متفرق مضامین

بیواؤں کا عالمی دن اور اسلام

(باسل احمد بشارت)

ہرسال 23 جون کو بیواؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پوری دنیا میں موجود بیواؤں اور ان کے بچوں کی فلاح بہبود کے لیے عوامی سطح پرشعور کو اجاگر کرنا،ان کی فلاح وبہبودکے لیے مساعی کے ساتھ ان کی غربت کے خاتمہ اوران کودرپیش ناانصافیوں کے ازالہ کےلیے عزم اورجدوجہد کرنا ہے تاکہ ان کے ساتھ معاشرہ میں ناروا سلوک کا خاتمہ ہو اور انہیں ہر طرح کا تعاون حاصل ہو۔

اس دن کی محرک ’’لومبا فاؤنڈیشن‘‘ کے بانی لارڈ راجندر پال لومبا کی والدہ شریمتی پشپا وتی لومبا کو سمجھا جاتا ہے جو اپنے خاوندجاگیری لال لومبا کی23جون 1954ء میں وفات کے بعد37 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور سات بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان پر پڑی۔لارڈ راجندر پال لومبا کی عمر اس وقت 10سال تھی۔انہوں نےاپنی والدہ کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک کے پیش نظراپنی والدہ کی وفات کے پانچ سال بعد26 جون 1997ء کوبیواؤں کی فلاح و بہبود کے کام کا آغاز کرتے ہوئے’’شریمتی پشپاوتی ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک چیرٹی ادارہ قائم کیاجو برطانیہ میں ’’لومبا فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے جاناجاتاہے۔

بیواؤں کے عالمی دن کے لیے برطانیہ میں قائم لومبا فاؤنڈیشن کئی سالوں سے تحریکات چلا رہی تھی ۔سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی بیوی چیری بلیئر اس فاؤنڈیشن کی صدر رہیں اور لارڈ لومبا اس چیرٹی کے بانی اور مالک ہیں۔ان کی کوششوں سے بالآخر21دسمبر2010ءکو اقوام متحدہ نے 23؍ جون کوبیواؤں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیااور23؍جون کی تاریخ لارڈ لومبا کی والدہ کے بیوہ ہونیوالے دن کی مناسبت سے رکھی گئی۔چنانچہ اس سے اگلے سال23جون2011ءکو یہ عالمی دن پہلی دفعہ منایا گیا۔

لیکن بیوگان کے حقوق کا تعین توآج سے 1440 سال پہلے ہی اسلام اور بانی ٔاسلام نےکردیا تھا۔ہمارے آقاو مولیٰ محمدﷺ نے عورت خواہ غیرشادی شدہ ہو یا شادی شدہ،مطلقہ ہو یا بیوہ ،ان تمام کے حقوق کو قائم فرمایاجب کہ قبل ا ز اسلام عورتوں کےحقوق کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا۔ بیوہ عورت کو اس کے فوت شدہ خاوندکے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاتا یا درگورکر دیا جاتا تھا۔عرب میں بیوہ عورتوں کی عدت ظالمانہ طور پر لمبی تھی اور بیوگان کوجاہلیت کے زمانہ میں خاوند کی وفات کے بعد ایک سال تک الگ تھلگ گندی کوٹھڑی نما مکان میں رہنے پر مجبور کیا جاتا۔

انہیں وراثت میں بھی کوئی حصہ نہ دیا جاتابلکہ وہ خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتیں۔فوت شدہ خاوند کے قریبی رشتہ دار(مثلاً بڑا سوتیلا بیٹاوغیرہ)بیوہ سے شادی کے لیےسب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے۔اگروہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کرلیتے۔وگرنہ ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ۔ عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔

(ماخوذ از اسوہ انسان کامل از مولانا حافظ مظفر احمد صاحب صفحہ 463)

عرصہ عدت اورجائز آزادی

اسلام نے دیگر خواتین کے ساتھ بیوہ عورتوں کے حقوق کو بھی نہایت احسن رنگ میں قائم کیا۔سب سے پہلے ان کی عدت ایک سال سے کم کرکے چار ماہ دس دن مقرر فرمائی اور ان سے ناروا سلوک کا خاتمہ کیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سورة البقرة میں فرماتا ہے:

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ۔

(البقرة 235)

