اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید
تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ۔ (النساء4 آیت 60)
وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ (الاحزاب33آیت 72)
اخلاص ہے، دستور غلامان خلافت
تسلیم سے مشروط ہے، پیمان خلافت
ہے اہل وفا کی ، یہ محبت کا تقاضا
ہوتی رہے پابندی، فرمان خلافت
جو آیا ت آپ نے سماعت فرمائیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے،تو اس نے ایک بڑی کامیابی کو پا لیا۔تقریر کا عنوان ’’اطاعت خلافت،کامرانی کی کلید‘‘ قرآن مجید کے الفاظ وَمَن يُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُولَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔(الاحزاب آیت 72) کے عین مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی فوز عظیم ،کامیابیاں اور کامرانیاں اللہ اوررسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمان خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو،اللہ تعالیٰ اور رسول کے کسی حکم اور تعلیم کی نافرمانی کریں اور پھر وہ یہ توقع رکھیں کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔چنانچہ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
’’(اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ)اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے چونکہ تجھے کبھی نہیں چھوڑنا اس لیےہم تیری قوم کو بھی کبھی نہیں چھوڑیں گے اور وہ بغیر مذہب کی درستی کے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکیںگے۔کیونکہ اگر ہم مذہب کے بغیر ہی ان کو ترقی دیدیں تو وہ غلطی سے یہ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ ہم سے خوش ہے اور وہ دین سے اَور بھی دُور جاپڑیں گے۔‘‘
(تفسیر کبیر سورۃ الضحیٰ جلد9صفحہ85)
عصر حاضر میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کے بہت سے احکامات اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور نافرمانیوں اور تمرّد میں بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔اس لیےان کی روحانی ،دینی و دنیاوی اوراخلاقی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ایک اہم حکم جس کی انہوں نے نافرمانی کی اور بدستور کر رہے ہیں و ہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی سورۃ آل عمران آیت نمبر82 اور سورۃ الاحزاب آیت نمبر8 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کے ذریعہ مسلمانوں سے ایک اہم میثاق اور عہد لیا تھاکہ جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو میرا مُصَدِّق ہو تو اس کا انکار نہیں کرنا۔بلکہ ضرور اس کی مدد کرنا ’’لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ‘‘ ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو چودہویں صدی ہجری کے شروع میں مسیح موعود و مہدی معہود اور امتی نبی و رسول بنا کر بھیجا۔اور آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے 14ویں صدی ہجری کے چھٹے سال مؤرخہ 20؍رجب 1306ھ بمطابق 23؍مارچ 1889ءکو جماعت احمدیہ مسلمہ کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی تاکید فرمائی اورپھر ایک موقعہ پر فرمایا:
’’صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار‘‘
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی عصر حاضر کے مسلمانوں کو دجّال اوریاجوج ماجوج کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔نیز مسلمانوں کے علماء کے بگڑجانے اور ان کی طرف سے فتنہ اور شر پیدا کرنے کی بھی خبر دی تھی۔ اور یہ انتباہ بھی فرمایا کہ مسلمان 73فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔آپؐ نے فرمایا
٭لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ الَّا اسْمُہٗ(مشکٰوۃ کتاب العلم)
یَکُوْنُ فِی اُمَّتِیْ فَزَعَۃٌ فَیَصِیْرُ النَّاسُ اِلٰی عُلَمَاءِھِمْ فَاِذَاھُمْ قِرَدَۃٌ وَخَنَازِیْر
(الدر المنثور فی التاٗ ویل بالماثور(المؤلف)
عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی۔باب 16 ،جزء:9،صفحہ 194
٭ یُوْشِکُ الْاُمَمُ أَنْ تَدَاعِیَ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعِیَ الْاَکَلَۃُ إِلَی قَصْعَتِھا۔
(سنن ابو داؤد کتاب الملاحم)
وَالَّذِی نَفْسُ مُحمَّدٍ بِیَدِہِ !لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلَاثٍ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃً۔وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ ثَنْتَانِ وَ سَبْعُونَ فِی النَّارِ۔قِیْلَ: یَا رَسُولَ اللہِ! مَنْ ھُمْ؟ قَالَ اَلْجَمَاعَۃُ
(سنن ابن ماجہ (محمد بن یزید القزوینی)کتاب الفتن باب افتراق الامم)
حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائےگا۔میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا۔لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔ان علماء کا اپنا کردار انتہائی خراب اور قابل شرم ہوگا۔ایسے زمانے میں دنیا کی سب قومیں مسلمانوں پر اِس طرح حملہ آور ہوں گی جیسے بھوکی کھانے والی اپنے برتن کی طرف۔صحابہؓ نے سوال کیا،کیا ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو جائےگی؟حضور ﷺ نے جواب میں فرمایا ۔تعداد تو بہت ہوگی مگر مسلمانوں کی حیثیت پانی پرپڑے جھاگ کی طرح ہوگی یعنی عالمی سیاست میں اُن کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی۔وہ خدا جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔مسلمان 73فرقوں میں بٹ جائیں گےایک جنت میں ہوگا اور بہتر (72) آگ میں ہوں گے۔سوا ل کیاگیا وہ جنتی فرقہ کونسا ہوگا؟ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک جماعت ہوگی۔
