خطبہ عید الفطر فرمودہ مورخہ 05؍جون 2019ء
خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ05؍ جون 2019ء بمطابق 05؍ احسان 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن، یوکے
(خطبہ عید کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے قریباً سو سال سے زائد عرصہ پہلےعید پے، ایک خطبہ دیا تھا وہ مضمون آج بھی بہت اہم ہے۔ اس لیے اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں آج عید کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا۔
انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے خوشیاں ملیں اور بار بار ملیں اور عید کا مطلب ہی یہ ہے کہ بار بار آنے والی۔ امام راغب نے لکھا ہے کہ العید وہ ہے جو بار بار لَوٹ کر آئے۔ پھر لکھتے ہیں کہ اصطلاح شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم الاضحی پر بولا جاتا ہے کیونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لیے مقرر کئے گئے ہیں اور خوشی کے لیے یہی ہوتا ہے کہ وہ بار بار آئے۔
(مفردات امام راغب زیر لفظ عود)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ عید کیا ہے اور خوشی کیا ہے؟ یہ بیان فرماتے ہیں ۔اس پر اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خوشی اصل میں اجتماع کا نام ہے، جمع ہونے کا نام ہے، اکٹھے ہونے کا نام ہے اور دنیا کی جس قدر خوشیاں ہیں وہ اجتماع سے پیدا ہوتی ہیں۔ عام معاشرتی زندگی میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان کو خوشی اس وقت مل رہی ہوتی ہے جب لوگ جمع ہوں اور اس کے لیے وہ بڑی تیاری کرتا ہے، لوگوں کو جمع کرتا ہے۔ جب اس کی شادی ہوتی ہے پھر اس وقت خوشی کرتا ہے۔ پھر بچوں کے پیدا ہونے پر خوشی کرتا ہے کیونکہ شادی کے بعد ایک نئی روح آ کر ان کے ساتھ مل جاتی ہے، ایک جماعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیامیں جس قدر اجتماع ہوتے ہیں وہ خوشیوں ہی کا موجب ہوتے ہیں اور دنیا میں عموماً خوشی کے اظہار کا یہی طریق ہے کہ بہت سے لوگ ایک خاص تقریب کے لیے خوشی کے اظہار کے لیے جمع ہوں۔ میلوں وغیرہ پر جو لوگ جمع ہوتے ہیں وہ بھی اس لیے ہوتے ہیں کہ میلے پر جا کر خوشی کریں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی انسان چھپتا پھرے، کسی کے پاس نہ بیٹھے، جنگلوں میں چلا جائے اور جب اس سے پوچھا جائے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ کہے کہ میں خوشی منا رہا ہوں۔ آج میرے لیے عید کا دن ہے۔ کسی ملک، کسی علاقے ،کسی قوم میں ایسی خوشی اور عید نہیں ہوتی جہاں لوگ عید اور خوشی منانے کے لیے ایک دوسرے سے چھپ رہے ہوں اور بھاگتے ہوں بلکہ ہر ایک قوم کی عید یہی ہے کہ لوگ جمع ہوں اور خوشیاں منائیں۔ ہاں جو لوگ اپنے غم اور افسردگی کو بڑھانا چاہتے ہیں ان کا یہ طریق ہوتا ہے کہ دوسروں سے علیحدہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈپریشن کے مریضوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً یہ حالت ہوتی ہے۔ ہاں جو اپنے غم غلط کرنا چاہتے ہیں، اپنے غموں کو مٹانا چاہتے ہیں وہ مجلسوں میں بھی بیٹھتے ہیں ا ور لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ عام طور پر ایسے مریض جو علیحدہ رہنے والے ہوں ان کو ڈاکٹر بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ لوگوں میں بیٹھیں، باہر نکلیں سوشلائز (socialise)ہوں۔ پس غم کو پسند کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ علیحدگی اختیار کریں، گھروں میں بیٹھیں تب بھی علیحدہ، باہر جائیں تب بھی علیحدہ ایک کونے میں جا کر بیٹھ جائیں گے۔ غرض ایسے لوگ علیحدگی کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اگر ان کے گھر میں کوئی مرگ ہو جائے، کوئی فوت ہو جائے، لوگ ہمدردی کے لیے جائیں تو تب بھی جس کو بہت صدمہ ہوتا ہے اور غم ہوتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ مجھے علیحدہ چھوڑ دو۔ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ علیحدگی میں اسے اظہار غم کا بہتر موقع ملتا ہے وہ اپنے دل کی بھڑاس آسانی سے نکال سکتا ہے۔ نارمل انسانوں میں بھی بہت سی طبائع ہیں جو لوگوں کے سامنے اپنے اظہار غم نہیں کر سکتیں اور چاہتی ہیں کہ علیحدہ ہو کر اپنا غم غلط کریں یا کسی بہت قریبی کے ساتھ ہوں، زیادہ مجمع نہ اکٹھا ہو لیکن یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہو اور لوگ اس کے گھر جمع ہوں اور وہ کہے کہ ہٹ جاؤ مجھے اکیلا رہنے دو۔ تم لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے میرا دل گھبراتا ہے بلکہ وہ تو لوگوں کو بلا بلا کر جمع کرے گا اور جتنے لوگ آئیں گے اتنا زیادہ وہ خوش ہو گا وہ سب سے خوشی سے ملے گا۔
اسی طرح شادی پر جتنے زیادہ لوگ اس کے بلانے پر آئیں اسے خوشی ہوتی ہے۔ پس اظہار غم کے لیے علیحدگی پسند کی جاتی ہے اور اظہار خوشی کے لیے اجتماع۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھا ہے کہ جب اسے خوشی ہو تو دوسروں سے ملے اور مل کر خوشی حاصل کرے۔ ہاں دنیا میں بعض مطالبات کے لیے آج کل جلسے جلوس وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے ہوتے ہیں کہ ہمیں غموں سے آزادی ملے اور احتجاج اس لیے ہوتے ہیں کہ ہمیں خوشیاں نصیب ہوں۔ تو مقصد ان کا بھی اکثر یہی ہوتا ہے۔ پس خوشی اور اجتماع دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اس لیے اس نے عید کے موقع پر خوشی کا موقع پیدا کیا ہے ،مسلمانوں کو جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔ صرف ایک جگہ کے قریبی لوگ نہیں بلکہ تمام علاقے کے لوگ عید کے موقعے پر عید گاہ میں جمع ہوں اور عید کی خوشی منائیں۔ پس اس نظر سے ہم دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ خوشی درحقیقت اجتماع کا نام ہے اور اس لحاظ سے عید اجتماع کا نام ہے اور سب سے بڑی عید وہی ہو سکتی ہے جس میں سب سے بڑا اجتماع ہو اور اس سب سے بڑے اجتماع کی بنیاد کب پڑی جس کی وجہ سے سب سے بڑی عید کا موقع پیدا ہوا ؟ وہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے انسان نے تمام دنیا کو پکار کر کہا کہ
قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا۔ (الاعراف:159)
کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
دنیا نے چھوٹی چھوٹی بہت سی عیدیں دیکھی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت بھی عید ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے وقت بھی عید ہو ئی۔ حضرت مسیح اور تمام انبیاء کے وقت میں عیدیں ہوئیں لیکن یہ تمام عیدیں ان علاقوں میں ہوئیں جہاں یہ نبی پیدا ہوئے یا جس قوم میں مبعوث ہوئے۔ اس لیے یہ سب چھوٹی چھوٹی عیدیں ہیں مگر حضرت آدمؑ سے لے کر اگر دنیا میں کوئی بڑی عید ہوئی تو وہ وہی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک انتہائی پیارے کو کہا کہ تم اپنے ذریعہ سے تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرو۔ پس یہی بڑی عید تھی جس میں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص کلام کے ذریعہ تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، اپنے محبوب کی معرفت یہ حکم دیا، تمام دنیا کو کہہ دیا کہ اس کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ۔ اس میں کسی قوم، کسی ملک، کسی علاقے کی شرط رکھی نہیں گئی۔ خواہ کوئی مصری ہو، چینی ہو، ایرانی ہو، عرب ہو، یورپین ہو، امریکن ہو، جزائر کا رہنے والا ہو، کوئی ہو سب جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ اب یہ نہیں کہا جائے گا کہ میں اپنے موتی سؤروں کے آگے نہیں ڈالتا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ میں اپنی روٹی کتوں کے آگے نہیں پھینکتا۔ حضرت مسیحؑ کے آنے کے وقت بھی عید ہوئی تھی مگر وہ عید صرف ان کی اپنی قوم کے لیے ہی تھی۔ اگر وہ غیروں کو کھانا کھلاتے تو پھر ان کی قوم کیا کھاتی، ان کی عید کس طرح ہوتی۔ اس لیے حضرت مسیحؑ نے کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پس ان کا آنا صرف بنی اسرائیل کے لیے ہی عید تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خدا تعالیٰ نے بھیجا تو ایسے خزانوں کے ساتھ بھیجا کہ جن میں چاہے جتنا بھی خرچ کیا جائے کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کو کہا کہ تم سے جو مانگے اسے دو بلکہ دنیا کو بلا بلا کر کہو کہ آؤ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہے میں تمہیں دیتا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا کہ
وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی:12)
اور تو لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کر، تا کہ وہ بھی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ حضرت مسیحؑ نے تو ایک عورت کے سوال کرنے پر یہ کہا تھا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرا کام ہے کہ جو سوال کرے اسے ضرور دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ (الضحٰی:11)
اور سوالی کو تُو مت جھڑک۔ اور اسے ضرور دے بلکہ جیسا کہ پہلے بتایا ہے یہ فرمایا وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ اور لوگوں کو بلا بلا کر یہ نعمتیں دو۔ اعلان کرو کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ نعمتیں دی ہیں آؤ تم بھی ان میں سے حصہ لو۔
پس آپؐ کو دوسرے انبیاء پر یہ فضیلتیں ہیں۔ پہلے انبیاء کے پاس اگر کوئی غیر قوم کا سوالی آتا تو کہتے تھے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے صرف اپنی قوم کے لیے ہے ،تمہیں کچھ نہیں دے سکتے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خزانہ دیا گیا ہے اس کے بارے میں نہ صرف یہ کہا کہ دھتکارو نہیں بلکہ محتاجوں کو گھر گھر جا کر دینے کا حکم ہے۔ پس آپؐ نے روحانی خزانے بھی گھر گھر بانٹے اور دنیاوی خزانے بھی گھر گھر بانٹے بلکہ تاقیامت اس تقسیم کے لیے روحانی خزانے چھوڑ دیے۔ پس یقینا ًآپؐ کا آنا سب سے بڑی عید کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تکمیل ہدایت ہوئی، شریعت کامل ہوئی اور آپؐ خاتم النبیین کے بلند مقام کے ساتھ دنیا میں بھیجے گئے۔
پھر ایک عید کا دن وہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث کر کے تکمیل تبلیغ اور اشاعت دین کا ذمہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر خود ذمہ لیا اور وہ دن آیا جب
لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۔ (التوبۃ:33)
کا ہونا مقدر تھا۔ یقینا ًشریعت اسلام کی تکمیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی۔ آپ کے آنے پر سب دنیا کو کہا گیا کہ اب ایسا نبی مبعوث ہوا ہے جس کے ساتھ بہت ہی وسیع خزانے ہیں۔ تم اس کے ساتھ آؤ اور جو کچھ چاہتے ہو لو۔
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 1 صفحہ 27 تا 30 خطبہ عید بیان فرمودہ 2 اگست 1916ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
‘‘خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تا بذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالَم کی طبائع کے لیے مشترک ہے دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بناوے اور جیسا کہ وہ واحد لاشریک ہے ان میں بھی ایک وحدت پیدا کرے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تا پہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی جس کی بنیاد آخری زمانہ میں ڈالی گئی یعنی جس کا خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے وقت میں ارادہ فرمایا۔ یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے واحد لا شریک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دوہری شہادت ہو کیونکہ وہ واحد ہے اس لیے اپنے تمام نظام جسمانی اور روحانی میں وحدت کو دوست رکھتا ہے۔’’ وہ واحد ہے اس لیے اپنے تمام نظام جسمانی اور روحانی میں وحدت کو دوست رکھتا ہے ‘‘اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے۔’’ اُس وقت تک جاری ہے ‘‘اورآپؐ خاتم الانبیا ہیں اِس لیے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپؐ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپؐ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا کیونکہ جو آخری کام آپؐ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لیے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لیے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتَم الخلفا ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے۔’’ یعنی مسیح موعود ‘‘کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اوروہ یہ ہے۔