اور تم مىں سے جو لوگ وفات دیے جائىں اور بىوىاں چھوڑ جائىں تو وہ (بىوىاں)چار مہىنے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھىں پس جب وہ اپنى (مقررہ) مدت کو پہنچ جائىں تو پھر وہ (عورتىں) اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھى کرىں اس بارہ مىں تم پر کوئى گناہ نہىں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمىشہ باخبر رہتا ہے۔

حضرت زینب ؓاپنی والدہ حضرت ام سلمہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ

’’ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا لوگوں کو اس کی آنکھ کے متعلق خطرہ محسوس ہوا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور سرمہ لگانے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سرمہ نہ لگائے، عورتیں (جاہلیت کے زمانہ میں تو خاوند کی وفات کے بعد)خراب قسم کے گھر اور کپڑوں میں رہتی تھیں جب ایک سال گزر جاتا پھر ایک کتا گزرتا اور وہ مینگنی پھینکتی تھی (تب عدت ختم ہوتی تھی) اس لیے وہ سرمہ نہ لگائے جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گذر جائیں اور میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتی ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے۔‘‘

(بخاری کتاب الطلاق باب الکحل للحادۃ)

حق ازدواج

پھراسلام نے بیوہ کواپنی عدت گزارلینے کے بعدنہ صرف دوسری شادی کا حق دیا بلکہ اس کی مرضی کو بھی مدنظر رکھنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ

(النور 33)

اور تمہارے درمىان جو بىوائىں ہىں ان کى بھى شادىاں کراؤ اور اسى طرح جو تمہارے غلاموں اور لونڈىوں مىں سے نىک چلن ہوں ان کى بھى شادى کراؤ اگر وہ غرىب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہىں غنى بنا دے گا اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور)دائمى علم رکھنے والا ہے۔

رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا:

’’يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا ‘‘

(ترمذی ابواب الصلوة بَابُ مَا جَاءَ فِي الوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الفَضْلِ)

اے علی!تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے جنازہ میں جب حاضر ہو اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا ہم کفو رشتہ مل جائے ۔

خود رسول اللہﷺنےحضرت عائشہؓ کے علاوہ باقی تمام بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اسوۂ حسنہ دیا۔اور ان تمام ازواج سے ان کی مرضی معلوم کرنے کے بعد ہی نکاح فرمایا۔رسول اللہﷺ نے بیوہ عورت کونکاح کا حق دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔

(بخاری کتاب الحیل باب 10 بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ 463)

ایک اَور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ

(بخاری کتاب النکاح بَابُ لاَ يُنْكِحُ الأَبُ وَغَيْرُهُ البِكْرَ وَالثَّيِّبَ إِلَّا بِرِضَاهَا)

بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے اورکنواری لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے ۔

چنانچہ حضرت جعفرؓ کے خاندان کی ایک عورت حضرت خنساءؓبنت خذام انصاریہ کواندیشہ ہوا کہ ان کے والد ان کا نکاح ایسی جگہ کردیں گے جہاں وہ ناپسند کرتی ہیں تو انہوں نے دو بزرگوں عبدالرحمٍٰن ا ورمجمع بن یزیدانصاری کواس معاملہ کی خبردی تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں لیکن خنساءکے والد نے ان کا نکاح وہیں کردیا حالانکہ وہ ثیبہ(بیوہ)تھیں اوران کو یہ شادی ناپسند تھی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات کا ذکر کیاتو آپؐ نے ان کا نکاح منسوخ کر دیا۔

(بخاری کتاب الاکراہ بَابُ لاَ يَجُوزُ نِكَاحُ المُكْرَهِ لا،بخاری کتاب الحیل باب فی النکاح)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ بيان کرتے ہيں کہ ايک عورت کا خاوند فوت ہوگياتو اس کے بچے کا چچا (یعنی اس کے دیور)نےعورت کونکاح کا پیغام بھجوایا۔عورت نے رضامندی کا اظہار کیالیکن عورت کے والد نے اس سے اس کی شادی سے انکار کردیا۔تو وہ عورت نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس معاملہ کا ذکر کیا تو رسول اللہﷺنے اس کے والد کو بلایا۔وہ حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا کہتی ہے؟ تو والد نے کہا کہ ٹھیک کہتی ہے۔ لیکن میں نے اس کے ديور سے بہتر آدمی کے ساتھ اس کا رشتہ کيا ہے۔تورسول اللہﷺ نے باپ کے کیے ہوئے رشتے کو توڑ کر بچے کے چچا (عورت کے ديور )سے اس کا رشتہ کرديا۔

(مسندأبي حنيفة رواية الحصكفي کتاب النکاح روایت نمبر 11)

اس زمانہ کے حکم عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہيں کہ

’’بيوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔چونکہ بعض قومیں بيوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خيال کرتے ہيں اور يہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔اس واسطے بيوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔ ليکن اس کے يہ معنے نہيں کہ ہر بيوہ کا نکاح کيا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتيں بوڑھی ہو کر بيوہ ہوتی ہيں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ايسے ہوتے ہيں کہ وہ نکاح کے لائق نہيں ہوتيں۔ مثلاً کسی کو ايسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہيں يا ايک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ايسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہيں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ايسی صورتوں ميں مجبوری نہيں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرايا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دينا چاہیے کہ بيوہ عورت کو ساری عمر بغير خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 320،بدرجلد2نمبر41 صفحہ11مورخہ 10اکتوبر1907ء)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’معاشرے کا يہ کام ہے کہ چاہے وہ بيوائيں ہوں،چاہے وہ غريب لوگ ہوں ان کی شادياں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بيواؤں ميں سے بھی اکثر جو ايسی ہيں جيسا کہ مَيں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ايسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔معاشرے کے بعض مسائل ہيں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی يہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکليف اٹھاتی رہے۔اس لیے فرمايا کہ پاک معاشرہ کے لیے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لیے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادياں کروادو۔تو یہ ہے حکم اللہ کا………

اللہ تعالیٰ تو بيوگان کو يہ اجازت ديتا ہے کہ بيوہ ہونے کے بعد اگر کسی کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کے بعد جو عدت کا عرصہ ہے،چار مہینے دس دن کا، وہ پوراکرکے اگر تم اپنی مرضی سے کوئی رشتہ کرلو اور شادی کرلو تو کوئی حرج نہيں ہے……ليکن شرط يہ ہے کہ معروف کے مطابق رشتے طے کرو۔معاشرے کو پتہ ہو کہ يہ شادی ہورہی ہے تو پھر کوئی حرج نہيں تو بيواؤں کو تو اپنے متعلق اپنے مستقبل کے متعلق فيصلہ کرنے کا خود اختيار دے ديا گيا ہے يا اجازت ہے اور لوگوں کو يہ کہا ہے کہ تم بلا وجہ اس میں روکيں ڈالنے کی کوشش نہ کرو اور اپنے رشتوں کا حوالہ دينے کی کوشش نہ کرو۔اگر يہ بيواؤں کے رشتے جائز اور معروف طور پر ہورہے ہيں تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت ديتا ہے۔تم پر اس کا کوئی گناہ نہيں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 دسمبر2004ء۔خطبات مسرور جلد دوم صفحہ926-927)

حق وراثت

جیسا کہ قبل ازیں ذکرہوچکا ہےخاوند کی وفات کے بعدبیوہ عورت کاکوئی پُرسان حال نہ ہوتا اور وراثت میں بھی اسے کسی قسم کا کوئی حصہ نہ ملتا۔لیکن اسلام نے بیوہ عورت کو وراثت میں بھی حصہ دلایا۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ

(النساء 13)

اور ان کے لیے چوتھا حصہ ہوگا اس مىں سے جو تم نے چھوڑا اگر تمہارى کوئى اولاد نہ ہو اور اگر تمہارى کوئى اولاد ہو تو اُن (بىوىوں)کا آٹھواں حصہ ہو گا اس مىں سے جو تم نے چھوڑا، وصىت کى ادائىگى کے بعد جو تم نے کى ہو ىا قرض چکانے کے بعد۔

بیوہ عورت کی اس کےخاوند سے اگر کوئی اولاد نہ ہو تو اسے خاوند کے ترکہ سے چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہوتو وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعدترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة النساء میں بیوگان کی حق تلفی سے منع فرمایاہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسٰى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا

(النساء 20)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تمہارے لیے جائز نہىں کہ تم زبردستى کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہىں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہىں دے بىٹھے ہو اس مىں سے کچھ (پھر)لے بھاگو، سوائے اس کے کہ وہ کھلى کھلى بے حىائى کى مرتکب ہوئى ہوں اور ان سے نىک سلوک کے ساتھ زندگى بسر کرو اور اگر تم اُنہىں ناپسند کرو تو عىن ممکن ہے کہ تم اىک چىز کو ناپسند کرو اور اللہ اس مىں بہت بھلائى رکھ دے ۔