حضرت محمدﷺ نے جنتی فرقہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ ایک جماعت ہوگی۔آج مسلمانوں کے فرقوں میں سے ہر فرقہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔لہذا یہ فیصلہ کون کرے گا کہ جنّتی فرقہ کون سا ہے۔اس کا فیصلہ بھی رسول خدا ﷺ نے فرما دیا ہے۔جماعت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیےحضور ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقہ ،نماز باجماعت پر غور کرنا ہوگا۔ایک مسجد میں اگر ایک سو نمازی جمع ہو جائیں اور اُن میں سے 95نمازی صفوں میں کھڑے ہوکر بغیر کسی کو امام بنائے اپنی اپنی نماز پڑھ لیں تو اُن کی نماز ،نمازباجماعت نہیں کہلائے گی۔باقی پانچ نمازی مسجد کے کسی دوسرے کونے میں اپنے میں سے ایک کو امام بنا کر نماز ادا کر لیں تو اُن پانچ کی نماز،نماز باجماعت کہلائےگی۔
مسلمانوں کو اس مثال سے سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقی جماعت جس کے جنتی ہونے کی حضرت محمد ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی،اِس سے مراد وہ جماعت ہے جس کا امام ،امام مہدی علیہ السلام ہوں گے۔اور جسے اللہ تعالیٰ نے امام بنایا ہوگا۔اور اُس امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کو تاکید ی حکم دیا تھاکہ:
’’فَاِذَا رَأَیْتُمُوْہٗ فَبَایِعُوْہُ وَ لَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ۔ فَإِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللہِ الْمَھْدِیُّ‘‘
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الفتن،باب خروج المھدی حدیث نمبر4084)
کہ جب تم امام مہدی علیہ السلام کو دیکھو تو ان کی بیعت کرنا خواہ برف پر سے گھٹنوں کے بل اُن (یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام)تک جانا پڑے۔وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے۔
عصرحاضر میں مسلمانوں کو دین اور دنیا میں کامرانی تب ہی مل سکتی ہے جب وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام جو خلیفۃ اللہ ہیں، ان کی کامل اطاعت اور اتباع کریں گے۔حضرت محمد ﷺ نے ایک صحابی حضرت حذیفہ ؓ کے سوال کے جواب میں ہر زمانہ کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنہ فساد ،قتل وغارت انتہا کو پہنچ جائے تو تم پر لازم ہے کہ‘‘ تَلْزِمُ جَمَاعَۃَ المُسْلِمِیْنَ وَ إِمَامَھُمْ’’ کہ مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے امام کی بیعت کر کے اس سے وابستہ ہو جانا ۔پھر فرمایا۔
’’ثُمَّ یَنْشَأُدُعَاۃُالضَّلَالِ، فَإِنْ کَانَ لِلہِ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ۔ جَلَدَ ظَھْرَکَ وَ اَخَذَ مَالَکَ فَاَطِعْہُ‘‘
(مشکوٰہ کتاب الفتن۔رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤد)
ایک زمانہ آئےگا کہ گمراہی اور ضلالت کی طرف دعوت دینے والے پیدا ہو جائیں گے۔اگر زمین میں اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ ہو ،خواہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی اس کی اطاعت کرنا۔
آج کل مسلمانوں کے تقریباً تمام ممالک فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔کہیں امن و سکون نہیں ہے۔سیریا کو یاجوج ماجوج اور دجالی طاقتوں نے جلاکر راکھ کر دیا ہے۔افغانستان اور عراق کی زمین کو اس طرح دھن کر رکھ دیا ہے جیسے روئی دُھننے والا روئی دھنتا ہے۔صر، لیبیا، فلسطین، الجزائر کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔بھوک اور افلاس کے مارے یمن کے لوگوں کو خطرناک آتشی ہتھیاروں کے ذریعہ دھوئیں کی طرح اڑا یا جا رہا ہے۔اسلام مخالف طاقتیں خود ہی دہشت گرد بناتی ہیں اور انہیں اپنے مفادات کی خاطر ٹریننگ دیتی ہیں اور پھر دہشت گردی کے نا م پر ان کا خاتمہ کرتی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کے سامنے خوفناک شکل میں پیش کرتی ہیں۔
مسلمان اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ ان پر یہ تمام مصائب خلافت اسلامیہ احمدیہ کی عدم اطاعت اور نافرمانی کا نتیجہ ہے۔اور یہ بھی سمجھ لیں کہ ان مصائب سے بچاؤکا واحد ذریعہ وہ ڈھال جسے سیدنا حضرت محمد ﷺ نے ڈھال قرار دیا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا:
’’إِنَّمَا الْاِمامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرائِہٖ وَ یُتَّقٰی بِہٖ‘‘
کہ امام ایک ڈھال ہوتا ہے۔ اسی کے پیچھے رہ کر دشمن کا مقابلہ کیاجاتا ہے اور اس کے حملوں سے بچا جا سکتاہے۔اور یہی وہ ’’العُرْوَۃُ الْوُثْقیٰ‘‘ ہے جو ہر طرح کی کامیابی اور کامرانی کی کلید ہے۔اسی ضمن میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے مسلمانوں کویہ درد بھری نصیحت فرمائی تھی کہ :
