متفرق مضامین

خواتین کے لیے خصوصی نصائح

(شازیہ باجوہ۔ جرمنی)

غیبت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ‘‘غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے ۔عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے ۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں ۔لیکن اس سے بچنا چا ہیئے ۔عورتوں کی خاص سُورت قرآن شریف میں ہے ۔حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں ۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ29)

غیبت کرنا ایک بری عادت ہے ۔غیبت کرنے والا شخص خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک ناپسندیدہ بندہ ہے ۔ایسا شخص ہر قسم کے گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے جیسا کہ جھوٹ بولنا ،چغلی کرنا ،شیخی کرنا ،بہتان لگانا ،قوم پر فخر کرنا ،حسد کرنا ،نفرت کرنا ،گلے شکوے کرنا وغیرہ ۔اس لئے اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے غیبت کرنے والا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے ۔لہذا جب انسان کو اس کی عادت ہو جاتی ہے تو وہ بغیر سوچے سمجھے چاہے اس کا کوئی دوست ہی کیوں نہ ہو اس کی بھی غیبت کرنے سے باز نہیں آتا ۔ جب وہ ایک شخص کے پاس بیٹھتا ہے تو دوسرے کی بات کرتا ہے اور جب کسی دوسرے شخص کے پاس بیٹھتا ہے تو پہلے کی اور یہ بہت ہی غلط فعل ہے ۔یہ عادت خاص طور پر عورتوں میں بہت پائی جاتی ہے اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں عورتیں کم ہوں گی ۔ اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ یہ کتنی بری عادت ہے جو کہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں کو ہی تباہ کرتی ہے ۔ یہ بری عادت معاشرے میں بھی انتشار کا باعث بنتی ہے اور غیبت کرنے والے شخص پر لوگ بھی آہستہ آہستہ اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔

فخرو مباہات

فرمایا کہ ‘‘عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں ۔ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں ۔پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیںکہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہے ۔ زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں ۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30)

خاوند کی اطاعت

فرمایا کہ ‘‘عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دُوسری جگہ رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اُس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے ۔ ’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30)

پس ایک عورت پر فرض ہے کہ وہ ہر طرح سے اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور شوہر پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کا ہر طرح سے خیال رکھے ۔ اگر کوئی عورت کسی قسم کا غلط کام کرتی ہے تو اس کی اصلاح کرنا بھی مرد کے ذمہ ہے ،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو سربراہ بنایا ہے اور مرد کے قویٰ عورت کی نسبت مضبوط بنائے ہیں ۔ بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کے سامنے زبان درازی نہ کرے اور نہ شوہر کے رشتہ داروں سے لڑائی جھگڑا کرے ۔ جس طرح میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں وہ لباس ہونے کا حق ادا کریں اور ایک دوسرے کی خامیوں کو دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دیں ۔

خاوند کی اطاعت کے حوالے سے بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے ،رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں میں داخل ہو جائے ۔

ایک مرد جو اپنی بیوی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور ایک عورت جو اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو ان کو اس کا ثواب ملتا ہے ۔

عورتوں کے حقوق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ‘‘عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ اُن پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی اس کے بہت حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گویا بالکل کرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر۔ اس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمّہ ہے۔دیکھو کہ موچی ایک جُوتی میں بد دیانتی سے کچھ کاکچھ بھر دیتا ہے صرف اس لئے کہ اس سے کچھ بچ رہے تو جورو بچوں کا پیٹ پالوں ۔سپاہی لڑائی میں َسر کٹاتے ہیں صرف اس لئے کہ کسی طرح جورو بچوں کا گذارہ ہو ۔بڑے بڑے عہدے دار رشوت کے الزام میں پکڑے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ۔وہ کیا ہوتا ہے ؟ عورتوں کے لئے ہوتا ہے ۔عورت کہتی ہے کہ مجھے زیور چاہیے کپڑا چاہیے ۔مجبوراً بچارے کو کرنا پڑتا ہے ۔لیکن خدا تعالیٰ نے ایسی طرزوں سے رزق کمانا منع فرمایا ہے ۔

یہانتک عورتوں کے حقوق ہیں کہ جب مرد کو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو۔ تو مہر کے علاوہ ان کو کچھ اور بھی دو ۔کیونکہ اس وقت تمہاری ہمیشہ کے لئے اس سے جدائی لازم ہوتی ہے۔ پس لازم ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30)

میاں بیوی کو ہر اچھے برے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے ۔آج کامعاشرہ جو یہ بات کرتا ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کو برابری کا درجہ نہیں دیا گیا ہم اپنے رویہ سے ان لوگوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ دین اسلام نے کس قدر خوبصورت تعلیم آج سے چودہ سو سال پہلے ہی دے دی تھی جس پر عمل کر کے ہم اس معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں ۔اس تعلیم میں عورت اور مرد کے حقوق بھی بتائے گئے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ہمیں عورت کی عزت اور احترام کی تعلیم دیتا ہے ،اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں اس وقت کے امام کو ماننے کی توفیق دی جو ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ہم اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں ۔

گلے شکوے کرنا اچھا نہیں ہے

ایک روز ایک عورت نے کسی دوسری عورت کا گِلہ کیا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘دیکھو۔ یہ بہت بری عادت ہے جو خصوصاً عورتوں میں پائی جاتی ہے ۔چونکہ مرد اور کام بہت رکھتے ہیں ،اس لئے ان کو شاذ ونادر ہی ایسا موقع ملتا ہے کہ بے فکری سے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں اور اگر ایسا موقع بھی ملے تو اُن کو اور بہت سی باتیں ایسی مل جاتی ہیں جو وہ بیٹھ کر کرتے ہیں۔لیکن عورتوں کو نہ علم ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا کام ہوتا ہے۔اس لئے سارے دن کا شغل سوائے گلہ اور شکایت کے کچھ نہیں ہوتا ۔ایک شخص تھا اس نے کسی دوسرے کو گنہگاردیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی اور کہا کہ تُو دوزخ میں جائے گا ۔قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں تجھ کو میرے اختیارات کس نے دیئے ہیں ؟ دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں تُو کون ہے ؟ اچھا جا میں نے تجھ کو دوزخ میںڈالا اور یہ گنہگار بندہ جس کا تُو گلہ کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ ایساہے ویسا ہے اور دوزخ میں جائے گا ۔اِس کو میں نے بہشت میں بھیج دیا ہے ۔ سو ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی اُلٹا شکار ہو جائوں ۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ11-10)

نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈرہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہو گئی ہوں۔حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے ۔عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے ۔ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور وَلی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے ۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول ؐ کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں ۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے ۔جس عورت کو رسول اللہ( صلی ا للہ علیہ وسلم )پیارا ہے اُس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعدکوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے ۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ47)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button