سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 15)
(گزشتہ سے پیوستہ)
دنیا میں دو قسم کے انسان ہو تے ہیں ایک وہ جو عسر میں نہایت بد خلق ہو جا تے ہیں دوسرے وہ جو یُسر میں چڑ چڑے بن جا تے ہیں۔رسول کریمؐ پر یہ دونوں حالتیں اپنے کمال کے سا تھ وارد ہو ئی ہیں اور دونوں حالتوں میں آپؐ کے اخلاق کا اعلیٰ رہنا ثابت کر تا ہے کہ کو ئی انسان آپؐ کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو تکلیفیں اور دکھ آپؐ کو پہنچے ہیں وہ اور کونسا انسان ہے جسے پہنچے ہوں مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کے حالات سے کون نہیں واقف،مدینہ کے ابتدائی ایام سے کون بے خبر ہے،کن شدائد کا آپؐ کو سامنا ہوا،کن مشکلات سے پا لا پڑا، دوست دشمن ناراض تھے۔رشتہ دار جواب دے بیٹھے،اپنے غیروں کی نسبت زیادہ خون کے پیاسے ہو رہے تھے ،ملنا جلنا قطعاً بند تھا،ایک وادی میں تین سال محصو ررہنا پڑا،نہ کھانے کو نہ پینے کو،جنگل کے درخت اور بوٹیاں غذا بنیں ،شہر میں آنا منع ہو گیا،پھر چمکتی ہو ئی تلواریں ہر وقت سامنے نظر آتی تھیں،رؤ ساء سے قیام امن کی امید ہو تی ہے وہ بھی مخالف ہوگئے،بلکہ نوجوانوں کو اور اکسا اکسا کر دکھ دینے پر مائل کر تے رہے،باہر نکلتے ہیں تو گالی گلوچ تو کچھ چیز ہی نہیں پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو جا تی ہے،اپنے رب کے حضور گرتے ہیں تو اونٹ کی اوجھڑی سر پر رکھ دی جا تی ہے،حتّٰی کہ وطن چھوڑ دیتے ہیں۔پھر وطن بھی وہ وطن جس میں ہزاروں سال سے قیام تھا،اپنے جدا مجد کے ہاتھوں سے بسایا ہوا شہر جس کو دنیا کے ہزاروں لالچوں کے باوجود آباء واجداد نے نہ چھوڑ ا تھا،ایک شریروں اور بدمعاشوں کی جماعت کے ستانے پر چھوڑنا پڑتا ہے،مدینہ میں کو ئی راحت کی زندگی نہیں ملتی بلکہ یہاں آگے سے بھی تکلیف بڑھ جا تی ہے،ایک طرف منافق ہیں کہ خود آپؐ کی مجلس میں آکر بیٹھتےہیں اور بات بات پر سنا سنا کر طعنہ دیتے ہیں،آپؐ کے سامنے آپؐ کے خلاف سر گو شیاں کرتے ہیں۔ممکن سے ممکن طریق پر ایذاءدیتے ہیں اور پھر جھٹ تو بہ کرکے عفو کے طالب ہو تے ہیں،اپنے مہربان اہل وطن مکہ سے اخراج کے منصوبوں پر ہی کفایت نہیں کر تے جب دیکھتے ہیں کہ جسے ہم تباہ کر نا چاہتے تھے ہمارے ہا تھوں سے نکل گیا ہے اور اب ایک اور شہر میں جا بسا ہے تو وہاں بھی پیچھا کر تے ہیں، آس پاس کے قبیلوں کو اکساتے ہیں،اور اپنے سا تھ شریک کرکےدگنی طاقت سے اسے مٹانا چاہتے ہیں،یہودونصاریٰ اہل کتاب تھے ان پر کچھ امید ہو سکتی تھی وہ بغض و حسد کی آگ میںجل مرتے ہیں اور اُمّی اور مشرک اقوام سےبھی زیادہ بغض و عنا دکا اظہار کرتے ہیں،پڑھے ہوؤں کی شرارتیں بھی کہتے ہیں پڑھی ہو ئی ہوتی ہیں انہوں نے نہ صرف خود مقابلہ شروع کیابلکہ دور دور تک آپؐ کی مخالفت کا بیج بو نا شروع کیا نصاریٰ بد حواس ہو کر قیصر روم کی چوکھٹ پر جبین نیاز گھسنے گئے تو یہود اپنی سا زشوں کے پیٹھ ٹھونکنے والے ایرانیوں کے دربار میں جا فریادی ہو ئے کہ للہ اس اٹھتی ہو ئی طاقت کو دباؤ کہ گو بظاہر معمولی معلوم ہو تی ہے مگر انداز کہے دیتے ہیں کہ چند ہی سال میں تمہارے تختوں کو الٹ دے گی اور عنان حکومت تمہارے ہا تھوں سے چھین لے گی۔