’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِدبار اور تنزّل کا دَور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کا نتیجہ ہیں…میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خواہ معاملات کتنے ہی بگڑ چکے ہوں اگر آج تم خدا کی قائم کردہ قیادت (یعنی خلافت)کے سامنے سر تسلیم خم کر لو تو نہ صرف یہ کہ دنیا کے لحاظ سے تم ایک عظیم طاقت کے طور پر ابھروگے بلکہ تمام دنیا میں اسلام کے غلبہ نو کی ایسی عظیم تحریک چلے گی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 3؍اگست 1990ء اسلام آباد،خطبات طاہر جلد صفحہ448-449)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’خلیفہ در حقیقت رسول کا ظِلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لیےدائمی طورپر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اَشرف و اَولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لیےتا قیامت قائم رکھے۔سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا،تاد نیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔ ‘‘
(شہادت القرآن۔روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)
اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ’’لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ‘‘ کہ اللہ ان کو خلیفہ بنا دےگا۔ہر خلیفہ کو اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر خاص سے مسند خلافت پر متمکن فرماتا ہے،اور پھر ظلّی طور پر اسے رسول کی صفات سے متصف فرماتا ہے اور اس کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم خلافت خامسہ کے بابرکت دور سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ہم اپنی اس سعادت مندی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ابھی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان سنا‘‘خلیفہ در حقیقت رسول کا ظِلّ ہوتا ہے’’ اس ارشاد کی روشنی میں ہم میں سے ہر ایک پر یہ لازم اور فرض ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نَصَرہُ للّٰہ نصرًا عزیزاً کی اسی طرح اطاعت اور فرمانبرداری کرے جس طرح دور اوّل کے صحابہ کرام ؓ حضرت محمد ﷺ کی اور دورثانی کے صحابہ کرام ؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (آل عمران آیت120)کہ اللہ تعالیٰ سینوں کی باتوں کا خوب علم رکھتا ہے۔
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ‘‘
(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ باب ذکر اللہ عزّوجل و تقرب الیہ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے میرے بارے میں جو خیالات و نظریات اور گمان ہیں ان کے مطابق نتائج ظاہر کرتا ہوں۔لہٰذا ہر ایک نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل اطاعت و فرمانبرداری اس نیت سے کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی ہے کہ حضور کی منشائے مبارک کے مطابق حضور کے ہر حکم کے بجالانے کی سمجھ اور توفیق عطا فرما۔یہ بات حتمی اور یقینی ہے کہ مثبت اور منفی نتائج اللہ تعالیٰ نے ہی ظاہر کرنے ہوتے ہیں۔اور وہ ہر انسان کے دل میں جتنا معیار اطاعت ہوگا اسی کے مطابق کامرانیاں ،کامیابیاں اور فوز عظیم عطا کرےگا۔
حضرت محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کی معیار اطاعت کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند ترین مراتب عطا فرمائے تھے۔منافقین اورلاہوری طبقہ بھی بظاہر اطاعت کرتا تھا۔مگر اللہ تعالیٰ کا معاملہ دل میں جذبۂ اطاعت کے معیار کے مطابق ہوا۔اس راز کو ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کرتے رہنا چاہیے۔اگر ہماری اطاعت محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیےہوگی تو وہ بے انتہا اجر و ثواب کے علاوہ اس دنیا میں بھی وہ کامرانیاںہمیں عطا کرےگا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اطاعت کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سَہل امر نہیں۔یہ بھی ایک موت ہوتی ہے۔جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘
(الحکم 31؍اکتوبر1902ء صفحہ10)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اطاعت خلافت جو کہ کامرانی کی کلید ہے کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں،سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز،اور وہی تدبیر مفید ہے۔جس کا خلیفۂ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘
(الفضل 31؍جنوری1936ء صفحہ9)
اطاعت خواہ قدرت اولیٰ کے مظہر یا قدرت ثانیہ کے مظہر کی ہو اس کے نتیجے میں کامیابیاں اور فتوحات قومی اور انفرادی طور پر بھی ملتی ہیں اور نافرمانی کا خمیازہ بھی بسا اوقات بہت سے لوگوں کو بھگتناپڑتا ہے۔اور اس راز کو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے اسلام میں ہی سمجھا دیا تھا۔اور اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی رہتی دنیا تک مدون فرما دیا تھاتاکہ ہر زمانے کے مسلمان اطاعت اور عدم اطاعت کے نتائج کو سمجھتے رہیں۔
