جب کو ئی غریب چوری کر تا تو اس کا ہاتھ قطع کر دیتے۔مگر میرا یہ حال ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہا تھ کاٹ دوں۔
اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کا خدا سے کیا تعلق تھا اور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں خلیفہ تھے کیونکہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کو دنیا میں جاری کرے اور یہ رسول کریمؐ ہی تھے کہ جو بغیر کسی کے خوف ملامت کے حدود اللہ کا قیام کرتے اور کسی کی رعایت نہ کرتے۔
رسول کریم ﷺ کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ سےتھے اور جس طرح آپؐ نے خدا سے معاملہ صاف رکھاہؤا تھا اس پر یہ بات بھی روشنی ڈالتی ہے کہ آپؐ اپنے تمام کاموں میں پہلے یہ دیکھ لیتے کہ خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی حکم نہ ہو تا آپؐ کسی کام کے کرنے پر دلیری نہ کرتے۔چنانچہ مکّہ سے باوجود ہزاروں قسم کی تکالیف کے آپؐ نے ہجرت نہیں کی ہاں صحابہ ؓ کو حکم دے دیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہجرت کر جائیں اور لوگوں کی شرارت کو دیکھ کر صحابہ ؓکو ہجرت کرنی بھی پڑی اور بہت سے صحابہ ؓ حبشہ کو اور کچھ مدینہ کو ہجرت کر گئے اور صرف حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت علی ؓ اور رسول کریمؐ یا اور چند صحابہ ؓمکہ میں با قی رہ گئے۔
کفارمکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم ﷺ سے فطرتاً زیا دہ بغض وعداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میںشرک کی مخالفت پھیلتی جا تی تھی۔وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو با قی جماعت خود بخود پراگندہ ہوجائے گی اس لیے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرت ؐ کو زیا دہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آجائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے آپؐ نے صحابہؓ کو تو ہجرت کا حکم دےدیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے با وجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیوںکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی اذن نہ ہؤا تھا۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکر ؓنے پوچھا کہ میں ہجرت کر جا ؤں تو آپؐ نے جواب دیا۔ عَلٰی رِسْلِکَ فَاِنِّیْ اَرْجُوْ اَنْ یُّؤْذَنَ لِیْ آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھےبھی اجازت مل جا ئے۔
اللہ اللہ کیا پا ک انسان تھا۔دکھ پر دکھ تکالیف پر تکالیف پہنچ رہی ہیں سب ساتھیوں کو حکم دے دیتا ہے کہ جاؤ جس جگہ امن ہو چلے جاؤ لیکن خود اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور باوجود مخالفت کے اس بات کا منتظر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی حکم آئے تو میں اس پر کار بند ہوں۔کیا کسی انسان میں یہ ہمت ہے یا کو ئی ہےجو خدا تعالیٰ کی طرف ایسا متوجہ ہو کہ ایسے خطرناک مصائب کے اوقات میں بھی دشمنوں کی مخالفت کو برداشت کر تا جائے اور جب تک خدا کا حکم نہ ہو اپنی جگہ نہ چھوڑے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ واقعہ میں آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہؤا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں فَبَیْنَمَا نَحْنُ یَوْمًا جُلُوْسٌ فِیْ بَیْتِ اَبِیْ بَکْرٍ فِی نَحْرِ الظَّھِیْرَ ۃِ قَالَ قَائِلٌ لِاَبِیْ بَکْرٍ ھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًافِی سَاعَۃٍ لَمْ یَکُنْ یَاْتِیْنَا فِیْھَا فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ فِدَاءٌ لَہٗ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَاللّٰہِ مَاجَآ ءَبِہٖ فِی ھٰذِہ السَّاعَۃِ اِلَّا اَمْرٌ قَالَتْ فَجَآءَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَہٗ فَدَخَلَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِاَبِیْ بَکْرٍ اَخْرِجْ مَنْ عِنْدَکَ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍاِنَّمَا ھُمْ اَھْلُکَ بِاَبِیْ اَنْتَ یَارَسوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاِنِّیْ قَدْ اُذِنَ لِیْ فِی الْخُرُوْجِ فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَلصَّحَا بَۃَ بِاَبِیْ اَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعْمُ(بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی ﷺو اصحابہ الی المدینۃ) ہم ایک دن بیٹھے ہو ئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم ؐ تشریف لا ئے اور سر لپیٹا ہؤا تھا۔آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کر تے تھے۔حضرت ابوبکر ؓ نے فر مایا میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں آپؐ اس وقت کسی بڑے کام کے لیے آئے ہو ں گے۔عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو۔حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا یارسولؐ اللہ مجھے قسم ہے کہ وہ آپؐ کے رشتہ دار ہیں۔آپؐ نے فر مایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہؤا ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ مجھے بھی ساتھ ہی جا نے کی اجازت دیجئے رسول کریم ؐنے فر ما یا بہت اچھا۔
اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہےکہ آپ ؐ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہؤا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کو ئی کام نہیں کر نا۔
کیسا ایمان،کیسا یقین،کیسا پاک تعلق ہے فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ۔
اخلاص بِاللہ۔ توکّل علی اللہ
واقعہ ہجرت:
واقعہ ہجرت بھی ایک عجیب ہولناک واقعہ ہے۔سارا عرب مخالف اور خون کا پیاسا تھا مگر رسول کریمؐ صرف ایک ساتھی لے کر مدینہ کی طرف چل پڑے۔راستہ میں تمام وہ قومیں آباد تھیں جو مذہب کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو مارنےکی فکر میں رہتی تھیں اور صرف قریش کے ڈر کے مارے خاموش تھیں لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ جب قریش خود آپ کے قتل کے درپے تھے اور کل قبائل عرب کو تسلی تھی کہ اگر ہم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو قریش کو ناراضگی کی کو ئی وجہ نہ ہوگی۔ اور صرف یہی نہیں کہ قریش کی مخالفت کا خوف نہ رہا تھا بلکہ قریش نے رسول کریم ﷺ کو مکہ سے غیر حاضر دیکھ کر آپ کے قتل پر انعام مقرر کر دیا تھا اور مدینہ کے راستہ میں جس قدر قبائل آباد تھے انہیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ جو شخص رسول کریم ؐ اور حضرت ابوبکر ؓکو زندہ یا مردہ لے آئے گا اسے سو سو اونٹ فی کس انعام ملے گا۔