سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 14)
اخلاص باللہ۔ شرک سے نفرت
ایک خاص بات جو رسول کریمؐ کی زندگی میں دیکھی جاتی ہے اور جس میں کو ئی نبی اور ولی آپؐ کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ آپؐ کے قریب بھی نہیں پہنچتا وہ آپؐ کا شرک سے بیزار ہو نا ہے۔ہمارا یقین ہے کہ کل انبیاء شرک سے بچانے کے لیے دنیا میں آئے اور بلا استثناء ہر ایک نبی کی تعلیم یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جا ئے خواہ کو ئی نبی ہندوستان میں،جو شرک و بت پر ستی کا گھر ہے پیدا ہوا یا مصر میں جو رب الارباب کے عقیدہ کا مرکز تھا ظاہر ہوا، آتش پر ستان ایران میں جلوہ نما ہوا یا وادی کنعان میں نور افشاں ہوا یہ بات سب میں پائی جاتی ہے کہ وہ شرک کو بیخ وبن سے اکھیڑنے کے درپے رہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے اور ا س کی ذات یا صفات یا اسماء میںکسی کو اس کا شریک نہ سمجھا جا ئے نہ بنایا جا ئے
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(الانبیاءآیت 26)
اور ہم نے نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کو ئی رسول مگر اس کی طرف وحی کی کہ کو ئی معبود نہیں مگر اللہ پس میری عبادت کرو۔
یُنَزِّلُ الْمَلٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ اَنْ اَنْذِرُوْااَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل آیت:3)
اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے سا تھ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر پسند کر تا ہے اتارتا ہے لوگوں کو ڈراؤ کہ سوائے میرے کوئی معبود نہیں پس میرا تقویٰ اختیار کرو۔
ان آیات کی بناپر ہم ایمان لا ئے ہیں کہ سب انبیاء کا مشترکہ مشن اشاعت تو حید اور تحزیب شرک تھا مگر بڑےسے بڑے نبیوں او رمرسلین کی زندگی کا رسول کریم ؐکی زندگی سے مقابلہ کرکے دیکھ لو جو فکراور فہم آپؐ کو شرک کی بیخ کنیکا تھا اس کی نظیر اَور کہیں نہیں ملتی حضرت موسٰی نے فرعون کو ایک خدا کی پرستش کی تبلیغ کی۔حضرت مسیح ناصری ؑنے ایک سا ئل کو کہا کہ سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ تو اس خدا کو جو آسمان پر ہے اپنے سچے دل اور سچی جان سے پیار کر۔حضرت ابراہیم ؑنے اپنی قوم کے بتوں کو توڑ کر ان پر شرک کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا۔حضرت نوح ؑنے بھی اپنی قوم کو واحد خدا کی پر ستش کی طرف بلا یا لیکن ہمارے سردار وآقا ہادی برحق ﷺ نےجس طرح شرک مٹانے کے لیے جدو جہد کی ہے ا س کی مثال اَور کسی نبی کی ذات میں نہیں ملتی۔بے شک دیگر انبیاء نے اپنی عمر کا ایک حصہ شرک کے مٹانے پر خرچ کیا مگر جو دُھن اس مرض کو مٹانے کی خاتم النبیین ﷺکو لگی ہو ئی تھی وہ اَور کسی کو نہ تھی۔آپؐ نے اپنے دعویٰ کے بعد ایک ہی کام کو مد نظر رکھا کہ ایک خدا کی پرستش کروائی جا ئے۔تمام اہل عرب جو شرک میںڈوبے ہو ئے تھے آپؐ کے مخالف ہو گئے اور یہاں تک آپؐ سے در خواست کی کہ جس طرح ہو آپؐ ہمارے معبودوں کی تردید کو جانے دیں اور ہم آپؐ سے وعدہ کر تے ہیں کہ آپؐ جو مطالبہ بھی پیش کریں گے ہم اسے قبول کریں گے حتّٰی کہ اگر آپؐ چاہیں تو ہم آپؐ کو اپنا بادشاہ بھی بنالیں گے اور ایسا بادشاہ کہ جس کے مشورہ کے بغیر ہم کو ئی کام نہ کریں گے۔مگر باوجود اس تحریص و ترغیب کے اور باوجود طرح طرح کے ظلم و ستم کے جو آپؐ پر اور آپؐ کی امت پر توڑے جا تے تھے آپؐ نے ایک لمحہ اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے بیان میں سُستی کریں بلکہ آپؐ نے ترغیب و تحریص دینے والوں کو یہی جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے با ئیں لا کھڑا کر وتب بھی میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا بیان و اقرار ترک نہ کروں گا جو تکالیف لوگوں کی طرف سے شرک کی تر دید کی وجہ سے آپؐ کو پہنچیں ویسی اَو رکسی نبی کو نہیں پہنچیںاور جس طرح آپؐ کو اور آپؐ کے متّبعین کو خدا تعالیٰ کے ایک ماننے پر ستایا اور دکھ دیا گیا ہے اس طرح اَور کسی کو تکلیف نہیں دی گئی۔