یہ سب ستم و قہر کس پر تھے ایک ایسے انسان پر جو دنیا کی اصلاح اور ترقی کے سوا کو ئی اور مطلب ہی نہ رکھتا تھا جس کے کسی گوشۂ دماغ میں ملک گیری کے خیالات نہ تھے جو اپنا قبلہ تو جہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے قیام کو بنائے بیٹھا تھا۔پھر کس جماعت کے خلاف یہ دیو ہیکل طاقتیں اٹھ کھڑی ہو ئی تھیں جو اپنی مجموعی تعداد میں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے چند ہزار سے زیا دہ نہ تھی۔اب ان تکالیف میں ایک قابل سے قابل حوصلہ مند سے حوصلہ مند انسان کا گھبرا جا نا اور چڑ چڑاہٹ کا اظہار کر نا اور بد خلقی دکھا نا بالکل قرین قیاس ہو سکتا ہے لیکن ان واقعات کی بناء پر بھی عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ آپؐ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا ۔نہ بد خلق تھے نہ بد گو تھے۔
اگر کہو کہ ایک جماعت ایسی بھی تو ہو تی ہے جس کے اخلاق بجائے تکالیف کے خوشی کے ایام میںبگڑتے ہیں تو خوشی کی گھڑیاں بھی آپؐ نے دیکھی ہیں۔آپؐ خدا کے رسول اور اس کے پیارے تھے یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ناکام دنیا سے اٹھا لیتا وفات سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ دے دیا اور دشمن جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اسی سرعت سے پیچھے ہٹنے لگا۔قیصر وقصریٰ تو بے شک آپؐ کی وفات کے بعد تباہ ہو ئے اور آپؐ کے غلاموں کے ہاتھوں ان کا غرور ٹوٹا لیکن کفارعرب جماعت منافقین یہود و نصاریٰ کے وہ قبائل جو عرب میں رہتے تھےوہ تو آپؐ کے سامنے آپؐ کے ہا تھوں سے نہایت ذلت سے ٹھوڑیوں کے بل گرے اور سوائے اس کے کہ طلبگار عفو ہوں اور کچھ نہ بن پڑا۔اس بیکسی او بے بسی کے بعد جس کانقشہ پہلے کھینچ چکا ہوں بادشاہت کی کرسی پر آپؐ فروکش ہو ئے اور سب دشمن پا مال ہو گئے۔مگر باوجود ان فاتحانہ نظاروں کے ان ایام ترقی کی ان ساعات بہجت و فرحت کے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ لَمْ یَکُنْ النَّبِیُّ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَاُ مُتَفَحِّشًا نبی کریم ﷺ نہ بداخلاق تھے نہ بد گو۔
ایک پا ک دعا
میں عبدا للہ بن عمرو ؓ کی شہادت سے بتا چکا ہوں کہ آنحضرت ؐ کو بدی سے کیسی نفرت تھی اور بدی کر نا یا بد خلقی کا اظہار کر نا تو الگ رہا آپؐ بد کلامی اور بد گو ئی تک سے محترز تھے اور باوجود ہر قسم کے عسرو یسر میں سے گزرنے کے کسی وقت اورکسی حال میں بھی آپؐ نے نیکی ور تقویٰ کو نہیں چھوڑا اور آپؐ کے منہ پر کو ئی نازیبا لفظ کبھی نہیں آیا جو ایک عظیم الشان معجزانہ طاقت کا ثبوت ہے جو آپؐ کے ہر کام میں اپنا جلوہ دکھا رہی تھی۔
اب میں ایک اَور ثبوت پیش کر تا ہوں کہ آپؐ بدی اور ظلمت سے سخت متنفر تھے اور آپؐ کے دل کے ہر گو شہ میں نور ایمان متمکن تھا اور وہ ثبوت آپؐ کی ایک دعا ہے جو آپؐ کے دلی جذبات کی مظہر ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ آپؐ صبح کی سنتوں کے بعد یہ دعا مانگتے۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُورًا وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًا وَتَحْتِیْ نُوْرًاوَاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذانتبہ من اللیل)