آنحضرت ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ قیام کیے ہوئے ابھی تیرہ مہینے ہی گزرے تھے کہ قریش مکہ نے مدینہ پر چڑھائی کرنے اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنےکا منصوبہ بنایا۔کفار مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی نگرانی میں ملک شام سے تجارت کرکے واپس مکہ جا رہا تھا اور ان کا راستہ مدینہ سے کچھ فاصلےسے گزرتا تھامکہ والوں نے اس کی حفاظت کے بہانےایک زبردست لشکر مدینہ کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا۔رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع مل گئی تھی۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی آپ پر وحی ہوئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے۔چنانچہ آپ ؐمدینہ سے 313 صحابہ کرام ؓ کو لے کر نکلے۔جب آپ ؐ مدینہ سے نکلے اس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہوگا یا اصل لشکر سے۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشا یہی تھی کہ قافلہ سے نہیں ،بلکہ اصلی مکی لشکر سے مقابلہ ہو۔آپ ؐنے صحابہ ؓ کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں۔صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور صحابہ ؓاس بارے میں آپؐ کو مشورہ دیں۔ایک کے بعد دوسرےمہاجر صحابی کھڑے ہوئےاور انہوں نے کہا کہ یا رسو ل اللہ ﷺ اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا تو ہم اس سے ڈرتے نہیںہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیےتیار ہیں۔حضورؐ ہر مہاجر کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے ’’مجھے مشورہ دو ۔مجھے مشورہ دو۔‘‘ مدینہ کے انصار اس وقت تک خاموش تھے۔پھر ایک انصاری سردار مقدار بن اسود اور سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس رضی اللہ عنہما نےرسول کریمﷺ کی منشا کو سمجھا اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا۔یا رسول اللہﷺ مشورے تو آپؐ کو مل رہے ہیں مگر پھر بھی آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں۔تو شاید آپ ؐ کی مراد ہم انصار سے ہے۔آپ ؐ نے فرمایا۔ہاں۔اس سردار نے جواب میں کہا:یا رسول اللہ ﷺ شاید آپ ؐ اس لیےہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ ؐکے مدینہ آنے سے پہلے ہمارے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں رہتے ہوئے کسی نے آپؐ پر اور مہاجرین پر حملہ کیا تو ہم آپ اور مہاجرین کی حفاظت کریں گے۔لیکن اِس وقت آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں۔جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پرروشن نہیں ہوئی تھی۔اب جبکہ ہم پر آپ ؐ کا مرتبہ اور آپؐ کی شان پورےطور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ اب اس معاہدے کا کوئی سوال نہیں۔ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپؐ کو یہ نہیں کہیں گے
فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (المائدہ آیت25)
یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ لڑتے پھرو ،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے۔آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔اور یا رسول اللہ ﷺ دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لیےآیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔یا رسول اللہ۔جنگ تو ایک معمولی بات ہے۔یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے۔آپ ؐ ہمیں حکم دیجئے کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم بلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔
بعدازاںمورخہ17رمضان2ھ بمطابق 14مارچ 624ء کو میدان بدر میں کفار مکہ کے لشکر اور مسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔چند گھنٹوں کی لڑائی میں ہی مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔کفار مکہ کو جنگ میں شکست کے علاوہ زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس فتح کی اَور بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سے ایک اہم وجہ صحابہ کرام ؓکا مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ و نمونہ تھا۔
اگلے سال مورخہ 7شوال 3ھ بمطابق 23مارچ 625ء کو ایک اور جنگ جسے غزوہ احد کہا جاتا ہے لڑی گئی۔اب کی بار میدان جنگ مدینہ کے قریب واقع احد پہاڑ کا دامن تھا۔احد پہاڑ میں ایک درہ تھا جہاں سے حملہ ہونے کا امکان تھا۔حضور ؐ نےاس کی حفاظت کے لیےعبد اللہ بن زبیر کی نگرانی میں 50تیر انداز متعین فرمائے اور اُنہیں تاکید کی کہ اگر ہمیں فتح ہو اور دشمن پسپا ہوکربھاگ جائے، تو بھی تم نے درہ سے نہیں ہٹنا۔ اگر تم دیکھو کے مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور دُشمن غالب آگیا ہے تو پھر بھی درہ سے نہیں ہٹنا ۔جنگ شروع ہوئی تھوڑی دیر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ جب درہ پر پہرہ دینے والوں نے دیکھا فتح ہو گئی ہے تو ان میں سے چار پانچ کے علاوہ سب درہ چھوڑ کر نیچے آگئے ۔ان کے امیر نے ان کو رسول کریمﷺ کا تاکیدی حکم یاد دلایا مگر انہوں نے جواب میں کہاکہ حضورﷺ کا منشا یہ تھاکہ جب تک فتح کاپورا یقین نہ ہو جائےدرہ خالی نہیں کرنا۔ اب فتح ہو چکی ہے، اس لیےدرہ خالی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
خالد بن ولید جو اس جنگ میں کفار مکہ کی طرف سے لڑ رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ درہ خالی ہو گیا ہے انہوں نے کفار کے بھاگتے ہوئے لشکر کو جمع کر کے درہ کی طرف سے زبردست حملہ کیا اور مسلمانوں کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ رسول کریمﷺ کو بھی شدید زخم پہنچے ۔
