کیا قرآن شریف بائبل کی نقل ہے؟ (نعوذ باللہ)
مخالفین اسلام جو اعتراضات قرآن شریف پر کرتے ہیں ان میں یہ مضحکہ خیز اعتراض بھی ہے کہ قرآن شریف پرانے اور نئے عہد نامہ کی نقل ہے۔ یہ اعتراض کرنے والوں کی عقل پر تعجب ہوتا ہے اگر یہی بات تھی تو پرانے اور نئے عہد نامہ والوں نے قرآن شریف کی اس قدر مخالفت کیوں کی ان کو تو مخالفت کے بجائے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے تھا کہ قرآن ہماری کتابوں کی نقل کرتا ہے۔
درج ذیل مضمون میں اختصار کے ساتھ ان اہم اور بنیادی اختلافات کا ذکر ہے جو قرآن شریف نے اس بائبل سے کیے جو قرآن کے نزول کے وقت رائج تھی۔
(1) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی توحید پر غیر معمولی زور دیتا ہے اور جس توحید کو انگریزی میں absolute unity کہا جاتا ہے اس کا پرزور مدعی ہے۔ مگر بائبل کے ماننے والوں کی غالب اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بائبل الوہیت میں تین اقانیم کی تعلیم دیتی ہے جو باپ بیٹا اور روح القدس کہلاتے ہیں اور یہ تینوں الگ الگ بھی کلیةً ممتاز ہیں۔ اور باپ بھی کامل خدا ہے بیٹا بھی کامل خدا ہے اور روح القدس بھی کامل خدا ہے۔
(2) صرف پرانے عہد نامہ کو ماننے والے اگرچہ توحید کا لفظاً اقرار کرتے ہیں مگر پرانے عہد نامہ میں بھی یہ بیان موجود ہے کہ خدا کے بیٹوں نے انسان کی بیٹیوں سے شادی کی۔
(3) قرآن مجید انبیاء اور رسولوں کو بشر قرار دیتا ہے مگر ساتھ ہی ان کو معصوم قرار دیتا ہے مگر بائبل انبیاء اور رسولوں پر حد درجہ ناپاک الزام لگاتی ہے اور ان کو جھوٹ بولنے والا اور حد درجہ ناپاک گناہوں کا مرتکب قرار دیتی ہے۔
(4) قرآن کریم اپنی تعلیم کو دنیا کے تمام لوگوں، تمام ممالک ،تمام زبانیں بولنے والوں، تمام رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے واجب العمل قرار دیتا ہے ۔جبکہ پرانا عہد نامہ بنی اسرائیل کو خدا کی چنیدہ قوم قرار دے کر اپنی تعلیم کو بارہ 12 قبائل کے لیے محدود کرتا ہے۔ اور نئے عہدنامہ میں یسوع ناصری صاف صاف فرماتے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا۔ اور ایک غیر اسرائیلی خاتون کو جو صرف یہ درخواست کرتی تھی کہ یسوع اس کی بیٹی کو شفا دے دیں کتے کے لقب سے ملقب کرتی ہے۔
(5) قرآن شریف سختی سے شراب کی ممانعت کرتا ہے۔ مگر بائبل میں لکھا ہے کہ یسوع ناصری نے پانی کے 6 مٹکوں کو معجزانہ طور پر شراب بنا دیا۔
(6) قرآن شریف تعدد ازدواج پر 4 کی پابندی عائد کرتا ہے اور 4 کی اجازت بھی شرائط سے مشروط کرتا ہے ۔مگر بائبل میں ایسی کسی پابندی کابیان نہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام جو عالم عیسائیت کے عقیدہ کے مطابق نبی تھے پر سینکڑوں شادیوں کا الزام لگاتی ہے۔
(7) قرآن شریف جہاں قریبی رشتہ داروں سے شادی پر پابندی لگاتا ہےوہاں نسب کے علاوہ قریبی رضاعی رشتہ داروں سے شادی پر بھی پابندی لگاتا ہے مگر بائبل میں رضاعی رشتہ داروں سے شادی پر کسی پابندی کا ذکر نہیں۔
(8) ورثہ کے بارہ میں قرآن شریف عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ماں ، بیٹی اور بیوی کو مرنے والے کا وارث قرار دیتا ہے۔ مگر بائبل کی رو سے اگر میت کا صرف ایک بیٹا بھی موجود ہو تو کسی عورت رشتہ دار کو ورثہ نہیں ملتا۔ نہ ماں کو نہ بیویوں کو نہ بیٹی کو۔
(9) قرآن شریف جارحانہ حملہ کی ہر گز اجازت نہیں دیتا صرف جارحانہ حملہ آور کے حملہ کا دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مگر بائبل اس مضمون سے بھری پڑی ہے کہ خدا کے حکم سے بنی اسرائیل نے سات ہمسایہ اقوام پر جارحانہ حملے کیے اور ان کے ملک پر قبضہ کیا اور ان کے مال لوٹ لیے۔
