سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 17)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فر ما تے ہیں کہ سَالْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسلَّمَ اَیُّ الْعَمَلِ اَحَبُّ اِلیٰ اللّٰہِ قَالَ الصَّلٰوۃُعَلیٰ وَقْتِھَا قَالَ ثُمَّ اَیُّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ اَیُّ قَال اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّ ثَنِیْ بِھِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَواسْتَزَدْتُہٗ لَزَادَنِیْ(صحیح بخاری کتاب المواقیت باب فضل الصلوٰہ لوقتھا)میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کو نسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا ہے ۔فر مایا نماز اپنے وقت پر ادا کر نا ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ پھر کونسا عمل۔فر ما یاکہ والدین سے نیکی کر نا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر کو نسا عمل ہے۔فر ما یا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کو شش کرنا۔عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فر ما یا کہ مجھ سے نبی کریم ؐ نے یہ بیان فر ما یا اور اگر میں آپؐ سے اور پو چھتا تو آپؐ اور بتاتے۔
بظاہر تو یہ حدیث ایک ظا ہر بین کو معمولی معلوم ہو تی ہو گی لیکن غور کر نے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کا وقار کیسا تھا کہ صحابہ ؓ آپؐ سے جس قدر سوال کیے جائیں آپؐ گھبرا تے نہ تھے بلکہ جواب دیتے چلے جا تے اور صحابہ ؓ کو یقین تھا کہ آپؐ ہمیں ڈانٹیںگے نہیں۔امراء کو ہم دیکھتے ہیں کہ ذرا کسی نے دو دفعہ سوال کیا اور چیں بجبیں ہو گئے۔کیا کسی کی مجال ہے کہ کسی بادشاہ وقت سےبار بار سوال کر تا جا ئے اور وہ اسے کچھ نہ کہے بلکہ بادشاہوں اور امراء سے تو ایک دفعہ سوال کر نا بھی مشکل ہو تا ہے اور وہ سوالات کو پسند ہی نہیں کر تے اور سوال کر نا اپنی شان کے خلاف اور بے ادبی جا نتے ہیں اور اگرکوئی ان سے سوال کر ے تو اس پر سخت غضب نازل کر تے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں ہم رسول کریم ﷺ کو جا نتے ہیں کہ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہو نے کے طبیعت میں ایسا وقارہے کہ ہر ایک چھوٹا بڑا جو دل میں آئے آپ سے پوچھتا ہے اور جس قدر چاہےسوال کر تا ہے۔لیکن آپ اس پر بالکل ناراض نہیں ہو تے بلکہ محبت اور پیار سے جواب دیتے ہیں اور اس محبت کا ایسا اثر ہو تا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں یقین کر لیتے ہیں کہ ہم جس قدر بھی سوال کر تے جا ئیں آپ ان سے اکتا ئیں گے نہیں۔کیونکہ جو حدیث میں اوپر لکھ آیا ہوں اس سےمعلوم ہو تا ہے کہ نہ صرف اس موقع پر آپؐ اعتراضات سے نہ گھبرا ئے بلکہ آپؐ کی یہ عادت تھی کہ آپؐ دین کے متعلق سوالات سے نہ گھبرا تے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فر ما تے ہیں کہ میں نے جتنے سوال آپؐ سے کیے آپؐ نے ان کا جواب دیا۔اورپھر فرماتے ہیں کہ لَوِاسْتَزَدْتُ لَزَادَ اگرمیں اورسوال کرتاتو آپؐ پھربھی جواب دیتےاس فقرہ سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ آپ جس قدر سوالات بھی کرتے جائیں آنحضرت ﷺ اس پر ناراض نہ ہوں گے بلکہ ان کا جواب دیتے جا ئیں گے اور یہ نہیں ہو سکتا تھا جب تک رسول کریم ﷺ کی عام عادت یہ نہ ہو کہ آپ ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتے جا ئیں۔