بانیٔ اسلام رسول اللہﷺ نےبیوہ کے حقوق ادا کرنے کی سختی سے تاکید فرمائی۔چنانچہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع ؓکی بیوہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اپنی دو بیٹیوں کو(جوحضرت حضرت سعدؓ سے تھیں)لے کرحاضر ہوئیں اورکہا کہ یا رسول اللہﷺ،یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیعؓ کی ہیں،ان کے والدآپؐ کے ساتھ غزوہ ٔاحد میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے چچانے ان کے سارے مال پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔اور بغیر مال کے ان کی شادی بھی نہیں ہوسکتی۔اس پر آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس بارہ میں فیصلہ فرمائے گا۔چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی اوررسول اللہﷺ نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی اور ان بچیوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور اس کے بعد جو باقی بچے گاوہ تمہارا ہے ۔

(مسند احمد مسند جابرؓ بن عبد اللہ جزء23 صفحہ108)

بیوگی پر صبر کا اجر

اور اگر بیوہ عورت اپنے بچوں کی تربیت کی پرورش و تربیت کی خاطر اپنی بیوگی پر صبر کرے تو اسلام نے اسکا بھی اجر مقرر فرمایا ہے:چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ كَهَاتَيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوْمَأَ يَزِيدُ بِالْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ امْرَأَةٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا ذَاتُ مَنْصِبٍ، وَجَمَالٍ، حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا‘‘

(سنن ابوداؤد کتاب الادب بَابٌ فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ يَتِيمًا)

’’میں اورزرد رخساروں والی عورت قیامت کے دن ان دو انگلیوں(درمیانی اور شہادت کی انگلی)کی طرح ہوں گے۔وہ صاحب حیثیت اورشکل و صورت رکھنے والی عورت جس کا خاوند فوت ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کواپنے یتیم بچوں کی خاطر وقف کر دیا یہاں تک کہ وہ خود اس سے جدا ہوئے یا فوت ہو گئے۔‘‘

(ترجمہ ماخوذاز اسوہ انسان کامل ؐصفحہ 492)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایاکہ سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھولوں گا تو اچانک دیکھوں گا کہ ایک عورت بڑی تیزی سے میری طرف آتی ہے۔ میں اسے کہوں گا کہ آپ کون ہو اور آپ کو کیا ہوا؟ وہ کہے گی کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی خاطر میں بیٹھ رہی تھی۔

(مسندابو یعلیٰ جلد12 صفحہ7 بحوالہ اسوہ انسان کامل ؐصفحہ492)

بیوگان سے حسن سلوک کی تلقین

رسول اللہﷺ نے بیوگان اور یتامیٰ سے حسن سلوک اور ان کی خبرگیری کی تلقین فرمائی۔آپﷺ نے فرمایا کہ

’’السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ كَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ ‘‘

(صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ)

یعنی بیواؤوں اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔

حضرت عائشہؓ بيان کرتی ہيں کہ رسول کريم کبھی گھر میں فارغ نہ رہتےيا تو کسی مسکین کے لیے جوتا سی رہے ہوتے يا بيواؤں کے لیے کپڑا سی رہے ہوتے۔

(الوفاء بتعریف فضائل المصطفیٰ لابن جوزی جزء1 صفحہ337)

خلیفہ راشدحضرت ابو بکرصدیقؓ بھی سنت نبویؐ کے مطابق بیواؤں کا خصوصی خیال رکھا کرتے تھے۔چنانچہ ايک دفعہ موسم سرمامیں کچھ چادريں ديہات سے آئيں جو آپؓ نے خريد کر مدينہ کی تمام بيواؤں ميں تقسيم فرما ديں۔

(تاریخ الخلفاء للسیوطی جزء1 صفحہ64)

حضرت ابوبکرؓ کے آخری سانس تھے آ پ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ نے جذباتی کیفیت میں یہ شعر پڑھا :

وَاَبیَضُ یُستَسقَی الغَمَامُ بِوَجِہہٖ
ثِمَالُ الیَتَامٰی عِصمَۃٌ الِّلاَرَامِلٖ

