حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 18)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

غزوۂ حنین

رسول کریم ﷺ ہی دنیا کےلیے ایک کامل نمونہ ہو سکتے ہیں کیونکہ آپؐ ہر ایک امر میں دوسرے انسانوں سے افضل ہیں اور ہر ایک نیکی میں دوسروں کے لیے رہنما ہیں۔ہر ایک پاک صفت آپؐ میں پا ئی جا تی ہے اور آپؐ کا کمال دیکھ کر آنکھیں چُندھیا جا تی ہیں اور آپؐ کے نور سے دل منور ہو جا تے ہیں۔علماء میں آپؐ سر بر آوردہ ہیں۔متقیوں میں آپؐ افضل ہیں۔انبیاء میں آپؐ سردار ہیں۔ملک داری میں آپؐ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔جرأت میں آپؐ فردوحید ہیں۔غرض کہ ہر ایک امر میں آپؐ خاتم ہیں اور آپؐ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

میںنے پیچھے آپؐ کی جرأت کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح آپؐ سب صحابہ سے پہلے خطرہ کے معلوم کر نے اور دشمن کی خبر لینے کے لیے تن تنہا چلے گئے۔اب میں ایک اَور واقعہ بیان کر تا ہوں جس سے پڑھنے والے کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جا ئے گا کہ جوکرشمے بہادری اور جرأت کے آپؐ نے دکھلا ئے وہ کو ئی اَور انسان نہیں دکھا سکتا۔

جو لوگ جنگ کی تا ریخ سے واقف و آگاہ ہیں وہ جا نتے ہیں کہ دشمن کا سب سے زیا دہ زور افسروں اور جرنیلوں کو نقصان پہنچانے پر خرچ ہو تا ہے اور سب سے زیا دہ اسی بات کی کوشش کی جا تی ہے کہ سردار لشکر اور اس کے سٹاف کو قتل و ہلاک کر دیا جائے اور یہ اصل ایسی ہے کہ پرا نے زمانہ سے اس پر عمل ہو تا چلا آیا ہے بلکہ پرانے زمانہ میں تو جنگ کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ افسر کو قتل یا قید کر لیا جا ئے ۔اور اس کی زیا دہ تر وجہ یہ تھی کہ پچھلے زمانہ میں خود بادشاہ میدان جنگ میں آتے تھے اور آپ ہی فوج کی کمان کر تے تھے اس لیے ان کا قتل یا قید ہو جا نا بالکل شکست کے مترادف ہو تا تھا اور بادشا ہ کے ہا تھ سے جا تے رہنے پر فوج بے دل ہو جا تی تھی اور اس کے قدم اکھڑ جا تے تھے اور اس کی مثال ایسی ہی ہو جا تی تھی جیسے بے سر کا جسم۔کیونکہ جس کی خاطر لڑتے تھے وہی نہ رہا تو لڑا ئی سے کیا فائدہ۔پس بادشاہ یا سردار کا قتل یا قید کر لینا بڑی سے بڑی شکستوں سے زیا دہ مفید اور نتائج قطعیہ پر منتج تھا اس لیے جس قدر خطرہ با دشاہ کو ہو تا تھا اتنا اَور کسی انسان کو نہ ہو تا۔

اس بات کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے اسے ذیل کا واقعہ محو حیرت بنا دینے کے لیے کا فی ہے

عَنِ الْبَرَآءِبْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّہُ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ اَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ لٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفِرَّاِنَّ ھَوَازِنَ کَانُوْقَوْمًارُمَاۃً وَاِنَّا لَمَّا لَقِیْنَا ھُمْ حَمَلْنَاعَلَیْھِمْ فَانْھَزَمُوْافَاَقْبَلَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی الْغَنائِمِ وَاسْتَقْبَلُوْنَا بِالسِّھَامِ فَاَمَّا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفِرَّ فَلَقَدْ رَاَیْتُہُ وَاِنّہٗ لَعَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَآءِ وَاِنَّ اَبَاسُفْیَانَ اٰخِذٌ بِلِجَامِھَا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ -اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(بخاری کتاب الجھاد باب من قاددا بۃ غیرہ فی الحرب)

براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ آپؓ سے کسی نے کہا کہ کیا تم لوگ جنگ حنین کے دن رسول کریمؐ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔آپؓ نے جواب میں کہا کہ رسول کریم ﷺ نہیں بھاگے۔ہوازن ایک تیرا نداز قوم تھی اور تحقیق ہم جب ان سے ملے تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور وہ بھاگ گئے۔ان کے بھاگنے پر مسلمانوں نے ان کے اموال جمع کر نے شروع کیے لیکن ہوازن نے ہمیں مشغول دیکھ کر تیر برسانے شروع کیے پس اَور لوگ تو بھاگے مگر رسول کریم ﷺ نہ بھا گے بلکہ اس وقت میں نے دیکھا تو آپؐ اپنی سفید خچرپر سوار تھے اور ابو سفیان نے آپؐ کے خچر کی لگام پکڑی ہو ئی تھی اور آپؐ فرمارہے تھے میں نبیؐ ہوںیہ جھوٹ نہیں ہے۔میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں۔

اس واقعہ کی اہمیت کے روشن کر نے کے لیے میں نے پہلے بتا یا تھا کہ بادشاہ لشکر میں سب سے زیادہ خطرہ میں ہو تا ہے کیونکہ جو نقصان بادشاہ کے قتل یا قید کر لینے سے لشکر کو پہنچتا ہے وہ کو ئی ہزار سپا ہیوں کے مارے جا نے سے نہیں پہنچتا۔پس دشمن کو جس قدر آپؐ کا تجسّس ہو سکتا تھا اَور کسی کا نہیں۔پس جبکہ اچانک دشمن کا حملہ ہوااور وہ اپنے پو رے زور سے ایک عارضی غلبہ پا نے میں کا میاب ہوا اور لشکر اسلام اپنی ایک غلطی کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہواتو دشمن کے لیےایک غیر مترقبہ موقع تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ پر حملہ کر تا اور اپنے مدت کے بغض اور عنا دکو عملی جا مہ پہناتا۔پس ایسی صورت میں آپؐ کا وہاں کھڑا رہنا ایک نہایت خطرناک امر تھا جو نہایت بہادری اور جرأت چاہتا تھا اور عام عقل انسانی اس واقعہ کی تفصیل کو دیکھ کر ہی حیران ہو جا تی ہے کہ کس طرح صرف چند آدمیوں کے سا تھ آپؐ وہاں کھڑے رہے۔

آپؐ کے سا تھ اس وقت بارہ ہزار بہادر سپا ہی تھے جو ایک سے ایک بڑھ کر تھا اور سینکڑوں مواقع پر کمال جرأت دکھلا چکا تھا مگر حنین میں کچھ ایسی ابتری پھیلی اور دشمن نے اچانک تیروں کی ایسی بو چھاڑ کی کہ بہادر سے بہادر سپا ہی کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ تاب مقابلہ نہ لا سکا حتّٰی کہ جنگ کا عادی بلکہ میدان جنگ کا تربیت یا فتہ عرب کا گھوڑا بھی گھبراکر بھا گا اور بعض صحابہؓ کا بیان ہے کہ اس شدت کا حملہ تھا کہ ہم باوجودکو شش کے نہ سنبھل سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاؤں جما کر لڑیں مگر قدم نہ جمتے تھے اور ہم اپنے گھوڑوں کو واپس کرتے تھے لیکن گھوڑے نہ لوٹتے اور ہم اس قدر ان کی با گیں کھینچتے تھے کہ گھوڑے دوہرے ہو جا تے تھے مگر پھر آگے کو ہی بھا گتے تھے اور واپس نہ لوٹتے تھے۔پس اس خطرنا ک وقت میں جب ایک جرار لشکر پیٹھ پھیر چکا ہو ایک شخص تن تنہا صرف چند وفادار خدام کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہے اور تیروں کی با رش کی ذرا بھی پروا نہ کرے تو یہ ایک ایسا فعل نہیں ہو سکتا جو کسی معمولی جرأت یا دلیری کا نتیجہ ہو بلکہ آپؐ کے اس فعل سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ اپنےسینے میں ایک ایسا دل رکھتے تھے جو کسی سے ڈرنا جانتا ہی نہ تھا اور خطرناک دشمن کے مقابلہ میں ایسے وقت جبکہ اس کے پا س کو ئی ظاہری سامان موجود نہ ہوکھڑا رہنا اس کے لیے ایک معمولی کا م تھا اور یہ ایک ایسا دلیرانہ کام ہے ایسی جرأت کا اظہار ہے کہ جس کی نظیر اولین و آخرین کی تا ریخ میں نہیں مل سکتی۔