یعنی اے اللہ میرے دل کو نور سے بھر دے اور میری آنکھوں کو نورا نی کر دے اور میرے کانوں کو بھی نو ر سے بھردے اور میری دا ئیں طرف بھی نور کر دے اور با ئیں طرف بھی اور میرے اوپر بھی نور کر دے اور نیچے بھی نور کر دے ۔اور نور کو میرے آگے بھی کر دے اور پیچھے بھی کر دے ۔اور میرے لیے نور ہی نور کر دے۔
حضرت ابن عباسؓ فر ما تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ دعا مانگتے ہو ئے سننے کا اتفاق مجھے اس طرح ہوا کہ میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن سو یا جو رسول کریمؐ کی ازواج مطہرات میں سے تھیں اور میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ اس طرح دعا مانگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے۔پس یہ دعا ایسے خلوت کے وقت کی ہے کہ جس وقت انسان اپنے خدا سےآزادی کے سا تھ اپنا حال دل عرض کر تاہے۔اور اگر چہ خدا تعالیٰ پہلے ہی سے انسان کے خفیہ سے خفیہ خیالات کو جانتا ہے پھر بھی چونکہ فطرت انسانی اسے عرض حال پر مجبور کر تی ہے اس لیے بہتر سے بہتر وقت جس وقت انسان کی حقیقی خواہشات کا علم ہو سکتا ہے وہ وقت ہے کہ جب وہ سب دنیا سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر میں اپنے رب سے عا جزانہ التجا کر تا ہے کہ میری فلاں فلاں خواہش کو پورا کر دیں یا فلاں فلاںانعام مجھ پر فر ما دیں۔
غرض کہ یہ دعا ایسے وقت کی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کے سوا آپؐ کا محرم رازاور کو ئی نہ تھا اور صرف ایک نا بالغ بچہ اس وقت پاس تھا اور وہ بھی اپنے آپؐ کو علیحدرکھ کر چپکے چپکے آپؐ کے اعمال وحرکات کا معائنہ کر رہا تھا۔اب اس دعا پر نظر ڈالو کہ یہ کس طرح آپؐ کے تقویٰ اورطہارت پر رو شنی ڈالتی ہے۔میں بتا چکا ہوں کہ آپؐ ہر ایک قسم کی بد کلامی وبدگوئی،بد اخلاقی اور بداعمالی سے پاک تھے اور یہی نہیں کہ پاک تھے بلکہ آپؐ کو بدی سے سخت نفرت اور نورا ور نیکی اور تقویٰ سے پیار تھا اور یہی انسانی کمال کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ہے یعنی وہ بدی سے بچے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرے۔ظلمت سے متنفر ہو اور نور سے محبت رکھے مگر اس حدیث سے پچھلی حدیث پر اور بھی رو شنی پڑ جا تی ہے کیونکہ پچھلی حدیث سےتو یہ ثابت ہو تا تھا کہ آپؐ بدی سے متنفر تھے مگر اس حدیث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ فعل بالارادہ تھا عادتاً نہ تھا اور یہ اور بھی کمال پر دلالت کر تا ہے۔
ہم دیکھتے ہیںکہ بہت سے کام انسان عادتاً کر تا ہے یا فطرتاً بعض کاموں کی طرف راغب ہو تا ہے اور بعض سے بچتا ہے بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے جا تے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے یا چوری نہیں کر تے۔ اور ان کے جھوٹ سے بچنے یا چوری نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہو تی کہ وہ جھوٹ سے دل میں سخت متنفر ہیں یاچوری کو برا جا نتے ہیںبلکہ ان کا یہ کام صرف ان کی نیک فطرت کی وجہ سےہی ہو تاہےاور بہت دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ وہ صرف عادت کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان بدیوں سے بچتے ہیں۔