شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
قرآن مجید کے لیے غیرت
حضرت شیخ ۷یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں :
“حضرت مسیح موعودؑ بحیثیت ایک باپ کے نہایت شفیق اور مہربان تھے۔کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ بچوں کو ماریں۔ پھر اپنی اولاد کو جو خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے تھی۔ہر طرح دلداری فرماتے تھے …باوجود اس قدر نرمی اور شفقت علی الاولاد کے جب قرآن مجید کا کوئی معاملہ پیش آ جاتا تو بچوں کی کوئی حقیقت آپؑ کے سامنے نہ رہتی تھی۔ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب میاں مبارک احمد اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا سے جب کہ وہ بہت چھوٹے بچے تھےقرآن مجید کی بے ادبی ہو گئی۔اس وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسے زور سے طمانچہ مارا کہ انگلیوں کے نشان اس گلاب جیسے رخسار پر نمایاں ہو گئے۔اور فرمایا اس کومیری آنکھوں کے آگے سے ہٹا لو۔یہ اب ہی قرآن شریف کی بے ادبی کرنے لگا ہے تو پھر کیا ہو گا۔”
(حیات احمد از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ174)
خاکسارکومحترم سیدمیرمحموداحمدناصرصاحب نے اسی روایت کے متعلق بتایا کہ حضرت اماں جان ؓ/حضرت مصلح موعودؓ نے بتایاتھا کہ مونہہ پرنہیں کاندھے پرچپت لگاتے ہوئے پرے کیاتھا۔(ایازؔ)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں :
“حضرت مسیح موعودؑ کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔یہی طرز عمل آپؑ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقع ہوئی ہے۔بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں ۔ایک دن ان ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلیّٰی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لیے دعا کر رہے ہیں کہ
“یا اللہ تیرا کلام ہے۔مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں ۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ قرآن فہمی کے لیے دعاؤں اور توجہ الی اللہ کو ہی اپنا راہ نما بناتے تھے۔”
(حیات احمد از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 175)
قرآن کریم سے عشق ومحبت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ آپ نے نثرمیں توقرآن کی خوبیاں اور عظمتوں کاذکرکیاہی ہے۔ نظم میں بھی فرمایا۔اوراس میں آپ ؑ ایک امتیازی اور منفرد شان کے حامل ہیں ۔شاذہی پہلے کبھی کسی نے قرآن کریم کے محاسن اور حسن وجمال کاتذکرہ اسی طرح نظم میں کیاہو۔آپ نے عربی، فارسی اور اردواشعارمیں بھی قرآن کے حسن وجمال کا ذکر کیا ہے۔صرف نمونہ کے طورپرچند اشعار پیش ہیں :
آپؑ اپنے ایک منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے
بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بُستاں ہے
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 198 تا 201)
آپؑ اپنے ایک اور منظوم پاکیزہ کلام میں قرآنِ کریم سے عشق کا اظہار یوں کرتے ہیں :
نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اِک لفظ مسیحا نکلا
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 305)
آپؑ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
از نورِ پاکِ قرآن صبحِ صفا دمیدہ
بر غنچہ ہائے دِلہا بادِ صبا وَزِیدہ
اِیں روشنیٗ و لَمعاں شمسُ الضحیٰ ندارد
و ایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہ
یوسف بقعرِ چاہے محبوس ماند تنہا
و ایں یوسفے کہ تن ہا از چاہ برکشیدہ
از مشرقِ معانی صدہا دقائق آورد
قدِّ ہلال نازک زاں نازکی خمیدہ
کیفیت علومش دانی چہ شان دارد
شہدیست آسمانی از وحیٔ حق چکیدہ
اے کانِ دلربائی دانم کہ از کجائی
تو نورِ آں خدائی کیں خلق آفریدہ
(براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد1 صفحہ 304-305 حاشیہ نمبر2)
ترجمہ:قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہو گئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِ صبا چلنے لگی۔
ایسی روشنی اور چمک تو دوپہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حُسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں ۔
یوسفؑ تو ایک کنوئیں کی تہ میں اکیلا گِرا تھا، مگر اِس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنوئیں میں سےنکالا ہے۔منبعِ حقائق سے یہ سینکڑوں حقائق اپنے ہمراہ لایا ہے۔ہلالِ نازک کی کمر اِن حقائق سے جھک گئی ہے۔
تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے، وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے۔
اے کانِ حُسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے، تُو تو اُس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی۔
(ترجمہ از درثمین فارسی مترجم از حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ صفحہ74-75)
اے بےخبر بخدمتِ قرآں کمر ببند
زاں پیشتر ببانگ برآید فلاں نماند
اے بے خبر!قرآن کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوجا۔ اس سے قبل کہ نماز (جنازہ)کی پکار دی جائے۔
پھر آپ اپنے ایک عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
لَمَّا أری الفُرقَانُ مِیْسَمَہُ تَرَدَّی مَن طَغٰی
مَن کَانَ نَابِغَ وَقتِہِ جَاءَ المَوَاطِنَ ألْثَغَا
جب قرآن نے اپنی شکل دکھلائی تو ہر یک طاغی نیچے گر گیاجو شخص اپنے وقت کا فصیح اور جلد گو تھا وہ کُند زبان ہو کر میدان میں آیا۔
وَإذَا اَرَی وَجْہًا بِاَنْوَارِ الْجَمَالِ مُصَبَّغَا
فَدَرَی الْمُعَارِضُ اَنَّہُ اَلْغَا الْفَصَاحَۃَ اَوْ لَغَا
اور جب قرآن نے اپنا ایسا چہرہ دکھایا جو انوار جمال سے رنگین تھاتو معارض سمجھ گیا کہ وہ قرآن کے معارضہ میں فصاحت بلاغت سے دور ہے اور لغو بک رہا ہے۔
مَنْ کَانَ ذَا عَیْنِ النُّہٰی فَإِلٰی مَحَاسِنِہِ صَغٰی
إلَّا الَّذِی مِنْ جَہْلِہِ اَبْغَی الضَّلَالَۃَ اَوْ بَغٰی
جو شخص عقلمند تھا وہ قرآن کے محاسن کی طرف مائل ہو گیاہاں وہ باقی رہا جو گمراہی کا مددگار بنا اور ظلم اختیار کیا۔
عَیْنُ الْمَعَارِفِ کُلِّہَا اٰتَاہُ حِبٌّ مُبْتَغٰی
لَا یُنْبَئَنَّ بِبَحْرِہِ الذَّخَّارِ کَلْبًا مُّوْلَغَا
تمام معارف کا چشمہ خداتعالیٰ نے قرآن کو دیااور اس کے بحر زخّار سے اس کتے کو خبر نہیں دی جاتی جس کو تھوڑا سا پانی پلایا جاتا ہے۔
اِقْبَلْ عُیُوْنَ عُلُوْمِہِ اَوْ أَعرِضَنْ مُسْتَوْلِغَا
وَاتْبَعْ ہُدَاہُ أَوِ اعْصِہِ إنْ کُنْتَ مُلْغًا مُّتِّغَا
اس کے علموں کے چشمے کو قبول کر یا بے حیا بیباک کی طرح کنارہ کراور اس کی ہدایت کا فرمانبردار ہو جا یا اگر تُو احمق فحش گو اور دین کو تباہ کرنے والا ہے تو نافرمان بن جا۔
مَا غَادَرَ الْقُرْآنُ فِی الْمَیْدَانِ شَابًّا بُزْرَغا
قَتَلَ الْعِدَا رُعْبًا وَّ إنْ بَارَی الْعَدُوُّ مُسَبِّغَا
قرآن نے میدان میں کسی ایسے جوان کو نہ چھوڑا جو جوانی میں بھرا ہوا تھادشمنوں کو اپنے رعب سے قتل کیا اگرچہ دشمن زرہ پہن کر آیا۔