دیگر احادیث سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ صحابہؓ کے سوالات پر خفا نہ ہو تے تھے بلکہ بڑی خندہ پیشا نی سے ان کے جواب دیتے تھے اور یہ آپؐ کے وقار کے اعلیٰ درجہ پر شاہد ہے کیونکہ معمولی طبیعت کا آدمی بار بار سوال پر گھبرا جا تا ہے مگر آپؐ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہو نے کے رحمت و شفقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھا تے رہے جو عام انسان تو کجا دیگر انبیاءبھی نہ دکھاسکے۔
اس حدیث کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے جس سے آپؐ کے وقار کا علم ہو سکتا ہے اور گو یہ حدیث میں پہلے بیان کر چکا ہوں کیونکہ اس سے آپؐ کے یقین اور ایمان پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن چونکہ اس حدیث سے آپ کے وقار کا حال بھی کھلتا ہے اس لیے اس جگہ بھی بیان کر دینا ضروری معلوم ہو تا ہے۔سراقہ بن جعشم کہتا ہے کہ جب رسول کریمؐ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو ئے تو مجھے اطلاع ملی کہ آپؐ کے لیے اور حضرت ابوبکر ؓ کے لیے مکہ والوں نے انعام مقرر کیا ہے جو ایسے شخص کو دیا جا ئے گا جو آپؐ کو قتل کردے یا قید کر لا ئے۔اس پر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگا اور چاہا کہ جس طرح ہو آپ کو گرفتار کر لوں تا اس انعام سے متمتع ہو کر اپنی قوم میں مالدار رئیس بن جاؤں۔جب میں آپ کے قریب پہنچا میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر پڑا۔اس پر میں نے اٹھ کر تیروں سے فال نکالنی چاہی کہ آیا یہ کام اچھا ہے یا براکروں یانہ کروں اور تیروں میں سےوہ جواب نکلا جسے میںناپسند کرتا تھا یعنی مجھے آپ کا تعاقب نہیں کرنا چاہیے۔مگر پھر بھی میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور آپ کے پیچھے بھا گا اور اس قدر نزدیک ہو گیا کہ آپ کی قراءت کی آواز آنے لگی اور میں نے آپؐ کو دیکھا کہ آپؐ بالکل کسی طرف نہ دیکھتے تھے مگر حضر ت ابوبکر ؓ بار بار ادھر ادھر دیکھتے جا تے تھے۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہو تاہے کہ آنحضرت ﷺ میں صفت وقار نہایت اعلیٰ درجہ پر تھی اور آپ خطر ناک سے خطرناک اوقات میں بھی اپنے نفس کی بڑا ئی کو نہ چھوڑ تے تھے۔اور خواہ آپؐ کو گھر میں بیٹھے ہو ئے اپنے شاگردوں سے معاملہ کر نا پڑے جو دین کی جدت کی وجہ سے بار بار سوال کرنے پر مجبور تھےاور خواہ میدان جنگ میں دشمن کے ملک میں خطرناک دشمنوں کے مقابلہ میں آنا پڑے ہر دو صورتوں میں آپؐ اپنے وقار کو ہا تھ سے نہ دیتے۔اور جس وقت صابر سے صابر اور دلیر سے دلیر انسان چڑ چڑا ہٹ اور گھبراہٹ کا اظہار کرے اس وقت بھی آپؐ وقار پر قائم رہتے اور تعلیم اور جنگ دو ہی موقعے ہو تے ہیں جہاں وقار کا امتحان ہو تا ہے او رجاننے والے جا نتے ہیں کہ اسی وجہ سے استادوں کو اپنے اخلاق کے درست کر نے کی کیسی ضرورت رہتی ہے اور جو استاد اس بات سے غافل ہوجائے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے بہت جلد طلباء اس کے اخلاق کو بگاڑ دیتے ہیں یہی حال میدان جنگ میں بہادر سپا ہی کا ہو تا ہے جو باوجود جرأت اور بہادری کے بعض اوقات وقار کھو بیٹھتا ہے اور چھچھوراپن اور گھبرا ہٹ کا اظہار کر بیٹھتا ہے مگروہ نیکوں کا نیک بہادروں کا بہادر ان سب عیوب سے پا ک تھا۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔
