شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کی بزرگان و صلحائے امت سے محبت و عقیدت کا بیان
حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
“ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سیّد و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے۔جیسا کہ سیّد عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی۔اور ابویزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی۔اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی۔اور فرید الدین پاک پٹنی۔اور نظام الدین دہلوی۔اور شاہ ولی اللہ دہلوی۔اور شیخ احمد سرہندی رضی اللّٰہ عنہم و رضوا عنہ اسلام میں گذرے ہیں ۔اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہنچا ہے۔اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء او ر فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے نہایت صحیح تحقیقات سے دریافت کیا ہے کہ جہاں تک بنی آدم کے سلسلہ کا پتہ لگتا ہے سب پر غور کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں ۔اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی ترقی آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بے شمار انوار اور برکات نے خداتعالیٰ کو قریب کر کے دکھلادیا ہے۔یقیناً سمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانہ کے آگے شرمندہ نہیں۔”
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 91، 92)
آپؑ فرماتے ہیں :
“اصل بات یہ ہے کہ شیعہ کی روایات کی بعض سادات کرام کے کشفِ لطیف پر بنیاد معلوم ہوتی ہے چونکہ ائمہ اثنا عشرنہایت درجہ کے مقدّس اور راستباز اوراُن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس لئے ممکن اور بالکل قرین قیاس ہے جو بعض اکابر ائمہ نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر اس مسئلہ کو اُسی طرز اور اُسی اصل سے بیان کیا ہوجیسا کہ ملاکی کی کتاب میں ملاکی نبی نے ایلیاہ نبی کے دوبارہ آنے کا حال بیان کیا تھا اور جیسا کہ مسیح کے دوبارہ آنے کاشور مچا ہوا ہے اور درحقیقت مراد صاحبِ کشف یہ ہو گی کہ کسی زمانہ میں اس امام کے ہمرنگ ایک اَور امام آئے گا جو اس کا ہمنام اورہم قوت اور ہم خاصیت ہوگا گویا وہی آئے گا۔پھر یہ لطیف نکتہ جب جسمانی خیالات کے لوگوں میں پھیلا تو اُن لوگوں نے موافق اپنی موٹی سمجھ کے سچ مچ یہی اعتقاد کرلیا ہو گا کہ وہ امام صدہا برس سے کسی غارمیں چھپا ہوا ہے اور آخری زمانہ میں باہر نکل آئے گا۔مگر ظاہر ہے کہ ایسا خیال صحیح نہیں ہے۔”
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 344)
حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ کے بارے میں فرمایا:
“حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے ذکر میں درج ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے طلب علم کے لیے نکلے،تو آپ کی والدہ صاحبہؓ نے ان کے حصہ کی اَسّی (80)اشرفیاں اُن کی بغل کے نیچے پیراہن میں سِیْ دیں اور یہ نصیحت کی کہ بیٹاجھُوٹ ہر گز نہ بولنا۔حضرت سید عبدالقادرؒ جب گھر سے رخصت ہوئے۔تو پہلی ہی منزل میں ایک جنگل میں سے اُن کا گزر ہوا۔جہاں چوروں اور قزّاقوں کا ایک بڑا قافلہ رہتا تھا۔جہاں اُن کو چوروں کا ایک گروہ ملا۔اُنھوں نے آپ کو پکڑکر پُوچھا کہ تمھارے پاس کیا ہے؟ آپؒ نے دیکھا کہ یہ توپہلی ہی منزل میں امتحان درپیش آیا۔اپنی والدہ صاحبہ کی آخری نصیحت پر غور کی اور فوراًجواب دیا کہ میرے پاس اسی (80)اشرفیاں ہیں جو میری بغل کے نیچے میری والدہ صاحبہ نے سی دی ہیں ۔