سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 12)
اخلاص بِاللہ ۔یاد الٰہی
خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آجاتا
رسول کریم ؐکی عادت تھی کہ بہت آرام اور آہستگی سے کلام کر تے تھے اور آپؐ کے کلام میں جوش نہ ہو تا تھا بلکہ بہت سہولت ہو تی تھی لیکن آپؐ کی یہ بھی عادت تھی کہ جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر آتا آپؐ کو جوش آجاتا اور آپؐ کی عبارت میں ایک خاص شان پیدا ہو جا تی تھی۔چنانچہ احادیث کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے آتے ہی آپ کو جوش آجاتا تھا اور آپؐ کے لفظ لفظ سے معلوم ہو تا تھا کہ عشق الٰہی کا دریا آپؐ کے اندر لہریں مار رہا ہے آپؐ کے کلام کو پڑھ کر محبت کی ایسی لپٹیں آتیں کہ پڑھنے والے کا دماغ معطر ہو جا تا ۔اللہ اللہ آپؐ صحابہؓ میں بیٹھ کر کس پیا رسے با تیں کر تے ہیں ان کی دلجوئی کرتے ہیں ان کی شکایات کو سنتے ہیں۔ پھر صحابہ ہی کا کیا ذکر ہے کافر و مومن آپؐ کی ہمدردی سے فا ئدہ اٹھا رہا ہے اور ہر ایک تکلیف میں آپؐ مہربان باپ اور محبت کر نے والی ماں سے زیادہ ہمدرد ومہربان ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں جہاں اس کا اور غیر کا مقابلہ ہو جا ئے آپ بے اختیار ہو جاتے ہیں محبت ایسا جوش مارتی ہے کہ رنگ ہی اَور ہو جا تا ہے۔سننے والے کا دل ایک ایسی وابستگی پا تا ہے کہ آ پ ؐہی کا ہم رنگ ہو جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کی وہ عظمت بیان کر تے ہیں کہ دل بے اختیار اس پر قربان ہو نا چاہتا ہے ۔ وہ ہیبت بیان کر تے ہیں کہ بدن کانپ اٹھتا ہے ۔ وہ جلال بیان کر تے ہیں کہ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں ۔ ایسا خوف دلاتے ہیں کہ مومن انسان کا دل تو خوف کے مارے پگھل ہی جا تا ہے ۔ پھر ایسی شفقت ومحبت کا بیان کر تے ہیں کہ ٹو ٹے ہو ئے دل جڑ جا تے ہیںاور گری ہوئی ہمتیں بڑھ جا تی ہیں۔اللہ اللہ آپؐ کے عام کلام کا مقابلہ اگر اس کلام سے کریں کہ جس میں بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر تے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق معلوم دیتا ہے ۔گو یا خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ ؐ کاروآں روآں اس کی طرف جھک جا تا ہے اور ذرہ ذرہ اس کے احسانات کو یاد کر نے لگتا ہے اور زبان ان کی ترجمان ہو تی ہے۔نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے سنا کہ فرماتے تھے
اَلْحَلاَلُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشَبھاتٌ لَا یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتّقَی الشُّبْھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِہٖ وَدِیْنِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبْھَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْ شِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلَکٍ حِمًی اَلَاوَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ اَلَاوَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ وَاِذَ افَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبْ(بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہ)
حلال بھی بیان ہو چکا ہےاور حرام بھی بیان ہو چکا اور ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ مشابہ ہیں انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو کوئی شبہات سے بچے اس نے اپنی عزت اور دین کوبچا لیا اور جو کو ئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی رکھ کے ارد گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے ۔ قریب ہے کہ اپنے جانوروں کو اندر ڈال دے۔خبردار ہر ایک بادشاہ کی ایک رکھ ہو تی ہے خبردار اللہ کی رکھ اس کی زمین میں اس کے محارم ہیں۔ خبردار جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جا ئے تو سب جسم درست ہو جا تاہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سب جسم خراب ہو جا تا ہے۔خبردار اور وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے۔
اس عبارت کو پڑھ کر معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک دریا امڈ رہا تھا۔ آپؐ دیکھتے تھے کہ ایک دنیا اس پاک ہستی کے احکام کو توڑ رہی ہے اور اس کے احکام پر عمل کر نے سے محترز ہے لوگ اپنے نفوس کے احکام کو مانتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے ارشادات کی تعمیل نہیں کر تے۔پھر آپؐ کو خدا تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کے رو سے آپؐ کب برداشت کر سکتے تھے کہ لوگ اس پیارے رب کو چھوڑ دیں۔ ان خیالات نے آپؐ پر یہ اثر کیا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی عظمت کا ذکر کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ دنیاوی بادشاہوں کی اطاعت کے بغیر انسان سکھ نہیں پا سکتا تو پھر اس قادر مطلق کی نافر مانی پر کب سکھ پا سکتا ہے جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