کہ آپؓ وہ ہیں جن کے منہ کے صدقے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ آپؓ یتیموں کے والی اور بیواؤں کے سہارا ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے جان کنی کے عالم میں بھی اپنی یہ تعریف گوارا نہ کی اور نہایت انکسار سے فرمایا ’’اے عائشہ!یہ مقام تو آنحضرت ؐکا تھا۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی ،سیرت صحابہ رسولؐ از مولانا حافظ مظفر احمد صاحب صفحہ28)

حضرت عمر فاروقؓ نے رسول اللہﷺاور خلیفۂ راشد حضرت ابوبکرؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے بیواؤں کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا۔چنانچہ زید بن اسلم، اپنے والد اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ بازار گیا۔ ایک نوجوان عورت ان سے ملی اور عرض کیا اے امیر المومنین!میرا خاوند فوت ہوگیا اور بچے چھوٹے ہیں۔ جن کا فاقہ سے برا حال ہے۔ نہ ہماری کوئی کھیتی ہے نہ جانور اور مجھے ڈر ہے کہ یہ یتیم بچے بھوک سے ہلاک نہ ہوجائیں۔اور میں ایماء غفاری کی بیٹی خفاف ہوں، میرا باپ حدیبیہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ شامل تھا۔حضرت عمرؓ یہ سن کر اس بی بی کے احترام میں وہیں رُک گئے فرمایا ’’اتنے قریبی تعلق کا حوالہ دینے پر میں تمہیں خوش آمدیدکہتا ہوں۔‘‘ پھر گھر میں بندھے ایک مضبوط اونٹ پر دو بورے غلے کے بھرے لدوائے ۔ ان کے درمیان دیگر اخراجات کے لیے رقم اور کپڑے رکھوائے اور اونٹ کی مہار اس خاتون کو تھماکر فرمایا ’’یہ تولے جاؤ اور انشاء اللہ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اَور بہترسامان پیدافرمادے گا۔‘‘

اس کیفیت کو دیکھ کرکسی شخص نے کہہ دیا اے امیر المومنین! آپ نے اس عورت کو کچھ زیادہ ہی دے دیا ہے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تیری ماں تجھے کھوئے۔ خدا کی قسم! میں نے اس خاتون کے باپ اور بھائی کو دیکھا کہ ایک زمانے تک ہمارے ساتھ انہوں نے محاصرہ کیا پھر فتح کے بعدہم مال غنیمت کے حصے تقسیم کرنے لگے۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ بحوالہ سیرت صحابہ رسولؐ صفحہ64)

حضرت عمرؓ نے اپنی شہادت سے چارروزقبل فرمایا :

’’اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی تو میں اہل عراق کی بیواؤں کا ایسا بندوبست کروں گا کہ انہیں میرے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔‘‘

(بخاری کتاب الفضائل اصحاب النبی ؐ باب قصۃ البیعہ بحوالہ سیرت صحابہ رسولؐ صفحہ71)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں کہ

’’مسلمانوں کو چاہیے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجا لاویں۔ نماز کےپابند ہوں۔ ہر فسق و فجور سے پرہیز کریں۔ توبہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ غریبوں اور ہمسایوں اور یتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اوردرماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ اور خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میں اس بلا سے محفوظ رہنے کے لیے رو رو کر دعا کریں۔ پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دعائیں کریں۔ غرض ہر ایک قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں۔‘‘

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد جلد14 صفحہ373)

جہاں تک بیوہ کی اولادیعنی یتامیٰ کا تعلق ہے تواللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ مسلمانوں کو یتامیٰ سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔چنانچہ فرماتا ہے:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ

(البقرة 221)

اور وہ تجھ سے ىتىموں کے بارے مىں پوچھتے ہىں تُو کہہ دے ان کى اصلاح اچھى بات ہے اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائى بند ہى ہىں اور اللہ فساد کرنے والے کا اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہىں ضرور مشکل مىں ڈال دىتا ىقىناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

پھر فرمایا:

فَأَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ (الضحى 10)

پس جہاں تک ىتىم کا تعلق ہے تو اُس پر سختى نہ کر ۔

یتامیٰ کے مال کی حفاظت کے متعلق فرمایا کہو

لَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا

(بنی اسرائیل 35)

’’اور ىتىم کے مال کے قرىب نہ جاؤ مگر اىسے طرىق پر کہ وہ بہترىن ہو ىہاں تک کہ وہ اپنى بلوغت کى عمر کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو ىقىناً عہد کے بارہ مىں پوچھا جائے گا۔‘‘