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ۔(الصف:10)
یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کردے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تخلف ہو۔’’ کسی قسم کا اختلاف ہو یا کمزوری ہو ‘‘اس لیے اِس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔’’
(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ90-91)
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی یہ پیغام اور کام ہے جس کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے ہی طفیل جو یقیناً عرش سے ٹکرائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں آپؐ کو ایک غلام صادق عطا فرمایا۔ چنانچہ اس غلام صادق کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا و مطاعؐ کی اتباع میں یہ اعلان کرنے کا فرمایا کہ
قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)
کہ مسیح موسویؑ نے تو مانگنے والوں کودھتکار دیا تھا لیکن مسیح محمدؐی کو اس غلامی کی وجہ سے وسیع دستر خوان عطا فرمایاجہاں کسی کو بیٹھنے سے دھتکارا نہیں گیا بلکہ بلا بلا کر کہا جا رہا ہے کہ اس دستر خوان سے کھاؤ۔ اس لیے ہر نئی روح جو اس دستر خوان پر بیٹھ کر ہم میں شامل ہوتی ہے ہمارے لیے خوشی اور عید کا باعث ہوتی ہے۔ یہ شریعت کے احکام پر جمع ہونے کی عید ہے اور جب سب لوگ عملی زندگی میں ایک دین پر جمع ہو جائیں گے تو اس کے نتیجہ میں جو عید ہو گی وہ اصل عید اور بڑی عید ہو گی اور اس عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ پس اگر حقیقی عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے تو پھر ہمیں اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ کس طرح ہم اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا ہے اس پر عمل کر کے ہم جلد سے جلد اس حقیقی عید کو لانے کے سامان کر سکتے ہیں، اس کام کو صحیح رنگ میں سرانجام دے سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہمارے سپرد کیا ہے۔ آپؑ نے جو نصائح فرمائیں ان میں سے مختصراً بعض باتیں بیان کرتا ہوں ۔ فرمایا کہ ایسی فطرت حاصل کرو کہ خدا تعالیٰ کی محبت کسی غرض کے لیے نہ ہو۔ یہ ہماری فطرت میں ہو جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی ہے اور بغیر کسی غرض کے کرنی ہے۔ ایک دلی جذبے سے محبت کرنی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 96)
پھر فرمایا کہ قرآن کو بکثرت پڑھو اور اپنے عملوں کو اس کے مطابق ڈھال کر عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبیاں دنیا پر ظاہر کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 155)
فرمایا کہ تبلیغ کے لیے تقویٰ بھی ضروری ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 413)
اس لیے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے ہی تقویٰ پیدا ہو سکتا ہے اور عملی خوبیاں پیداہو سکتی ہیں۔ پھر فرمایا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بھرپور کوشش کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 265)
یہ دونوں تمہارے فرائض میں داخل ہیں۔ پھر آپؑ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو اقرار توحید اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ذکر الٰہی اور اپنے بھائیوں کے حق ادا کرنے میں خاص رنگ پیدا کرنا چاہیے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 95)
پھر آپؑ فرماتے ہیں سچی توبہ کرو اور خدا تعالیٰ کو سچائی اور وفاداری سے راضی کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 191)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 263)