عرب کے قبائل جن کی زندگی ہی لوٹ مار پر بسر ہو تی تھی اور جو آتشِ حسد سے پہلے ہی جل بھُن کر کو ئلہ ہو رہے تھےاس موقع کو کب ہاتھ سے جانے دے سکتے تھے ہر طرف آپؐ کی تلاش شروع ہوئی اور گو یا ہر قدم پر جو آپؐ اُٹھا تے خوف تھا کہ کسی خون کے پیا سے دشمن سے پا لا پڑے گا ایسے موقع پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان بھی دل ہار بیٹھتا ہے اور آخری جدو جہد سے بھی محروم ہو جا تا ہے اور اگر نہایت دلیر اور خلاف معمول کو ئی نہایت قوی دل انسان بھی ہو تو اس پر بھی خوف ایسا مستولی ہو جا تا ہے کہ اس کی ہر ایک حرکت سے اس کا اظہار ہو تا ہے۔میں نے بڑے بڑے بہادروں کے واقعات پڑھےہیں لیکن ایسے موقع پر ان کی جو حالت ہو تی ہے اس کا رسول کریمؐ کے واقعہ سے مقابلہ بھی کر نا جائز نہیں ہوسکتا۔ تاریخ دان جا نتے ہیں کہ بھاگتے ہو ئے نپولین کا کیا حال تھا اور اس کے چہرہ پر حسرت کے کیسے بیّن آثار پا ئے جا تے تھے وہ یہ بھی جا نتے ہیں کہ ہمایوں کس طرح با ربار اپنے آپ کو دشمن کے ہا تھو ںمیں سپرد کر دینے کے لیے تیار ہو جا تا تھا۔اور اگر اس کے سا تھ چند نہایت وفادار جرنیل نہ ہو تے تو وہ شاید ایسا کر بھی دیتا۔اسی طرح اَور بہت سے بڑے بہادر جرنیل گزرے ہیں جن پر مشکلات کے ایام آئے ہیں اور وہ ایسے اوقات میں جب دشمن ان کے چاروں طرف ان کی جستجو میں پھیل گیا گھبرا گئے ہیں لیکن رسول کریم ؐ ان دنیاوی لو گو ں میں سے نہ تھے آپ کی نظریں دنیاکی طرف نہیں لگی ہوئی تھیں بلکہ آپ کی آنکھ خدا کی طرف اٹھی ہو ئی تھی دنیا کے اسباب آپؐ کے مد نظر نہ تھے اورآپؐ یہ خیال نہ کر تے تھے کہ ایسے وقت میں میں تن تنہا صرف ایک سا تھی کے سا تھ کیا کر سکتا ہوں اور ایسے خطرناک راستہ میں اگر دشمن آجائے تو اس کے مقابلہ کے لیے میرے پا س کیا سامان ہیں بلکہ آپؐ یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے سا تھ وہ خدا ہے جو ہمیشہ سے اپنے نیک بندو ںکا محافظ چلا آیا ہے اور جس کے وار کا کو ئی دشمن مقابلہ نہیں کرسکتا۔وہ خدا نوحؑ کا خدا،ابراہیمؑ کا خدا،موسیٰ ؑکا خدا ،یونسؑ کا خدا، ایّوبؑ کاخدا،داؤدؑ کا خدا ،سلیمان ؑ کا خدا،مسیح ؑ کا خدا تھا وہی میرا خدا ہے اس کی طاقتیں کبھی زائل نہیں ہو تیں اور وہ ایک دم کے لیے غافل نہیں ہے سراقہ بن جعشم لا لچ اور دشمنی سے دیوانہ ہو کر آتا ہے اور دور سے دیکھ کر آپ ؐکی طرف گھوڑا دوڑا دیتا ہے اس کے دل میں امید دریا کی طرح لہریں مارتی ہے۔وہ نہ صرف اپنے مذہب کی تو ہین کرنے والے کے خون سے اپنے ہا تھ رنگ کر اپنے سوختہ دل کو تسکین دینا چاہتا ہے بلکہ دو سو اونٹ کا انعام جو اسے اپنی قوم میں ایک بہت بڑا رتبہ دینے کے لیے کافی تھے اس کی ہمت کو اور بھی بلند کر دیتا ہے جس طرح شکاری اپنے شکار کو دیکھ کر لپکتا ہے اسی طرح وہ رسول کریمؐ کو دیکھ کر آپ کی طرف لپکتا ہے اور تیر کمان ہا تھ میں لے کر چاہتا ہے کہ آپؐ پروار کرے وہ اکیلا نہیں بلکہ ایک نعرہ مار کر وہ اپنے ارد گرد ہزاروں آدمیوں کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ رسول کریمؐ اس وقت اسی کے علاقہ سے گزررہے ہیں۔لیکن آپؐ اس وقت کیا کرتے ہیں کیا بھاگ جا تے ہیں کیا ڈر کر اپنے آپؐ کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں کیا آپؐ کے قدم لڑکھڑانے لگ جا تے ہیں۔کیا ان کے حواس بیکار ہو جاتے ہیں۔