بے اطمینانی اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج ہم طاقتور اور کمزور اقوام کے مابین فرق اور تقسیم دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ میں ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض ممالک کے مابین ایک امتیاز رَوَا رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ سیکیورٹی کونسل میں بعض مستقل ممبر ہیں اور بعض غیر مستقل ممبر ہیں۔ یہ تقسیم ایک اندرونی بے چینی اور بے اطمینانی پید اکرنے کا ذریعہ ہے۔ ایسی رپورٹس مسلسل ملتی رہتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممالک اس عدم مساوات پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ اسلام ہر معاملہ میں کامل عدل اور مساوات کا درس دیتا ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدہ آیت نمبر 3 میں ہمیں ایک اور بہت ہی اہم راہنما اصول ملتا ہے۔ اس میں یہ بیان ہے کہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بھی عدل و انصاف کا سلوک کیا جائے جو اپنی دشمنی اور نفرت میں تمام حدود پار کر گئے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں نیکی اور بھلائی کی نصیحت کرے اسے قبول کرنا چاہیے اور جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں گناہ اور ناانصافی کی طرف بلائے تمہیں چاہیے کہ تم اس کو رَدّ کر دو۔
ایک سوال طبعًا پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جس عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کا معیار کیا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 136 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ تمہیں اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے والدین یا اپنے عزیز ترین رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تب بھی تمہیں انصاف اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔ طاقتور ممالک کو غریب اور کمزور ملکوں کے حقوق اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے غصب نہیں کرنے چاہئیں۔ نہ ہی غریب ممالک کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف غریب اور کمزور ممالک کو نہیں چاہیے کہ وہ طاقتور اور امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہیں بلکہ دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انصاف کے اصولوں کی پوری پوری پابندی کریں۔ در حقیقت مختلف ممالک کے مابین پر امن تعلقات قائم رکھنے کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے۔
انصاف پر مبنی بین الاقوامی امن کے ایک اور تقاضا کا ذکر سورۃ الحجر آیت نمبر 89 میں کیا گیا ہے جہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی فریق کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کی دولت اور ان کے وسائل کو کبھی بھی حاسدانہ رنگ میں دیکھے۔ اسی طرح کسی ملک کو نہیں چاہیے کہ وہ ناانصافی کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے وسائل پر ان کی مدد کرنے کے جھوٹے عذر کا سہارا لے کر غاصبانہ قبضہ کر لے۔ اسی طرح تکنیکی مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ غیر منصفانہ تجارتی معاملہ یا معاہدات کر کے ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ اِس طرح مدد یا مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو ترقی پذیر اَقوام کے اثاثوں یا قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ جہاں کم تعلیم یافتہ افراد یا حکومتوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہو کہ وہ اپنے قدرتی وسائل کو کس طرح صحیح رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں تو یہ کرنا چاہیے۔
پھر قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ ان کی خدمت اور مدد کی کوشش بھی کرنی چاہیے جن کے پاس وسائل کم ہیں لیکن یہ مدد اپنے قومی یا سیاسی مفاد کی خاطر یا کسی قسم کا کوئی اور فائدہ اٹھانے کی نیت سے نہیں ہونی چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ چھ سات عشروں میں اقوام متحدہ نے کئی ایسے پروگرام شروع کیے ہیں اور کئی ایسی فاؤنڈیشنز بنائی ہیں جن کا مقصد غریب ممالک کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔ اس کوشش میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو چھان مارا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک نہیں پہنچا ہے۔ اس کی ایک وجہ یقیناً ان غریب ممالک کی حکومتوں کی وسیع کرپشن ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس کے باوجود اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس قسم کی حکومتوں کے ساتھ چلتے جا رہے ہیں۔ تجارتی وکاروباری معاہدے بھی ہو رہے ہیں اور امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں معاشرے کے غریب اور محروم طبقات کی بے اطمینانی اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ صورت حال ان ممالک میں اندرونی فساد اور بغاوت پر منتج ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے راہنماؤں کے بلکہ بڑی طاقتوں کے بھی خلاف ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جنہوں نے ان کی مایوسیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی اس امر میں حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے نفرت انگیز نظریات کو آگے بڑھائیں۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا امن تباہ ہو چکا ہے۔
(خطاب فرمودہ 27؍جون2012ء بمقام کیپٹل ہل، واشنگٹن ڈی سی۔ امریکہ)
٭…٭…٭