درّثمین اردوکی تیسری نظم: فضائلِ قرآن مجید
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین میں شامل تیسری نظم ’’فضائلِ قرآن مجید‘‘ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصنیفِ لطیف’’براہینِ احمدیہ‘‘ حصّہ سوم، مطبوعہ 1882ءسے ماخوذ ہے۔ بارہ اشعار کی اس نظم کی بحر ،ہزج مثمن سالم ہے۔
براہینِ احمدیہ حصّہ سوم کی پہلی فصل کا عنوان حضرت مسیح موعودؑ نے کچھ یوں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اُن براہین کے بیان میں جو قرآن شریف کی حقیّت اور افضلیّت پر بیرونی اور اندرونی شہادتیں ہیں۔‘‘ اس کے بعد حضورؑ نے تمہید اول، تمہید دوم اور تمہید سوم کی سرخیوں کے ساتھ اس فصل میں مرقوم دلائل کی ماہیت اور کیفیت سمجھنے کے لیے چند اصولی باتیں تحریر فرمائی ہیں۔
تمہید اول میں آپؑ نے بیرونی اور اندرونی شہادتوں کی وضاحت فرمائی۔
تمہید دوم جو قدرے تفصیلی ہے، اس میں آپؑ نے قرآن کریم کی حقیّت اور افضلیّت پرموجود بیرونی شہادتوں کو چار قسموں میں تقسیم فرمایا۔
1)وہ امورجو محتاج الاصلاح ہیں:
یعنی کسی کتاب کے منجانبِ اللہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کفر،بےایمانی،شرک اور بدعملی جیسے امور کی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔
2)امورِ محتاج التکمیل:
ایسے امور جو گذشتہ کتبِ الہامیہ میں ناقص طور پر پائے جاتے ہوں اور ان کا ناقص اور ادھورا پن مرتبہ کمال تک پہنچانے والی الہامی کتاب کا محتاج ہو۔
3) امورِ قدرتیہ:
یہ دو طورپر ہیں : بیرونی شہادتیں یعنی ایسےامور جو انسانی تدبیروں ،ذرائع اور وسائل کے بغیر خدا کی طرف سے پیدا ہوجائیں۔ اندرونی شہادتیں یعنی الہامی کتاب کے ایسے معنوی اور صوری محاسن جن کے مقابلے کے انسانی قویٰ متحمّل نہیں ہوسکتے۔
4)امورِ غیبیہ
امورِ غیبیہ یعنی وہ امور ایک ایسے شخص کی زبان سے نکلیں جس کی نسبت یہ یقین کیا جائے کہ ان امور کا بیان کرنا مِن کل الوجوہ اس کی طاقت سے باہر ہے۔
تمہید سوم میں آپؑ نے یہ منطقی بات پیش فرمائی کہ جو چیز بھی خدا تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے ظہورپذیر ہو ،خواہ وہ مخلوقات میں سے ہو یا خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں سے ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی پُرشوکت ہو کہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی مِثل بنانے پر قادر نہ ہو۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑنے اس عام اصول کو قیاس اور استقراء تام سے ثابت فرمایا ۔
نظم ’فضائلِ قرآن مجید‘ اور اس کے سیاق وسباق کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ دلائل جو ’براہینِ احمدیہ‘ حصہ سوم کی فصل اول میں بالتفصیل بیان ہوئے ہیں، اس نظم میں ان تمام کاشعری خلاصہ آگیا ہے۔یوں یہ نظم اختصار اور ابلاغ کا ایک اچھوتا امتزاج ہے۔ مثلاً ’استقراء تام‘ کے ذیل میں آپؑ نے جزئیاتِ عالَم جیسے مچھر،مکھی، عنکبوت وغیرہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:
