آسمانی نوشتے
ملکِ استبداد مٹ کر بے نشاں ہو جائے گا
آدمی انسان بن کر کامراں ہو جائے گا
قدر ہو گی آدمی کی علم سے عرفان سے
مال و زر کا زور گھٹ گھٹ کر نہاں ہو جائے گا
یہ چمن جس پر ہیں اب چھائے ہوئے زاغ و زغن
طُوطیوں کا قمریوں کا آشیاں ہو جائے گا
گلشنِ اسلام کی رنگیں بہاریں دیکھ کر
خادمانِ باغ سے خوش باغباں ہو جائے گا
دیکھنا تم مُلک مُلک و نسل نسل و قوم قوم
اک کٹھالی میں پڑیں گے امتحاں ہو جائے گا
پھر کتابِ زندگی میں ثبت ہوں گے نقشِ نَو
عشق آتش سے گزر کر جاوداں ہو جائے گا
یا محمدؐ! مجھ کو تیرے اسمِ احمدؐ کی قسم
نُور سے تیرے منوّر کُل جہاں ہو جائے گا
احمدیت پھیل جائے گی جہاں میں چار سُو
مطلعِ خورشید مغرب سے عیاں ہو جائے گا
روس بھی جو رٹ رہا ہے لَآ اِلٰہَ آج کل
ذکر اِلَّا اﷲ سے رطب اللّساں ہو جائے گا
جگمگا اُٹھے گی یہ دھرتی خدا کے نور سے
مسکنِ نورانیاں یہ خاک داں ہو جائے گا
سامنے ہو گا ثبوتِ رَحْمَۃ للّعَالَمِیں
ملجائِ اقوام تیرا آستاں ہو جائے گا
الغرض میں کیا کہوں کہ کیا سے کیا ہو جائے گا
اک نیا پیدا زمین و آسماں ہو جائے گا
ہمرہو! جنّت سے دھتکارا ہؤا یہ قافلہ
ایک دن پھر داخلِ باغِ جناں ہو جائے گا
وہ مَلک جو بے خبر تھے خاکیوں کی شان سے
’’سِرِّ اِنِّیْ اَعْلَمُ‘‘ اُن پر عیاں ہو جائے گا
دیکھنا تم اے ظفرؔ یہ ظالم و جاہل بشر
حاملِ عرشِ خدائے دو جہاں ہو جائے گا
(ماہنامہ الفرقان اپریل 1959ء صفحہ ب)