اگر ان کی عادت انہیں ڈال دی جا ئے تو وہ ان افعال کے مرتکب بھی ہو جائیں۔ایسا ہی بعض لوگ دیکھے جا تے ہیں کہ کسی نہ کسی وجہ سے رحم مادر سے ہی ان کے غصہ یا غضب کی صفت میں ضعف آچکا ہوتا ہے اور وہ باوجود سخت سے سخت اسباب طیش انگیز کے کبھی اظہار غضب نہیں کر تے بلکہ ان کا دل غیرت وحیا کے جذبات سے بالکل خالی ہو چکا ہو تا ہے۔یہ لوگ اگر چہ نرم دل کہلائیں گےلیکن ان کا غضب سے بچنا ان کی صفات حمیدہ میں سے نہیں سمجھا جا ئےگا کیونکہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ قدرت نے ہی انہیں ان جوشوں سے مبرّارکھا ہے۔لیکن ایک ایسا انسان جو غضب سے صرف اس وجہ سے بچتا ہے کہ وہ اسے برا جا نتاہے اور رحم سے محبت رکھتا ہے اور باوجود اس کے کہ اسے طیش دلا یا جائے اپنے جو شوں کو قابو میں رکھتا ہے وہ تعریف کے لا ئق ہے اور پھر وہ شخص اور بھی قابل قدر ہے کہ جس کے افعال اس سے بالا رادہ سرزد ہو تے ہیں نہ خود بخود ۔
رسول کریم ﷺ کا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنا کہ یا اللہ ! مجھے ظلمت سے بچا کر نور کی طرف لے جا اور بدی سے مجھے بچا لے ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کا بد کلامی یا بد اخلاقی سے بچنا اس تقویٰ کے ماتحت تھا جس سے آپؐ کا دل معمور تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپؐ خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگتے تھے ورنہ جو لوگ نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے بعض گناہوں سے بچے ہو ئے ہو تے ہیں وہ ان سے بچنے کی دعا یا خواہش نہیں کیا کر تے کیونکہ ان کے لیے ان اعمال بد کا کر نا نہ کر نا برا بر ہو تا ہے اور ان سے احتراز صرف اس لیے ہو تا ہے کہ ان کی پیدا ئش میں ہی کسی نقص کی وجہ سے بعض جذبات میں کمی آجاتی ہے جن کے استعمال سے خاص خاص بدیاں پیدا ہو جا تی ہیں۔
اس بات کے ثابت کر نے کے بعد کہ آنحضرت ﷺ کے تمام اعمال بالا رادہ تھے اور اگر کسی کام سے آپؐ بچتے تھے تو اسے برا سمجھ کر اس سے بچتے تھے نہ کہ عا دتاً اور اگر کو ئی کام آپؐ کر تے تھے تو اسی لیے کہ آپؐ اسے نیک سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ جا نتے تھے۔اب میں اس دعا کی تشریح کر نی چاہتا ہوں تامعلوم ہو کہ آپؐ کے بدی سے تنفر اور نیکی سے عشق کا درجہ کہاں تک بلند تھا۔انسان جو کر تا ہے اس کی اصل وجہ اس کے دل کی نا پاکی اور عدم طہارت ہو تی ہے۔اگر دل پا ک ہو تو گناہ بہت کم سرزد ہو سکتا ہے کیونکہ پھر جو گناہ ہو گا وہ غلطی سے ہو گا یا نافہمی سے نہ کہ جان بوجھ کر۔ہاں جب دل گندا ہو جا ئے تو اس کاثر جو روح پر پڑتا ہے اور وہ قسم قسم کے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں۔ایک چور بے شک اپنےہا تھ سے کسی کا مال اٹھا تا ہے لیکن دراصل ہا تھ ایک با طنی حکم کے ماتحت ہو کر کام کر رہا ہے اور اصل باعث وہ دل کی حرص ہے جس نے ہا تھ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ غیر کا مال اٹھا لے۔اسی طرح اگر ایک جھوٹا جھوٹ بولتا ہے تو گو خلاف واقعہ کلمات اس کی زبان پر ہی جا ری ہو تے ہیں لیکن نہیں کہہ سکتے کہ زبان نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ دل کے اشارہ پر کام کر تی ہے اور اسے جس طرح اس کا حکم پہنچا اس نے کام کر دیا۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ
اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَالْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَاوَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہ)
جِسم انسان میں ایک لو تھڑا ہے کہ جب وہ درست ہو جائے تو سب جسم درست ہو جا تا ہے اور جب وہ بگڑ جا تا ہے تو سب جسم بگڑ جا تا ہے۔خبردار ہو کر سنو کہ وہ دل ہے۔پس دل کے نیک ہو نے سے جو ارح سے بھی نیک اعمال ظا ہر ہو تے ہیں اور اس کے خراب ہو جانے سے ہا تھ پاؤں آنکھیں کان اور زبان سب خراب ہو جا تے ہیں۔
اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نےاپنی دعا میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ الٰہی میرے دل میں نور بھردے ۔جب دل میں نور بھرا گیا تو پھرظلمت کا گزر کیونکر ہو سکتا ہےاور گناہ ظلمت سے ہی پیدا ہو تے ہیں۔
جس طرح گنا ہ دل سے پیدا ہو تے ہیں اسی طرح دل کو خراب کر نے کے لیے کو ئی بیرونی سا مان ایسے پیدا ہو جا تے ہیں جن کی وجہ سے دل اپنی اصل حالت سے نکل جا تا ہے اس لیے رسول کریم ﷺ نے دل میںنور بھر نے کی درخواست کے بعد دعا فر ما ئی کہ جن ذریعوں سے قلب انسانی بیرونی اشیاء سے متاثر ہو تا ہے ان میں بھی نور ہی بھر دے یعنی آنکھوں اور کانوں کو نورا نی کر دے۔میری آنکھیں کو ئی ایسی بات نہ دیکھیں کہ جس کا دل پر خراب اثر پڑے ۔نہ کان وہ با تیں سنے جن سے دل بدی کی طرف ما ئل ہو۔پھر اس سے بڑھ کر آپؐ نے یہ سو چا کہ کان اور آنکھیں بھی تو آخروہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے ارد گرد ہو تا ہے۔اگر ارد گرد ظلمت کے سا مان ہی نہ ہو ںاور بدی کی تحریک اور میلان پیدا کر نے والے ذرا ئع ہی مفقود ہوں تو پھر انہوں نے دل پر کیا خراب اثر ڈالنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعاکی
اللّٰھُمَّ اجْعَلْ عَنْ یَمِیْنِیْ نُورًا وَیَسَا رِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًاوَتَحْتِیْ نُوْرًاوَاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا (بخا ری کتاب الدعوات باب الدعاا ذانتبہ من اللیل)
اے اللہ! میری بینائی اور شنوائی کو نور سے منور کرکے یہ بھی کر کہ میرے دا ئیں بائیں،آگے پیچھے ،اوپر نیچے جہات ستہ میں نور ہی نور ہو جا ئے اور جن با توں سے آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ دل پربرا اثر پڑتا ہے وہی میرے ارد گرد سے فنا ہو کر ان کی بجا ئے تقویٰ اور طہارت کے پیدا کر نے والے نظارے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیں۔پھر اس خیال سے کہ پو شیدہ در پو شیدہ ذرائع سے بھی دل ملوث ہو تا ہے۔فر ما یا کہ وَجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا میرے لیے نور کے دروازے کھول دےظلمت سے میرا کچھ تعلق ہی نہ رہے نور ہی سے میرا واسطہ ہو اس دعا کو پڑھ کر ہر ایک تعصب سے کو را آدمی سمجھ سکتا ہےکہ آنحضرت ﷺ بدیوں سے کیسے متنفر تھے۔
(باقی آئندہ )
٭…٭…٭