میں جب مذکورہ بالا حدیث کو پڑھتا ہوں تو حیران ہو تا ہوں کہ آپؐ کس جوش کے ساتھ خدا کو یاد کرتے ہیں بناوٹ سے یہ کلام نہیں نکل سکتا اس خالص محبت کا ہی نتیجہ تھا جو آپؐ خدا سے رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپؐ کو اس قدر جوش آجاتا اور آپؐ چاہتے کہ کسی طرح لوگ ان نافرمانیوں کو چھوڑ دیں او رخدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگ جائیں۔ اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو حیرت تھی کہ لوگ کیوں اس طرح دلیری سے ایسے کام کر لیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو۔
جس کام میں کسی حاکم کی ناراضگی کاخیال ہو۔لوگ اس کے کرنے سے بچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کو ئی خوف نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی نافرمانی سے کچھ نقصان نہ ہو گا لیکن رسول کریم ؐ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی اصل ناراضگی ہے اور انسان کو چاہیے کہ نہ صرف گناہوں سے بچے بلکہ ان کاموں سے بھی بچے کہ جن کے کرنے میں شک ہو کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان کاموں کے کرنے پر ہلاک ہو جا ئے اور وہ اسے خدا تعالیٰ کے رحم کے استحقاق سے محروم کردیں۔خدا تعالیٰ کے نام پر یہ جوش اور اس قدر اظہار خوف و محبت ظاہر کر تا ہے کہ آپؐ کے دل میں محبت الٰہی اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ ہر ایک انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس کا اندازہ بھی کر سکے۔
ذکرِ الٰہی کی تڑپ
پچھلی مثال سے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ یاد الٰہی کے وقت آپؐ کو کس قدر جوش آتا اور کس قدر محبت سے مجبور ہو کر آپؐ کے کلام میں خاص شان پیدا ہو جا تی تھی۔اب میں ایک اور واقعہ بتاتا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی یاد کا نہایت ہی شوق تھا اور آپؐ عبادات کے بجالانے میں کَمَا حَقُّہٗ مشغول رہتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہو ئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادرنہ تھے اس لیے آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپؐ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لیے نکلے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
فَوَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نّفْسِہٖ خِفَّۃً فَخَرَجَ یُھَادٰی بَیْنَ رَجُلَیْنِ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ رِجْلَیْہِ تَخُظَّانِ الْاَرْضَ مِنَ الوَجْعِ فَاَرَادَاَبُوْبَکْرٍ اَنْ یَّتَاخَّرَ فَاَوْ مَاَ اِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ مَکَانَکَ ثُّمَّ اُتِیَ بِہٖ حَتّٰی جَلَسَ اِلیٰ جَنْبِہٖ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ وَ اَبُوْبَکْرٍ یُصَلِّیْ بِصَلَاتِہٖ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاۃِ اَبِیْ بَکَرٍ (بخاری کتاب الآذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ)
کہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی پس آپؐ نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپؐ کے قدم زمین سے چھوتے جا تے تھے۔آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں۔ اس ارادہ کو معلوم کرکے رسول کریم ﷺ نےابوبکر ؓ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ ؐکو وہاں لا یا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور با قی لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی نماز کی اتباع کرنے لگے۔
اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کیسی ہی خطرناک بیماری ہو خدا تعالیٰ کی یاد کو نہ بھلاتے۔ عام طور پر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ذرا تکلیف ہو ئی اور سب عبادتیں بھول گئیں اور نماز باجماعت اور دوسرےشرائط کی ادائیگی میں تو اکثر کو تا ہی ہو جا تی ہے لیکن آپ کا یہ حال تھا کہ معمولی بیماری تو الگ رہی اس مرض میں کہ جس میں آپؐ فوت ہو گئے اور جس کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپؐ کو بار بار غش آجاتے تھے اٹھنے سے قاصر تھے لیکن جب نماز شروع ہو گئی تو آپؐ برداشت نہ کر سکے کہ خاموش بیٹھ رہیں اسی وقت دو آدمیوں کے کاندھے پر سہارا لے کر با وجود اس کمزوری کےکہ قدم لڑ کھڑاتے جاتے تھے نماز باجماعت کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے۔بے شک ظاہر اً یہ بات معمولی معلوم ہو تی ہے لیکن ذرا رسول کریم ؐ کی اس حالت کو دیکھو جس میں آپؐ مبتلا تھے پھر اس ذکر الٰہی کے شوق کو دیکھو کہ جس کے ماتحت آپؐ نماز کے لیے دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہا تھ رکھ کر تشریف لائے تو معلوم ہو گا کہ یہ واقعہ کو ئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ آپؐ کے دل میں ذکر الٰہی کا جوش تھا اس کے اظہار کا ایک آئینہ تھا۔ ہر ایک صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ ذکر الٰہی آپؐ کی غذا تھی اور اس کے بغیر آپ ؐ اپنی زندگی میں کو ئی لطف نہ پا تے تھے۔