درّثمین اردو کی چھٹی نظم حمدِ ربّ العالمین
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین اردو میں شامل چھٹی نظم ‘‘حمدِ ربّ العالمین’’ سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف ‘سُرمہ چشم آریہ’مطبوعہ 1886ءسے ماخوذ ہے۔پندرہ اشعار کی یہ نظم بحرِرمل مثمن محذوف میں ہے۔
1886ءمیں ہوشیارپورکےیادگار سفر کےدوران آریہ سماج ہوشیارپور کے رکن اور مدارالمہام لالہ مُرلی دھر ڈرائینگ ماسٹر کی درخواست پر، آپؑ اور لالہ جی کےمابین یادگارمذہبی مباحثہ ہوا۔ کتاب ‘سُرمہ چشم آریہ’میں اس مباحثے کی روئیداد اور شرائط درج ہیں۔ اس کتاب میں معجزہ شقّ القمر،نجات دائمی ہے یا محدود، روح و مادہ حادث ہیں یا انادی اور وید و قرآن کی تعلیمات کے موازنے جیسے علمی موضوعات شامل ہیں۔
کتاب کا آغاز فارسی زبان میں ایک دل آویز حمد ‘‘اے دلبرو دلستان و دلدار’’سے ہوتا ہے۔ 26اشعار کی اس حمدیہ نظم کے بعد حضورؑ نے اللہ تعالیٰ کےبےپایاں احسانات و انعامات کا دل کش تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ:
‘‘ہزار ہزار شُکر اُس قادرِ مطلق کا جس نے انسان کی روح اور ہریک مخلوق اورہر ذرّہ کو محض اپنے ارادہ کی طاقت سےپیداکرکےوہ استعدادیں اور قُوّتیںاور خاصیتیں اُن میں رکھیں جن پر غور کرنےسےایک عجیب عالمِ عظمت اور قدرتِ الٰہی کا نظرآتاہےاور جن کے دیکھنے اور سوچنے سے معرفت الٰہی کا کامل دروازہ کُھلتاہے…اُس کی حکیمانہ طاقتیں بےانتہا ہیں کون ہے جو اُن کی تہ تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کی قادرانہ حکمتیں عمیق درعمیق ہیں۔کون ہےجواُن پر احاطہ کرسکتاہے۔ہریک چیز کےاندر اُس کے وجود کی گواہی چُھپی ہوئی ہے۔ ہر یک مصنوع اُس صانع کامل کی راہ دکھلا رہاہے۔ موجودبوجود حقیقی وہی ایک ربّ العٰلمین ہے اور باقی سب اُس سے پیدا اور اُس کے سہارےسے قائم اور اس کی قدرتوں کے نقشِ قدم ہیں’’
(سُرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 51۔52)
اس کے بعد یہ حمدیہ نظم ‘‘کس قدر ظاہر ہے نوراُس مبدء الانوار کا’’موجودہے۔ نظم کے بعد آنحضورﷺ کی شانِ اقدس اورآل و اصحابِ رسول ﷺ پرصلوٰۃ و سلام بھیجا گیا ہے۔کلاسیکی داستانیں اور مثنویاں بھی اِسی اُسلوب پر سپردِ قلم کی جاتی تھیں۔ یعنی آغاز خداتعالیٰ کی حمدوثنا سے ہوتا اور پھر رسولِ خدا ﷺ کی ذات ِوالا صفات پر درودوسلام بھیجا جاتا۔ بعدازاں حقیقی موضوع کی طرف رجوع کیا جاتا۔
محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کسی بھی حمدکے معیار کو جانچنےکا طریق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘ہمارے آقا و مطاع ﷺ یہ عارفانہ فیصلہ صادر کرچکےہیں کہ حقیقی ثناء باری تعالیٰ وہی ہے جو ہمارے خدا نے اپنی ذات والا صفات کےلیےکی ہے’’اس لاجواب اصول کے تحت صاحب زادہ صاحب نے قرآن کریم کے فرمودات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ثنا کے درج ذیل چار اسالیب بیان کیے ہیں:
اول:۔اس کی ذات کا حسن و جمال بیان ہو۔
دوم:۔ اس کی عظمت اور کبریائی کا ذکر ہو۔
سوم:۔ اس کی محبت کا دل و جان سے اقرار ہو۔
چہارم:۔ دعاومناجات ہو۔ کیونکہ یہ اس کی کبریائی اور انسانی عبودیت کا عملی ثبوت ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے ‘ادب المسیح’ازصاحب زادہ مرزا حنیف احمد صاحب زیرِ عنوان ثناء باری تعالیٰ اردو زبان میں)
درج بالا اساسی نکات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حضورؑ کی زیرِ نظر حمد کاموضوعاتی مطالعہ اس حمد میں موجود جاذبیت اور طلسماتی کشش سے پردہ اٹھاتا ہے۔جوثنا خداتعالیٰ کےقائم کردہ اوربیان فرمودہ معیاروں کے تابع مرقوم ہو وہ بجا طور پر اس قابل ہے کہ اردو ادب اس پر ناز کرے۔
