وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جار ہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ اُن کی جو بھی وجوہات تھیں اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ عدل کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کیا گیاتھا۔ اور پھر وہ آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہوتی تھی در اصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسری مرتبہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں ایک اَور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اُصول عطا فرمائے ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے۔ کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہوس اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کر کے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی اَفواج کے ہاتھوں سے ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دُنیا مدد کے لیے آجاتی ہے۔ بہر حال اِس کا نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر ،کیونکہ بصورتِ دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنا دے گا۔
(صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر 6952)
پس اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے بچانے کی کوشش کرو۔ یہ وہ اُصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے:( ترجمہ ) ’’اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر اُن میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو اُن دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
(سورۃ الحجرات:10)
اگرچہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اِس اُصول کو اختیار کر کے عالمی امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ آغاز میں ہی یہ بات وضاحت سے بیان ہو چکی ہے کہ قیامِ امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اُصولِ عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آ جائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو۔ طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ۔ ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اِس بد اَمنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بد قسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں اُن اقوام کو جنہیں وِیٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اِس اَمر کا تجربہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جا رہا ہے؟ مدد کی ضرورت پڑنے پر طاقتور اَقوام کو ہی مدد کے لیے پکارا جاتا ہے۔‘‘
(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2008ء بمقام برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز)
٭…٭…٭