وہ چوریہ سُن کر سخت حیران ہوئے کہ یہ فقیر کیا کہتاہے۔ایساراستباز ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔وہ آپؒ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور سارا قصہ بیان کیا۔اس نے بھی جب آپؒ سے سوال کیا۔تب بھی آپؒ نے وہی جواب دیا۔آخر جب آپؒ کے پیراہن کے اس حصہ کو پھاڑ کر دیکھا گیا،توواقعی اس میں اسی (80)اشرفیاں موجود تھیں۔اُن سب کو حیرانی ہوئی۔اس پر اُن کے سردار نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔اس پر آپؒ نے اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت کا ذکر کر دیا اور کہا کہ میں طلب دین کے لیے گھر سے نکلاہوں۔اگر پہلی ہی منزل پر جھوٹ بولتا تو پھر کیا حاصل کر سکتا۔اس لئے میں نے سچ کو نہیں چھوڑا۔جب آپؒ نے یہ بیان فرمایاتو قزّاقوں کا سردار چیخ مار کر رو پڑا اور آپؒ کے قدموں میں گِر گیا اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی۔کہتے ہیں کہ آپؒ کا سب سے پہلا مرید یہی شخص تھا۔
غرض صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی نجات دلا دیتی ہے۔سعدی نے سچ کہا ہے کہ ؎
کس ندیدم کہ گم شد از رہِ راست۔پس جس قدر انسان صِدق کو اختیار کرتا ہے اور صِدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام اور انبیاؑءکی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ وہ تمام راستبازوں کے نمونے اور چشمے ہوتے ہیں ۔کونوا مع الصّٰدقین (التوبہ:119) کا ارشاد اسی اصول پر ہے۔”
(ملفوظات جلد اول صفحہ 371-370)
حضرت حافظ نور محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ
“کئی مرتبہ حضور علیہ السلام نے اپنی تقاریر میں فرمایا کہ حضرت پیرانِ پیر بڑے اولیاء اللہ میں سے ہوئے ہیں لیکن ان کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے۔ناقل) عرض کرتا ہے کہ پیرانِ پیر سے سید عبدالقادر جیلانی ؒ مراد ہیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں گذشتہ مجددینِ امت محمدیہ میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒکے ساتھ سب سے زیادہ محبت تھی اور فرماتے تھے کہ میری روح کو ان کی روح سے خاص جوڑ ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 573)
پھر ابو الحسن خرقانیؒ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :
“سیر میں لکھا ہے کہ ابو الحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا۔راستہ میں شیر ملا۔اور کہا کہ اللہ کے واسطے پیچھا چھوڑ دے۔شیر نے حملہ کیا اور جب کہا۔ابوالحسن کے واسطے چھوڑ دے،تو اس نے چھوڑ دیا۔شخص مذکور کے ایمان میں اس حالت نے سیاہی سی پیدا کر دی اور اس نے سفر ترک کر دیا۔واپس آکر یہ عقدہ پیش کیا۔اس کو ابوالحسن نے جواب دیا کہ یہ بات مشکل نہیں ۔اللہ کے نام سے تو واقف نہ تھا۔اللہ کی سچی ہیبت اور جلال تیرے دل میں نہ تھا اور مجھ سے تو واقف تھا۔اس لئے میری قدر تیرے دل میں تھی۔پس اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں ۔بشرطیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے اور اس کی ماہیت پر کان دھرے۔”
(ملفوظات جلد اول صفحہ 102)
ایک صبح حضرت مسیح موعود ؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے۔دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔فرمایا:
“لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں ؛ البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء الله کی قبریں ہیں ۔ان پر ہم بھی جائیں گے….”