تہجد میں باقاعدگی اختیار کرو ۔نوافل کی طرف توجہ دو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 245)
پھر آپؑ فرماتے ہیں اپنے دینی علم کو بڑھاؤ۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 275)
پھر فرمایا تقویٰ میں ترقی کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ 435)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ حق کا ہمیشہ ساتھ دو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 115)
سچائی پر قائم رہو،کبھی جھوٹ تمہارے سے نہ نکلے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں منکرین کے لیے بھی دعا کرو،جو نہیں ماننے والے، مسیح موعودؑ کے منکر ہیں ان کے لیے بھی دعا کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 74)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ نئے شامل ہونے والوں سے حسن سلوک کرو جو نئے تمہارے اندر شامل ہوتے ہیں، نئی روحیں آتی ہیں، اس اجتماع میں اضافہ کر رہی ہیں ان سے حسن سلوک کرو اور اپنے عمل سے ان کی تربیت کی کوشش کرو۔ حسن سلوک بھی کرو اور اپنے عملی نمونے ایسے دکھاؤ کہ تمہیں دیکھ کے ان کی تربیت ہوتی جائے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 349)
یہ چند باتیں میں نے بیان کی ہیں جو خلاصہ ہیں ان نصائح کا جو آپؑ نے ہمیں مختلف وقتوں میں فرمائیں۔ پس بہت توجہ اور محنت سے ہمیں آپ علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے اور اپنے سپرد کام کے سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔ تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیجنا خدا کا کام تھا۔ دنیا کے لیے کامل اور مکمل شریعت بھیجنا خدا کا کام تھا۔ پھر تکمیل تبلیغ کے لیے تکمیل اشاعت کے لیے حضرت مسیح موعود کو بھیجنا خدا کا کام ہے۔ مگر عید منانا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لیے جماعت کے لوگوں کو توجہ اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم ایسا اجتماع کریں جو حقیقی عید دکھانے والا ہو کیونکہ حقیقی عید اور سچی عید وہی ہو گی جب خدا تعالیٰ کے کلام پر سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک پیشگوئی کی تھی کہ اے ہمارے باپ! جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو، تیری بادشاہت آوے، تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی بر آوے، قائم ہو جائے۔ اس سے یہ سمجھا گیا کہ گویا خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں ہے حالانکہ یہ بھی بائبل میں لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی ہے۔ دونوں حوالے ہی متی کے ہیں۔ پس یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیحؑ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی اس لیے آپؑ نے یہ کہا بلکہ یہ ایک دعا تھی جو حضرت مسیحؑ نے مانگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھی کہ جس طرح خدا ایک ہے اسی طرح اس کا نبی بھی ایک آوے جو تمام دنیا کو ایک جگہ اکٹھا کرے۔ اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ جس طرح آسمان پر آسمان کے ہر حصے میں فرشتے تسبیح اور تحمید کر رہے ہیں اسی طرح زمین کے چپے چپے پر بھی ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو خدا تعالیٰ کی تحمید اور تقدیس بیان کریں۔ پس دنیا کے چپے چپے پر ایسے لوگ پیدا کرنا مسیح موعودؑ کی جماعت کا فرض ہے لیکن ہم اپنے آپ کو بھی دیکھیں کہ کیا ہم خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی تقدیس بیان کرنے اور اپنے عملوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے ہیں۔ یہ عیدیں جو ہم منا رہے ہیں اس کے لیے ہم بڑی تیاریاں کرتے ہیں حسب توفیق کپڑوں سے لے کر کھانے پینے کے انتظامات تک سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سب خرچ ہم کوئی فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ ایک اجتماع کی خوشی میں کرتے ہیں۔ یقیناً اس بات پر ہی خوشی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خوشی کرو اور یہ بھی اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے جس کے لیے کرتے ہیں لیکن ویسے کوئی مادی فائدہ تو ہمیں نہیں پہنچ رہا۔ ہاں روحانی فائدہ پہنچ رہا ہے اور یقیناً پہنچتا ہے اگر ہم نیک نیتی سے اس عید کو اس لیے کریں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے بعد عید مناؤ اور آج کے دن خوشی کرو اور کھاؤ پیو۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر سرور اور خوشی حاصل کرنے کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لیے رسول بھیجا ہے اس طرف ہم میں سے ہر ایک کی توجہ اس طرح نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ اس رسول کے پیغام کو پھیلانے کے لیے ہماری کوشش وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے اس اجتماع کے بڑھانے میں ہم جتنا حصہ لے رہے ہوں گے، جتنی ہم تیاری کر رہے ہوں اور پھر اس لیے کوشش کریں کہ اس اجتماع کو ہم نے بڑھانا ہے جس کے لیے رسول بھیجا گیا تھا تو اس کا ثواب بھی خدا تعالیٰ ہمیں دے گا اور اس حقیقی عید پہ اس سے بہت زیادہ دے گا جو عید کی خوشیاں منانے سے دیتا ہے۔ گویا یہاں صرف خرچ نہیں کیا جا رہا بلکہ ہر قسم کا فائدہ بھی مل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے بڑھ کر مل رہی ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ جڑ کر اس بڑی عید کے زمانے کا حصہ بننے والوں میں ہم شامل ہیں۔ مسیح موعود کا زمانہ وہ ہے جب اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کے ذریعہ پھیلا کر سب دنیا کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے گا۔ اس وقت ان شاء اللہ ہماری اصل عید ہو گی۔ جب تک وہ عید نہیں ہے صرف ان عیدوں پر خوش نہیں ہو جانا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا آپؑ نے ہم سے وعدہ بھی لیا ہوا ہے پس اس کے لیے ہمیں کوشش کی ضرورت ہے۔
آج دنیا اللّٰہ اکبر کے نعرے سے خوف زدہ ہو جاتی ہے کیونکہ بعض مسلمانوں کے عمل ایسے ہیں کہ اللّٰہ اکبر اور اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ کی آواز سے دنیا گھبراتی ہے لیکن ہمارا کام ہے کہ ان پیارے الفاظ کی حقیقت کو دنیا پر اس طرح کھولیں کہ ہر قوم کے لوگ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ پڑھنے اور اس کا ورد کرنے میں راحت محسوس کریں، خوشی محسوس کریں۔ تمام دنیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کی بجائے آپؐ پر درود بھیجنے میں خوشی محسوس کرے۔ خدا تعالیٰ کو برا بھلا کہنے کی بجائے ‘اللہ اکبر’کا نعرہ لگانے والے ہوں۔
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 1 صفحہ 31 تا 33 خطبہ عید بیان فرمودہ 2 اگست 1916ء)
گذشتہ دنوں جس طرح جرمنی میں ایک مسلمان کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے اپنے ایک دوست کو بڑے عرصے بعد دیکھا اور اس کو دیکھ کر خوشی سے اونچی آواز میں بازار میں ‘اللہ اکبر’ کہہ دیا اور پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا کہ شاید یہ دہشت گرد ہے۔ تو یہ خوف نہ صرف دور کرنا ہمارا کام ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ جرمن بھی، انگریز بھی اور یورپ کے دوسرے ممالک کے لوگ بھی اور امریکہ کے رہنے والے بھی اور دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے ‘اللہ اکبر’ کہنے میں خوشی محسوس کریں، تب ہی ہماری حقیقی عید ہو گی اور ان شاء اللہ یہ ایک دن ہو گا اور ضرور ہو گا کہ تمام دنیا کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں گے۔ یہ باتیں کسی دیوانے کا خواب نہیں ہے، یہ کسی بچے کی سوچیں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کی تعبیر ہیں جو ایک دن پوری ہوں گی ان شاء اللہ۔ یہ اس کا وعدہ ہے کہ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ (المجادلۃ:22)کہ خدا نے ازل سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کا رسول غالب رہیں گے۔ پس یہ تو تقدیر الٰہی ہے جو پوری ہونی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ دنیا میں پھیلنا ہے ۔مسیح موعودؑ کے ذریعہ حقیقی عید کی خوشیاں امت کو ملنی ہیں پس اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اس کی جتنی بھی صلاحیت ہے تبلیغ کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ اجتماع ہم دیکھ لیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس وعدے کے مطابق ہماری کوششوں سے بڑھ کر اس وقت ہمیں پھل لگا رہا ہے اور مشرکین بھی توحید کی آغوش میں آ رہے ہیں لیکن اس میں ہمیں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ افریقہ میں بے شمار لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ مشرک تھے اب بیعت کر کے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنے لگ گئے ہیں یا بعض بوڑھے تھے جنہیں عیسائیت پہ تسلی نہیں ہوئی تو مشرک بن گئے، بتوں کی پوجا کرنے لگ گئے۔ احمدیت کا پیغام پہنچا تو انہوں نے سن کے کہا کہ مَیں تو مرنے کے قریب ہوں، میرے لیے دین بدلنا مشکل ہے لیکن یہ پیغام حقیقی ہے اور یہی توحید ہے اور تمہارے پیغام میں مجھے یقیناً سچائی نظر آ رہی ہے اور میرے بچوں نے یہ پیغام قبول کیا ہے اور میری دعا یہ ہے کہ آئندہ نسلیں میری اسی توحید پر قائم ہو جائیں۔
تو یہ انقلابات بھی اللہ تعالیٰ پیدا کررہا ہے لیکن اس کے لیے ہماری طرف سے جس کوشش کی ضرورت ہے وہ پہلے سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں سے دنیا کی ملونی دور کر دے اور اپنی محبت کو ہمارے دلوں میں جگہ دے۔ اپنے دین اپنے جلال اور اپنی شان کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور مقام ہم دنیا کو بتانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق دے۔ ہمارے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی محبت سے بھر دے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ الوصیت میں بیان کردہ اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا’’ فرماتے ہیں ‘‘سو تم اس مقصد کی پیروی کرو’’ یعنی اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرو ‘‘مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔’’
(ماخوذ از رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306-307)
اپنے عملی نمونوں سے بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے آپؑ کا مددگار بنائے تا کہ اسلام کے غلبہ اور توحید پر دنیا کے اجتماع سے ہم حقیقی عید کی خوشیاں منانے والے ہوں اور اس عید کو دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کے لیے مقدر ہیں۔
اب اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ دعا سے پہلے میں آپ کو بھی اور تمام دنیا کے احمدیوں کو عید کی مبارکباد بھی دیتا ہوں۔ دعا میں اسیران راہ مولیٰ کو یاد رکھیں جو بعض جگہوں پر بڑی سخت مشکلات میں جیلوں میں بند ہیں اور موسم کی شدت بھی بڑی ہے۔ شہداء کے بیوی بچوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ سلسلہ کے خادموں کو، واقفین زندگی کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ مبلغین کو دعاؤں میں یاد رکھیں جو مختلف دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں ہمت بھی پیدا کرے اور ان میں وفا بھی پیدا کرے اور ان میں پہلے سے بڑھ کر جوش بھی پیدا کرے کہ وہ توحید کا پیغام اپنے اپنے جہاں جہاں وہ متعین ہیں وہاں کے ہر شخص کو پہنچانے والے ہوں، یہ مائدہ بانٹنے والے ہوں۔ تمام احمدیوں کے لیے عمومی طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی حفاظت میں رکھے، حاسدوں کے حسد اور شر سے محفوظ رکھے۔ مسلم اُمہ کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ مسیح موعود کو ماننے والے ہوں اور دجالی چنگل میں جو پھنسے ہوئے ہیں اس سے نکلنے والے ہوں، اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو یہ دوبارہ قائم کرنے والے ہوں۔
٭٭٭خطبہ ثانیہ، دعا٭٭٭
دعا کر لیں۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مبارک ہو دوبارہ۔ السلام علیکم