اسی طرح یتیم بچیوں اور بچوں کے ساتھ انصاف اور ان کے حقوق کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامٰى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهِ عَلِيْمًا

(النساء 128)

اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارہ مىں فتوى پوچھتے ہىں تُو کہہ دے کہ اللہ تمہىں ان کے متعلق فتوىٰ دىتا ہے اور (متوجہ کرتا ہے اس طرف) جو تم پر کتاب مىں اُن ىتىم عورتوں کے متعلق پڑھا جا چکا ہے جن کو تم وہ نہىں دىتے جو اُن کے حق مىں فرض کىا گىا حالانکہ خواہش رکھتے ہو کہ اُن سے نکاح کرو اسى طرح بچوں مىں سے (بے سہارا) کمزوروں کے متعلق (اللہ فتوى دىتا ہے) اور (تاکىد کرتا ہے) کہ تم ىتىموں کے حق مىں انصاف کے ساتھ مضبوطى سے کھڑے ہو جاؤ پس جو نىکى بھى تم کروگے تو ىقىناً اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے اپنے اسوہ ٔکامل سےیتیموں کے ساتھ حسن سلوک اورانصاف کرنے کا حکم دیا۔اور اس یتیم کی کفالت کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح ملے ہوں گے اورآپؐ نے اپنی انگشت شہادت اور وسطی انگلی کو ملاکر دکھایا ۔‘‘

(بخاری (81)کتاب الادب باب 24ومسند احمد جلد 2ص375)

حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا جس شخص نے کسی یتیم بچے کے سر پر محض خدا کی خاطر ہاتھ پھیرا تو ہر بال کے عوض جسے اس کے ہاتھ نے چھوا اُسے کئی نیکیاں عطاکی جائیں گی اور جس نے کسی یتیم بچی کی عمدہ تربیت یا اپنے زیر پرورش کسی یتیم بچے سے حسن سلوک کیا۔ میں اوروہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپؐ نے وسطی انگلی اور انگشت شہادت میں فرق ڈال کر دکھایا ۔

(مسند احمد جلد 5ص250 بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ صفحہ491)

رسول اللہﷺ بیوگان اور یتامیٰ سے حسن سلوک کا خاص خیال رکھتے تھے۔آپؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا کامل نمونہ اپنی امت کو دیا۔بیسیوںایسے واقعات ہیں جن میں یتامیٰ کے ساتھ آپ کے حسن سلوک اور شفقت کا ذکر ہے جن کااس مختصر مضمون میں تذکرہ ممکن نہیں البتہ مفصل ذکر اسوہ ٔانسان کاملؐ از مولانا حافظ مظفر احمد صاحب صفحہ478تا501میں مطالعہ کیاجاسکتا ہے۔

ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک غزوے سے واپسی پرجب آپؐ کے لشکر کے پاس پانی ختم ہو گیاتو صحابہ اس کی تلاش میں نکلے۔ ایک عورت اونٹ پر پانی لاتی ہوئی ملی۔ معلوم ہوا کہ بیوہ عورت ہے جس کے یتیم بچے ہیں ۔ رسول کریمؐ نے دعا کر کے اس کے پانی کے اونٹ پر سے ایک مشکیزہ لے کراس پر برکت کے لیے دعا کی پھر اس کے پانی سے تمام لشکر نے پانی لیا مگرپھر بھی وہ کم نہ ہوا۔رسول اﷲ ؐنے اس بیوہ عورت سے حسن سلوک کی خاطر صحابہ کے پاس موجود زادراہ جمع کروالی اوراس بیوہ عورت کو کھجوریں اور روٹیاں عطا کرتے ہوئے فرمایا ہم نے تمہارا پانی ذرا بھی کم نہیں کیا اوریہ زادراہ تمہارے یتیم بچوں کے لیے تحفہ ہے۔ اس عورت نے اپنے قبیلہ میں جا کرکہا کہ میں ایک بڑے جادوگر کے پا س سے ہو کر آ ئی ہوں یا پھر وہ نبی ہے۔یوں اس عورت کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے اس قبیلہ کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو گئے۔

(بخاری کتاب المناقب باب 22 بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ صفحہ496)

رسول اﷲ ؐنے قیامت تک یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا سامان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی کی وفات مقروض ہونے کی حالت میں ہویا اس کی کمزور اولاد یا یتیم بچے ہوں تو ان کا والی میں ہوں گا۔

(بخاری کتاب الستقراض باب 11)