مگر پھر بھی آپؐ اپنے کام میں بجائے سُست و غافل ہونے کے روز بروز زیادہ سے زیادہ مشغول ہوتے گئے۔حتٰی کہ بعض صحابہ قتل کیے گئے۔آپؐ کو وطن چھوڑنا پڑا۔رشتہ دار چھوڑنے پڑے۔زخمی ہو ئے۔ان تمام تکالیف کے بعد آپؐ اپنے مخالفین کو بھی جواب دیتے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے مقابلہ کیا اور خوب کیا لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ نے ایک قوم سےنہیں دو قوموں سے نہیں بلکہ اس وقت کی سب قوموں اور مذاہب سے خدا کے لیے مقابلہ کیا۔اس وقت ایک بھی ایسی قوم نہ تھی جو شرک کی مرض میں گرفتار نہ ہو ۔عرب تو سینکڑوں بتوں کے پجاری تھے ہی اور مجوسی تو آگ کے آگے ناصیہ فرسا ئی کر تے ہی تھے یہود جو تو رات کے پڑھنے والے اور حضرت موسٰی کے ماننے والے تھے وہ بھی عزیرابن اللہ پکار رہے تھے اور اپنے احبار کو صفات الوہیت سے متصف یقین کر تے تھےاور ان سے بھی بڑھ کر نصاریٰ تھے جو سب سے قریب تھے۔حضرت مسیح ؑکی امت ہو کر اس قدر بڑھ گئے تھے کہ خود مسیح کو جو اللہ تعالیٰ کی پر ستش قائم کر نے آئے تھے قابل پرستش سمجھنے لگے تھے۔ہندوستان اور چین کی تو کچھ پو چھو ہی نہیں گھر گھر میں بت تھے اور شہر شہر میں مندر تھے پھر ایسی شورش کے زمانہ میں آپؐ کو توحید باری کے ثابت کر نے کے لیے کھڑا ہو جانا اور تمام قوموں کو پکار پکار کر سنانا کہ تم جس قدر معبود میرے خدا کے سوا پیش کر تے ہو سب جھوٹے اور بے ثبوت ہیں ایک ایسا کا م تھا جسے دیکھ کر عقل حیران ہو تی ہے اور جس قدر آپؐ کی اس کو شش و ہمت پرغور کیا جا ئے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ شرک سے ایسے بیزار تھے کہ ایک ساعت کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتےتھےکہ کو ئی خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرکسی اَور کے سامنے اپنا سر جھکا ئے۔خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سر شار ہوئے کہ دنیا بھر کے مذاہب اور قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا اور یک دم سب سے اپنا قطع تعلق کر لیا اور صرف اس سے صلح رکھی جس نے لَآاِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ کا اقرار کیا۔اس وقت جو معبود باطلہ تھے ان کے مٹانے اور اڑانے کے علاوہ آپؐ نے اپنی تعلیم میں اس بات کا التزام رکھا کہ مسلمانوں کو پوری طرح سے خبردار کیا جائے کہ آئندہ بھی کسی وجہ سے مرض شرک میں مبتلا نہ ہو جا ویں اسلام کیا ہے۔ سب سے پہلے اس کا اقرار کرناکہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مسلمانوں کو دن میں پندرہ دفعہ بلند مکان پر سے یا منارہ پر سے یہ پیغام اب تک پہنچا یا جاتا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ پھر تمام عبادات میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرایا جا تا ہے۔مسلمان تو مسلمان غیر مذاہب کےپیرو بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جس قدر اسلام شرک کو مٹاتا ہے اتنا اَور کوئی مذہب اس کا استیصال نہیں کر تا او ریہ کیوں ہے اسی نفرت کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کو شرک سے تھی ۔عمر بھر آپؐ اس مرض کے مٹانے میں لگے رہےحتیٰ کہ آپؐ نے اپنی وفات سے پہلے وہ خوشی دیکھی جواَور کسی نبی کو دیکھنی نصیب نہ ہو ئی کہ آپؐ کی سب قوم ایک خدا کو ماننے والی ہو گئی مگر پھر بھی وفات کے وقت جو خیال آپؐ کو سب سے زیا دہ تھا وہ یہی تھا کہ کہیں میرے بعدمیری قوم مجھے خدا تعالیٰ کا شریک نہ بنا ئے اور جس طرح پہلی امتوں نے اپنے انبیاء کو صفات الوہیت سے متصف کیا تھایہ مجھ سے ویسا ہی سلوک نہ کریں۔اس خیال نے آپؐ پر ایسا اثر کیا کہ آپؐ نے اپنی مرض الموت میں یہود ونصاریٰ پر لعنت کی کہ انہوں نے اپنے احبار کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
قَالَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیہِ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآءِھِمْ مَسَاجِدَ قَالَتْ لَولَاذٰلِکَ لَا بَرَزُوْا قَبْرَہٗ
(بخاری کتاب الجنائز باب مایکرۃ من اتخاذ المساجد علی القبور)
آنحضرت ﷺ نے اس مرض میں جس میں وفات پا ئی فرمایا اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنا لیا ہے اور حضرت عائشہ نے یہ بھی زائد کیا کہ اگر یہ بات نہ ہو تی تو صحابہؓ آپؐ کی قبر کو بند نہ کرتےبلکہ ظاہر کر تے ۔اس حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپؐ کو شرک سے کیسی نفرت تھی وفات کے وقت سب سے بڑا خیال آپؐ کو یہ تھا کہ میں عمر بھر جو ایک خدا کی تعلیم دیتا رہا ہوں لوگ اسے بھول نہ جا ئیں اور میرے بعد پھر کہیں شرک میں مبتلا نہ ہو جا ئیںاوراگر پہلے معبودوں کو چھوڑا ہے تو اب مجھے ہی معبود نہ بنا بیٹھیں اور اپنے اس نقص کے دور کرنے کے لیے ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے جن سے صحابہ کرام ؓایسے متاثر ہو ئے کہ انہوں نے خوف کے مارے آپؐ کی قبر کو بھی ظاہر کر نا پسند نہ کیا تا آپؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو جا ئے چنانچہ اب تک وہ قبر مبارک ایک بند مکان میں ہے جس تک جا نے کی لوگوں کو اجازت نہیں۔
طہارت نفس
آنحضرت ﷺ کی پاک سیرت پر قلم اٹھا نا کو ئی آسان کام نہیں اسی لیے میں نے ابتداء میں ان مشکلات کو بیان کرکے بتایا تھاکہ سیرت تین طرح لکھی جا سکتی ہے۔تو اریخ سے، احادیث سے،قرآن کریم سے اور میں نے بتایا تھا کہ سردست میں احادیث سےاور پھر احادیث میں سے بھی جو سیرت بخاری سے معلوم ہو تی ہے وہ اس جگہ درج کروں گا۔میں نے سیرت کے عام ابواب پر بحث کرنے کے بعد لکھا تھا کہ سیرت انسانی کے تین حصہ ہوسکتے ہیں۔ایک وہ جو خدا تعالیٰ سے تعلقات کے متعلق ہو ۔جس کا نام میں نے اخلاص باللہ رکھا تھا اور دوسرا جو خود اپنے نفس کے متعلق ہو ۔اس کا نام طہارت نفس مناسب معلوم ہو تا ہے اور چونکہ اخلاص باللہ کا حصہ میں ختم کر چکا ہوں اس لیے اب دوسرے حصہ کو شروع کیا جا تا ہے جو طہارت نفس کے ہیڈنگ کے ماتحت ہو گا۔
بدی سے نفرت
طہارت نفس کے باب میں سب سے پہلے اس بات کے متعلق شہادت بیان کر نا چاہتا ہوں کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت تھی۔ اگر چہ بظاہر یہ بات کو ئی عجیب نہیں معلوم ہو تی اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ کو بدی سے کیوں نفرت نہ ہو تی جب ایک عظیم الشان قوم کے آپؐ رہبر اور ہا دی تھے اور ہر وقت اپنے متّبعین کوبدیوں سے رو کتے رہتے تھے اور جس کا کام رات دن یہی ہو کہ وہ لوگوں کوبدیوںسے روکے اور امر بالمعروف کرے۔اسے تو اپنے اعمال میں بہت محتاط رہنا ہی پڑتا ہے ورنہ اس پر الزام آتا ہے اور لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تم دوسروں کو منع کر تے ہو اور خود اس کا م کو کرتے ہو لیکن اگر غور کیا جا ئے تو دنیا میں وعظ کہنے والے تو بہت ملتے ہیں مگر ایسے واعظ جو اپنے نمونہ سے دنیا میں نیکی پھیلا ئیں بہت کم ہیں ایسے واعظ تو اس وقت بھی ہزاروں ہیں جو لوگوں کو پا کیز گی اورانقطاع الی اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔لیکن کیا ایسے لوگوں کی بھی کو ئی کثیر جماعت پا ئی جا تی ہے جو خود عمل کرکے لوگوں کے لیے خضرراہ بنیں اِلَّا مَاشَآ ءَاللّٰہُ وَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَکسی شاعرنے کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے کہ
