ارشادات حضرت مرزا طاہراحمد خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا طاہراحمد خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
اس راہ میں ہمت نہ ہاریں:۔ گہرائی سے اپنی اولاد کا جائزہ لیں پھر اپنا جائزلیں اور پھر دونوں مل کر دعا ئیں کرتے ہوئے اس سفر کو آگے بڑھاتے جائیں۔اس راہ میں بہت ہی محنت درکار ہے ۔بہت سے مراحل آتے ہیں جن میں انسان تھک جاتا ہے ۔ہمت ہار دیتا ہے ۔سمجھتا ہے کہ کب تک مَیں یہ کام کرتارہوں گا۔بسا اوقات اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہے مہینوں سالوں اور اولاد ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی بعض دفعہ دل میں سخت درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کس زبان سے انہیں سمجھاؤں کہ عبادت میں تمہاری زندگی ہے ۔مگر بندہ عاجز ہے ،بے بس ہے کوئی پیش اس کی نہیں جاتی ۔لیکن یاد رکھیں ایسے موقعوں پر ہر گزمایوس نہیں ہونا اس وقت پھر یاد کریں کہ درحقیقت آپ کا تمام تر انحصار عاجزانہ دعاؤں پر ہے ایسی صورت میں جب آپ اپنی نصیحت کی ناکامی سے دل میں دکھ محسوس کریں وہ وقت خصوصیت کے ساتھ دعاکا وقت ہے۔
(مشعل راہ جلد سوئم صفحہ387,389۔ایڈیشن 2007نظارت نشرو اشاعت قادیان)
اولاد کی تربیت سے لامتناہی سلسلہ صدقات کا شروع ہوجاتا ہے:۔حضرت جابر بن سمرہ کی ترمذی کتاب البروالصلۃ میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:کسی شخص کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا صدقہ دینے سے زیادہ بہتر ہے۔صدقہ دینا تو بہت اچھا ہے مگر اولاد کی تربیت سے لامتناہی سلسلہ صدقات کا شروع ہو جاتا ہے ۔اچھی تربیت والی اولاد جو آئند ہ کے لیے نیکی کا موجب بنتی ہے وہ صدقہ دیتی ہے اور اس کی اولاد آگے اولاد اور یہ محبت کا سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ چلتا ہے۔پس یہ معنٰی ہیں کہ ایک صدقہ تم دے دو وہ تو وہیں رک جائے گا مگر اولاد کی تربیت اچھی کرو گے تو اولاد تمہارے لیے ایک صدقہ جاریہ ثابت ہو گی۔
ایک حدیث سنن ابی داؤد سے لی گئی ہے۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔جس کی ایک بیٹی ہو پھر وہ اسے زندہ درگور نہ کرے،نہ ہی اس کی تذلیل کرے اور اپنے (دیگر) بچوں کو یعنی لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
(سنن ابی داؤد ۔کتاب الادب)
زندہ درگور کا تواب وقت نہیں رہا مگر زندہ درگور روحانی معنوں میں لوگ کر دیا کرتے ہیں ۔اپنی بچیوں کی بد تر بیت کے ذریعہ یا ان کی تربیت سے غافل رہنے کی وجہ سے عملاً ان کو زندہ درگور ہی کردیتے ہیں۔
پس یہ حدیث بھی پرانے زمانہ پر صرف اطلاق نہیں پاتی اس زمانہ پر بھی اطلاق پا رہی ہے’’وہ نہ ہی اس کی تذلیل کرے۔‘‘ بہت سی بچیاں شکایت کرتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ بڑی ذلت سے ہم سے سلوک کرتے ہیں،حقیر جانتے ہیں اور وہ اس کی وجہ سے نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں اور عمر بھر ان کو یہ روگ لگ جاتا ہے ۔تو ماں باپ کو اپنے بچوں سے بھی بہت پیار کا سلوک کرنا چاہیے ۔بعض دفعہ اگر کسی کے بیٹیاں ہی ہوں اور بیٹا نہ ہو تو جوبد خلق والا ہے وہ بیوی کو بھی طعنے دیتا رہتا ہے اور بچی کو بھی ۔تو یہ بہت ہی گندی رسمیں ہیں جو بد بختی سے ہمارے ملک میں بہت پائی جاتی ہیں۔یہ شکر ہے کم سے کم یورپ اور انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ گندگی نہیں ۔تو آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت پر خوب غور کریں کہ نہ ہی اس کی تذلیل کرے اور اگر لڑکے ہوں تو لڑکیوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمادے گا۔
(مشعل راہ جلد سوئم صفحہ697۔ایڈیشن 2007نظارت نشرو اشاعت قادیان)