تاریخ اسلام کے اس واقعہ پر غور کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔درہ پر متعین نگرانی کرنے والوںنے رسول کریم ﷺ کے حکم کا مطلب اپنے مفادات اوراپنی خواہشات کے مطابق نکال لیا۔ اور ان کے اس غلط مطلب نکا لنے سے مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعہ میں ہمارے لیےیہ سبق ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نصراللّٰہ نصرًاعزیز ًاجو حکم دیں اسے من و عن ویسے ہی مانیں جیسے حکم دیا گیا ہے اور اس پر پوری طرح سے عمل کریں، اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اس حکم یا ہدایت کا مطلب نہ نکالیں ورنہ وہ خدا جو دلوں کا حال جانتا ہے اس کے مطابق محاسبہ کرے گا اور نتائج ظاہر کرے گا۔
عصر حاضرمیں مخالفین اسلا م قرآنی تعلیمات کو اعتراضات کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتےہیںکہ موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں اسلامی تعلیمات ناقابل عمل ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان ان تعلیمات پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ مثلاً اس مصروفیت کےزمانہ میں پانچ وقت نماز یں ادا کرنا ممکن نہیںہے۔جو تعلیمات قرآن مجید میں مسلم خواتین کو پردے کے متعلق دی گئی ہیں مخالفین اسلام کے نزدیک وہ بھی قابل عمل نہیں ہیں۔سود کے بارے میں بھی جو قرآنی حکم ہے وہ بھی قابل عمل نہیں اسی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت سودی کاروباری میں ملوث ہے۔ان کے علاوہ اور بہت سی تعلیمات کو بھی وہ ناقابل عمل بتاتے ہیں۔
اس دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطابات اور خطبات میں افراد جماعت کو اپنی روحانی اور دینی حالت کو بہترسے بہتر بنانے کا حکم دے رہے ہیں۔اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی باربار نصیحت فرما رہے ہیں۔یہ نصیحت اور حکم، اس حکم کے مشابہ ہے جو رسول کریمﷺ نے درہ پر کھڑے صحابہ کو دیاتھا۔
گویا اس وقت دو سو سے زائد ممالک میں احمدی ایسے دروں پر متعین ہیں جہاں قرآنی تعلیمات پر کما حقہ عمل کرکے مخالفین اسلام کو یہ ثابت کرکے دکھانا ہے کہ قرآنی تعلیمات جس طرح ماضی میں قابل عمل تھیں آج بھی قابل عمل ہیں۔اور ان تعلیمات پر عمل کرنا ہی ہر انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیےضروری ہیں۔
ہمیں احمدیت حقیقی اسلام کی روحانی فتوحات کے حصول کے لیےحضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہر ہدایت پر کما حقہ عمل کرنا چاہیےاور اس کی کوئی تاویل اپنی طرف سے نہیں کرنی چاہیے۔
’’اطاعت خلافت کامرانی کی کلید‘‘ اس سلسلے میں ایک اور ایمان افروز واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔ 1947ء میں ہندوپاک کی تقسیم ہوئی، پانچ دریائوں کا متحدہ پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔مشرقی پنجاب ہندوستان کے حصہ میں آیا اور مغربی پنجاب پاکستان کے حصہ میں آیا ۔اس خونی تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ایک اندازہ کے مطابق مشرقی پنجاب میں 25-20لاکھ مسلمانوں کو قتل کروایا گیا۔لاکھوں بچے یتیم ہوئے بہت سے مسلمان اپنے بو ڑھے ماں باپ کو پناہ گزین کیمپوں میں چھوڑ کر بھاگ گئے اور وہ وہاں سسک سسک کر مر گئے۔ہزاروں مسلمان عورتیں مفسدہ پردازوں اور ان کے فوجیوں نے اغوا کر لیں۔ مسلمانوں کی کم وبیش تمام مساجد ،مقابر،خانقاہیں،تباہ و برباد کر دی گئیں۔(الشاذ کالمعدوم)تقسیم ملک کے ابتدائی سالوں میں مشرقی پنجاب کے ایک دو مقامات کے علاوہ کہیں مسلمان نظر نہ آتا تھا۔حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حالات کے رونما ہونے سے بہت پہلے ان امور کا اندازہ لگا لیا تھا ۔اور اس کےبدنتائج سے بچنے کے لیےتیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ان تیاریوں میں سے حفظ ماتقدم کے طور پر ایک تیاری یہ تھی کہ فوج میں ملازمت کرنے والے احمدیوں کو یہ تحریک کروائی گئی کہ وہ فوجی ملازمت سے استعفیٰ دے کر حفاظت مرکز کے لیےفوراً قادیان پہنچ جائیں ۔چنانچہ تعمیل ارشاد میںسینکڑوں احمدی فوجیوں نے اطاعت کا نمونہ دکھایا اور ملازمت کو خیر آباد کہہ کر قادیان پہنچے ۔ان میں سے بہت سے احمدی فوجیوں کو ان کے افسروں نے سمجھایا کہ تمہاری ملازمت کا عرصہ مکمل ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہے اس وقت تک رک جائو آپ کو پنشن اور دیگر مراعات مل جائیں گی ۔احمدیوں نے جواب دیا ہم ایک دن کے لیےبھی رک نہیں سکتے ،ہمارا استعفیٰ منظور کریں، یا نہ کریں ،ہم قادیان جا رہے ہیں ۔فو جیوں کے علاوہ بہت سے احمدی رضاکار بھی خدمت کے لیےقادیان پہنچ گئے۔تقسیم ملک کے خطرناک ایام میں جو خدمات انہوں نے انجام دیں ان کی تفصیل فی الحال بیان کرنے کا موقعہ نہیں ۔ صرف اتنابتانا ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعو رضی اللہ عنہ 31 اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت فرما کر لاہور تشریف لے گئے اور آپ نے اپنے ایک اہم پیغام میں فرمایا:‘‘اے عزیزو!احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا۔ اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون سا ہے، پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمو نہ دکھائو کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں، اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں‘‘