جرأت
انسان کی اعلیٰ درجہ کی خصال میں سے ایک جرأت بھی ہےجرأت کے بغیر انسان بہت سے نیک کا موں سے محروم رہ جاتا ہے۔جرأت کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کرسکتا۔جرأت کے بغیر انسان اپنے ہم عصروں کی نظروں میں ذلیل و سبک رہتا ہے۔ غرض کہ جرأت،بہادری،دلیری اعلیٰ درجہ کی صفات میں سے ہیں اور جس انسان میںیہ خصلتیں ہوں وہ دوسروں کی نظر میں ذلیل نہیں ہو سکتا۔
جب کہ آنحضرت ﷺ جامع کمالات انسانی تھے اور ہر ایک بات میں جو انسان کی زندگی کو بلند اور اعلیٰ کر نے والی ہو دوسرے کے لیے نمونہ اور اسوہ حسنہ تھے اور جو عمل یا قول یا خوبی یا نیکی سے تعبیر کیا جا سکے اس کے آپ معلّم تھے اور کل پاک جذبات کو ابھارنے کے لیے ان کا وجود خضر ِراہ تھا تو ضروری تھا کہ آپؐ اس صفت میں بھی خاتم الانبیاء و اولیاء بلکہ خاتم الناس ہوں اور کو ئی انسان اس حسن میں آپؐ پر فائق نہ ہو سکے چنانچہ آپؐ کی زندگی پر غور کر نے والے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی عمر میں بہادری اور جرأت کے وہ اعلیٰ درجہ کے نمونے دکھائے ہیں کہ دنیا میں ان کی نظیر نہیں مل سکتی بلکہ تا ریخیں بھی ان کی مثال پیش کر نے سے عاجز ہیں لیکن چونکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ موجودہ صورت میں میں صرف وہ واقعات جو بخاری میں درج ہیں پیش کروں گا اس لیے اس جگہ صرف ایک دو واقعات پر کفایت کر تا ہوں۔
دراصل اگر غور کیاجائے تو آنحضرت ﷺ کی مکہ کی زندگی ہی بہادری کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جا تی ہے۔ تیرہ سال تک ایک ایسے مقام پر رہنا کہ جہاں سوائے چند انفاس کے اور سب لوگ دشمن اور خون کے پیاسےہیں اور بغیر خو ف کے لوگوں کو اپنے دین کی باتیں سنانا اور پھر ایسے دین کی جو لوگوں کی نظر میں نہایت حقیر او ر مکروہ تھا۔ کوئی ایسا کام نہیں جس کے معلوم ہو نے پر آپؐ کے کمالات کا نقشہ آنکھوں تلے نہ کھنچ جا تا ہو۔اس تیرہ سال کے عرصہ میں کیسے کیسے دشمنوں کا آپؐ کو مقابلہ کر نا پڑا۔انواع و اقسام کے عذابوں سے انہوں نے آپؐ کے قدم صدق کو ڈگمگا نا چاہا لیکن آپؐ نے وہ بہادری کا نمونہ دکھا یا کہ ہزار ہا دشمنوں کے مقابلہ میں تن تنہا سینہ سپر رہے اور اپنے دشمنوں کے سامنے اپنی آنکھ نیچی نہ کی اور جو پیغام خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اسے کھلے الفاظ میں بغیر کسی اخفاء و اسرار کے لوگوں تک پہنچا تے رہے غرض کہ آپؐ کی زندگی تمام کی تمام جرأت و دلیری کا ایک بے مثل نمونہ ہے مگر جگہ کی قلت کی وجہ سے میں ایک دو واقعات سے زیا دہ نہیں لکھ سکتا۔