قَدْ اَنْکَرُوْا جَہْلًا وَّ مَا بَلَغُوْہُ عِلْمًا مَّبْلَغَا
حَتَّی انْثَنَوْا کَالْخَائِبِیْنَ وَ اَضْرَمُوْا نَارَ الْوَغَا
مخالفوں نے جہل سے انکار کیا اور اس کے مقام بلند تک ان کا علم نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ مقابلہ سے نومید ہو گئے اور جنگ کی آگ کو بھڑکایا۔
نورٌ عَلٰی نُوْرٍ ھُدٰی یَوْمًا فَیَوْمًا فِی الثَّغَا
مَنْ کَانَ مُنْکِرَ نُوْرِہِ قَدْ جِئْتُہُ مُتَفَرِّغَا
اس کی ہدائتیں نورعلی نورہیں اوردن بدن وہ نورزیادتی میں ہے۔اورجوشخص اس کے نورکامنکرہے میں اسی کے لیے فارغ ہوکرآیاہوں ۔
فِیْھَا الْعُلُوْمُ جَمِیْعُہَا وَ حَلِیْبُہَا لِمَنِ ارْتَغَا
فِیْہَا الْمَعَارِفُ کُلُّہَا وَ قَلِیْبُہَا بَلْ اَبْلَغَا
اوراس میں تمام علم ہیں اور اس میں علوم کادودھ ہے اس کے لیے جو اوپر کا حصہ کھار ہاہے۔ اور اس میں تمام معارف اوران کاکنواں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔
(نورالحق حصہ اول ،روحانی خزائن جلد8ص 165)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر انبیاء سے محبت کا بیان
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے
(درثمین صفحہ77)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام انبیاء سے محبت کے بارے میں فرماتے ہیں :
“خدا کے نبیوں کی زندگی سادہ ہوتی ہے وہ اس نیت سے کوئی کام نہیں کرتے کہ ان کو بزرگ سمجھا جائے۔وہ خاص طور پر کوئی رنگ دار کپڑانہیں پہنتے کوئی مالا اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے اور کوئی ایسی خاص وضع نہیں بناتے جس سے یہ مقصود ہوکہ لوگ اُن کو بزرگ سمجھیں اور نہ اُن کو اس بات کی کچھ پروا ہوتی ہے کہ لوگ اُن کو خدا رسیدہ خیال کریں بلکہ وہ دُنیا کے لوگوں کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بھی تصور نہیں کرتے۔خدا کی محبت اُن کے دلوں پر ایساکام کرتی ہے کہ اُن کے دل خدا کی عظمت قبول کرنے کے بعد کسی کی پروا نہیں رکھتے۔سب پر رحم کرتے ہیں مگر اس طور پر کسی کی عظمت نہیں مانتے کہ بعد خدا کے وہ بھی کچھ چیز ہے اوروہ نہیں چاہتے کہ اپنے تئیں لوگوں پر ظاہر کریں اور اپنی اندرونی پاکیزگی لوگوں کو دکھاویں ۔بلکہ وہ انگشت نما ہونے سے کراہت کرتے ہیں اُن کی فطرت ہی ایسی واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت سے ہزار کوس دُور بھاگتے ہیں اور گمنام رہنا چاہتے ہیں مگر وہ خدا جو اُن کے دلوں کو دیکھتاہے اور اُن کو اس کام کے لیے لائق سمجھتا ہے کہ وہ اپنے گوشوں اور حجروں سے باہر نکلیں اور خدا کے بندوں کو سیدھی راہ کی دعوت کریں وہ جبراً اُن کو خلوت سے جلوت کی طرف لے آتا ہے اور زمین پر اپنے قائم مقام بناکر اُن کے ذریعہ سے دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتا ہے اور اُن کے لیے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے اور دُنیا پر اُن کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے اُن کی تائید میں وہ قدرت کے نمونے ظاہر کرتا ہے کہ آخر ہر ایک عقلمند کو ماننا پڑتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں اور چونکہ وہ زمین پر خدا کے قائم مقام ہوتے ہیں اس لیے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات اُن سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امر اُن سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے برخلاف ہو۔”
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 295، 296)
(باقی آئندہ)