اسی کی طرف آپؐ نے اشارہ فرمایا ہےکہ جن چیزوں سے مجھے محبت ہے ان میں سے ایک قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی نماز میں میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔شریعت کے لحاظ سے آپؐ کا باجماعت نماز پڑھنا یا مسجد میں آنا کو ئی ضروری امر نہ تھا کیونکہ بیماری میں شریعت اسلام کسی کو ان شرائط کے پورا کرنے پر مجبور نہیں کر تی لیکن یہ عشق کی شریعت تھی یہ محبت کے احکام تھے بے شک شریعت آپؐ کو اجازت دیتی تھی کہ آپ گھر میں ہی نماز ادا فرماتے لیکن آپؐ کو ذکر الٰہی سے جو محبت تھی وہ مجبور کرتی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو آپؐ ہر ایک تکلیف برادشت کرکے تمام شرائط کے سا تھ ذکر الٰہی کریں اور اپنے پیارے کو یاد کریں اس تکلیف کی حالت میں آپؐ کو ذکر الٰہی سے یہ وابستگی تھی تو صحت کی حالت میں قیا س کیا جا سکتا ہے۔
میں پیچھے لکھ چکا ہوں کہ رسول کریم ؐکو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق تھا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپؐ کے اندر ایک جوش پیدا ہو جا تا اور یہ کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے ایسی محبت تھی کہ تندرستی اور بیماری میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہی آپ ؐ کی غذا تھا۔اب میں ایک اور واقعہ یہاں درج کر تا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ آپؐ جہاں تک ہو سکتا لوگوں میں خدا تعالیٰ کے ذکر کی عادت پیدا کرتے۔
حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ذَھَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی بَنِیْ عَمْرِوبْنِ عَوْفٍ لِیُصْلِحَ بَیْنَھُمْ فَحَانَتِ الصَّلٰوۃُ فَجَاءَ الَمُؤَذِّنُ اِلیٰ اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَ اَتُصَلِّیْ لِلنَّاسِ فَاُقِیْمُ قَالَ نَعَمْ فَصَلَّی اَبُوْبَکْرٍ فَجَاءَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِی الصَّلٰوۃِ فَتَخَلَّصَ حَتّٰی وَقَفَ فِیْ الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ وَکَانَ اَبُوبَکْرٍ لَا یَلْتَفِتُ فِیْ صَلٰوتِہٖ فَلَمَّا اکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِیْقَ اِلْتَفَتَ فَرَاٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَشَارَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنِ امْکُثْ مَکَا نَکَ فَرَفَعَ اَبُوْبَکْرٍ یَدَیْہِ فَحَمِدَ اللّٰہَ عَلَیْہِ مَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ اَبُوْبَکْرٍحَتّٰی اسْتَوٰی فِی الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ یَا اَبَا بَکْرٍ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَثْبُتَ اِذْ اَمَرْتُکَ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ مَاکَانَ لِابْنِ اَبِیْ قَحَا فَۃَ اَنْ یُّصَلِّیَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالِیَ رَئَیْتُکُمْ اَکْثَرْ تُمُ التَّصْفِیْقَ مَنْ رَابَہٗ شَیْئٌ فِی صَلٰوتِہٖ فَلْیُسَبِّحْ فَاِنَّہٗ اِذَاسَبَّحَ اُلتُفِتَ اِلَیْہِ وَاِنَّمَا التَّصْفِیْقُ لِلنِّسَآءِ (بخاری کتاب الآذان باب من دخل لیئوم الناس)
رسول کریم ﷺ بنی عمر وبن عوف میں گئے تاکہ ان میں صلح کروائیں پس نماز کا وقت آگیا اور مؤذّن حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ کیا آپؐ لوگوں کو نماز پڑھوائیں گے۔میں اقامت کہوں آپ نے جواب دیا کہ ہاں پھر حضرت ابوبکر ؓ نماز کے لیے کھڑے ہو ئے اتنے میں رسول کریم ؐ تشریف لے آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔آپؐ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور پہلی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے جب آپؐ کی آمد کی اطلاع ہو ئی تو لوگ تا لیاں پیٹنے لگے(تاحضرت ابوبکرؓ کو معلوم ہو جا ئے)لیکن حضرت ابوبکرؓ نماز میں دوسری طرف کچھ تو جہ نہ فرماتے جب تا لیاں پیٹنا طول پکڑ گیا تو آپؓ متوجہ ہو ئے اور معلوم کیا کہ رسول کریمؐ تشریف لا ئے ہیں رسول کریم ﷺ نے آپ ؓکی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو اس پر حضرت ابوبکر ؓنے اپنے ہاتھ اٹھا ئے اور اس عزت افزائی پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور حمد کی پھر آپؓ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں مل گئے اور رسول کریم ﷺ آگے بڑھےاور نماز پڑھا ئی۔سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ اے ابوبکر ؓ جب میں نے حکم دیا تھا تو پھر آپؓ کو کونسی چیز مانع ہو ئی کہ نماز پڑھاتے رہتے۔حضرت ابوبکرؓنےجواب دیا کہ ابن ابی قحافہ کی کیا حیثیت تھی کہ رسول کریم ؐ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا(ابو قحافہ حضرت ابوبکر ؓ کے والد تھے)پھر آپؐ نے (لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر)فرمایا کہ کیا وجہ ہےکہ میں نے دیکھا کہ تم لوگوں نے اس قدر تالیاں پیٹیں ۔ جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے اسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو خود ہی اس کی طرف توجہ ہو گی اور تالیاں پیٹنا تو عورتوں کا کام ہے۔
(باقی آئندہ)