فنونِ لطیفہ بالخصوص ادب یا لٹریچر کے ماہرین اور ناقدین فن پاروں کے جائزے میں ایک بلندترین معیار یہ قائم کرتے ہیں کہ ادبی فن پارہ اپنے موضوع کا حق ادا کرنے والا ہو۔ موضوع جتنا وقیع ہوگا بیان کےلیے شرط ہے کہ وہ اس کاہم پلّہ ہو۔سمندر سیاہی اور درخت قلم ہی کیوں نہ بن جائیں خداتعالیٰ کے کلمات کا بیان ناممکن ہے۔ اردو زبان کامحدود دامن اور الفاظ کا محدود مفہوم الگ مرحلہ ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کاجیسا ادراک امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کوعطا ہواتھاکوئی اور ادیب یا شاعر اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ سو خداتعالیٰ کی جیسی حمد و ثنا حضورؑ کو رقم کرنے کی توفیق عطاہوئی وہ آپؑ کا ہی خاصہ ہے۔
پہلےہی شعر میں خداتعالیٰ کو مبدء الانوار قرار دیتے ہیں۔پھر ایک ایک ذرّے سے لےکرسورج اور چاند اور ہر حسیں چہرے میں خداتعالیٰ کو جلوہ نما صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ دکھاتے بھی ہیں۔ بیان سادا ہونے کے باوجود شعری محاسن کا انمول ذخیرہ لیے ہوئے ہے۔
جیسی باکمال Alliterationیا دوسرے شعر کا پہلامصرعہ‘‘چاند کو کَل دیکھ کر میں سخت بےکَل ہوگیا’’ تجنیس صنعتِ شاعری کی عمدہ مثال ہے۔ تجنیس:کلام میں دو ایسے الفاظ کےاستعمال کو کہتے ہیں جو تلفظ یا املا میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنوں میں مختلف ہوں۔ اس مصرعے میں ‘کَل’ کا لفظ پہلے گذشتہ دن کے لیے اور پھر ’بےکَل‘ میں بےچین یا بےقرار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح دسواں شعر دیکھیے:
چشمِ مستِ ہرحسیں ہردم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا
پہلے مصرعے میں ‘ہرحسیں ہر دم ’میں ‘ہ’ کی تکرار اور دوسرے مصرعے میں ‘ہرگیسوئے خمدار’ کیسی لاجواب صوتی ہم آہنگی پیدا کر رہے ہیں۔اسی طرح ‘‘ہر گُل و گُلشن میں ہے رنگ اُس ترے گُلزار کا’’ اس مصرعے میں ‘گ’کی تکرار بھی صوتی ہم آہنگی کی دل فریب مثال ہے۔ پھر گُل،گُلشن، گُلزار مرعات النظیر کی خوبی بھی پیدا کر رہے ہیں۔ غرض لطیف مضامین کے بیان میں لاجواب فنّی خوبصورتیاں حظ آفرینی کو چارچاند لگارہی ہیں۔
مظاہرِ قدرت میں خداتعالیٰ کی جلوہ نما ئی کے تسلسل میں فرماتے ہیں:
چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہرستارےمیں تماشا ہے تری چمکار کا
سورج کی کرنوں اور شعاعوں کےلیے ‘چشمۂ خورشید’ کی ترکیب اور چمکتے ستاروں کے ساتھ الوہی ‘چمکار’ کا بیان انسانی دماغ کے گوشوں کو معطّر کردیتا ہے۔ فطرتِ انسانی میں ودیعت کردہ خداتعالیٰ کی تلاش کے مضمون کا بیان اس شعر میں دیکھیے:
تُونےخود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا
خداتعالیٰ کی ذات حُسن و رعنائی کا منبع ہے۔ تمام حسیں مناظر اور مظاہر نےخداتعالیٰ ہی سے حسن و جمال مستعار لیے ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے روحوں پہ نمک چھڑکا ہے گویا اپنی تلاش کی تڑپ خود انسان کی فطرت میں پوشیدہ رکھ دی ہے ۔دو شعروں بعد فرمایا ‘‘خوب رویوں میں ملاحت ہے ترے اُس حسن کی’’۔‘نمک چھڑکنا’محاورہ بھی ہے ۔ حسن کےلیے ‘ملاحت’کا لفظ شاعری میں مستعمل بھی ہے۔لیکن‘نمک چھڑکنے’کے محاورےاور ‘ملاحت’کے لفظ کو اِن دو اشعار میں یکجاکرکے معنی آفرینی کا انوکھا جہان پیدا کرنا کسی اعجاز سے کم نہیں۔
حضورؑ اپنے ایک فارسی شعرمیں فرماتے ہیں:
حسنِ نمکینت ارنہ بودے
از حسن نہ بودے، ہیچ آثار
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ اس شعر کا ترجمہ یوں کرتے ہیں یعنی اگرتیرا نمکین حسن نہ ہوتا تو دنیا میں حُسن کا نام و نشان نہ ہوتا۔
………………………………(جاری ہے)