(الفضل 8جون 1948ء صفحہ 3)
حضرت مصلح مو عودؓ نےدرویشان کہلانے والے،اور دوسرے احمدی رضاکاران کو جو ہدایت دی تھیں ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ہے ۔
مقامات مقدسہ اور شعائر اللہ کو کسی حالت میں خالی نہیں کرنا ،ان کی حفاظت کے لیےخواہ کتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں وہ دیں۔
٭…منارۃ المسیح سے اذان کا سلسلہ بند نہیں ہو نا چاہیے۔
٭…بہشتی مقبرہ اورمزار مبارک پرباقاعدگی سےجاکر انفرادی اور اجتماعی طور پر دعائیںکرتے رہیں۔
٭…مسجد اقصیٰ ،مسجد مبارک میں باجماعت نمازوں اور تہجد اور دعائوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
٭…حالات خواہ کیسی صورت اختیار کر جائیں کسی نہ کسی طرح تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
٭…جن دنوں قتل و غارت لوٹ کھسوٹ اپنے عروج پر تھی حضرت مصلح موعود ؓ نے حکم دیا ہر احمدی خاتون کی حفاظت کا مکمل انتظام کیا جائے۔
٭…درویشان کرام نےحضرت مصلح موعود ؓ کی ایک ایک ہدایت پر کما حقہ عمل کیا اور اپنے اس عہد کو نبھایانیز اطاعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں ،لمبا عرصہ بے انتہا تکلیفیں برداشت کیںلیکن ثبات قدم میں لغزش نہیں آئی اس ضمن میںبہت سے واقعات ہیں ان میں سے ایک پیش ہے،
1947ء کے پُر آشوب زمانہ میں مسجد اقصیٰ قادیان کی مغربی جانب ایک مکان میںچالیس40عورتیں محصورتھیں، ان کی حفاظت کے لیےانہیں مسجد اقصیٰ میں لانا ضروری تھا۔باہر کرفیو لگا ہوا تھا مسجد کی مغربی دیوار اور مکان کے درمیان تقریباً 7-8 فٹ چوڑی گلی تھی ۔دو نَوجوان غلام محمد صاحب، اور مستری غلام قادر صاحب مسجد کی مغربی دیوار اور دوسری طرف مکان کی دیوار پر تختے رکھ کر ایک ایک عورت کو مسجد میں منتقل کرنے لگے۔ جب انتالیس عورتیں مسجد میں پہنچ گئیں اور چالیسویں 40کو لا رہے تھے وہ بھی مسجد میں پہنچ گئی تو فو جیوں کی نظر یںدونوں نوجوانوں پر پڑگئیں۔ انہوں نے ان پر گولیوں کی بو چھاڑ کر دی اورانہیں شہید کر دیا۔ان دونوں نوجوانوں نے اپنی اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور کسی خاتون کی بے حرمتی نہیں ہو نے دی ۔جب ان دونوں نو جوانوں کی شہادت کی اطلاع حضرت مصلح موعودؓ کو ملی تو آپ نے فرمایا:
’’یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں اور آدمی اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ مرنے والے مر گئے، انہوں نے بہر حال مرنا ہی تھا، اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یاد رکھنے والا کوئی نہ ہو تا… خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں۔اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتارہے۔
(الفضل 11؍ اکتوبر 1947ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ190-191)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایات پر صدق دلی کے ساتھ عمل کرنے اورمکمل اطاعت کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے درویشان کرام کو اپنے مقصد کے حصول میں کامرانی عطا فرمائی اور الحمد للہ خلافت احمدیہ کے زیر سایہ مقدس مقامات آباد ہیں ۔منارۃ المسیح اور دیگر مساجد سے اذان کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر ہر روز دُعا کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔الحمد للہ۔
مخالفین احمدیت بھی اطاعت خلافت کے نتیجہ میں ملنے والی ان برکات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔چنانچہ اُسی زمانے میں مؤرخہ 26؍مئی 1948ء کو ایک احراری اخبار’’آزاد‘‘ نےاپنے مولوی ملاؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اور قادیان میں مقیم درویشان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ‘‘مشرقی پنجاب کے عوام تو عوام تھے اگر انہوں نے پولیس اور فوج اور انسانوں کے ہجوم سے گھبرا کر مہاجرت اختیار کی تو ظاہر ہے کہ وہ مجبور تھے ۔لیکن جس بزدلی سے مسجدوں کے اماموں، خانقاہوں کے مجاوروں اور ایں شریف اور آں شریف کے سجادہ نشینوں نے فرار اختیار کیا وہ اسلام کی سپرٹ اور تاریخ کے صریحاً خلاف تھا۔تمام عمر اوقاف کی کمائی اپنے نفس پر صرف کرکے، اپنے شعائر کو کافروں کے حوالے کر دینا اور خود بھاگ نکلنا، قابل شرم ہے آج بھی مرزا غلام احمد کے مزار کی حفاظت کے لیےوہاں جاںنثار مرزائی موجود ہیں اور اب بھی وہاں کی مسجدوں میںاذان دی جاتی ہے ۔
مخالف کے اس اعتراف پر وہ مثال صادق آتی ہے جس میں کہا گیا ہے۔( الفضل ما شھدت بہ الاعداءُ)جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی جماعت کے جذبۂ اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے اعلان فرمایا : ’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کے لیےتیار ہیں ۔میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لیےکہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیےتیار ہیں، میں انہیں پہاڑوں کی چو ٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیےکہوں تو وہ پہاڑوں کی چو ٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں۔ میں انہیں جلتے ہوئے تندوروں میں کود جانے کا حُکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تندوروں میں کُودکر دکھادیں۔اگر خود کشی حرام نہ ہوتی ،اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت احمدیہ کے سوآدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا ۔خُدا نے ہمیں اسلام کی تائید کے لیےکھڑا کیا ہے ۔خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بلند کرنے کے لیےکھڑا کیا ہے ۔‘‘