(10) جارحانہ حملہ کرنے والے دشمن کا دفاع کرتے ہوئے بھی اسلام عورتوں، بچوں اور مذہبی گوشہ نشینوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر بائبل بڑے فخر سے عورتوں اور شیر خوار بچوں کے قتل کا حکم دیتی ہے۔
(11) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن شریف کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے اور کسی مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ قرآن شریف میں تحریف کرے مگر بائبل کے نسخہ جات میں اصل لکھنے والوں کے بعد تحریف و تبدیلی لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔
(12) قرآن شریف سود لینے پر کلیۃًپابندی لگاتا ہے ۔ مگر بائبل یہ پابندی صرف اہل کتاب سے سود لینے پر لگاتی ہے اور غیر اہل کتاب سے سود لینے کو سراسر جائز قرار دیتی ہے۔
(13) قرآن مجید ہر بالغ صحت مند ماننے والے پر رمضان میں روزہ رکھنے کی پابندی لگاتا ہے۔ جبکہ بائبل کی شریعت میں صرف ایک روزہ کا حکم ہے۔
(14) قرآن صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ حقیقتاً فوت ہو جاتے ہیں دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آتے۔ مگر پرانا عہد نامہ کچھ فوت شدہ لوگوں کے زندہ ہو کرواپس آنے کا ذکر کرتا ہے۔ جبکہ نیا عہدنامہ تو سینکڑوں لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا ذکر کرتا ہے۔
(15) قرآن ایسی باتوں سے پاک ہے جو بائبل میں ہیں کہ اگر ایک مالک اپنے غلام یالونڈی کو مارے اور وہ ایک دو دن زندہ رہے تو مالک کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ غلام اس کا مال ہے۔
(16) قرآن خود کشی سے سختی سے منع فرماتا ہے مگر بائبل میں اس کی ممانعت کا کوئی حکم مجھے نہیں ملا۔
(17) بائبل میں لکھا ہے کہ کسی جادوگرنی کو جینے نہ دینا ۔قرآن ایسے ظالمانہ احکام سے پاک ہے۔
(18) بائبل کہتی ہے اگر کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے گا تو وہ بالکل نابود کر دیا جائے گا مگر قرآن فرماتا ہے:
مَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ۔(سورة الکہف: 30)
(19) بائبل میں لکھا ہے کہ اگر بیل کسی مرد یا عورت کو ایسا سینگ مارے کہ وہ مر جائے تو وہ بیل ضرور سنگسار کیا جائے اور اس کا گوشت کھایا نہ جائے۔ جانور کو سنگسار کرنے کے احکامات والی کتاب کے بارہ میں یہ کہنا کہ قرآن اس کی نقل کرتا ہے بالکل غلط الزام ہے۔
(20) بائبل میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو لونڈی ہونے کے لیے بیچ ڈالے …قرآن اس قسم کے ظالمانہ احکام سے پاک ہے اور بائبل کی نقل سے بالکل منزہ ہے۔
(21) بائبل میں لکھا ہے کہ جو کوڑھی اس بلا میں مبتلاہو اس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلا چلا کہ کہے ناپاک ناپاک… وہ ہے ہی ناپاک۔ قرآن شریف ہر گز بائبل کی نقل نہیں کرتا۔
(22) بائبل میں لکھا ہے جس کے خصئے کچلے گئے ہوں یا آلت کاٹ ڈالی گئی ہو اوہ خداوند کی جماعت میں آنے نہ پائے۔ کوئی حرام زادہ خداوند کی جماعت میں داخل نہ ہو۔ دسویں پشت تک اس کی نسل میں سے کوئی خداوند کی جماعت میں آنے نہ پائے۔(استثنا باب 23آیت 1،2)
گویا دس پشت تک ان لوگوں کے نام جن پر یہ داغ ہو خواہ وہ کتنے ہی نیک پاک ہوں یہودی معبد میں آنے کی اجازت نہیں۔ قرآن شریف ان باتوں سے پاک ہے کہ نماز باجماعت کے لیے ایسے لوگ نہیں آ سکتے۔ قرآن پر بائبل کی نقل کا الزام لگانے والے ہوش کے ناخن لیں۔
اس راقم کو ایک دفعہ فلا ڈلفیاPhiladelphia کے ایک پرنٹنگ پریس میں جانے کا موقعہ ملا تو وہاں ایک ہال کمرے میں 10 لاکھ بائبل کے نسخے چھپ کر تیار پڑے تھے۔ شبہ پڑتا ہے کہ بائبل کے ماننے والے بائبل کو خوبصورت جلدوں میں تیار کر کے اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتے ہیں مگر اس کے مضحکہ خیز مضامین پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