؎ ہر کسے نا صح برائے دیگراں
ہر ایک دوسروں کے لیے ناصح ہے اپنے نفس کا حال بھلائے ہو ئے ہے پھر ایک شاعر کہتا ہے
واعظان کیں جلوہ بر محراب و منبر میکند
چوں بخلوت میر و ندآں کار دیگر میکند
یہ واعظ جو محراب و منبر پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کے لیے ناصح بنتے ہیں جب خلوت میں جا تے ہیں تو ان کے اعمال بالکل اور ہی ہو تے ہیں اور ان اعمال کا پتہ بھی نہیں چلتا جن کاو عظ وہ منبر پر سے کیا کرتے تھے اس وقت مسلمان علماء کو دیکھو۔قرآن شریف کو ہا تھ میں لے کر خشیت الٰہی کے وعظ بڑے زور سے کہتے ہیں لیکن خود خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پادری انجیل سے یہ روایت لوگوں کو سناتے ہیں کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا اگر کو ئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارےتو دوسری بھی پھیردے لیکن دولت مند پادری موجود ہیں پھر ان میں سے کتنے ہیں جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسری پھیردینی تو درکنار دوسرے مذاہب کے بانیوں کی نسبت بد گو ئی میں ابتداء سے ہی بچتے اور پر ہیز کرتے ہوں۔پنڈت دان اور پن کے متعلق طول طویل کتھا ئیں پڑھ کر لوگوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو کسی قسم کے دان پن سے بری سمجھتے ہیں۔غرضیکہ جب روزانہ زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر واعظ ایسے ہی ملتے ہیں کہ جو کل پندونصائح کو دوسروں کے لیے واجب العمل قراردیتے ہیں مگر اپنے نفوس کو بنی نوع انسان سے خارج کر لیتے ہیں اور ایسے بہت ہی کم ہیں کہ جن کا قول وفعل برابر ہو اور وہ لوگوں کو نصیحت کر تے وقت سا تھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ملامت کرتے جا ئیں بلکہ لوگوں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں۔پس گو یہ بات بظاہر بالکل معمولی معلوم ہو تی ہے کہ واعظ تو بدیوں سے بچتے ہی ہوں گے لیکن دراصل یہ ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس پر چل کر بہت کم لوگ ہی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں اور ابتداء دنیا سے آج تک جس قدر واعظ ایسے گزرے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دوسروں کو کہا اس پر خود بھی عامل ہو ئے ان کے سردار اور رئیس ہمارے آنحضرتﷺ تھے آپ کی سا ری زندگی میں ایک بات بھی ایسی نہیں ملے گی کہ آپ کی اور دوسروں کی مصلحتیں ایک ہی ہوں مگر پھر بھی آپؐ نے دوسروں کو اور حکم دیا ہواور اپنے لیے کچھ اَور ہی تجویز کر لیا ہو۔
بعض اوقات خود صحابہ ؓچاہتے تھے کہ آپؐ آرام فرمائیں اور اس قدرمحنت نہ کریں لیکن آپؐ قبول نہ فرماتے۔اگر لوگوں کو عبادت الٰہی کا حکم دیتے تو خود بھی کرتے اگر لوگوں کو بدیوں سے روکتے تو خود بھی رکتے غرضیکہ آپ نے جس قدر تعلیم دی ہے ہم بغیر کسی منکر کے انکار کے خوف کے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر آپ خود عامل تھے اور شریعت اسلام کے جس قدر احکام آپ کی ذات پر وارد ہو تے تھے سب کو نہایت کو شش اور تعہد کے سا تھ بجالاتے مگر اس وقت جس بات کی طرف خاص طور سے میں آپ کو متوجہ کر نا چاہتا ہوں وہ بدی سے نفرت ہے۔
