تلاشِ گہر درّثمین اردوکی ساتویں نظم: سرائے خام
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین میں شامل ساتویں نظم ’’سرائے خام‘‘ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘سُرمہ چشم آریہ’ مطبوعہ 1886ءسے ماخوذ ہے۔آٹھ اشعار کی اس مختصر نظم کی بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ہے۔
حضورؑ نے ڈرائنگ ماسٹر لالہ مُرلی دھر سے ہونے والے مباحثہ اولیٰ کی روئیداد درج فرمانے کےبعد ،تتمّہ بعنوان ’’آریوں کا اُصولِ تناسخ قانونِ قدرت کے اُصول سے منافی ہے‘‘ تحریر فرمایا۔ جیسا کہ سُرخی سے ہی ظاہر ہے، آپؑ نےٹھوس دلائل کے ذریعے ہندوؤں کے اس غیر منطقی عقیدے کی خوب قلعی کھولی۔ یہ عقیدہ خداتعالیٰ کے مختارانہ کاموں اور تصرفات کا انکار کرتا ہے۔عقیدۂ تناسخ یعنی رُوح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا اس بنیاد پر قائم ہے کہ کائناتِ عالم میں ترتیب و انتظام بالفعل موجود ہے۔ پرمیشر کے ارادے کا اس میں دخل نہیں بلکہ ان مختلف صورتوں اور اشیاء کی دست یابی گناہ گاروں کے گناہ کرنے پر موقوف ہے۔ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’مثلاً گائے جو دودھ دیتی ہے۔ یا گھوڑاجو سواری کےکام آتا ہےیاگدھاجوبوجھ اٹھاتا ہے۔یازمین جس پر ہم آباد ہیں۔ یاچانداورسورج جو دوچمکتے ہوئے چراغ اپنی مختلف قوتوں اور خاصیتوں سے انواع اقسام کے فوائد دنیا کو پہنچاتے ہیں یا گیہوں اور چنے اور چانول وغیرہ ماکولات جنکو ہم کھاتے ہیں یہ سب بقول آپ کے حقیقت میں انسانی رُوحیں ہیں جوکسی جنم گذشتہ کی شامت سے بطور تناسخ یہ صورتیں اختیار کرلی ہیں اور یہ سارا مجمع مختلف چیزوں کا جو زمین وآسمان میں نظر آتا ہے یہ سب حسبِ اصول آپ لوگوں کے اتفاقی ہے جس میں پرمیشر کےارادہ اور قدرت کا سرِمُو دخل نہیں‘‘
(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد2،صفحہ 134،133)
تناسخ کے اس باطل عقیدے کے باعث نہ صرف خداتعالیٰ کی قدرتوں کا انکار کرنا پڑتا ہے بلکہ حلال وحرام کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی خرابی ہے کہ کوئی بھی غیرت مند شخص اِس کی تاب نہیں لا سکتا۔ حضورؑ نےعقیدۂ تناسخ سے پیدا ہونے والی خرابی کی مثال بیان فرمائی؛ اِس مسئلے کی رُو سے عین ممکن ہے کہ کسی شخص کی والدہ، بہن یا بیٹی مرنے کے بعد کسی دوسری عورت کی جُون یا بھیس میں جنم لےاور پھر اُسی شخص کے نکاح میں آجائے،جس کی ماں یا بیٹی ہے۔ پس، ایسے باطل عقیدے پر ایمان رکھنے والے کو اِس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو بھی جائز سمجھنا ہوگا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر بے حیائی پر مبنی عقیدے کی آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ حضورؑ اس کی وجہ دنیا پرستی اور قومی عصبیت کو قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’قوم کا رعب اُن کے دلوں پر ایسا غالب ہے کہ جو مخلوق پرستی کی حد تک پہنچ گیا ہے خدائے تعالیٰ کا اُن کے دلوں میں اتنا بھی قدر نہیں جو ایک بوڑھی عورت کو اپنے گھر کی سُوئی کا ہوتا ہے‘‘ اس جگہ پہنچ کر یہ نظم آتی ہےاور مباحثہ اولیٰ اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس پس منظرکو مدِّنظر رکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آپؑ نے گذشتہ صفحات میں جاری منطقی بحث کو اِن چند اشعار میں حُسن و خوبی کے ساتھ سُمو دیا ہے۔ انسان دنیا کی لالچ اور طمع میں ہرحد سے گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔اپنا چھوٹا سا نقصان بھی برداشت نہیں کرتا۔ دنیاوی رشتوں اور عزیزوں کی خاطر خود کوہلکان کر لیتا ہے۔ لیکن دین کی رتّی برابر پرواہ نہیں کرتا۔ خدا کی رضا کبھی اُس کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ اپنا عقیدہ اور مسلک جس قدر بھی بگاڑ کا باعث ہو اُس سے چپکا رہتا ہے۔ اس قدر خرابی کے باوجود ایسے جاہلانہ عقیدے پر قائم رہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پر تب بھی مانتے ہیں اُسی کو بہر سبب
کیا حال کردیا ہے تعصّب نے ہے غضب
دل میں مگر یہی ہے کہ مرنا نہیں کبھی
ترک اس عیال و قوم کو کرنا نہیں کبھی
نظم کا آخری شعر فارسی زبان میں ہے جس کا ترجمہ لجنہ اماء اللہ ،کراچی کی شائع کردہ ‘درِّثمین مع فرہنگ’میں کچھ یوں درج ہے کہ ’’اے غافلو!یہ فانی دنیا کسی سے وفا نہیں کرتی یہ حقیر دنیا کسی کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے نہ رہے گی۔‘‘ اس فارسی شعر میں دنیا کو‘سرائے خام’ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ فارسی زبان کے اس لفظ ’سرائے‘ کے معنی مسافر خانےکےہیں۔ دنیا کے لیے ’سرائے‘ کی مثال آپؑ نے ایک سے زائد موقعے پر استعمال فرمائی ہے۔ نظم ’محمود کی آمین‘ کا مشہور شعر ہے:
دنیا بھی اِک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سَو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے
خود ہمارے سیّدو مولیٰ آنحضرتﷺنےدنیا میں اپنی مثال ایک مسافر کی سی ہی بیان فرمائی ہے۔دنیا کی بےثباتی اور سفلی زندگی سے بے رغبتی کا مضمون حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے کلام نظم و نثر میں بھی جابجا ملتا ہے۔ آپؑ نے دنیا کی آلائشوں میں گرفتار ہونے ،اور لذّاتِ دنیا کی نہایت عمدہ مثال بیان فرمائی، فرماتے ہیں:
’’دُنیا کی لذّت خارش کی طرح ہے۔ابتدءً لذّت آتی ہے پھر جب کھجلاتا رہتا ہے تو زخم ہوکر اُس میں سے خُون نکل آتا ہے یہانتک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہےاور وہ ناسُور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد پیداہوجاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیدار اور بے حقیقت ہے۔‘‘
(ملفوظات،جلد 4،صفحہ 17)
پہلے شعر میں ’حرص وآز‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ ’حرص‘ کا لفظ عربی جبکہ ’آز‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ دونوں کے معنی لالچ، طمع، خواہش اور تمنّا و رغبت کے ہیں۔
تیسرے شعر میں ’آنسو‘ کا لفظ ہے۔ روزمرّہ میں مستعمل یہ عام فہم لفظ ہمارے مقامی ذخیرۂ الفاظ کا حصّہ ہے۔ اس میں موجود حرف ‘نون’ مجہول ادا ہوکر غنّہ کی آواز دیتاہے(آں ۔سُو)
چوتھے شعر میں خداتعالیٰ کے لیے بے ساختگی سے ‘سجن’ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اصلاً سنسکرت زبان کا یہ لفظ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اس کے معنی دوست، دل بر، معشوق اور محبوب کے ہیں۔ ’’اردو لغت‘‘ کے مطابق یہ لفظ 1435ء میں اردو ادب کی قدیم ترین مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ میں مستعمل ملتا ہے۔
پہلےشعر کے دوسرے مصرعے ’’نُقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں‘‘ میں ’امالہ‘ ہوگا۔ یعنی لفظ ’پیسہ‘ کے بعد چونکہ ’کا‘ حرفِ اضافت آرہا ہے اس لیے لفظ ’پیسہ‘ کی ’ہ‘ کو یائے مجہول (ے)سے تبدیل کردیاجائے گا۔ درست ادائیگی یوں ہوگی ’’نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں‘‘