پھر فرمایا کہ
“ایسے بزرگوں کی فہرست بناؤ تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے۔حاضرین نے یہ نام لکھائے۔(1) شاہ ولی الله صاحبؒ (2) خواجہ نظام الدین صاحبؒ (3) جناب قطب الدین صاحبؒ (4) خواجہ باقی بالله صاحبؒ (5) خواجہ میردردؒ صاحب (6) جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔
چنانچہ گاڑیوں کا انتطام کیا گیا اور حضرت بمعہ خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اول حضرت خواجہ باقی بالله کے مزار پر پہنچے۔راستہ میں حضرت نے زیارتِ قبور کے متعلق فرمایا :
“قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جائے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبوْرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ۔”
(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 167-166)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“والد صاحب میاں عبد اللہ صاحب غزنوی اور سماں والے فقیر سے ملنے کے لئے کبھی کبھی جایا کرتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدا للہ صاحب غزنوی کی ملاقات کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی تحریرات میں کیا ہے۔اور سماں والے فقیرکے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ اُن کا نام میاں شرف دین صاحب تھا اور وہ موضع سُم نزد طالب پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔سُم میں پانی کا ایک چشمہ ہے اور غالباً اسی وجہ سے وہ سُم کہلاتا ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر191)
میاں شرف الدین صاحب سم والے
“ضلع گورداسپورمیں طالب پور کے متصل ایک مقام سم شریف کہلاتا ہے۔وہاں پانی کا ایک چشمہ سا ہے۔وہاں میاں شرف الدین صاحب ایک بزرگ رہتے تھے۔حضرت مرزا صاحب ان کے پاس بھی چند مرتبہ تشریف لے گئے۔آپ کے یہ سفر کسی ذاتی غرض یا دنیوی مفاد پر مشتمل نہ تھے۔بلکہ محض کونوا مع الصادقین پر عمل کرنے کے لئے۔یا ترقی ٔاسلام کے لئے دعا کرانے کے واسطےتھے۔شروع ہی سے آپ کی فطرت میں اسلام کی تائید اور نصرت کے لئے خاص جوش تھا۔آپ خود بھی اس کے لئے دعا ئیں کرتے رہتے تھے۔جیسا کہ آپ کی ایک پرانی دعا اوپر دیوان فرخ سے میں نے نقل کی ہے۔آپ کا سونا،جاگنا،چلنا،پھرنا اسی دُھن اور آرزو میں تھا۔”
(حیاتِ احمد جلد اول صفحہ 131،130 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضور علیہ السَّلام تمام گذشتہ مشہور بزرگانِ اسلام کا نام ادب سے لیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔اگر کوئی شخص کسی پر اعتراض کرتا۔کہ فلاں شخص کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے یا ایسا فعل کیا ہے۔تو فرمایا کرتے کہ‘‘اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ” ہمیں کیا معلوم کہ اصلیت کیا ہے اور اس میں کیا سر تھا۔یہ لوگ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ ہوئے ہیں۔ان کے حق میں اعتراض یا سوءِ ادبی نہیں کرنی چاہیے۔حضرت جنید۔حضرت شبلی۔حضرت بایزید بسطامی۔حضرت ابراہیم ادھم۔حضرت ذوالنون مصری۔چاروں ائمہ فقہ۔حضرت منصور۔حضرت ابوالحسن خرقانی وغیرھم صوفیاء کے نام بڑی عزت سے لیتے تھے اور بعض دفعہ ان کے اقوال یا حال بھی بیان فرمایا کرتے تھے۔حال کے زمانہ کے لوگوں میں آپ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو بزرگ سمجھتے تھے۔اسی طرح آپ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی۔حضرت مجدد سرہندی۔سیّد احمد صاحب بریلوی اور مولوی اسمٰعیل صاحب شہید کو اہل اللہ اور بزرگ سمجھتے تھے۔مگر سب سے زیادہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کا ذکر فرماتے تھے۔اور ان کے مقالات بیان کیا کرتے تھے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے)عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی گذشتہ بزرگ کا کوئی قول یا فعل آپ کی رائے اور تحقیق کے خلاف بھی ہو تو پھر بھی اس وجہ سے کسی بزرگ پر اعتراض نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے کوئی بات کہی ہے یا کسی معاملہ میں انہیں غلطی لگی ہے تو اس کی وجہ سے ان کی بزرگی میں فرق نہیں آتا اور بہرحال ان کا ادب ملحوظ رکھنا چاہیے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 611)
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپور تھلوی بیان کرتے ہیں:
“دہلی میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف فرما تھے۔تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے۔فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے۔”
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1134)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے… بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب 1905ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔اور دعا فرمائی۔باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا۔میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اور حضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں ۔آپؑ نے فرمایا۔‘‘شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔گاڑی لائیں۔’’ میر صاحب نے کہا۔حضور! گاڑی کیا کرنی ہے ؟ آپ نے فرمایا‘‘قطب صاحب جانا ہے’’ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے۔آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپؑ نے فرمایا‘‘دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا۔” میر صاحب کی اپنی فٹن بھی تھی ،دو گاڑیاں اور آگئیں ۔ہم سب حضرت صاحبؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے۔آپؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑسے پوچھا، آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں ؟ آپؑ نے فرمایا‘‘ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں ۔”پھرآپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں توعورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ان لوگوں نے حضور ؑ کو کھانے کے لیے کہا۔حضورؑ نے فرمایا‘‘ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں آپ کی مہربانی ہے۔”وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا پھر حضورعلیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔”
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1312) (جاری ہے)