حضرت انسؓ فرماتے ہیںکہکَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِیْنَۃِ فَاسْتَعَارَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَسًالَنَا یُقَالُ لَہٗ مَنْدُوْبٌ فَقَالَ مَارَاَیْنَا مِنْ فَزَعٍ وَاِنْ وَجَدْنَاہُ لَبَحْرًا(بخاری کتاب الجھادباب اسم الفرس والمحار)مدینہ میں کچھ گھبراہٹ تھی پس نبی کریم ﷺ نے ہمارا گھوڑا مستعارلیا جس کا نام مندوب تھا اور فرمایا کہ ہم نے کو ئی گھبراہٹ کی بات نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس گھوڑے کو سمندر پا یا یعنی نہایت تیزوتند۔ حضرت انسؓ نے ایک حدیث میںاس واقعہ کی طرف اشارہ فر مایا ہے کہ ایک دفعہ مدینہ میں کسی غنیم کے حملہ آور ہو نے کی خبر تھی اورمسلمانوں کو ہر وقت اس کے حملہ آور ہونے کا انتظار تھا۔ایک رات اچانک شور ہوا اور دور کچھ آوازیں سنا ئی دیں۔صحابہ ؓفوراً جمع ہونے شروع ہو ئے اور ارادہ کیا کہ جمع ہو کر چلیں اور دیکھیں کہ کیا غنیم حملہ آور ہو نے کے لیے آرہا ہے۔وہ تو ادھر جمع ہو تے اور تیار ہوتے رہے اورادھر رسول کریمﷺ بغیر کسی کو اطلاع دیے ایک صحابی ؓ کا گھوڑا لے کر سوار ہو کر جدھر سے آوازیں آرہی تھیں ادھر دوڑے اور جب لوگ تیار ہوکر چلے تو آپؐ انہیں مل گئے اور فرمایاکہ گھبراہٹ کی تو کوئی وجہ نہیں شور معمولی تھا۔اور اس گھوڑے کی نسبت فر ما یا کہ بڑا تیز گھوڑا ہے اور سمندر کی طرح ہے یعنی لہریں مار کر چلتا ہے۔
اس واقعہ سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ آپؐ کیسے دلیر وجری تھے کہ شور سنتے ہی فوراًگھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی خبر لینے کو چلے گئے اور اپنے سا تھ کو ئی فوج نہ لی۔ لیکن جب اس واقعہ پر نظر غائر ڈالی جا ئے تو چند ایسی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس واقعہ کو معمولی جرأت و دلیری کا کام نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ واقعہ خاص طور پر ممتاز معلوم ہو تا ہے۔
اول امر جو قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ جرأت و دلیری دو قسم کی ہو تی ہے ایک تو وہ جو بعض اوقات بزدل سے بزدل انسان بھی دکھا دیتا ہے اور اس کا اظہار کمال مایوسی یا انقطاع اسباب کے وقت ہوتا ہے اور ایک وہ جو سوائے دلیر اور قوی دل کے اور کو ئی نہیں دکھا سکتا۔پہلی قسم کی دلیری ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ایسےجانوروں سے بھی ظاہر ہو جا تی ہے جو جرأت کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں مثلاً مرغی ان جانوروں میں سے نہیں ہے کہ جو جرأت کی صفت سے متصف ہیں بلکہ نہایت ڈرپوک جانور ہے مگر بعض اوقات جب بلی یا چیل اس کے بچوں پر حملہ کرے تو یہ اپنی چونچ سے اس کا مقابلہ کر تی ہے۔اور بعض اوقات تو ایسے بھی دیکھا گیا ہے کہ چیل مرغی کا بچہ اٹھا کر لے گئی تو وہ اس کے پیچھے اس زور سے کودی کہ دو دو گز تک اس کا مقابلہ کیا۔ حالانکہ مرغی لڑنے والے جانوروں میںسے نہیں ہے۔مرغی تو خیر پھر بھی بڑا جانور ہے چڑیا تک اپنے سے کئی کئی گنے جانوروں کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جا تی ہے مگر یہ اسی وقت ہو تا ہے جب وہ دیکھ لے کہ اب کوئی مفر نہیں او رمیری یا میرے بچوں کی خیر نہیں۔