(الفضل مصلح مو عود نمبر18از تبلیغ فروری1958ء صفہ 17-18)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اطاعتِ خلافت کا مضمون سمجھاتے ہوئے تاکیدی حکم دیا:
فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقرۃ 133)
پس ہر گز نہیں مرنا مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو ۔ اس آیت کی بہت سی تفاسیر ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس پر جب موت کی گھڑی آئےتو اس کی ایسی حالت ہو کہ وہ مکمل فرمانبردار اور مطیع ہو۔ مثال کے طور پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم دیا اور کسی نے یہ سمجھ لیا کہ چلو کل یا دو دن بعد اس پر عمل کر لیں گے اور اگلے لمحہ ہی میں اس کی وفات ہو جائے تو اس کی وہ حالت اطاعت اور فرمابرداری کی نہیں ہو گی بلکہ حکم عدولی کی حالت ہو گی ۔اس راز کو حضرت مو لانا نورالدین صاحبؓ نے بہت اچھی طرح سے سمجھا اور اس کے مطابق عمل کر کے دکھایا۔اس ضمن میں صرف ایک واقعہ پیش ہے۔ اکتو بر 1905ء میں حضرت مسیح مو عود علیہ السلام دہلی میں مقیم تھے ۔اور مو لانا نورالدین صاحبؓ قادیان میں تھے۔ دہلی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ٹیلی گرام بھجوایا کے فوراً دہلی پہنچ جائیں جب آپ کو تار ملا آپ اپنی ڈسپنسری میں تشریف فرما تھے تار ملتے ہی یہ کہتے ہوئے فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےبلا توقف بلایا ہے گھر میں قدم رکھے بغیر فوراً اس اڈہ کی طرف چل پڑے جہاں سے یکہ بٹالہ جانے کے لیےملا کرتا تھا ۔ بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین دہلی جانے کے لیےپلیٹ فارم پر کھڑی تھی ۔مولانا نورالدین صاحب ؓکے پاس ٹکٹ خریدنے کے لیےکرایہ نہیں تھا ۔ وہ اللہ مسبب الاسباب جس کے مسیح کے حکم کی تعمیل میں آپ بلا توقف دوڑ پڑے تھے اس نے آپ کی معجزانہ مدد فرمائی۔ پلیٹ فارم پر ایک ہندو دوست آئے اور عرض کیا کہ میں قادیان آپ سے ملنے جارہا تھا ۔میری بیوی بہت بیمار ہے اس کو دیکھ کر دوائی لکھ دیں مولانانے فرمایا کہ میں نے تو اس ٹرین سے دہلی جانا ہے اُسے یہاں لے آئو میں دوائی لکھ دوں گا۔وہ مریضہ کو لے آیا آپ نے دوائی لکھ دی اور اس ہندو دوست نے دہلی تک کا ریلوے ٹکٹ خرید کر معقول نقد رقم مولانا نورالدین صاحب ؓ کی خدمت میں پیش کردی۔
مولانا نورالدینؓ صاحب نے نہ چاہا کہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کے حکم ملنےکے بعد ایک لمحہ بھی حکم عدولی میں صرف ہو ۔جب سچی نیت، اور نیک ارادے سے حکم کی تعمیل شروع کی جائے تو اللہ تعالیٰ اسباب خود پیدا فرما دیتا ہے۔ اس واقعہ میں ہم سب کے لیےایک بہت بڑی نصیحت ہے کہ جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوئی نصیحت فرمائیں تو ہمارا فرض ہے کہ اسی وقت اس پر عمل شروع کر دیںاس کے بعد کوئی لمحہ نہیں گزرنا چاہیےکہ جس میں ہم میں سے کوئی حکم عدولی کا مرتکب ہو ۔
حکم سنتے ہی فوراً اطاعت شروع کر دینے کے متعلق اورایک ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ :حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بابا کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ 1905ءیا1906ءجلسہ کے موقعہ پر مسجد اقصیٰ قادیان کے پیچھے بازار میں تھے اور حضرت مسیح مو عوو علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے ممبر پر تشریف فرماتھے۔ آپ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا بیٹھ جائو ۔بابا کریم بخش کے کان میں جیسے ہی یہ آواز پڑی آپ وہاں بازار میں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی سیڑھیوں تک پہنچے اور تقریر سُنی۔
(اسی قسم کا ایک واقعہ حدیث میں ایک صحابی کے متعلق آیا ہے)بظاہر حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کا یہ حکم حاضرافراد کے لیےتھا ۔مگر بابا کریم بخش صاحب نے نہ چاہا کہ حضور کا یہ حکم سُن کران پر ایک لمحہ حکم عدولی کا آئے۔
یہی نظارہ چشم فلک نے اس روز دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا تو آپ نے مسجد فضل کے اندر موجود احباب کے لیےارشاد فرمایا بیٹھ جائیں ۔طیورِ ابراہیمی کو جیسے جیسے اپنے خلیفہ کا یہ ارشاد پہنچتا گیا۔ یہ بیٹھتے چلے گئے یہاں تک کہ مسجد فضل کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں موجود احمدی اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ۔
زندگی کے ہر موڑ اور ہر مرحلہ پر یہی جذبہ اطاعت ہم میں سے ہر ایک کے اندر ہونا چاہیےکیونکہ یہی ہماری اور جماعت کی کامیابی اور کامرانی کی کلید ہے۔
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی کامرانیوں کی معراج تک پہنچایا۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کی ترقیات کا راز کیا ہے۔آپ نے فوراً جواب دیا۔
Because through all my life I was obedient to Khilafat