آپؐ (فدا ہ ابی و امی) خوب جا نتے تھے کہ کفار عرب کو اگر کسی جان کی ضرورت ہے تو میری جان کی۔اگر وہ کسی کے دشمن ہیں تو میرے دشمن ہیں۔اگر وہ کسی کو قتل کر نا چاہتے ہیں تو مجھے۔مگرباوجود اس علم کے باوجود بے یارو مددگار ہو نے کے آپؐ ایک قدم پیچھے نہ ہٹے بلکہ اس خیال سے کہ کہیں خچر ڈر کر نہ بھاگ جا ئے ایک آدمی کو باگ پکڑ وادی کہ اسے پکڑ کر آگے بڑھاؤ تا یہ بے بس ہو کر بھا گ نہ جا ئے۔بے شک چند آدمی آپؐ کے سا تھ اَور بھی رہ گئے تھے مگر وہ اول تو اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریمؐ کے سا تھ تھا وہاں کھڑے رہے دوسرے ان کی جان اس خطرہ میں نہ تھی جس میں آنحضرت ﷺ کی جان تھی۔پس باوجود کمال دلیری کے آپؐ کی جرأت کا مقابلہ وہ لوگ بھی نہیں کر سکتے جو اس وقت آپؐ کے پا س کھڑے رہے۔اس جگہ ایک اَور بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ ایسے وقت میں ایک بہادر انسان اپنی ذلت کے خوف سے جان دینے پر آمادہ بھی ہو جا ئے اور بھا گنے کا خیال چھوڑ بھی دے تب بھی وہ یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ دشمن کوللکارے اور اگر للکارے بھی تو کمال مایوسی کا اظہار کر تا ہے اور جان دینے کے لیے آمادگی ظاہر کر تا ہے مگر آپؐ نے اس خطرناک وقت میں بھی پکار کر کہا کہ میں خد اکا نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں۔ جس فقرہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اس خطرناک وقت میں بھی آپؐ گھبرائے نہیں بلکہ ان لوگوں کو پکار کر سنا دیا کہ میں سچا ہوں اور خدا کی طرف سے ہوں تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو۔پس ایسے خطر ناک موقع پر خون کے پیاسے دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا رہنا پھر انہیں اپنی موجودگی کی اطلاع خود نعرہ مار کرد ینا پھر کا مل اطمینان اور یقین سے فتح کا اظہار کر نا ایسےا مور ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے کو ئی شخص میرے آقا ؐکے مقابلہ میں جرأت و دلیری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

مال کے متعلق احتیاط

آنحضرت ﷺکو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بادشاہ بھی بنا دیا تھا اور گو آپؐ کے مخالفین نے ناخنوں تک زور مارا مگر خدا کے وعدوں کو پورا ہو نے سے کون روک سکتا ہے باوجود ہزاروں بلکہ لا کھوں دشمنوںکے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے دشمنوں پر فتح دی اور وہ سب آپؐ کے سامنے گردنیں جھکا دینے پر مجبور ہو ئے اور انہیں چارو نا چار آپؐ کے آگے سر نیاز مندی جھکا نا پڑا۔مختلف ممالک سے زکوٰۃ وصول ہو کر آنے لگی جس کا انتظام آپؐ ہی کر تے تھےمگر جس رنگ میں کر تے تھے اسے دیکھ کر سخت حیرت ہو تی ہے۔

