تہجد کی نماز کا طریق
عبد العزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیساکہ اب تعامل اہل اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپؐ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے۔……حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نورالدین صاحب یہ امر تحقیق کے لیے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمان علیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا۔
میرا یہ مذہب ہر گز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس۔ مَیں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اَور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اُٹھ کر استغفار، درود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ نوافل ادا کرتے۔ آپؐ کثرت سے گیارہ (11) رکعت پڑھتے، آٹھ نفل اور تین وتر۔ آپؐ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اور پھر اُٹھتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اور سو جاتے۔ غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیساکہ اب تعامل ہےاور جس کو اب چودھویں صدی گذر رہی ہے۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 461۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
’’نماز کیا چیز ہے؟ نماز در اصل ربّ الْعِزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اُسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی۔ اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذّت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے۔ اسی طرح پھر گریہ و بُکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی ۔ اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں۔ اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ اے اللہ تُو مجھے دیکھتا ہے کہ مَیں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور مَیں اس وقت بالکل مُردہ حالت میں ہوں ۔ مَیں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا۔ اُس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے تُو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔ تُو ایسا فضل کر کہ مَیں نابینا نہ اُٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رِقّت پیدا کر دے گی۔‘‘
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 615تا616۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
٭…٭…٭