ارشاد ربانی اور سنت رسول ﷺ کے مطابق جماعت احمدیہ بیواؤں اور یتامیٰ کے حقوق قائم کرنے میں مستعد ہے۔خلفائے سلسلہ نے اس بارہ میں احباب جماعت کو خصوصی تاکید کی۔چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ

’’یاد رکھو یتیم کی خبرگیری کرنا صرف نیکی اور تقویٰ ہی نہیں بلکہ قوم کے کریکٹر کو بلند کرنا ہے اور اسے قربانیوں پر زیادہ سے زیادہ دلیر بناان ہے جو قوم یتامیٰ سے حسن سلوک نہیں کرتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ567-568)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی یتامیٰ کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’یتیموں سے بھی حسن سلوک کرو،ان کا بھی خیال رکھو، ان کو معاشرے میں محرومی کا احساس نہ ہونے دو اوراس حديث کو ياد رکھو کہ آپ ؐنے فرمايا کہ مَيں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت ميں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح دو انگلياں ہيں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23 جنوری 2004ء،خطبات مسرور جلد دوم صفحہ66)

جماعت احمدیہ قرآن و سنت اور ارشادت حضرت بانی جماعت احمدیہ و خلفائے سلسلہ کی روشنی میں جہاں بیوگان اور ان کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت ،حسن سلوک اور حقوق کے قیام کا خیال رکھتی ہے وہاں ان کی مالی ضروریات کو بھی پورافرماتی ہے۔چنانچہ 1945ء میں حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ

’’ابھی پچھلے دنوں مجھے ايک دوست نے لکھا کہ ہماری جماعت کو چاہيے کہ يتامیٰ اور بيوگان کی خبرگيری پر باقی کاموں کو چھوڑ کر زيادہ زور دے۔میں نے انہيں جواب ديا کہ……ہم يتامیٰ اور بيوگان کی خبرگيری کرتے ہيں۔اور ہماری جماعت قريباً پچاس ساٹھ ہزار روپيہ سالانہ ان پر خرچ کرتی ہے۔اتنی چھوٹی سی جماعت اپنی دوسری ذمہ داريوں کو ادا کرتے ہوئے اتنی رقم يتيموں،مسکينوں اور بيواؤں کے کھانے اور پہننے وغيرہ پر خرچ کر رہی ہے کہ جس کی مثال دوسری قوموں ميں نہيں ملتی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اگست 1945ءخطبات محمود جلد25 صفحہ345-346)

چنانچہ جماعت احمدیہ کے قیام سے ہی بیوگان اور یتامیٰ کے حقوق کی ادائیگی پر خاطرخواہ کام ہوتا رہا۔خلافت رابعہ میں 23 مارچ 1989ء کو صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے یتامیٰ کی خبرگیری اور پرورش کےلیے ’’کفالت یکصد یتامیٰ‘‘ کے نام سے تحریک فرمائی۔اور ابتدا میں اعلان فرمایا کہ جماعت احمدیہ ایک سو یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کرے گی۔جواَب اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف پاکستان میں قریباً425خاندانوں کے قریباً1500؍ افراد کی کفالت کی سعادت پارہی ہے۔اور فی بچہ اوسطاًتین سے پانچ ہزار جبکہ فی خاندان 15000روپے سے 20000روپے ماہوارکا خرچ کررہی ہے۔اور اپنے پیارے امام وقت کی رہنمائی میں بیوگان اور یتامیٰ کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔اور ان زیر کفالت بچوں میں سے ڈاکٹر، انجنیئر، مربی و معلم اوردیگر علوم میں مہارت حاصل کرکے مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان میں سے اکثر اللہ کی رضا اور اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئےدوسرے مستحق گھرانوں کی کفالت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبرگیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے۔مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصد یتامیٰ کی تحریک ہے لیکن اس کے تحت سینکڑوں یتامیٰ بالغ ہوکر پڑھائی مکمل کرکے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا۔اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کیے جاتے رہے اور کیے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیر احباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں۔الحمدللہ،جزاک اللہ،ان سب کا شکریہ۔

اب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی یتامیٰ کی تعداد کا جائزہ لیں……باقاعدہ سکیم بناکر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامیٰ کو سنبھالیں۔مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے……اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یتامیٰ کا جو حق ہے وہ ادا کرسکیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23 جنوری 2004ء،خطبات مسرور جلد دوم صفحہ66)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button