ان میں سےکوئی بھی ایسی چیز ہم کو معلوم نہیں ہوتی جس کے بنانے پر انسان بھی قدرت رکھتا ہوبلکہ اِن چیزوں کی بناوٹ اور ترکیب پر غور کرنے سے ایسے عجائب کام دستِ قدرت کے اُن کےجسم میں مشہود اور موجود پاتے ہیں جو صانع عالم کے وجود پر دلائل قاطعہ اور براہینِ ساطعہ ہیں۔۔۔۔ اب جبکہ دلائلِ مستحکمہ سے ثابت ہوگیاکہ جو چیزیں خدا کی طرف سے ہیں۔ان کا بے نظیر ہونا اور پھر ان کی بے نظیری اُن کی منجانب اللہ ہونے پر دلائلِ قاطع ہونا ان کی صادر من اللہ ہونے کےلیے شرط ضروری ہے۔ تواس تحقیق سے جھوٹ ان لوگوں کا صاف کھل گیا۔ جن کی یہ رائے ہے کہ کلامِ الہٰی کا بےنظیر ہونا ضروری نہیں یا اُس کے بےنظیر ہونےسے اُس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
(براہینِ احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 155۔162)
اس تمام تفصیلی مضمون کو حضور ؑ نے ایک شعر میں سمو دیا اور فرمایا
بنا سکتا نہیں اِ ک پاؤں کیڑے کا بَشَر ہرگز
تو پھر کیوں کر بنانا نورِ حق کا اُس پہ آساں ہے
محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب نے اپنی کتاب ’ادب المسیح‘ میں یہ لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے پیش فرمائی ہیں، آنحضورﷺ کے فرمودات ان ارشاداتِ ربانیہ کی اتباع میں ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی مدحت و منقبتِ قرآن، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور نقشِ قدم پر ہے۔
محترم صاحبزادہ صاحب اس نظم یعنی ’فضائلِ قرآن مجید‘ کی نسبت فرماتے ہیں:
’’اوّل مقام پر تویہ عظیم الشان نعت ہے کہ خالص طور پر لفظاً ومعناً قرآن کریم اور حدیث کا اتّباع ہے‘‘
اس نظم میں شعری لوازم کاایک جہان آباد ہے۔ پہلے ہی شعر میں کلام اللہ کے حسن وجمال کی نسبت فرمایا ’’ہمارا چاند قرآں ہے۔‘‘ دوسرے شعر میں الرحمٰن ۔علّم القراٰن کی مناسبت سے فرمایا ’’بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے۔‘‘
تیسراشعر
بہارِ جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بُستاں ہے
’مراعات النظیر‘ یعنی کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن کے معنوں میں خاص مناسبت اور تعلق ہو؛کی عمدہ مثال ہے۔ بہار،چمن، بستاں جیسے الفاظ کے چناؤ نے شعر میں بیان فرمودہ پُر حکمت دعوے کو پُرجمال بنادیا ہے۔
چوتھے شعر میں ’اگر‘ اور ’وگر‘ کی تکرار ہے۔ لفظ ’وگر‘ بھی فارسی الاصل حرفِ عطف ہے ۔ جس کے معنی ’اور اگر‘ کے ہیں۔ چھٹے شعر میں ’ہمتائی‘ کا لفظ برابری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیمؔ کی مثنوی ’گلزارِ نسیم‘ میں ’’ہمتائے فلک‘‘ کی ترکیب ملتی ہے۔
شہ زادے کے ڈھنگ پرنہ تو چل
ہمتائے فلک نہ ہوگا بادل
یعنی بادل آسمان کی برابری نہیں کرسکتا۔
اس نظم میں مرکبِ اضافی کی کثرت نے بھی خوب رنگ جما رکھا ہے۔مثلاً بہارِ جاوداں، کلامِ پاک یزداں، لؤلوئے عماں، لعلِ بدخشاں، فرقِ نمایاں، مقدورِ انساں ، شرکِ پنہاں، خوفِ یزداں وغیرہ۔
غرض قرآن کریم کی مدح و نعت میں حضورؑ کی یہ لازوال نظم بلا مبالغہ لفظی و معنوی خوبیوں کا ایک شاہ کار ہے۔
٭…٭…٭