اعمال بد تو انتہا ئی درجہ ہے ادنیٰ درجہ تو بد اخلاقی اور بدکلامی ہے جس کا انسان مرتکب ہو تا ہےاور جب اس پر دلیر ہو جا تا ہے تو پھر اور زیادہ جرأت کر تا ہے اور بد اعمال کی طرف راغب ہو تا ہے لیکن جو شخص ابتدائی نقائص سے ہی پاک ہو وہ دوسرے سخت ترین نقائص اورکمزوریوں میںکب مبتلا ہو سکتا ہے اور میں انشا ء اللہ تعالیٰ آگے جو کچھ بیان کروں گا اس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ کیسے پا ک تھے اورکس طرح ہر ایک نیکی میں آپؐ دوسرے بنی نوع پر فائق وبرتر تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓفرماتے ہیں
لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ یَقُوْلُ اِنَّ مِنْ خِیَارِ کُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا(بخاری کتاب المنا قب باب صفۃ النبی ﷺ )
نبی کریم ﷺ نہ بد خلق تھے نہ بد گو اور فرمایا کر تے تھے کہ تم میں بہتر وہی ہیں جو تم سے اخلاق میں افضل ہوں۔
اللہ اللہ !کیا پاک وجود تھا۔آپؐ حسن اخلاق برتتے تب لوگوں کو نصیحت کرتے۔آپ بد کلامی سے بچتے تب دوسروں کو بھی اس سے بچنے کے لیے حکم دیتے اور یہی وہ کمال ہے کہ جس کے حاصل ہو نے کے بعد انسان کا مل ہو سکتا ہےاور اس کی زبان میں اثر پیدا ہو تا ہے اب لوگ چلّا چلّا کر مر جا تے ہیں کو ئی سنتا ہی نہیں۔نہ ان کے کلام میں اثر ہو تا ہے نہ کوشش میں برکت۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود عامل نہیںہو تے لوگوں کو کہتے ہیں مگر رسول کریمؐ خود عامل ہو کر لوگوں کو تبلیغ کر تے جس کی وجہ سے آپؐ کے کلام میں وہ تاثیر تھی کہ تئیس سال میں لا کھوں آدمیوں کو اپنے رنگ میں رنگین کر لیا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ کے اس قول اور شہادت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اول تو وہ ہر وقت رسول کریمؐ کی صحبت میں رہتے تھے اور جو اکثر اوقات ساتھ رہے اسے بہت سے مواقع ایسے مل سکتے ہیں کہ جن میں وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس شخص کے اخلاق کیسے ہیں۔کبھی کبھی ملنے والاتو بہت سی با تیں نظر انداز بھی کر جا تا ہے بلکہ کسی بات پر بھی یقینی شہادت نہیں دے سکتا۔ لیکن جنہیں ہر وقت کی صحبت میسر ہو اور ہر مجلس میں شریک ہوں وہ خوب اچھی طرح اخلاق کا اندازہ کر سکتے ہیں پس عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ ان صحابہ ؓ میں سے تھے جنہیں رسول کریمؐ کے سا تھ رہنے کا خاص موقع ملتا تھا اور جو آپؐ کے کلا م کے سننے کے نہایت شائق تھے ان کا ایسی گواہی دنیا ثابت کرتا ہے کہ درحقیقت آپؐ کو ئی ایسی شان رکھتے تھے کہ عسرویسر میں اپنے اخلاق کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے تھے۔ورنہ کبھی تو آپؐ کے ہروقت کے ہم صحبتوں کو ایسا موقع بھی پیش آتا کہ جس میںآپؐ کو کسی وجہ سے چیں بہ جبیںدیکھتے لیکن ایسے موقع کا نہ ملنا ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کے اخلاق نہایت اعلیٰ اور ارفع تھے اور کو ئی انسان ان میںنقص نہیں بتا سکتا تھا۔
ایک طرف اگر عبد اللہ بن عمروؓ کی گواہی جو اعلیٰ پا یہ کے صحابہ ؓ میں سے تھے نہایت معتبر اور وزنی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی خاص طور سے مطالعہ کر نے کے قابل ہے کہ یہ فقرہ کس شخص کی شان میں کہا گیا ہے معمولی حیثیت کے آدمی کی نسبت اور معمولی واقعات کی بناء پر اگر اس قسم کی گواہی کسی کی نسبت دے بھی دی جا ئے تو گو اس کے اخلاق اعلیٰ سمجھے بھی جائیں مگر اس شہادت کو وہ اہمیت نہیں دی جا سکتی جو اس شہادت کو ہے اور وہ شہادت ایک معمولی انسان کے اخلاق کو ایسا روشن کرکے نہیں دکھا تی جیسی کہ یہ شہادت رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو کیونکہ یہ اخلاق جن واقعات کی موجودگی میں دکھا ئے گئے ہیں وہ کسی اَور انسان کو پیش نہیں آتے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