یعنی میری کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام زندگی خلافت کا مکمل مطیع اور فرمانبردار رہا ہوں۔
(الفضل 14 جون 2010ءصفحہ نمبر4)
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ پروفیسر ڈاکٹرمحمدعبد السلام صاحب مرحوم کے بارہ میں ہے ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اُن کواعلیٰ بلندیوں تک پہنچایا تو دوسری طرف وہ خلیفہ وقت کے انتہائی مطیع اورفرمانبردار تھے ۔آپکے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے فرمایا۔
’’میں اُن (ڈاکٹرعبد السلام صاحب) کی عمر کے لحاظ سے چھو ٹا ‘علم کے لحاظ سے‘دنیا کے لحاظ سے تو حیثیت نہیں ‘مگر جب مجھ سے گفت شنید کرتے‘ملتےتھے‘ وہ عزت و احترام کے تمام تقاضے جو خلافت سے وابستگی کے نتیجہ میں پیدا ہوتے تھے اس کو اس طرح پورا کرتے تھے کے میں حیران رہ جاتا ۔اور باتوں میں مشورہ کرتے۔ وہ کہتے تھے جو میں کہتا تھا، وہ کرتے تھے جو میں بیان کرتا تھا۔‘‘
(الفضل انٹر نیشنل 10تا16 جنوری1997ء)
حضرت رسول کریم ﷺ ایک دفعہ طائف میں تبلیغ کے لیےتشریف لے گئے ۔وہاں آپ کی سخت مخالفت ہوئی۔بالآخر آپ ﷺطائف سے واپس آرہے تھے۔تین میل تک آپ پر پتھراؤ ہوتا رہا۔سارا جسم خون سے لہو لہان ہوگیا۔اس دوران پہاڑوں کا فرشتہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔ اگر آپ کہیں تو میں یہ طائف کی بستی جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان آباد ہے اُنہیں دو پہاڑوں کے ذریعہ پیس کر رکھ دوں۔ رسول کریم ﷺ جنہیں اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا یا تھا،نے جواب دیا نہیں !،نہیں !مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کریگا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے۔
(بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 184)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں قرآن مجید ،حدیث اور آپ کی اپنی پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب نازل ہوا۔ہزاروں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے لگے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کا مرنا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔اور اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے درد اور گریہ وزاری سے یہ دعا کرتے تھے :
’’الٰہی!! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔‘‘
(بحوالہ سیرت طیبہ در منثور صفحہ54)
آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد سماعت فرمایا :’’خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے۔‘‘
(بحوالہ شہادت القرآن،روحانی خزائین جلد 6صفحہ 353)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ چند سالوں سے دنیا کو عالم گیر تباہی سے متنبہ فرما رہے ہیں ۔آپ ایک طرف تو ان ہولناک خطرات سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہیوں کا احساس دلا رہے ہیں ۔اور دوسری طرف رحمۃ للعالمین کی غلامی میں وہی جذبہ رحمت نمایا ںنظر آتا ہے۔اور افراد جماعت کو دنیا والوں کے لیےدعائیں کرنے کی بار بار تاکید فرما رہے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:
’’ہر روز ایک نئی خبر آتی ہے کہ آج جنگ کا شعلہ بھڑکنے والا ہے، آج ختم ہونے والا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جو ہیں وہ جنگ کی طرف جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس میں اب مزید کوئی روک پیدا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس لیےاللہ تعالیٰ خاص طور پر مسلمانوں کو، خاص طور پر احمدیوں کو ان جنگ کے بداثرات سے بچا کر رکھے اور عمومی طور پر انسانیت کو بھی بداثرات سے بچائے۔ اگر ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کوئی ذریعہ بن سکتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور یہ خدا کو پہچاننے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ وہ حالات پیدا کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اپنی تباہی سے بچ سکیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 18مئی 2018ء ہفتہ روزہ بدر 7جون 2018)
اطاعت کا تقاضا ہے کہ ہم درد دل سے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عصر حاضر کے انسانوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عذاب الٰہی سے بچائے ۔ کیونکہ انذاری پیشگوئیاں توبہ ،دعا اور صدقات سے ٹل جاتی ہیں۔
اطاعت خلافت کامرانی کی کلیدکے بارے میںحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں ۔اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ۔ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘
(الفضل انٹر نیشنل 23تا 30 مئی 2003 ء صفحہ 1)
آخر میں دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی اُسی طرح کامل اطاعت وفرما نبرداری کی توفیق عطا فرمائے جیسے صحابہ کرام رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضور علیہ السلام کی کیا کرتے تھے اور پھر یہ بھی دُعا ہے اللہ تعالیٰ اس اطاعت کو قبول فرمائے اور ہماری جماعت کو اور ہمیں اور ہماری اولاد کو دنیا اور آخرت میں بے انتہا برکتیں وکامرانیاں اور کا میابیاں عطا فرمائے آمین۔
٭…٭…٭