آج کل کے بادشاہوں کو دیکھو کہ وہ لوگوں کا روپیہ کس طرح بےدریغ اڑارہے ہیں۔ وہ مال جو غرباء کے لیے جمع ہو کر آتا ہے اسے اپنے اوپر خرچ کر ڈالتے ہیں اور ان کے خزانوں کا کو ئی حساب نہیں۔اگر وہ اپنےخاص اموال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کریں تو ان پر کو ئی اعتراض نہ ہو مگر غرباء کے اموال جو صرف تقسیم کر نے کے لیے ان کے سپرد کیے جا تے ہیں ان پر بھی وہ ایسا دست تصرف پھیرتے ہیں کہ جیسے خاص ان کا اپنامال ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔مگر آنحضرتؐ کا حال با لکل اس کے بر خلاف تھا۔آپؐ کبھی لوگوں کے اموال پر ہا تھ نہ ڈالتے بلکہ باوجود اپنے لا ثانی تقویٰ اور بے نظیر خشیت الٰہی کے آپؐ لو گوں کے اموال کو اپنے گھر بھی رکھنا پسند نہ کر تے تھے۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صَلَّیْتُ وَرَآءَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا یَتَخَطّٰی رِقَابَ النَّاسِ اِلیٰ بَعْضِ حُجَرِ نِسَآئِہٖ فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِہٖ فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ فَرَاٰی اَنَّھُمْ عَجِبُوْامِنْ سُرْعَتِہٖ فَقَالَ ذَکَرْتُ شَیْأً مِنْ تِبْرٍ عِنْدَ نَا فَکَرِھْتُ اَنْ یَّحْبِسَنِیْ فَاَمَرْتُ بِقِسْمَتِہٖ(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب من صلّی بالناس فذکر حابۃً)میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے مدینے میں عصر کی نماز پڑھی۔پس آپؐ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے کو دتے ہو ئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے ۔لوگ آپؐ کی اس جلدی کو دیکھ کر گھبرا گئے۔پس جب با ہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپؐ کی جلدی پر متعجب ہیں۔آپؐ نے فر مایا کہ مجھے یاد آگیا کہ تھوڑا سا سو نا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے نا پسند کیا کہ وہ میرے پا س پڑا رہے اس لیے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کر دیا جا ئے۔

اس واقعے سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہو جا ئے۔آپؐ کی نسبت یہ تو خیال کر نا بھی گناہ ہے کہ نعوذباللہ آپؐ اپنےنفس پر اس بات سے ڈر ے ہوںکہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کر لوں۔مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپؐ اس بات سے ڈر ے کہ کہیں جہاں رکھا ہو وہیں نہ پڑا رہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھا نے سے محروم رہ جائیں۔ اور اس خیال کے آتے ہی آپؐ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فوراً وہ مال تقسیم کر وایا اور پھر مطمئن ہو ئے۔

اس احتیاط کو دیکھو اوراس بے احتیاطی کو دیکھو جس میں آج مسلمان مبتلا ہو رہے ہیں۔امانتوں میں کس بے دردی سے خیانت کی جا رہی ہے۔لوگ کس طرح غیروں کا مال شیر مادر کی طرح کھا رہے ہیں۔حقوق کا اتلاف کس زور وشور سے جا ری ہے مگر کو ئی نہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔

آنحضرت ﷺ جیسا پا ک انسان جس پر گناہ کا شبہ بھی نہیںکیا جاسکتا۔غرباء کے اموال کی نسبت ایسی احتیاط کرے کہ ان کا مال استعمال کر نا تو الگ رہا اتنا بھی پسند نہ فرمائے کہ اسے اپنے گھر میں پڑا رہنے دے اور اب گھر میں رکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس اپنے اموال رکھوائیں تا ہم پھر انہیں واپس نہ دیں۔ کاش ہمارے رؤسا ء اس نکتے کو سمجھتے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اختیار کرتے جو باوجود معصوم ہو نے کے اپنے نفس پر ایسا محاسبہ رکھتے کہ ذرہ سی غفلت میں بھی نہ پڑنے دیتے اور یہ لو گ دیکھتے کہ ہم تو اپنے نفوس پر ایسے قابو یا فتہ نہیں پھر بغیر کسی حساب کے لوگوں کے اموال کو جمع کر نا ہمارے لیے کیسا خطرناک ہو گا مگر اس طر ف قطعاًتو جہ نہیں اور کل روپیہ بجائے غرباء کی خبر گیری کے اپنے ہی نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور جن کے لیے روپیہ جمع کیا جا تا ہے اور جن پر خرچ کر نے کا حکم اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں کو دیا ہے ان کی کوئی خبر ہی نہیںلیتا۔آنحضرت ﷺ کا یہ فعل ہمیشہ کے لیے مسلمان بادشاہوں کے لیے ایک نمونہ ہے جس پر عمل کر نے سے وہ فلاح دارَ ین پا سکتے ہیں۔اگر رعایا کو یقین ہو جا ئے کہ ان کے اموال بے طور سے نہیں خرچ کیے جاتے تو وہ اپنے بادشاہ کے خلاف سازشوں کی مرتکب نہ ہومگر ہمارے بادشاہوں نے اپنے حقوق کو آنحضرت ﷺ کے حقوق سے کچھ زیا دہ ہی سمجھ لیاہے اور اپنے نفس پر آپؐ سے بھی زیا دہ بھروسہ کر تے ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button