کیا اسے قتل کرکے راہ فرا ر اختیار کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔نہیں وہ خدا پر توکّل کرنے والاانسان ان میں سے ایک بات بھی نہیں کر تا اور سراقہ کی اتنی پرواہ بھی نہیں کر تا جتنی ایک بیل کی کی جا تی ہے حضرت ابوبکرؓ باوجود اس جرأت اور بہادری کے باوجود اس ایمان اور یقین کے باوجود اس توکّل اور بھروسہ کے جو آپؓ میں پا یا جاتا تھا مڑ مڑ کر دیکھتے جا تے ہیں کہ سراقہ اب ہمارے کس قدر نزدیک آگیا ہے لیکن رسول کریمؐ اس کی پرواہ بھی نہیں کر تے اور گھبرانا اور دوڑ نا تو الگ خوف وہراس کا اظہار توجد ا آپ ؐنے ایک دفعہ منہ پھیر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا جس نے سراقہ کو ورطۂ حیرت میںڈال دیا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ میں کس انسان کا پیچھا کر رہا ہوں اور وہ مدّت العمراس نظارہ کو اپنے حافظہ سےنہیں مٹا سکا بلکہ اس خلاف معمول واقعہ نے اس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ ہمیشہ اسے بیان کر تا تھا اور کہتا تھا کہ
سَمِعْتُ قِرَاءَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ لَا یَلْتَفِتُ وَاَبُوْبَکْرٍ یُکْثِرُ الْاِلْتِفَاتَ
(بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی ﷺو اصحابہ الی المدینۃ)
یعنی میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم ؐ کے اس قدر نزدیک ہو گیا کہ میں رسول کریمؐ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول کریم ؐدائیں با ئیں بالکل نہیں دیکھتے ہاں حضرت ابوبکرؐ بار بار دیکھتے جا تے تھے۔
اللہ اللہ ! خدا تعالیٰ پر کیسا بھروسہ ہے۔دشمن گھوڑا دوڑاتا ہؤااس قدر نزدیک آگیا ہے کہ آپؐ کی آواز اس تک پہنچ سکتی ہے اور آپؐ تیر کی زد میں آگئے ہیں مگر آپؐ ہیں کہ گھبراہٹ کا محسوس کر نا تو الگ رہا قرآن شریف پڑھتے جا تے ہیں ادھر حضرت ابوبکر ؓبا ر بار دیکھتے جا تے ہیں کہ اب دشمن کس قدر نزدیک پہنچ گیا ہے کیا اس بھروسہ اور توکّل کی کو ئی اور نظیر بھی مل سکتی ہے۔کیا کو ئی انسان ہے جس نے اس خطرناک وقت میں ایسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا اظہار کیا ہو۔اگر آپؐ کو دنیاوی اسباب کے استعمال کا خیال بھی ہو تا تو کم سے کم اتنا ضرور ہو نا چاہیے تھا کہ آپؐ اس وقت یا تو سراقہ پر حملہ کر نے کی کو شش کر تے یا وہاں سے تیز نکل جا نے کی کو شش کر تے لیکن آپؐ نے ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں اختیار کی نہ تو آپؐ تیز قدم ہو ئے اور نہ ہی آپؐ نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح سراقہ کو ماردیں بلکہ نہایت اطمینان کےسا تھ بغیر اظہارخوف وہراس اپنی پہلی رفتار پر قرآن شریف پڑھتے ہو ئے چلے گئے۔وہ کون سی چیز تھی جس نے اس وقت آپؐ کے دل کو ایسا مضبوط کردیا۔ کو ن سی طاقت تھی جس نے آپؐ کے حوصلہ کو ایسا بلند کر دیا۔کون سی روح تھی جس نے آپؐ کے اندر اس قسم کی غیر معمولی زندگی پیدا کر دی؟ یہ خدا پر توکّل کے کرشمے تھے اس پر بھروسہ کے نتائج تھے۔آپؐ جانتےتھے کہ ظاہری اسباب میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔دنیا کی طاقتیں مجھے ہلاک نہیں کرسکتیں کیونکہ آسمان پر ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے جو ان سب اسباب کا پیدا کرنیوالا ہے پس خالق اسباب کے خلاف اسباب کچھ نہیں کر سکتے یہ توکّل آپؐ کا ضائع نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے پورا کیا اور سراقہ جو دو سو اونٹ کے لالچ میں آیا تھا آپؐ سے معافی مانگ کر واپس چلا گیا اور خدا نے اس کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ اس نے اپنی سلامتی اس میں سمجھی کہ خاموشی سے واپس چلا جا ئے بلکہ اس نے اور تعاقب کرنے والوں کو بھی واپس لو ٹا دیا۔
(………باقی آئندہ )