جب جانوروں میںاس قدر عقل ہے کہ وہ جب مصیبت اور بلا میں گھر جا تے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب سوائے موت کے اور کو ئی صورت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور حتَّی الوسع دشمن کا مقابلہ کر تے ہیں تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ اس صفت سے کب محروم رہ سکتا ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض انسان جو معمولی اوقات میں نہایت بزدل اور کمزور ثابت ہو ئے تھے جب کسی ایسی مصیبت میں پھنس گئے کہ اس سے نکلنا ان کی عقل میں محالات سے تھا تو انہوں نے اپنے دشمنوں کا ایسی سختی سے مقابلہ کیا کہ ان پر غالب آگئے اور جیت گئے اور ایسی جرأت دکھا ئی کہ دوسرے مواقع میں بڑے بڑے دلیروں سے بھی نہ ظاہر ہو تی تھی۔پس ایک جرأت وہ ہو تی ہے جو انقطاع اسباب کے وقت ظاہر ہو تی ہے اور بزدل کو بہادر اور ضعیف کو توانا اور ڈرپوک کو دلیر بنا دیتی ہے مگر یہ کو ئی اعلیٰ درجہ کی صفت نہیں کیونکہ اس میں چھوٹے بڑے،ادنیٰ اور اعلیٰ سب شریک ہیں قابل تعریف جرأت وہ ہے جو ایسے اوقات میں ظاہر ہو کہ اسباب کا انقطاع نہ ہو ا ہو۔بہت کچھ امیدیں ہوں۔بھاگنے اور بچنے کے راستے کھلے ہوںیعنی انسان اپنی مرضی سے جان بوجھ کر کسی خطرہ کی جگہ میں چلا جا ئے نہ یہ کہ اتفاقاً کو ئی مصیبت سر پر آپڑی تو اس پر صبر کرکے بیٹھ رہے۔
اب دیکھنا چاہیے کہ رسول کریمﷺسےجو اس وقت جرأت کا اظہار ہو اہے تو یہ جرأت دوسری قسم کی ہے اگر آپ اتفاقاً کہیں جنگل میں دشمن کے نرغہ میں آجا تے اور اس وقت جرأت سے اس کا مقابلہ کر تے تو وہ اور بات ہو تی اور یہ اور بات تھی کہ آپؐ رات کے وقت تن تنہا بغیر کسی محافظ دستہ کے دشمن کی خبر لینے کو نکل کھڑے ہو ئے۔اگر آپؐ نہ جا تے تو آپؐ مجبورنہ تھے۔ایسے وقت میں باہر نکلنا افسروں کا کام نہیں ہوتا۔صحابہ ؓ آپ خبر لا تے اور اگر جا نا ہی تھاتو آپؐ دوسروں کا انتظار کر سکتے تھے مگر وہ قوی دل جس کے مقابلہ میں شیر کا دل بھی کو ئی حقیقت نہیں رکھتا اس بات کی کیا پرواہ کرتا تھا۔شور کے سنتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر خبر لا نے کو چل دیئے اور ذرا بھی کسی قسم کا تردّدیا فکر نہیں کیا۔
دوسرا امر جو اس واقعہ کو ممتاز کر دیتا ہے یہ ہے کہ آپؐ نے ایسے وقت میں ایسا گھوڑا لیا جس پر سواری کے آپؐ عادی نہ تھے حالانکہ ہر ایک گھوڑے پر سوار ہو نا ہر ایک آدمی کا کام نہیں ہوتا۔ایسے خطرہ کے وقت ایک ایسے تیز گھوڑے کو لے کر چلے جا نا جو اپنی سختی میں مشہور تھا یہ بھی آپؐ کی خاص دلیری پر دلالت کر تا ہے۔
تیسرا امر جو اس واقعہ کو عام جرأت کے کار ناموں سے ممتاز کر تا ہے وہ آپؐ کی حیثیت ہے۔اگر کو ئی معمولی سپا ہی کا م کرے تو وہ بھی تعریف کے قابل تو ہوگا مگر ایسا نہیں ہو سکتا جیسا کہ افسر و بادشاہ کا فعل۔کیونکہ اس سپا ہی کو وہ خطرات نہیں جو بادشاہ کو ہیں۔اول تو سپا ہی کو مارنے یا گرفتار کر نے کی ایسی کو شش نہیں کی جا تی جتنی بادشاہ یاامیرکے گرفتار کر نے یا مارنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس کے مارنے یا قید کر لینے سے فیصلہ ہی ہو جا تا ہے۔دوسرے سپا ہی اگر مارا جا ئے تو چنداں نقصان نہیں بادشاہ کی موت ملک کی تبا ہی کا باعث ہو تی ہے۔پس باوجود ایک بادشاہ کی حیثیت رکھنے کے آپؐ کا اس وقت دشمن کی تلاش میں جانا ایک ایسا ممتاز فعل ہے جس کی نظیر نہیںمل سکتی۔
(جاری ہے )
٭…٭…٭