(23) بائبل کے ماننے والی اقوام مسلمانوں پر عورت کے عدم احترام کا الزام لگاتی ہیں۔ وہ ذرا اس عبارت کو غور سے پڑھیں۔ استثنا باب 25 میں لکھا ہے۔
‘‘اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اسے اپنی بیوی بنا لے اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اس کے ساتھ ادا کرے ۔ اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو وہ اس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کا کہلائے تاکہ اس کا نام اسرائیل میں مٹ نہ جائے ۔ اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے بیاہ کرنا نہ چاہے تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے اور کہے میرا دیور اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہے اور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا ۔
تب اس کےشہر کے بزرگ اس آد می کو بلوا کر اسے سمجھائیں اور اگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے کہ مجھ کو اس سے بیاہ کرنا منظور نہیں ۔ تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اس کے پاس جا کر اس کے پاؤں کی جوتی اتارے اور اس کے منہ پر تھوک دے اور یہ کہے کہ جو آدمی اپنے بھائی کا گھر آباد نہ کرے اس سے ایسا ہی کیا جائے گا ۔ ’’(استثناء باب 25 آیت 5 تا 9) قرآن پر اعتراض کرنے والے سن لیں کہ قرآن عورت کے ‘‘اس احترام’’ کی ہر گز نقل نہیں کرتا۔
(24) نئے عہدنامہ میں عورت کے احترام کی ایک مثال جو نہ صرف عورت تھی بلکہ ماں تھی یہ لکھی ہے۔
‘‘پھر تیسرے دن قانای گلیل میں ایک شادی ہوئی اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔اور یسوع اور اس کے شاگردوں کی بھی اس شادی میں دعوت تھی۔ اور جب مے ہوچکی تو یسوع کی ماں نے اس سے کہا کہ ان کے پاس مے نہیں رہی۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟’’(یوحنا باب 2 آیت 1 تا 4) اب دیکھیےقرآن تو کہتا ہے کہ اپنی ماں کو اف تک نہ کہو ۔ قرآن کس طرح اس کتاب کی نقل کر سکتا ہے جو یسوع کا اپنی ماں سے گستاخی کا ذکر کرتی ہے۔
(25) قرآن شریف درخت کو قابل احترام قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ: اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ۔(سورة الشعراء: 8)مگر نئے عہد نامہ میں لکھا ہے کہ یسوع ناصری نے اس بناء پر کہ اس کو بھوک لگی تھی اور انجیر کے درخت میں پھل نہ تھا کیونکہ پھل کا موسم نہ تھا درخت پر لعنت کی اور وہ سوکھ گیا(مرقس باب 11آیات 12تا14اور20،21) اس لیے جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن بائبل کی نقل کرتا ہے وہ یا قرآن نہیں پڑھتے یا بائبل نہیں پڑھتے۔
(26) لوقا کی انجیل کے شروع میں لکھا ہے :
‘‘چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں۔ جیسا کہ انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے ان کو ہم تک پہنچایا۔ اس لیے اے معزز تھیفلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ان کو تیرے لیے ترتیب سے لکھوں۔’’ (لوقا باب 1 آیت 1 تا 3) لوقا کی انجیل کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ وہ انجیل سراسر انسانی کلام اور انسانی تصنیف ہے مگر قرآن شریف تو ایک ایسی انجیل کا ذکر فرماتا ہے جو مسیح ناصری پر اللہ تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ اتاری گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن شریف بائبل کی نقل نہیں کرتا بلکہ آزادانہ طور پر الہامی حقائق بیان فرماتا ہے۔
٭…٭…٭